ہم سب ایک ہیں

تحریر: عمران خان

شاہد آفریدی کے دو چھکوں سے صرف بھارتی کرکٹ ٹیم شکست سے دوچار نہیں ہوئی بلکہ ان چھکوں نے ان تمام ٹیموں کے بھی چھکے چھڑا دیئے جو عشروں سے پاکستانی قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے کی پالیسی پر کامیابی سے رواں دواں ہیں۔ کوئٹہ کے علمدار روڈ پر بھی مٹھائیاں بانٹی گئیں حالانکہ یہ لوگ تو وہی تھے جو چند روز قبل جنازوں کے ساتھ دھرنا دیئے بیٹھے تھے۔ پشاور کے چائے خانوں اور ہوٹلوں میں بھی افراد کا اک ہجوم نظر آیا، حالانکہ اس شہر میں تو انسان سستے اور بارود مہنگا ہے۔ کراچی جہاں پیدائش سے زیادہ مقتولین کی شرح بڑھنے کا اندیشہ ہے وہاں بھی لوگ پاکستان کی جیت کا جشن مناتے نظر آئے۔ خٹک ڈانس، بھنگڑے، دریساں، موٹر سائیکل ریلیاں، مٹھائیاں، آتش بازی، خوشیاں ملک کے گوشے گوشے سے پھوٹتی نظر آئیں۔ کیا یہ ان تمام قوتوں کی شکست تھی۔؟ جو سالہا سال سے قوم کو اپنے ایجنڈوں کے ذریعے یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ جیت کا جشن منانے والے صرف اور صرف پاکستانی تھے۔

مقام حیرت ہے کہ ان میں شیعہ کو کسی نے کافر قرار دیکر جشن کے ہنگاموں سے باہر نہیں نکالا۔ نہ ہی بریلوی دیوبندی کا کوئی جھگڑا ہوا۔ کسی مدرسے، مسجد، امام بارگاہ والوں کو ان ریلیوں کے گزرنے پر اعتراض بھی نہیں ہوا۔ یہ بھی کسی نے دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ یہ ریلی ایم کیو ایم نے نکالی ہے یا جماعت اسلامی کا کوئی لیڈر اپنی سیاست چمکا رہا ہے۔ نون لیگ والوں نے یہ بیان جاری نہیں کیا کہ کرکٹ میچ کی کامیابی میاں صاحب کے مبارک کرموں کا پھل ہے۔ نا ہی عمران خان نے یہ کہا کہ طالبان کی خلاف سرجیکل اسٹرائیک ختم کرنے کی برکت سے ہم میچ جیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر بڑے وفد کے ہمراہ سعودی عرب کے دورے پر تھے وگرنہ یہ بیان بھی سننے کو مل سکتا تھا ’’چونکہ سلمان بن عبدالعزیز پاکستان میں قدم رنجہ ہوئے تھے، لہذا ان کے مبارک قدموں کی تاثیر سے ہر غیر اسلامی قوت کے خلاف اسلامی قوت کی جیت ہوگی۔‘‘ اس حساب سے تو طالبان کے مطالبات حکومت مان چکی ہے۔

آفرید ی کے دو چھکوں نے اس پاکستانی قوم سے پاکستان میں رہنے والوں کو روشناس کرایا ہے جو لسانیت، فرقہ واریت، صوبائیت اور قومیت سے بالاتر ہوکر صرف اپنے پاکستانی ہونے پر نازاں ہے۔ اس حقیقی پاکستانی قوم کے ساتھ بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ پاکستان کی خاموش اکثریت ہے۔ ان کی خاموشی بھی بجا ہے کیونکہ جب بھی اس خاموش اکثریت نے کسی کی خاطر گہرے سکوت کو توڑا ہے تو جواب میں ان کا صرف دل توڑا گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس خاموش اکثریت نے کرکٹ کے ہیرو عمران خان کی ہاں میں ہاں ملائی مگر بعد میں انہیں خان صاحب سے فقط ایک ہی گلہ رہا کہ خاموش اکثریت سے ووٹ لیکر گونج گرج پیدا کرنے والوں کی جھولی میں ڈال دیئے۔ عمران خان اور آفریدی میں کئی باتیں مشترک ہیں، دونوں کرکٹ کے میدان میں بارہا پاکستان کی جیت کا سبب بنے ہیں۔ دونوں کے پاس کپتانی کا اعزاز بھی رہا ہے۔ دونوں ہی پٹھان ہیں۔ دونوں آل راؤنڈر ہیں۔ دونوں ہی گراؤنڈ کے اندر و باہر شائقین اور مداحوں کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ دونوں میں نمایاں کمزوری بھی ہے۔ شاہد آفرید ی آف سٹمپ پر شارٹ پچ بال پہ ہمیشہ ایسی شارٹ کھیلتے ہیں کہ کیچ آؤٹ ہوجاتے ہیں اور عمران خان سیاسی بلے بازی میں طالبان کے حق میں تواتر سے بیان دینے کے باعث ووٹروں کے علاوہ اپنی پارٹی عہدیداروں کی نظروں میں آؤٹ آف فارم ہوچکے ہیں۔ 2014ء دونوں نے ہی عوامی خواہشات پر مبنی خوبصورت شارٹس کھیلی ہیں۔

