عجیب و غریب دشمن ۔ٹی وی شیعہ رپورٹ
ٹی وی شیعہ [ میڈیا رپورٹ]بھارت بھی کیا عجیب و غریب دشمن ہے؛ جسکی دشمنی اسکول کی کتابوں اور کرکٹ کے میدان تک محدود ہے۔ لیکن اس کا پیار، اس سے لگن اور اسی سے متاثر ہونے کا جو بھوت ہم پر سوار ہے وہ تو ہماری رگوں میں اس حد تک سرایت کرچکا ہے کہ ہمارے شب و روز اسی کے گن گاتے ہوئے بسر ہوتے ہیں۔ مدھوبالا سے لیکر کترینہ کیف اور دلیپ کمار سے لیکر رنبیر کپور تک، ہر پاکستانی نسل کے آئیڈئیل بھارت میں ہی پیدا ہوتے ہیں، جن پر یہ نہ صرف دل و جان سے فدا ہیں بلکہ روزمرہ زندگی میں انہی کی پیروی اور تقلید کو اپنا فرضِ عینی سمجھتے ہیں۔ باڈی ہو تو سلمان خان جیسی، ہئیر اسٹائل ہو تو شاہ رخ خان جیسا، ڈریسنگ ہو تو پتہ نہیں کس جیسی۔۔۔۔ یہاں ہر لڑکی اپنی دانست میں سراپا ایشوریہ رائے اور کرینہ کپور ہے، جبکہ کوئی دوسرا دیکھے تو کونڈو لیزا رائس سمجھ کر تعظیم کے لئے جھک جائے۔
ہماری تمام تر تفریح کا ٹھیکہ ہندوستان کے پاس ہے، جسکی قیمت ہم اپنے وقت اور اپنی محنت سے کمائے پیسے کا ایک کثیر حصہ کیبل کی فیس، سینما کے ٹکٹ اور ان کو دیکھنے کے لئے وقف کئے گئے وقت کی صورت میں بہت بھاری داموں ادا کرتے ہیں، لیکن جب بات ہو کرکٹ کی تو یہی آئیڈئیل اور مرجعِ تقلید ہمارا ازلی دشمن بن کر سامنے آجاتا ہے۔
کل رات بھی کچھ ایسا ہی سماں پورے ملک میں بندھا ہوا تھا، جب "پاکستانی شاہینوں" نے "بھارتی سورماؤں" کو کرکٹ کے میدان میں "پچھاڑ" کے رکھ دیا تھا۔ اس وقت آفریدی ہمارا ہیرو اور ہماری ٹیم ہمارا اثاثہ ہے۔ چاروں طرف سے واہ واہ سبحان اللہ ہو رہی ہے۔ دعاؤں کے تحائف بھیجے جا رہے ہیں۔ حکومت اور سیٹھوں کی جانب سے انعامات سے نوازنے کے لئے خزانوں کے منہ کھلے ہوئے ہیں۔ ۔۔۔ لیکن اگر آفریدی کا آخری چھکا چند انچ پہلے گر جاتا تو یہی ہیرو، زیرو ہوتے۔ یہی شاہین کتے سے زیادہ نفرت اور تحقیر کا نشانہ بنتے۔ پاکستان کے یہی سپوت جوئے کے ماہر قرار دیئے جاچکے ہوتے۔ انہی کھلاڑیوں پر میچ فکس کرنے کے فتوے بھی عام ہوچکے ہوتے اور آج ہر منہ لٹکا ہوا ہوتا۔ ہر گھر میں سوگ کی کیفیت ہوتی، جو ٹی وی پر ایکتا کپور کے کسی ڈرامہ یا اکشے کمار کی کوئی فلم کو دیکھنے سے ہی دور ہو پاتی۔
لیکن خدا کا صد شکر ہے کہ اس نے ہمارے منہ لٹکنے سے بچالئے۔ ہمارے سر فخر سے بلند ہیں کہ ہم نے اپنے معاشرتی علوم کی کتابوں کے ازلی دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیئے، جبکہ علی الصبح کوئی اور دشمن ہمارے وفاقی دارالحکومت میں قانون کی آماجگاہ میں خون کی ہولی کھیل گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ حملہ آور غیر ملکی تھے۔ ضروری نہیں کہ افغانی ہی ہوں۔ ۔۔۔ ہمیں دکھ نہیں۔
دکھ تو ہمیں تین روز قبل بھی نہیں ہوا تھا جب ایک نجیب ترین، شفیق ترین اور شریف ترین استاد کا پاکیزہ خون رکشے کے پائیدان کے رستے کراچی کی جاذبِ لہو سرزمین کو پلا دیا گیا تھا۔ ہم اس وقت بھی ایسے ہی ایک اور دوست و دشمن کے ملغوبے ملک کی کرکٹ ہی میں شکست کا جشن منانے میں مصروف تھے۔ بھارت کی طرح اب افغانستان کی صورت میں بھی ایک اور کرکٹ کے میدان کا دشمن ہمارے سامنے سر اٹھانے کی جرآت کر رہا تھا۔ ہم نے اس نوزائیدہ دشمن کو فتح اللہ کے میدان میں عبرت ناک شکست سے دوچار کرکے اپنی فتح کا یوں جشن منایا کہ جیسے کابل کو فتح کرلیا ہو۔ کابل کا تو معلوم نہیں، لیکن اسلام آباد اس وقت دہشت گردوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہے، لیکن یہ دکھ یا پریشانی کی بات نہیں۔ ابھی بھارت کی شکست کا نشہ تازہ ہے اور تادیر تازہ ہی رہے گا کیونکہ
نہ عشق میں، نہ پیار میں ہے
جو مزہ بھارت کی ہار میں ہے
ہمارا عشق اپنے افغان بھائیوں اور بھارتی پریوں سے جاری رہے گا۔ افغانستان اور بھارت سے دشمنی صرف کرکٹ کے میدان میں ہی رہنی چاہیئے۔ چاہے یہ دونوں ہمیں دوسرے میدانوں میں نگل ہی کیوں نہ جائیں۔۔۔۔
بشکریہ:۔تحریر: سید قمر رضوی
Add new comment