وفاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امام علیؑ کا خطبہ

 

کتا ب نہج البلاغہ ج اصفحہ ۴۳۲ طبع مصر میں ہے ”بزرگان اصحاب محمد ﷺ نے جو حافظ (قرآن و سنت نبوی تھے)جان لیا تھا کہ میں کبھی ایک ساعت کے لیے بھی فرمان خدا اور رسول سے دور نہیں ہوا اور پیغمبر اکرم کی خاطر کبھی اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی۔ جب دلیروں نے راہ فرار اختیار کی اور بڑ ے بڑے پہلوان پیچھے ہٹ آئے تواس شجاعت اور جوانمردی کے باعث جو خدا نے مجھے عطا کی ہے۔ میں نے جنگ کی اور رسول خدا کی قبض روح اس حالت میں ہوئی کہ آپ کا سر مبارک میرے سینے پر تھا۔ ان کی جان میرے ہی ہاتھوں پر بدن سے جدا ہوئی چنانچہ (بہ نیت تبرک و تیمن )میں نے اپنے ہاتھ (روح نکلنے کے بعد )اپنے چہرہ پر ملے۔ میں نے آنحضرت کے جسد اطہر کو غسل دیااور فرشتوں نے (اس کام میں) میری مدد کی۔ پس بیت نبوی اوراس کے اطراف سے گریہ و زاری کی صدا بلند ہوئی فرشتوں کا ایک گروہ جاتا تھا تو دوسرا آجا تا تھا ۔ ان کی نماز جنازہ کا ہمہمہ میرے کانوں سے جدا نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ آپ کو آخری آرام گاہ میں رکھ دیا گیا۔ پس آنحضرت کی حیا ت و ممات میں ان سے میرے مقابلہ میں کون سزا وا ر تھا۔ (جو کوئی) اس کا ادعا کرتا ہے وہ صحیح نہیں کہتا ۔ الخ ۴۹ اسی کتاب کے صفحہ۱۳۰۳پر ہے۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان اے رسول خدا۔ آپ کی وفات سے نبوت ۔ احکام الہیٰ اور اخبار آسمانی کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ جودوسرے (پیغمبروں )کی وفات پر (کبھی )نہیں ہوا تھا۔ آپ کی خصوصیت اور یگانگت یہ بھی تھی کہ دوسری مصیبتوں سے آپ نے تسلی دے دی۔ (کیونکہ آپ کی مصیبت ہر مصیبت سے بالاتر ہے)او ردنیا سے رحلت فرما نے کی بنا ء پر آپ کو یہ عمومیت وخصوصیت حاصل ہے کہ آپ کے ماتم میں تمام لوگ یکساں درد مند(اور سینہ فگار )ہیں۔ الخ 

http://urdu.duas.org/masoomeen/Ali/zindagi.htm

Add new comment