حضر ت امام علیؑ کی ظاہری خلافت

 

پیغمبر اسلام کے انتقال کے بعد سے حضرت علیؑ گوشہ نشینی کے عالم میں فرائض منصبی ادا فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ خلافت کے تین دور اسلام کی تقدیر کے چکر بن کر گذر گئے اور ۳۵ھء میں تخت خلافت خالی ہو گیا۔ ۲۳۔۲۴ سال کی مدت حالات کو پر کھنے اور حق و باطل کے فیصلہ کے لیے کافی ہوتی ہے۔ بالآخر اصحاب اس نتیجہ پر پہنچے کہ تختِ خلافت حضرت علیؑ کو بلا شرط حوالہ کر دینا چاہیے چنانچہ اصحاب کا ایک عظیم گروہ حضرت علیؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔اس گروہ میں عراق، مصر، شام حجاز، فلسطین اور یمن کے نمائندے شامل تھے۔ ان لوگوں نے خلافت قبول کرنے کی درخواست کی۔

حضرت علیؑ نے فرمایا مجھے اس کی طرف رغبت نہیں ہے۔ تم کسی اور کو خلیفہ بنا لو۔ا بن خلدون کا بیان ہے کہ جب لوگوں نے اسلام کے انجام سے حضرت کو ڈرایا، توآپ نے رضا ظاہر فرمائی۔ نہج البلاغہ میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں خلیفہ ہو جاؤں گا تو تمہیں حکم خدا وند ی ماننا پڑے گا۔ بہر حال آپ نے ظاہری خلافت قبول فرمالی۔ مصنف بریف سروینے لکھا ہے کہ علیؑ ۶۵۵ء ھ میں تختِ خلافت پر بٹھائے گئے۔جو حقیقت کے لحاظ سے رسول کی رحلت کے بعد ہی ہونا چاہیے تھا۔ ۵۹ روضتہ الاحباب میں ہے کہ خلافت ظاہر یہ قبول کرنے کے بعدآپ نے جو پہلا خطبہ پڑھا اس کی ابتداء ان لفظوں سے تھی۔ ”اَلَحمد لِلہ عَلی اِحسَانِہِ قَد رَجَعَ الحَقَ اِلیٰ مَکانِہِ “خدا کا لاکھ لاکھ شکر اور اس کا احسان ہے۔ کہ اس نے حق کو اپنے مرکز اور مکان پر پھر لا موجود کیا۔ تاریخ اسلام اور جامع عباسی میں ہے کہ ۱۸ ذی الحجہ کو حضرت علیؑ نے خلافت ظاہر یہ قبول فرمائی اور ۲۵ ذی الحجہ ۳۵ ھئکو بیعت عامہ عمل میں آئی۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں ہے کہ جب محمد صاحب نے انتقال فرمایا۔ تو علی میں مذہب اسلام کے مسلم الثبوت سردار ہونے کے حقوق موجود تھے۔ لیکن دوسرے تین صاحب ابو بکر و عمر و عثمان نے جائے خلافت پر قبضہ کر لیااور علیؑ ملقب بہ خلیفہ نہ ہوئے لیکن بعد عثمان ۶۵۶ھء میں علی خلیفہ ہو گئے ۔ علیؑ کے عہد خلافت میں سب سے پہلا کام طلحہ و زبیر کی بغاوت کو فرد کرنا تھا جنہیں بی بی عائشہ نے بہکا یا تھا۔ عائشہ علیؑ کی سخت دشمن تھیں اور خاص انہیں کی وجہ سے علیؑ اب تک خلیفہ نہ ہو سکے تھے۔ ۶۰ مورخ جرجی زیدان لکھتے ہیں کہ ”اگر حضرت عمر کے زمانہ میں جب لوگوں کے دلوں میں نبوت کی دہشت اور رسالت کی ہیبت قائم تھی اور سچا تدین قائم تھا۔ حضر ت علی مسلمانوں کے حاکم مقرر ہوتے تو آپ کی حکومت اور سیاست کہیں بہتر اور اعلیٰ ثابت ہوتی اور آپ کے کاموں میں ذرہ برابر بھی ضعف ظاہر نہیں ہوتا ۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ آپ کے پاس خلافت کی خدمت اس وقت آئی جب لوگوں کی نیتیں فاسد ہو گئی تھیں۔ اور انتظامات ملکی اور اصول حکومت کے متعلق والیوں اور ما تحتوں کے دلوں میں حرص و طمع پیدا ہو گئی تھی۔ اور ان سب سے زیادہ طماع اور مکار معاویہ ابن ابی سفیان تھا،۔ کیونکہ اس نے اپنی حکومت جمانے کے لیے لوگوں کو دھوکا فریب دے کر،ان کے ساتھ مکر و حیلہ کر کے اور مسلمانوں کا مال بے دریغ لٹا کر لوگوں کو اپنی طرف کر لیا تھا۔ ۶۱

