شام بھیجا ہوا اسلحہ جلد ہی خود پاکستان کے خلاف استعمال ہوتا نظر آئے گا۔ٹی وی شیعہ رپورٹ
ٹی وی شیعہ [میڈیا ڈیسک]حکومت اور طالبان کو مذاکرات کا کھیل رچائے کم و بیش ایک ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ اس عرصے میں نجانے کتنے ہی بیگناہوں کا خون بہا، اور نہیں معلوم کتنے گھروں سے اٹھ اٹھ کے بین ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ لاشوں کے پہلوؤں سے یتیم بچوں کی اٹھتی ہوئی سسکیاں گننے کی نوبت آئے تو قاتل بھی تھک جائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے دو مہینوں میں اموات کی تعداد پانچ سو سے زیادہ ہے، جو پچھلے سال کے آخری نصف کے قریباً برابر ہے۔ غیر ملکی و غیر جانب دار تحقیقاتی اداروں
(SIPRI, Amnesty International and South Asian Terrorism Portal)
کی اطلاعات کے مطابق سال 2004 سے لیکر دسمبر 2013 تک کم و بیش 381 ڈرون حملے وزیرستان اور میر علی کے علاقے میں ہوئے اور کل کوئی 3701 افراد کے مارے جانے کے دعوئے سامنے آئے، جبکہ امریکہ کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد 2400 کے قریب ہے۔ سال 2003 سے لیکر جنوری 2014 تک اتھارہ ہزار شہری اور پانچ ہزار کے قریب فوجی یا قانون کے محافظین دہشت گردی کی زد میں آ کرمارے جا چکے ہیں۔
ان اعداد و شمار کو موازنہ کریں تو چوبیس سو ( 2400) دہشت گردوں کے مقابل چوبیس ہزار پاکستانی مارے گئے ہیں، جو اکہ ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ اس سارے عرصے میں چند مخصوص سیاسی شعبدہ بازوں کی طرف سے دہشت گردوں کے حق میں مختلف اقدامات اٹھائے جاتے رہے ہیں جن میں عمران خان کے ڈرون مخالف دھرنے اور نیٹو سپلائی میں رکاوٹی حرکات سر فہرست اور زیادہ مذموم ہیں۔ عمران خان، جماعت اسلامی، لعل مسجد انتظامیہ، جمعیت علمائے فضل الرحمان، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک انتظامیہ و جمعیت علمائے سمیع الحق ، جامعہ بنوریہ کراچی اور خود مسلم لیگ نون کے اندرونی حلقوں سے ہمیشہ طالبان کی بات سننے، ان کے ساتھ مذاکرات کر کے مسائل حل کرنے اور لے دے کر کے امن کی بھیک مانگنے کے لئے بارہا آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ لیکن مقام شرم یہ ہے کہ قومی درجے کی سیاسی جماعت کہلانے والے ان دہشت پناہ دھڑوں نے آج تک کسی مظلوم کے حق میں کوئی دھرنا تو کیا، ایک ٹوٹا پھوٹا سا مذمتی بیان بھی نہیں دیا جو طالبان کوچند ثانیئے کے لئے ہی سوچنے پر مجبور کر دے۔
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اپنا تخلیقی شجرہ نسب مسلم نون لیگ کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ اسکی رگوں میں آئی جے آئی کا خون دوڑتا ہےاور ضیاع الحق کا استسخوان اسے کھڑا رکھتا ہے۔ وقت کے ساتھ جمہوری تجربات کے سبب شاید مسلم لیگ نون اپنے ماضی سے دامن چھڑا لیتی، لیکن اگر میاں صاحبان کو دس سال ریاض یاترا کی سعادت نصیب نہ ہوئی ہوتی۔ سعودیہ میں قیام کے دوران، میاں صاحبان نے بہت کچھ سیکھا اور شاہی خاندان سے ذاتی مراسم کو خوب ترقی بھی دی۔ ان سب سے بڑھ کر اب میاں صاحبان کے کاروبار سعودیہ میں موجود ہیں اور وہ تا حیات آل سعود کے سامنے باج گزار رہیں گے۔ نتیجتاً میاں صاحب کے عقائد بھی سعودی خاندان کے زیر اثر ہیں، اسی لئے اب داتا دربار میں حاضری جیسی "بدعات" سے وہ پاک ہو چکے ہیں۔
