جنگ جمل ۳۶ھ اور امام علیؑ
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت علی قتل عثمان کے بعد ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ء ھج کو تخت خلافت پر متمکن ہوئے اور آپ نے عنان حکومت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا جو کام کیا وہ قتل عثمان کی تحقیقات کے متعلق تھا ۔ نائلہ زوجہ عثمان اگرچہ کوئی شہادت نہ دے سکیں اور کسی کا نام نہ بتا سکیں۔ نیز ان کے علاوہ بھی کوئی چشم دید گواہ نہ مل سکاجس کی وجہ سے فوری سزائیں دی جائیں۔ لیکن حضرت علیؑ تحقیقات یقینیہ کا عزم صمیم کر چکے تھے ۔ ابھی آپ کسی نتیجہ پر نہ پہنچنے پائے تھے کہ مکہ میں سازشیں شروع ہو گئیں حضرت عائشہ جو حج سے فراغت کے بعد مدینہ کے لیے روانہ ہو چکی تھیں اور خلافت علیؑ کی خبر پانے کے بعد پھر مکہ میں جا کر فروکش ہو گئی تھیں۔ انہوں نے چار یاران، طلحہ زبیر، عبد اللہ ، ابو یعلی کے مشورے سے ”انتقام خون عثمان “کے نام سے ایک سازشی تحریک کی بنیاد ڈال دی اور قتل عثمان کا الزام حضرت علی علیہ السلام پر لگا کر لوگوں کو بھڑکانا شروع کر دیا اور اس کا اعلان کرا دیا کہ جس کے پاس علیؑ سے لڑنے کے لیے مدینہ جانے کے واسطے سواری نہ ہو، وہ ہمیں اطلاع دے ہم سواری کا بندو بست کریں گے۔ اس وقت علی کے دشمنوں کی کمی نہ تھی۔کسی کو آپ سے بغض للہی تھا۔ کوئی جنگ بدر میں اپنے کسی عزیز کے مارے جانے سے متاثر تھا۔ کسی کو پروپیگنڈے نے متاثر کر دیا گیا تھا۔ غرضیکہ ایک ہزار افراد حضرت عائشہ کی آواز پر مکہ میں جمع ہو گئے ، اور پروگرام بنایا گیا کہ سب سے پہلے بصرہ پر چھاپا مارا جائے۔ چنانچہ آپ انہیں مذکورہ چاروں افراد کے ممینہ اور میسرہ پر مشتمل لشکر لے کر بصرہ کی طرف روانہ ہو گئیں۔آپ کے ساتھ ازواج نبی میں سے کوئی بھی بی بی نہ گئی۔حضرت عائشہ کا یہ لشکر جب مقام ”ذات العرق“میں پہنچا تو مغیرہ اور سعید ابن عاص نے لشکر سے ملاقات کی اور کہ کہ تم اگر خون عثمان کا بدلہ لینا چاہتے ہو تو طلحہ اور زبیر سے لو۔ کیونکہ عثمان کے یہی قاتل ہیں اور اب تمہارے طرف دار بن گئے۔ تواریخ میں ہے کہ روانگی کے بعد جب ”مقام حواب “پر حضرت عائشہ کی سواری پہنچی اور کتے بھونکنے لگے تو ام المومنین نے پوچھا کہ یہ کونس مقام ہے۔ کسی نے کہا اسے”حواب “کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ نے ام سلمہ کی یاد دلائی ہوئی حدیث کا حوالہ دے کر کہا کہ میں اب علیؑ سے جنگ کے لیے نہیں جاؤں گی۔ کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ میری بیوی پر حواب کے کتے بھونکیں گے اور وہ حق پر نہ ہو گی۔ لیکن عبد اللہ ابن زبیر کے ضد کرنے سے آگے بڑھیں، بالآخر بصرہ جا پہنچیں اور وہ وہاں کے علوی گور نر عثمان بن حنیف پر شبخون مارا اور چالیس آدمیوں کو مسجد میں قتل کرا دیا اور عثمان بن حنیف کو گرفتار کرا کے ان کے سر، ڈاڑھی، موچھ ، بھویں اور پلکوں کے بال نچوا ڈالے ۔ اور انھیں چالیس کوڑے مار کر چھوڑ دیا۔ان کی مدد کے لیے حکیم ابن جبلة آئے تو انھیں بھی ستر آدمیوں سمیت قتل کر دیا گیا۔اس کے بعد بیت المال پر قبضہ نہ دینے کی وجہ سے سترآدمی اور شہید ہوئے۔یہ واقعہ ۲۵ربیع الثانی ۳۶ئہجری کا ہے۔۶۲
حضرت علی ؑ کو جب اطلاع ملی تو آپ نے بھی تیاری شروع کردی۔ابھی آپ بصرہ کی طرف روانہ نہ ہونے پائے تھے کہ مکہ سے ام المومنین حضرت ام سلمہ کا خط آگیا۔جس میں لکھا تھا کہ عائشہ حکم خدا و رسول کے خلاف آپ سے لڑنے کے لیے مکہ سے روانہ ہو گئی ہیں۔مجھے افسوس ہے کہ میں عورت ہوں حاضر نہیں ہوسکتی۔اپنے بیٹے عمر ابن ابی سلمہ کو بھیجتی ہوں اس کی خدمت قبول فرمائیے۔(اعثم کوفی)
حضرت علی ؑ آخرربیع الاول ۳۶ئھج میں اپنے لشکر سمیت مدینہ سے روانہ ہوئے آپ نے لشکر کی علمداری محمد حنفیہ ؑ کے سپر د کی اور میمنہ پر امام حسن ؑ اور میسرہ پر امام حسین ؑ کو متعین فرمایااور سواروں کی سرداری عمار یاسر اور پیادوں کی نمائندگی محمد ابن ابی بکر کے حوالہ کی اور مقدمة الجیش کا سردار عبداللہ ابن عباس کو قرار دیا۔مقام ربذہ میں آپ نے قیام فرمایا۔اور وہاں سے کوفہ کے والی ابو موسیٰ اشعری کو لکھا کہ فوج روانہ کرے۔لیکن چونکہ وہ عائشہ کے خط سے پہلے ہی متاثر ہوچکا تھا۔لہٰذا اس نے فرمان علوی کو ٹال دیا۔حضرت کومقام ذی قار پر حالات کی اطلاع ملی،آپ نے اسے معزول کرکے قرظہ ابن کعب کو امیر نامزدکر دیااور مالک اشتر کے ذریعہ سے دارالامارہ خالی کرالیا۔(طبری)اس کے بعد امام حسن ؑ کے ہمراہ ۷ہزار کوفی اور مالک اشتر کے ہمراہ ۱۲ہزار کوفی ۶دن کے اندرذی قارپہنچ گئے۔اسی مقام پر اویس قرنی نے بھی پہنچ کربیعت کی۔اسی مقام پر ان خطوط کے جواب آئے۔جوربذہ سے حضرت نے طلحہ وزبیر کو لکھے تھے۔جن میں ان کی حرکتوں کا تذکرہ کیا تھا اور لکھا تھا کہ اپنی عورتوں کو گھر میں بٹھا کر ناموس رسول کو جودربدر پھرارہے ہو۔اس سے باز آجاؤ۔جوابات میں اسکیم کے ماتحت قتل عثمان کی رٹ تھی۔اس کے بعد امام حسن ؑ نے ایک خطبہ میں طلحہ وزبیر کے قاتل عثمان ہونے پر روشنی ڈالی۔حضرت ابھی مقام ذی قارہی میں تھے کہ مظلوم عثمان بن حنیف آپ کی خدمت میں جاپہنچے۔حضرت نے عثمان کا حال دیکھ کر بے حدافسوس کیااور فوراََبصرہ کی طرف روانہ ہوگئے مصنف تاریخ آئمہ لکھتے ہیں کہ عائشہ کے لشکر کی آخری تعداد ۳۰ہزار اور حضرت علی ؑ کے لشکر کی تعداد ۲۰ہزار تھی علامہ عباسی لکھتے ہیں کہ حضرت علی ؑ،طلحہ ،زبیر اور عائشہ کے تمام حالات دیکھ رہے تھے۔لیکن یہی چاہتے تھے کہ لڑائی نہ ہو۔