حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ

حضرت جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ جعفر طیار کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بھائی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔ آغاز اسلام کی نمایاں شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں نے حبشہ کو ہجرت کی تو آپ مہاجرین کے قائد تھے۔ شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں آپ کی تقریر ادب کا شہ پارہ اور اسلام کا خلاصہ تصور کی جاتی ہے۔ جنگ موتہ میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے۔ اسی جنگ میں شہادت پائی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے طیار ’’تیز اڑنے والا ، جنت کی طرف‘‘ کا لقب مرحمت فرمایا۔

آپ کی زوجہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اولین مسلمانوں میں سے ھیں اور حبشہ کی طرف ھجرت کرنے والے مسلمانوں میں شامل ھیں۔ حبشہ میں نجاشی کے سامنے آپ نے سورہ مریم کی تلاوت کی جس پر نجاشی نے مسلمانیں کو مشرکینِ مکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

 

قریش مکہ کے تنگ کرنے پر مسلمانوں کے ایک گروہ نے حبشہ کی طرف ھجرت کی۔ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ اس گروہ کے سربراہ تھے۔ اس سفر میں ان کی زوجہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بھی ان کے ھمراہ تھیں۔ یہاں انہوں نے تقریباً دس سال گذارے۔ سن 7 ھجری میں جنگ خیبر کے بعد ان کی عرب واپسی ہوئی۔ جب مسلمانوں نے حبشہ کو ھجرت کی اس کے کچھ ہی عرصہ بعد مشرکین مکہ نے اپنے نمائندے حبشہ بھیجے تاکہ وہ ان مسلمانوں کو گرفتار کر کے واپس لے آئیں۔ مشرکین کے نمائندوں میں عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ شامل تھے ۔ انہوں نے نجاشی سے مطالبہ کیا کہ مسلمانوں نے اپنا سابقہ دین چھوڑ دیا ہے اور وہ مجرم ھیں اس لئے انہیں کفار مکہ کے حوالے کر دیا جائے۔حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو بلا کر کچھ سوالات کئے جن کے جواب حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے دیے۔

نجاشی نے جب حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے ان کے نئے دین کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا

 

''ہم جہالت کی زندگی گذارتے تھے تو یہ دین آیا جس میں حکم ہے کہ ہم سچ بولیں ، اپنے وعدوں کو پورا کریں، اپنے قرابتداروں سے اچھا سلوک کریں، تمام ممنوعہ (برے) کام ترک کر دیں، قتل و غارت سے اجتناب کریں، سرکشی چھوڑ دیں، جھوٹی گواہی نہ دیں، یتیموں کا حق غصب نہ کریں اور پاکدامن عورتوں پر تہمت نہ لگائیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ھمیں حکم دیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کہ شریک نہ کریں، نماز قائم کریں، زکوٰۃ دیں، رمضان میں روزے رکھیں۔ ہم نے ان کی اطاعت کی اور اس بات کو مانا جو وہ اللہ کی طرف سے لائے۔ ہم ویسا کرتے ھیں جیسا وہ کہتے ھیں اور اس چیز سے دور رہتے ھیں جس سے وہ منع فرماتے ھیں''۔

 

اس کے علاوہ نجاشی نے فرمائش کی کہ قرآن سے کچھ سنائیں تو نجاشی کے سامنے آپ نے سورہ مریم کی تلاوت کی جس میں حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم کا ذکر آتا ہے۔ اس کا نجاشی پر بہت اثر ہوا اور اس نے مسلمانوں کو کفار مکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا، کفار کے دیے ہوئے تحائف واپس کر دیے اور مسلمانوں کو حبشہ میں رہنے کی اجازت دے دی۔

حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ سن 7 ھجری میں واپس آئے جب مسلمان خیبر کی جنگ جیت کر آ رہے تھے۔ روایت کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ معلوم نہیں کون سی چیز زیادہ دل خوش کن ہے۔ جعفر کا آنا یا جنگ خیبر جیتنا۔

 

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ پیغامبر شام کی طرف بھیجے تھے جن کو ان لوگوں نے سفارتی روایات کے بر خلاف گرفتار کر کے موتہ کے قریب قتل کر دیا۔ حضرت محمد نے نے ایک فوج کو حکم دیا۔ تین ھزار کی فوج تیار ہوئی جس کے امیر حضرت زید بن حارثہ تھے۔ حضور کا حکم ہی تھا کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے امیر ہوں گے۔ یہ جنگ رومنوں اور عرب قبیلوں کی کی فوج کے ساتھ ہوئی۔ ایک وقت پر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ زخمی ہو کر گر پڑے تو حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے علم سمبھال لیا۔ دشمنوں نے ان کو گھیرے میں لے لیا اور مل کر ان پر حملہ کر دیا۔ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ بڑی بہادری سے لڑے مگر ان کو زخم لگے ۔ اس دوران ان کے دونوں بازو کٹ گئے اور وہ گر کر شہید ہو گئے۔ آپ کی شہادت 6 جمادی الاول سن 8 ہجری کو ہوئی

یہ خبر جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا

جبرائیل نے مجھے مطلع کیا ہے کہ اللہ نے جعفر کو دو پر عطا کئے ھیں جس سے وہ جنت میں پرواز کرتے ھیں

اسی حدیث کی وجہ سے انہیں طیار( تیز اڑنے والا) کا خطاب ملا۔ آپ کا روضہ اردن کے شہر عمان سے 140 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

 

حضرت جعفر طیار کی تین اولادوں کے نام ملتے ھیں۔

عبداللہ ابن جعفر جو حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے شوھر تھے

محمد ابن جعفر

عون ابن جعفر جو حضرت ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیہا کے شوھر تھے

Add new comment