فاضل معاصر سید ابن حسن جار چوی لکھتے ہیں کہ اگر علیؑ رسول کے بعد ہی خلیفہ تسلیم کر لیے جاتے تو دنیا منہاج رسالت پر چلتی اور راہوار سلطنت و حکومت دین حق کی شاہراہ پر سر پٹ دوڑتا مگر مصلحت اور دو ر اندیشی کے نام سے جو آئین و رسوم حکمران جماعت کا جزو زندگی اور اوڑھنا بچھونا بن گئے تھے۔ انہوں نے علیؑ کی پوزیشن نا ہموار اور ان کا موقف نا استوار بنا دیا تھا۔ پچھلے دور کی غیر اسلامی رسموں اور امتیاز پسند ذہنیتوں کی اصلاح کرنے میں ان کو بڑی دقت ہوئی اور پھر بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ طبعیتیں عدم مساوات کی خوگر اور معاشرتی عدل سے کوسوں دور ہو چکی تھیں۔ علیؑ نے بیعت کے دوسرے روز بیت المال کا جائز لیا اور سب کو برابر برابر تقسیم کر دیا۔ حبشی غلام اور قریشی سردار دونوں کو دو دو درہم ملے اس پرپیشانی پر سلوٹیں پڑنے لگیں۔ بنی امیہ کو اس دور میں اپنی دال گلتی نظر نہ آئی۔ کچھ معاویہ سے جا ملے کچھ ام المومنین عائشہ کے پاس مکہ جا پہنچے، اعثم کوفی کا بیان ہے کہ عائشہ حج سے واپس آ رہی تھیں کہ انہیں قتل عثمان کی خبر ملی۔ انہوں نے نہایت اشتیاق سے پوچھا کہ اب کون خلیفہ ہوا، کہا گیا کہ ”علی ؑ “یہ سن کر بالکل خاموش ہوئیں عبد اللہ ابن سلمہ نے کہا ۔ کیا آپ عثمان کی مذمت اور علیؑ کی تعریف نہیں کرتی تھیں اب نا خوشی کا سبب کیا ہے ؟فرمایا آخرکر وقت میں اس نے توبہ کر لی تھی اب اس کا قصاص چاہتی ہوں۔ ابن خلدون کا بیان ہے کہ عائشہ نے اعلان کرایا کہ جو شخص اسلام کی ہمدردی کرنا اور خون عثمان کا بدلہ لینا چاہتا ہواور اس کے پاس سواری نہ ہو وہ آئے اسے سواری دی جائے گی۔ بریف سر وے آف ہسٹری کا قول ہے کہ عائشہ جو علیؑ کی پرانی اور ہمیشہ کی دشمن تھیں۔ عداوت میں اس قدر بڑھ گئیں کہ ان کے معزول کرنے کے لیے ایک فوج جمع کر لی۔

حضرت علیؑ کو ایک دوسری دقت یہ درپیش تھی کہ سارا عالم اسلام ان اموی عاملوں اور حاکموں سے تنگ آ گیا تھا۔ جو حضرت عثمان کے عہد میں مامور تھے اگر علیؑ ان کو بدستور رہنے دیتے تو حکومت کے با وجود جمہور کو چین نہ ملتا اور اگر ہٹاتے ہیں تو مخالفوں کی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں حکام و عامل مدت سے خود سری کے عادی اور بیت المال کو ہضم کرنے کے خوگر ہو چکے تھے۔ اکثر ان میں ایسے تھے جن کے باپ دادا یا عزیز و اقربا علیؑ کی تلوار سے موت کے گھاٹ اتر چکے تھے یا علیؑ کے کھرے اور بے لوث عدل و انصاف کا تماشہ دیکھ چکے تھے ۔ ان کو نظر آ رہا تھا کہ علی ہیں تو ہم نہیں رہ سکتے اور رہے بھی تو من مانی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے وہ کمین گاہ تلاش کی جہاں بیٹھ کر وہ دامادِ رسول پر تیر چلا سکیں۔ اور وہ مورچے بنائے اور گھاٹیاں کھودیں جن کی آڑ میں چھپ کر وہ نئی حکومت کو بیخ دُبن سے اکھاڑ سکیں۔ طلحہ و زہر جو خود حکومت کے خواہاں اور خلافت کے آرزو مند تھے۔ اور حضرت عائشہ کی حمایت اور مدد ان کو حاصل تھی۔ پہلے تو علیؑ سے بیعت کر بیٹھے، پھر لگے ان سے سازشیں کرنے ، ایک دن آئے اوربصرہ و کوفہ کی حکومت طلب کرنے لگے۔ حضرت علیؑ نے کہا مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ مدینہ میں رہو اور روز مرہ کے کارو بار میں میری مدد کرو۔ دوسرے دن وہ مکہ جانے کی اجازت مانگنے آئے۔ واشنگٹن ایرونگ لکھتا ہے، ایسی حالت میں کہ لب پر تقویٰ اور دل میں مکر تھا یہ عائشہ سے جا ملے جو مخالفت کے لیے تیار تھیں۔ یہی مورخ لکھتا ہے۔