ان تمام عوامل کا اثر براہ راست پاکستانی سیاست و معاشرت پر پڑتا ہے۔ اسی لئے ہر طرف سلگتی ہوئی لاشوں کا دھواں اور سڑتے ہوئے پاکستان کا تعفن محسوس کر کے بھی میاں صاحب کو ہمت نہ ہوئی کہ طالبان یا لشکر جھنگوی کے خلاف عملی اقدامات کر سکتے۔ اس پر مستزاد پانچ سالہ پیپلز پارٹی عہد کی بے عمل اور رشوت خوری میں مصروف حکومت نے مظلوم کے زخم سے بے اعتنائی برتی تو ساتھ میں خواہ نہ خواہ طالبان کو پھلنے پھولنے کا موقع بھی دیا۔ ساری ذمہ داری ڈرون حملوں پر ڈال کر پی پی حکومت اور سابق آرمی چیف جنرل کیانی نے اپنا عرصہ اقتدار جھولے لینے میں گزار دیا۔ پیپلز پارٹی سے نا اہلی کا ترکہ پا کر ، میاں صاحب کو اور بھی تسلی ہوئی کہ ابھی دلی دور ہے۔
لیکن مقام حیرت یہ ہے کہ چند دن پہلے وفاقی کابینہ نے ایک اصولی فیصلہ کیا کہ اب بہت ہو چکی، اس لئے حکومت کو اپنی رِٹ قائم کرنا ہوگی، جس لئے فوجی کاروائی لازمی ہے۔ لیکن پھر نجانے کیا ہوا کہ ایک خاموشی چھا گئی؟؟؟
چند دن پہلے سعودی اشرافیہ کے اراکین جس طرح پاکستان پر منڈلاتے رہے ہیں، اہل فکر کو اس سے بھی بد شگونی کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ بیرونی ذرائع ابلاغ نے تو اس حد تک خبر دی کہ پاکستان سعودیہ کو جہاز شکن اور ٹینک شکن میزائل فراہم کر رہا ہے، جو شامی باغیوں کے دئیے جائیں گے۔ دال میں کالاکالا جناب سرتاج عزیز کے اس بیان سے بھی نظر آتا ہے کہ پاکستان نے سعودی دباؤ پر اپنی شامی خارجہ پالیسی تبدیل نہیں کی۔ چور کی داڑھی میں تنکا، بھلا انہیں اس بیان کی ضرورت ہی کیا تھی؟؟؟
بی بی سی اور دی گارڈین کے دعوے تو اس حد تک ہیں کہ پاکستان ایک شارے کا منتظر ہے جب وہ نیوکلیائی ہتھیار سعودیہ کے حوالے کر دے گا۔یہی دعوے اسرائیل ٹائمز کے بھی ہیں۔ اس موقع یہ یاد کراتا چلوں کہ ایران دشمنی میں اس وقت سعودیہ اور اسرائیل ایک دوسرے پشت پناہ بھی ہیں۔ یروشلم پوسٹ نے دسمبر 2013 سے اس سمت میں واضح اشارے دئیے ہیں۔ ایسے میں جب دونوں مشرق وسطیٰ میں کسی ممکنہ ایرانی مہم جوئی کے سامنے اکٹھے نبردآزما ہیں، وہیں خود اسرائیل سعودیہ کے ایٹم بم خریدنے سے سہما ہوا بھی نظر آتا ہے۔ اگر پاکستانی نیو کلیائی پروگرام کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس بات میں شک و شبہے کی کوئی گنجائیش نظر نہیں آتی کہ پاکستان کسی بھی ملک کو ایٹمی راز یا آلات فروخت کر سکتا ہے۔ گناہ گار ڈاکٹر قدیر خان صاحب تھے یا انہیں قربانی کا بکرا بنایا گیا، ہمیں اس سے غرض نہیں ہے تا ہم یہ امر مسلمہ ہے کہ ایٹمی راز ان ممالک کو دئیے گئے جو آئی اے ای سی کی تحفظاتی نگرانی سے باہر تھے اور یہ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی تھی۔ اس ساری خرید و فروخت سے پاکستان کو کیا ملا اور حکومتی سربراہوں نے کیا کھایا بچایا، کسی کو معلوم نہیں، اور شاید اب بھی یہی ہو۔ لیکن اس ساری تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسا ہونا اب بھی نا ممکن نہیں ہے۔ معروف امریکی نیوز تحقیقاتی ادارے بریٹ بار
(BreitBar)
نے خبر دی ہے کہ پاکستان سعودی عرب کو جے ایف 17 تھنڈر طیارے اور تیس ہزار فوجی فراہم کر رہا ہے۔ جبکہ ایران اور فرانسیسی جاسوسی اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان سعودیہ کو میزائل شکن، اینٹی ائر کرافٹ اور ٹینک شکن میزائل فراہم کر ہا ہے جو کہ سعودیہ اور اردن کے راستے شامی باغیوں کو مہیا کئے جائیں گے۔ گو پاکستان نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے، لیکن رشیا ٹوڈے اور دی ہندو کی مؤقر اطلاعات کے مطابق روس نے ان خبروں میں اس قدر وزن محسوس کیا ہے کہ اس نے سرکاری طور پر ایسی حرکات کی مذمت کی ہے۔
