طالبان تو بولتے ہی سچ ہیں۔ٹی وی شیعہ

ٹی وی شیعہ [تھنک پینل]کل طالبان نے جنگ بندی کا اعلان کیا تو گویا وفاقی حکومت کی تو لاٹری نکل آئی۔ کسی مزید تسلی، ممکنہ حملوں اور ٹارگٹ کلرز سے متعلق کوئی استفسار کئے بناء فورا ً اس طرف سے بھی جنگ بندی کا علان کر دیا گیا۔ خیر وہ کل کی بات تھی، اور یوں کل کا دن بغیر کسی کاروائی کے، طرفین نے سکون سے گزار دیا۔ اس طرح ہوتے ہیں قول و فعل کے سچے لوگ۔
لیکن آج جبکہ 3 مارچ کے دن کا آغاز ہوا تو پہلے خیبر ایجنسی سے ایف سی پر حملے کی خبر آئی۔ پھر تھوڑئی دیر بعد خیبر ایجنسی سے ہی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی کاروائی کی خبر آئی جس میں پانچ شدت پسند مارے گئے۔ پھر ذرا سورج چڑھ چکا تو اسلام آباد سے سیشن کورٹ میں خود حملہ آوروں کے ہاتھوں گیارہ اموات کی خبر آئی۔ لیکن تحریک طالبان کے ترجمان حضرت مولانا شاہد اللہ شاہد صاحب نے فوراً وضاحت فرما کر یہ تاثر فی الفوررفع فرما دیا کہ یہ طالبان کی کاروائی نہیں ہے۔ ہم تو نجانے کس قدر اور بلا وجہ سہمے جا رہے تھے۔ الحمد للہ، یہ تو طالبان کاروائی ہے ہی نہیں، اس لئے اسے دہشت گرد کاروائی تھوڑی قرار دیا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس صاحب نے بھی اس واقعے کو از خود نوٹس یوں لیا ہے جیسے ڈربے سے انڈے اٹھنے کے بعد مرغی شور مچاتی ہے۔ ورنہ اس ملک میں شہری مرے، فوجی مرے، سپاہی مرے اور سکولوں میں معصوم بچے مرے، مگر مجال ہے کسی چیف جسٹس کے کان پر جوں رینگی ہو۔

ہم لوگ تھوڑے جلد باز ہیں کی شور مچانے لگے، ورنہ جو لوگ اس قضیئے کا حصہ ہیں، وہ دو طرفہ یقین دہانیوں کے بعد کس قدر سکون سے ہیں۔ پانچ گھنٹے گزر گئے، ابھی تک وفاقی حکومت کی طرف سے مذمتی بیان آیا نہ تحقیقات کے لئے روایتی بیان سننے کو ملا۔ بات بھی ٹھیک ہے کہ کسی ہاؤ ہوکی چنداں ضرورت بھی نہیں ہےکیونکہ ابھی تو پورے انتیس دن پڑے ہیں امن کی فاختہ کو جی کھول کر کو کو کرنے کے لئے۔ ایک آدھ دھماکہ ہو گیا تو کیا فرق پڑتا ہے، معاہدہء امن تو ابھی باقی ہے ناں۔

لیکن ایک بات سوچنے کی ہے اور وہ یہ کہ ایک طرف چوہدری نثار صاحب فرما چکے ہیں کہ حکومت نے ہوائی کاروائی معطل کردی ہے، جبکہ طالبان تو ماشاء اللہ بولتے ہی سچ ہیں اور بھی کہ چکے ہیں کہ ایک مہینے کے لئے جنگ بندی ہے۔ اس لئے سوال ہے تو یہ کہ آج خیبر ایجنسی میں ہوائی کاروائی کس نے کی اور یہ دھماکے کس نے کئے؟

تھوڑا سا اگر غور کریں تو سیدھا سادا جواب یہی ہے کہ یا تو طرفین جھوٹ بول رہے ہیں یا پھر یہ کاروائیاں طالبان کے کنٹرول میں ہیں نہ حکومت پاکستان کے۔ دونوں صورتوں میں ، حکومت پاکستان اور طالبان اپنی ساکھ (کریڈیبلٹی) کھو چکے ہیں اور اس لائق نہیں ہیں کہ انہیں اس قوم کی قسمت کے ساتھ کھیلنے کا موقع دیا جائے۔ اب اگر چیف جسٹس صاحب اس واقعے سے بلبلا ہی اٹھے ہیں تو ان کے لئے شاید یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ وہ اس معاملے کو حل کرنے کی کوئی تدبیر کریں۔

میں کبھی بھی آمریت کا طرفدار نہیں رہا، لیکن اگر امت مسلمہ کی تاریخ دیکھیں تو ڈال ڈنڈے کی زبان اس قوم کوجتنی شائیستگی سے سمجھ آتی ہے، اتنی آسانی سے اللہ کی بات سمجھ آتی ہے نہ کسی اللہ والے کی۔ اس لئے چیف صاحب کے لئے موقع ہے کہ فوج کو حکم دیں کہ کسی بھی سازش کا شکار ہوئے بغیر، پاکستانی کو ان اندر کے دشمنوں سے پاک کر دے اور تب تک سکون سے نہ بیٹھے، جب تک اس قوم کو امن نصیب نہ ہوجائے۔
بشکریہ::::
http://www.aalmiakhbar.com/index.php?mod=article&cat=misbah&article=43175
سید مصباح حسین جیلانی ۔آسٹریلیا

Add new comment