جب بصرہ کے قریب آپ پہنچے تو قعقاع ابن عمر وکوان لوگوں کے پاس بھیجااور صلح کی پیش کش کی قعقاع نے جو رپورٹ واپس ہو کر پہنچائی اس سے وہ لوگ تو متاثر ہوئے جو زیرقیادت عاصم ابن کلیب حضرت علی ؑ کے پاس بطور سفیر آئے ہوئے تھے اور ان کی تعداد سوتھی لیکن عائشہ وغیرہ پر کوئی خاص اثر نہ ہوا۔عاصم وغیرہ نے علی ؑ کی بیعت کر لی اور اپنی قوم سے جاکر کہا کہ علی ؑ کی باتیں نبیوں جیسی ہیں۔غرضیکہ دوسرے دن علی بصرہ پہنچ گئے۔اس کے بعد جمل والے بصرہ سے نکل کر مقام زابوقہ یاخربیہ میں جاکرٹھہرے اور وہاں سے علی کے مقابلہ کے لیے حضرت عائشہ اونٹ پر سوار ہو کر خود نکل پڑیں۔حضرت علی ؑ نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ عائشہ اور ان کے لشکر پر نہ حملہ کریں۔نہ ان کا جواب دیں۔غرضیکہ وہ جنگ کی کوشش کرکے واپس گئیں۔اس کے بعد علی نے زیدابن صوحان کو ام المومنین کے پاس بھیج کر جنگ نہ کرنے کی خواہش کی مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔
۱۵جمادی الآخر ۳۶ئھج بروزجمعرات بوقتِ شب طلحہ وزبیر نے شبخون مارکر حضرت علی ؑ کو سوتے میں قتل کر ڈالنا چاہا۔لیکن علی ؑ بیدار تھے اور تہجد میں مشغول تھے حضرت کو حملہ کی خبر دی گئی۔آپ نے حکم جنگ دے دیا۔اس طرح جنگ کا آغاز ہوا۔
میدان کا رزار
حضرت عائشہ کو طلحہ وزبیر لوہے اور چمڑے سے منڈھے ہوئے ہووج میں بیٹھا کر میدان میں لائے اور علمداری کا منصب بھی انھیں کے سپرد کیااور اس کی صورت یہ کی کہ ہووج میں جھنڈا نصب کرکے مہارناقہ،عسکریعلی کے سپرد کر دی۔یہ دیکھ کر حضرت علی رسول اللہ کے گھوڑے(دلدل)پرسوار ہو کر دونوں لشکروں کے درمیان آکھڑے ہوئے اور زبیر کو بلا کر کہا کہ تم لوگ کیا کر رہے ہو۔اب بھی سوچو اور اس پر غور کرو کہ رسول اللہ نے تم سے کیا کہا تھا اے زبیر کیا تمھیں مجھ سے جنگ کرنے کے یے منع نہیں کیا تھا یہ سن کر زبیر شرمندہ ہوئے اور واپس چلے آئے۔لیکن اپنے لڑکے عبداللہ کے بھڑکانے سے عائشہ کی طرف داری میں نبردآزمائی سے بازنہ آئے۔
الغرض حضرت علی ؑ نے جب دیکھا کہ یہ جمل والے خونریزی سے بازنہ آئیں گے تو اپنی فوج کو خداترسی کی تلقین فرمانے لگے۔آپ نے کہا
(۱)بہادرو! صرف دفع دشمن کی نیت رکھنا
(۲)ابتداء بہ جنگ نہ کرنا
(۳)مقتولوں کے کپڑے نہ اتارنا
(۴)صلح کی پیش کش مان لینااور پیش کش کرنے والے کے ہتھیارنہ لینا
(۵)بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کرنا
(۶)زخمی بیمار اور عورتوں وبچوں پر ہتھیار نہ اٹھانا
(۷)فتح کے بعد کسی کے گھر میں نہ گھسنا۔