علی خلیفہ ہو گئے لیکن دیکھتے تھے کہ ان کی حکومت جمی نہیں ہے۔ گزشتہ خلیفہ کے زمانے میں بہت سی بد عنوانیاں پیدا ہو گئیں تھیں جن میں اصلاح کی ضرورت تھی اور بہت سے صوبے ان لوگوں کے ہاتھ میں تھے جن کی وفاداری پر ان کو مطلقاََ اعتماد نہ تھا۔ انہوں نے اصلاح عام کا ارادہ کیا، پہلی اصلاح یہ تھی کہ گورنر ہٹا دئیے جائیں لوگوں نے ان کے اس عمل کی مو افقت نہ کی۔ مگر علیؑ نے نا مانا

گورنروں کی تقرری

نئے گورنروں کی تقرری فرما دی۔ آپ نے حالات حاضرہ کے پیش نظر اس عہدہ پر زیادہ ان لوگوں کو فائز کیا جن پر آپ کو کامل اعتماد تھا اور جو عہد سابق میں اپنے حقوق سرداری سے محروم رکھے گئے تھے ۔ آپ نے عبد اللہ کو یمن کا سعید کو بحرین کا۔ سماعہ کو تہامہ کا۔ عون کو یمامہ کا قثم کو مکہ کا۔ قیس کو مصر کا عثمان بن حنیف کو بصرہ کا ۔ عمار کو کوفہ کا اور سہل کو شام کا گورنر مقرر فرمادیا۔

(حضرت علیؑ کو )صلاح دی گئی کہ وہ معاویہ کواپنی جگہ رہنے دیں۔۔۔مگر علیؑ نے ایسی صلاحوں پر توجہ نہ کی، اور قسم کھائی کہ میں راستی سے منحرف امور پر عمل نہ کروں گا۔ احسان اللہ عباسی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں ۔علیؑ نے سیدھے طور پر جواب دیا کہ میں امت رسول پر برے لوگوں کو حکمران نہیں رکھ سکتا۔ علامہ جرجی زیدان تاریخ تمدن اسلامی میں لکھتے ہیں۔”یہ امر پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ ابو سفیان اوراس کی اولاد نے محض مجبوری کے عالم میں اسلام قبو ل کیا تھا۔ کیونکہ ان کو اپنی کامیابی سے مایوسی ہو چکی تھی۔ اس لیے معاویہ کو خلافت کی آرزو محض دنیاوی اغراض کی وجہ سے پیدا ہوئی۔قریش کے چیدہ چیدہ سردا ران کے پاس جمع ہو گئے۔ اغراض نفسانی کی بنا پر منصب خلافت کا خاندان بنی ہاشم میں جانا ان کو بہت شاق گزر رہا تھا“۔

عامل ہٹتے گئے اور کچھ معاویہ کے پاس شام میں اور کچھ ام المومنین عائشہ کے پاس مکہ میں جمع ہوتے گئے طلحہ و زبیر جا کرام المومنین سے ملے اور ”انتقام عثمان “کے نام سے ایک تحریک اٹھائی ۔ عبد اللہ ابن عامر اور یعلی بن امیہ نے جو معزول گورنر تھے اور بیت المال کا روپیہ لے کر بھاگ آئے تھے۔ مالی امدادی ۔ تاریخ اسلامی جلد ۳ صفحہ ۱۶۹میں ہے کہ بروایت صاحب روضتہ الاحباب و ابن خلدون ابن اثیر یعلی نے جناب عائشہ کو ساٹھ ہزار دینار جو چھ لاکھ درہم ہوتے ہیں اور چھ سو اونٹ اس غرض سے دئیے کہ علی ؑ سے لڑنے کی تیاری کریں۔ انہیں اونٹوں میں ایک نہایت عمدہ عظیم الجثہ اونٹ تھا جس کا نام ”عسکر “تھا اور جس کی قیمت بروایت مسعودی دو سو اشرفی تھی۔ مورخین کا بیان ہے کہ اسی اونٹ پر سوار ہو کر جناب ام المومنین عائشہ داماد رسول زوج تبول حضرت علی علیہ السلام سے لڑیں اور اسی اونٹ کی سواری کی وجہ سے اس لڑائی کو ”جنگ جمل “کہا گیا۔

Add new comment