لمحہء فکریہ یہ ہے کہ ایرانی خبر رساں ادارے شفقنا اور ارنا نے دعویٰ کیا ہے کہ ان میزائلوں کی پہلی کھیپ آج بتاریخ یکم مارچ اردن بھجوا دی گئی ہے، جبکہ پہلا نیم فوجی و مکمل دہشت گرد دستہ پانچ مارچ کو سی ون تھرٹی طیارے کے ذریعے کراچی سے سعودیہ جائے گا اور وہاں سے شام روانہ ہوگا۔
سر دست ایران اور امریکا اتنے قریب ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے جسقدر سعودیہ اور امریکا دور ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اسکا سبب طالبان اور القائدہ کے خلاف امریکہ کا اٹل فیصلہ ہے جس کے سبب وہ شامی باغیوں کی امداد سے دست کشی کر چکا ہے۔ مصر ، لیبیا اور شام کے تجربات کے ساتھ ساتھ پاکستان و افغانستان میں گھس بیٹھے دہشت گرد امریکہ سمیت پوری دنیا کی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ ہیں، اس لئے سعودی دباؤ کے باوجود امریکا ان دہشت گردوں کی پشت پناہی سے قاصر ہے۔ ترجیحات میں تبدیلی کا واضح اشارہ امریکی فوج میں کمی کا اعلان ہے جو تئیس فروری کو پینٹا گون سے امریکی سیکریٹری دفاع چیک ہیگل نے جاری کیا۔ ایسے میں جب امریکامشرق وسطیٰ کے مہمات اور یہاں کے باغیوں کی اعانت سے ہٹ رہا ہے تو پاکستان جیسے ملک کے لئے سعودیہ ایک بڑی مارکیٹ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا معاہدہ ایک بر پھر کھٹائی کا شکار نظر آتا ہے جس کی تکمیل کی صورت میں امریکا سے زیادہ سعودیہ اور بھارت کو تکلیف ہوگی۔ اس وقت پاکستان اور ایران ایک دوسرے سے دور سرکتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں، جو کہ پاکستان کے سعودی مرکز ثقل کی طرف کھینچے جاچکنے کا کھلا اشارہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ سب سچ ہے تو پھر طالبان اپنے مذاکراتی ڈرامے میں کامیاب رہے ہیں۔ ہم نے ان مذاکرات کے شروع میں کئی با خبر حلقوں سے یہی سنا تھا کہ طالبان شاید وقت حاصل کر رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان اپنے چارعوں طرف دوست کھو کر سعودیہ کی محبت میں صحرائے صحارا کے سفر پر نکل چکا ہے، اور طالبانی گِدھیں ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہیں۔
اب جبکہ پاکستان پچھلے چند ہفتوں میں فوج کی جراءت سے طالبان کو ہوائی حملوں میں جزوی مگر قابل ذکر حد تک نقصان پہنچا چکا ہے، تو طالبان نے بھی ممکنہ جنگ کی پیش بندی کر لی ہے۔ خوف ہے کہ شام بھیجا ہوا اسلحہ تھوڑے ہی دنوںمیں خود پاکستان ہی میں ہماری اپنی ہوائیہ اور فوج کے خلاف سرگرم عمل نظر آئے گا۔
اگر یہ سب کچھ جھوٹ ہے تو بھی سامنے آ جائے گا اور اگر سچ ہے تو لٹمس ٹیسٹ کی خبریں تو شام سے چند دنوں میں آیا ہی چاہتی ہیں۔ لیکن سوال ہے تو صرف یہ کہ مان لیا کہ سعودی مشٹنڈے توپھجے کے پاوے کھانے لاہور یاترا پر آئے تھے، لیکن جنرل شریف کون سےسانڈے کا تیل لینے اچانک سعودیہ بھاگ گئے تھے، جبکہ میاں صاحب کی کمر میں ابھی درد کی شکا یت بھی نہیں ہوئی؟
لگتا تو یہی ہے کہ پاکستانی حکومت خود اپنی ہی قوم کے خون سے ہاتھ رنگ چکی ہے۔ اب دامن پر لگے دھبے کو مٹانے کے لئے جتنی جلدی وزیرستان آپریشن مکمل کر لیا جائے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ بقول فیض احمد فیض مرحوم لہو کے داغ تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا۔
سید مصباح حسین جیلانی ۔آسٹریلیا
http://www.aalmiakhbar.com/index.php?mod=article&cat=misbah&article=43146
Add new comment