اس کے بعد عائشہ سے فرمانے لگے تم عنقریب پشیمان ہوگی اور اپنے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا تم میں کون ایساہے جو قرآن کے حوالے سے انھیں جنگ کرنے سے بازرکھے۔یہ سن کر مسلم نامی ایک جانباز اس پر تیار ہوا،اور قرآن لے کر ان کے مجمع میں جاگھسا۔طلحہ نے اس کے ہاتھ کٹوادیئے۔پھر شہید کر ادیا۔
حضرت علی ؑ کے لشکر پر تیروں کی بارش شروع ہوگئی بروایت طبری آپ نے فرمایااب ان لوگوں سے جنگ جائز اور ضروری ہوگئی ہے آپ نے محمد بن حنفیہ کوحکم دیا۔محمد کافی لڑکرواپس آئے۔علی ؑ نے علم لے کر ایک زبردست حملہ کیا اور کہا بیٹا اس طرح لڑتے ہیں۔پھر علم محمدبن حنفیہ کے ہاتھ میں دے کر کہا ہاں بیٹاآگے بڑھو،محمد حنفیہ انصار لے کر آگے بڑھے۔یہاں تک کہ ہووج تک مارتے ہوئے جاپہنچے۔بالآخرسات دن کے بعد حضرت علی ؑ خود میدان میں نکل پڑے اور دشمن کو پسپا کر ڈالا۔
مروان کے زہرآلودتیر سے طلحہ مارے گئے اور زبیر میدان جنگ سے بھاگ نکلے۔راستہ میں وادی السباع کے قریب عمر بن جرموزنے ان کا کام تمام کر دیا۔اس کے بعد حضرت عائشہ ۱۲ہزار جرارسمیت آخری حملہ کے لیے سامنے آگئیں۔علوی لشکر نے اس قدر تیربرسائے کہ ہووج پشت ساہی کی مانند ہو گیاحضرت عائشہ نے کعب ابن اسود کو قرآن دے کر حضرت علی ؑ کے لشکر کی طرف بھیجا۔مالک اشتر نے اسے راستہ ہی میں قتل کر دیا۔اس کے بعد عائشہ کے ناقہ کو پے کر دیا گیا۔اونٹ ہووج سمیت گرپڑا۔اور لوگ بھاگ نکلے۔حضرت علی ؑ نے محمد بن ابی بکر کوحکم دیا کہ ہووج کے پاس جاکر اس کی حفاظت کریں اس کے بعد خود پہنچ کر کہنے لگے عائشہ تم نے حرمت رسول برباد کر دی۔پھر محمد سے فرمایا کہ انھیں عبداللہ ابن حنیف خزاعی بصری کے مکان میں ٹھہرائیں۔حضرت نے کشتوں کودفن کرنے کا حکم دیااور اعلان عام کرایا کہ جس کا سامان جنگ میں رہ گیاہوتو جامع بصرہ میں آکرلے جائے۔مسعودی نے لکھا ہے کہ اس جنگ میں ۱۳ہزار عائشہ کے اور ۵ہزار حضرت علی ؑ کے لشکر والے مارے گئے۶۳مورخین کا بیان ہے کہ فتح کے بعد عبدالرحمن ابن ابی بکر نے حضرت علی ؑ کی بیعت کر لی۔مسعودی اور اعثم کوفی نے لکھا ہے کہ حضرت علی ؑ نے عائشہ کو متعدد آدمیوں سے کہلابھیجا کہ جلد سے جلد مدینہ واپس چلی جاؤ۔لیکن انھوں نے ایک نہ سنی۔آخر میں بروایت روضة الاحباب وحبیب السیرواعثم کو فی امام حسن ؑ کے ذریعہ سے کہلا بھیجا کہ اگر تم اب جانے میں تاخیر کروگی تو میں تمھیں زوجیت رسول سے طلاق دے دوں گا۔یہ سن کر وہ مدینہ جانے کے لیے تیار ہوگئیں۔حضرت علی ؑ نے چالیس عورتوں کومردوں کے سپاہیانہ لباس میں حضرت عائشہ کی حفاظت کے لیے ساتھ کردیااور خود بھی بصرہ سے باہر کئی میل تک پہنچانے گئے۔۶۴اور محمد بن ابی بکر کو حکم دیا کہ انھیں منزل مقصود تک جاکر پہنچاآؤ۔ایرونگ لکھتا ہے کہ عائشہ کو علی کے ہاتھوں سخت برتاؤ کی امید ہو سکتی تھی۔لیکن وہ عالی حوصلہ شخص ایسا نہ تھا جو ایک گرے ہوئے دشمن پر شان دکھاتا۔انھوں نے عزت کی اور چالیس آدمیوں کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ کر دیا۔
