بوعلی سینا اور بہمن یار کا واقعہ

 

یہ مشہور واقعہ شاید آپ نے بارہاسناہوگا، لیکن کیونکہ یہ ہمارے اس مدعا پر ایک اچھی دلیل ہے، اس لئے ہم اسے دوبارہ عرض کررہے ہیں۔ بوعلی سینا کامشہور واقعہ ہے۔ بوعلی سینا اپنی ذہانت اور فکر کے اعتبار سے( معمول سے زیادہ قوی تھے) کیونکہ وہ ایک غیر معمولی انسان تھے۔ اُن کی آنکھوں کی بینائی دوسروں سے زیادہ تیزتھی، اُن کے کان بہت زیادہ تیز تھے، اس کا ذہن بھی بہت مضبوط تھا۔ رفتہ رفتہ لوگوں نے بوعلی کی حِس کے بارے میں، اُن کی آنکھوں اوراُن کے کانوں کے بارے میں افسانے بنانے شروع کردیئے۔ مثلاً وہ اصفہان میں کاشان کے تانبے کے کاریگروں کے ہتھوڑوں کی آواز سن لیا کرتے تھے۔ البتہ یہ افسانے ہیں، لیکن عام طور پر افسانے انہی باتوں کے بنائے جاتے ہیں جن کے اعتبار سے انسان میں غیر معمولی پن پایا جاتا ہے۔

بو علی کاشاگرد بہمن یار اُن سے کہا کرتا تھا: آپ کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے کہ اگرآپ نبوت کا دعویٰ کریں، تو لوگ آپ کے اس دعوے کوقبول کرلیں گے، او رخلوصِ نیت کے ساتھ آپ پر ایمان لے آئیں گے۔

وہ }اپنے اس شاگرد سے {کہتے تھے: تم یہ کیسی باتیں کرتے ہو؟ تم ابھی ان باتوں کو نہیں سمجھتے۔ بہمن یار کہتا تھا: نہیں، میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ بوعلی سینا نے چاہا کہ عملاً اس پر ظاہر کریں۔ ایک مرتبہ موسمِ سرمہ میں، جب یہ دونوں ایک سفر میں ساتھ ساتھ تھے، سخت برفباری ہو کے چکی تھی، طلوعِ فجر کے نزدیک، جب موذن اذان دے رہا تھا، بوعلی جاگ رہے تھے، انہوں نے بہمن یار کوآواز دی: بہمن یار!}اُس نے کہا:{ جی۔ }انہوں نے کہا :{اٹھو۔}بہمن یار بولا:{ کیا کام ہے؟ }بو علی نے کہا:{ مجھے شدیدپیاس محسوس ہو رہی ہے، یہ پیالا اس مٹکے سے بھر کر لادو، تاکہ میں پیاس بجھا لوں۔ اس زمانے میں ہیٹر جیسی چیزیں تو ہوتی نہ تھیں، اس سردی میں اُس نے گھنٹے بھر لحاف اوڑھ کر بمشکل تمام اپنے آپ کوحرارت پہنچائی تھی۔ اب وہ اس گرم بستر سے کیسے باہر آتا۔ لہٰذا بحث کرنے لگا اوردلیلیں دینے لگا کہ استاد! آپ خود طبیب ہیں، دوسروں سے بہتر جانتے ہیں کہ جب معدہ التہاب کی حالت میں ہو، اس وقت اگر انسان ٹھنڈا پانی پی لے، تو یکایک سرد ہوجاتا ہے اور ممکن ہے آپ بیمار ہوجائیں، خدا ناخواستہ آپ کو کوئی پریشانی لاحق ہوجائے۔}بوعلی نے{کہا: میں طبیب ہوں اور تم میرے شاگرد، مجھے پیاس لگی ہے تم میرے لئے پانی لے آؤ۔ وہ پھر دلیلیں دینے لگا، بہانے بنانے لگا کہ جناب یہ ٹھیک نہیں ہے، صحیح ہے کہ آپ میرے استاد ہیں لیکن میں آپ کی بھلائی چاہتا ہوں۔ میرا آپ کی بھلائی چاہنا آپ کے حکم کی اطاعت کرنے سے بہتر ہے ۔ (کہتے ہیں کہ سست انسان کو کوئی کام کہو گے، تووہ تمہیں پدرانہ نصیحتیں کرنا شروع کردے گا)اُس نے بھی نصیحتیں کرنا شروع کردیں۔ اب جب بوعلی سیناپر اچھی طرح ثابت ہوگیا کہ وہ اٹھنے والا نہیں ہے، تو کہا: مجھے پیاس نہیں لگی، میں تمہیں آزما نا چاہتا تھا۔ تمہیں یاد ہے، تم مجھ سے کہا کرتے تھے کہ آپ نبوت کا دعویٰ کیوں نہیں کرتے، لوگ قبول کرلیں گے؟ میں اگر نبوت کا دعویٰ کروں، تو تم جو میرے شاگرد ہو، اور کئی برس تم نے میرے پاس تعلیم حاصل کی ہے، تم ہی میرا حکم ماننے پر تیار نہیں ہو، میں خود تم سے کہہ رہا ہوں کہ اٹھو میرے لئے پانی لے آؤ، توتم میرے حکم کے برخلاف ہزاروں دلیلیں پیش کر رہے ہو، پیغمبر کی وفات کو چار سو سال گزرنے کے بعد بھی وہ بوڑھا اپنا گرم بستر چھوڑ کر بلندمینار پر جاکر یہ آواز دنیا بھر کو پہنچا رہا ہے کہ : اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰہِ۔ وہ ہے پیغمبر، میں نہیں، میں بوعلی سینا ہوں۔

جب کوئی پیغام اور وہ بھی الٰہی پیغام دلوں تک پہنچنا چاہے اور دلوں کواپنے اثرمیں لینااور اُنہیں تسخیر کرنا چاہے، معاشرے کو حرکت میں لانا چاہے، اور وہ بھی صرف اپنے مفادات اور حقوق کے راستے پر حرکت نہیں، بلکہ چاہتا ہو کہ انسان کو تائب کرے، اسے آنسو بہانے پر مجبور کرے، جب اسکے سامنے آیاتِ قرآنی کی تلاوت کی جائے، تواسکی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب رواں ہوجائے: یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا۔۔۔۔۔۔وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ (سورۂ بنی اسرائیل۱۷۔آیت ۱۰۷ اور ۱۰۹) اور وہ زمین پر گرکر مسلسل اشک بہائیں، تو یہ کام آسان نہیں ہے، بہت مشکل اور دشوار کام ہے۔

http://darusthaqalain.com/book/seerat/34

Add new comment