عمران خان نے طالبان کی جانب سے ایف سی اہلکاروں کی شہادت کے بعد آپریشن کی حمایت کی جبکہ شاہد آفرید ی نے لگا تار دو چھکے لگا کر نہ صرف میچ اپنے نام کر لیا بلکہ قوم کے دلوں کو بھی فتح کر لیا۔ طویل مدت کے بعد عبدالستار نامی ٹیچر اپنے بیٹے علی کے دوستوں کا شور و غل سن کر گھر سے باہر آیا۔ لڑکے ستار استاد کو دیکھ کر کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے، ایک نے ہمت کرکے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا دیا۔ اپنے بوڑھے استاد کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بچے افسردہ ہوکر خاموش ہوگئے۔ ایک بچے نے ہمت کرکے کہا استاد جی آج پاکستان جیتا ہے، آپ نے کرکٹ کا میچ دیکھا تھا۔ آپ رو کیوں رہے ہیں۔ ستار استاد نے خالی نظروں سے دیکھتے ہوئے اتنا کہا، نہیں میرے بچے میں نے میچ نہیں دیکھا، بڑی مدت کے بعد تم سب کو ایک ساتھ دیکھا ہے۔ یہ تو خوشی کے آنسو ہیں۔ پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی ہمارے محلے کو۔ اللہ بھلا کرے کرکٹ والوں کا کہ تم سب ایک ساتھ نظر تو آئے۔ اللہ اسے بھی لمبی زندگی دے اور وہ یوں ہی چھکے مارتا رہے کہ تم لوگ ساتھ ساتھ تو رہو گے۔ عبدالستار استاد ڈیرہ اسماعیل خان کا رہائشی ہے اور اس کا بیٹا علی دہشت گردوں کے بارود کا نشانہ بن کر شہادت کا تمغہ سینے پر سجا چکا ہے۔ آفریدی کے لیے یہ دعا صرف علی کے باپ کی نہیں بلکہ اس پوری پاکستانی قوم کے دلوں سے نکلی ہے جو ملک میں دہشت گردی اور عدم برداشت کے رویوں سے عاجز آچکی ہے اور اپنے بچوں کو امن و محبت کے ماحول میں آزادی کے ساتھ جینے کا حق دینا چاہتی ہے۔ شکریہ آفریدی کہ تم نے پاکستانی قوم کی پھر سے ہمیں ایک جھلک دکھائی۔

عمران خان کی سیاسی پالیسی پر نظر ڈالیں تو ایک دلچسپ واقعہ یاد آتا ہے۔ کراچی سے گاڑی چلی تو ہمیشہ کی طرح خان صاحب نے اپنے لیے گاڑی کے اندر سیٹ کے بجائے آدھے ٹکٹ میں چھت پر سفر کرنا زیادہ پسند کیا۔ خان صاحب کی نظر میں گاڑی کی چھت پر سفر کرنے کے کئی فائدے تھے۔ ایک طرف بچت کی بچت تو دوسری جانب گاڑی کے اندر کنڈیکٹر جو بار بار ائیر فریشنر چھڑکتا ہے، اس سے بھی جان چھوٹی۔ خان صاحب سکون سے سفر کر رہے تھے کہ نماز اور کھانے کے لیے گاڑی ہوٹل پر جا رکی۔ سیر ہوکر کھانا کھایا، نماز پڑھی اور دوبارہ گاڑی کی چھت پر چڑھ کے بیٹھ گئے۔ یہ دیکھے بغیر کہ گاڑی وہی ہے یا کوئی اور۔ گاڑی نے اپنا سفر دوبارہ شروع کیا تو وہی مقامات اور مناظر پھر سے خان صاحب کی آنکھوں کے آگے گھومنے لگے۔ حیرانگی ختم کرنے کے لیے چھت سے نیچے جھانکا تو گاڑی کے اندر موجود ایک شخص باہر ہی جھانک رہا تھا۔ خان صاحب نے اس شخص کو زور سے آواز لگائی اور پوچھا، تم کہاں جار ہے ہو۔؟
میں تو کراچی جارہا ہوں۔ نیچے موجود شخص نے بھی جوابی ہانک لگائی۔
او، یار دیکھو سائنس نے کتنی ترقی کرلی ہے، گاڑی کی چھت والے پشاور جا رہے ہیں اور گاڑی کے اندر والے کراچی جا رہے ہیں۔ کمال کر دیا انگریز نے تو۔