اس کے بعد حضرت علی ؑ نے بصرہ کے بیت المال کا جائزہ لیا ۶لاکھ درآبدار برآمد ہوئے آپ نے سب اہل معرکہ پر تقسیم کر دیااور عبداللہ ابن عباس کو وہاں کا گورنر مقرر کر کے بروزپیر ۳۶ئھج کو کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچ کر کچھ دنوں قیام کیاا ور دوران قیام میں کوفہ ۔عراق خراسان ،یمن،مصراور حر مین کا انتظام کیا۔غرض شام کے سوا تمام ممالک اسلامی پر حضرت کا تسلط ہو گیا۔اور قبضہ بیٹھ گیا۔پھر اس اندیشہ سے کہ معادیہ عراق پر قبضہ نہ کرلے کو فہ کو دار الخلافہ بنالیا۔
ابن خلدون لکھتا ہے کہ جمل کے بعد سیستان میں بغاوت ہوئی حضرت نے ربعی ابن کاس عنبری کو بھیج کر اسے فرو کر ایا۔
خراسان میں رفع بغاوت کیلئے علوی فوج کی جنگ اور جناب شہربانوکالایاجانا
تاریخ اسلامی میں ہے کہ عہد عثمانی میں اہل فارس نے بغاوت وسرکشی کرکے عبداللہ ابن معمروالی فارس کو مارڈالااور حدود فارس سے لشکر اسلام کو نکال دیا۔اس وقت فارس کی لشکری چھاؤنی مقام ’اصطخر‘ تھا۔ایران کا آخری بادشاہ یزوجردابن شہر یار ابن کسریٰ اہل فارس کے ساتھ تھا۔حضرت عثمان نے عبداللہ ابن عامر کو حکم دیا کہ بصرہ اور عمان کے لشکر کو ملا کر فارس پر چڑھائی کرے۔اس نے تعمیل ارشاد کی۔حدود اصطخہ میں زبردست جنگ ہوئی مسلمان کا میاب ہوگئے اور اصطخرفتح ہو گیا۔
اصطنحر کے فتح ہونے کے بعد ۳۱ئہجری میں یزدجرد مقام رے اور پھر وہاں سے خراسان اور خراسان سے مروجاپہنچا اور وہیں سکونت اختیار کرلی۔اس کے ہمراہ چار ہزار آدمی تھے،مرد میں وہ خاقان چین کی سازشی امداد کی وجہ سے ماراگیا۔اور شاہان عجم کے گورستان اصطخر میں دفن کر دیا گیا۔
جنگ جمل کے بعد ایران خراسان کے اسی مقام مرو میں سخت بغاوت ہوگئی۔اس وقت ایران میں بروایت ارشاد مفید وروضة الصفا”حرث ابن جابر جعفی“گورنر تھے۔حضر ت علی ؑ نے مرد کے قضیہ نامرضیہ کو ختم کرنے کے لیے امدادی طورپر خلیدابن قرئہ یربوعی کو روانہ کیا۔وہاں جنگ ہوئی اور حریث ابن جابر جعفی نے یزد جردا بن شہر یار ابن کسریٰ(جوعہد عثمانی میں مارا جا چکا تھا)کی رو بیٹیاں عام اسیروں میں حضرت علی ؑ کی خدمت میں ارسا ل کیں۔ایک کا نام”شہر بانو“اور دوسری کا نام ”کیٰھان بانو“تھا۔حضرت نے شہر بانو امام حسین ؑ کو اور گیہان بانو محمد ابن ابی بکر کو عطا فرمائیں۔
ملاحظہ ہو‘ارشاد مفید ج ۲ص۲۹۳اعلام الوری ص۱۵۱،روضة الصفاج ۳ص۵۴۳،عمدة الطالب ص۱۷۱،جامع التواریخ ص۱۴۹،کشف الغمہ ص ۸۹،مطالب السول ص۲۶۱،صواعق محرقہ ص ۱۲۰،نورالابصارص۱۲۶، تحفہ سلیمانیہ شرح ارشادیہ ص ۳۹۱طبع ایران۔
Add new comment