اب خان صاحب کو کون سمجھائے جناب آپ نے غلطی سے غلط گاڑی پکڑ لی تھی۔ آپ جسے سائنس اور انگریز کی ترقی سمجھ کر دو طرفہ ثمرات سمیٹنے کے چکر میں ہیں۔ دراصل آپ کو انتہائی مصائب و آلام سے دوچار کرنے جا رہی ہے۔ آپ کی گاڑی میں آپ کا قیمتی سامان بھی چلا گیا ہے۔ جو کسی اور کے ہتھے بھی چڑھ سکتا ہے۔ آپ اپنی منزل کی جانب نہیں بلکہ مخالف سمت میں سفر کر رہے ہیں۔ جب سفر کا اختتام ہوگا تو وقت بھی ضائع ہوچکا ہوگا۔ سامان سے بھی محروم ہونگے اور اس مقام پر تہی دست حالت میں موجود ہونگے، جہاں سے چلے تھے۔ اس وقت آپ کی جیب میں شائد گاڑی کی چھت پر سفر کرنے کے لیے آدھے ٹکٹ کے بھی پیسے موجود نہ ہوں۔ صوبہ خیبر پختو نخوا کے مستقبل کی گاڑی مسلسل تباہی کی جانب گامزن ہے، لیکن حکمران جماعت کے رہنماء یہ سمجھ رہے ہیں کہ گاڑی ترقی اور خوشحالی کی جانب رواں دواں ہے۔ گرچہ انہیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ پانچ ماہ میں 282 بم تو ایسے ہیں جو صوبے میں پھٹنے سے پہلے ہی ناکارہ بنا دیئے گئے یہ اور بات ہے ان بموں کو ناکارہ بناتے بناتے بم ڈسپوزل سکواڈ کے بھی چار اہلکار اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک طالبان مہمند ایجنسی، تحریک طالبان سوات، تحریک طالبان طارق گروپ، تحریک طالبان فائق گروپ، تحریک طالبان جنگریز، تحریک طالبان عقیل گروپ، تحریک طالبان گنڈہ پور گروپ اور امارت اسلامیہ گروپ وزیرستان تک محدود رہنے کے بجائے خیبر پختونخوا پر حکومت قائم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہیں، لیکن خان صاحب انہیں گاڑی کے عوامی مسافر اور کچھ کو تو کنڈیکٹر سمجھ کر انہی سے راستہ پوچھ رہے ہیں اور انہی سے مزید سفر جاری رکھنے کی ٹکٹیں بھی لے رہے ہیں۔

غلط گاڑیوں کی چھتوں پر صرف خان ہی نہیں بیٹھے ہوئے بلکہ چھتوں پر شریف، بدمعاش، چور، اچکے، شرابی، کبابی بھی ہوا خوری کے لیے سوار ہوئے ہیں۔ ان کا الگ مسئلہ و المیہ ہے۔ ملک حالت جنگ میں ہے، پاکستان جن دہشت گردوں کے نشانے پر ہے، ان کے آثار عرب ملکوں خصوصاً شام میں بھی ملے ہیں۔ وہاں سے کچھ زندہ اور کچھ مردہ واپس بھی آئے ہیں، جبکہ سعودی وزیر دفاع سلمان بن عبدالعزیز کے دورہ پاکستان کے بعد طالبان کی جانب سے ایک طرف جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تو دوسری جانب اردن میں پاکستانی اسلحہ کی سپلائی کی خبر بھی غیر ملکی خبر رساں اداروں نے ارسال کی۔ کیا ایسی خارجہ پالیسی عوامی ترجیحات پر مبنی ہوسکتی ہے، جس میں ریاست کا خاص اسلحہ ریاست کے ذریعے ریاست کے دشمنوں کے ہاتھوں میں دیا جائے اور کچھ عرصہ بعد وہ ریاست کے عوام پر استعمال ہو۔ اپنے ملک میں عوام دہائی دے رہے ہیں کہ دہشت گردوں اور دہشت گردی کا خاتمہ ممکن بنائیں اور ہم بیرون ملک ریاست کے خلاف اٹھنے والی قوتوں کو اپنا اسلحہ فراہم کریں اور وہ بھی اپنے مفادات کے لیے نہیں بلکہ ایسے دوست کے مفادات کی خاطر کہ جو انتہائی نازک حالت میں بھی ہمارے توانائی بحران پر مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بھارت اور افغانستان کی دو سرحدیں ہماری غیر محفوظ ہیں۔ فاٹا میں ہم سات ڈویژن فوج لیکر بیٹھے ہوئے ہیں، جبکہ چین اور ایران کی جو دو سرحدیں محفوظ ہیں ہم ان کو بھی داؤ پر لگانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ آخر کیوں۔؟؟
حالت ایسی ہے کہ ایک تو بیٹھے بس کی چھت پر ہیں۔ پینگوئن اور کیوی والے پر پھیلانے کا شوق بھی دل میں ہے۔ اڑان بھرنے کے مشورے نام نہاد دوست دے رہے ہیں، جبکہ گاڑی کی رفتار بھی تیز ہے۔ اوپر سے بجلی کی ان گنت تاریں بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ اڑان بھری تو ہوگا کیا۔ انجام کا اندازہ کرکے خوف آتا ہے۔

Add new comment