وقت کے تقاضے۔ٹی وی شیعہ رپورٹ

 

اس وقت ملکی حالات نے جو رخ اختیار کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم بطور پاکستانی اپنی ترجیحات و پالیسیوں پر دقت نگاہ کرتے ہوئے موجودہ وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھیں، طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نام پر دوستی نبھانے کی جو کوششیں کی گئیں، امید کے عین مطابق اب ناکامی سے دوچار ہوتی دکھائی دے رہی ہیں، طالبان مذاکرات کار اگرچہ اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ تجاویز پہنچا دی ہیں، مثبت پیش رفت ہوگی مگر حقیقت وہی ہے کہ دہشت گرد ملک دشمن گروہ کے ساتھ انہی کی زبان میں نمٹا جائے گا، اسی لئے تو دونوں اطراف سے اپنے اپنے عزائم ظاہر کئے جا رہے ہیں، دونوں اطراف سے مراد ہماری افواج اور ان کے مدمقابل دہشت گرد ٹولہ ہے جو دراصل اٹھارہ کروڑ آبادی کے مدمقابل کھڑا ہے۔

طالبان نے کہا ہے کہ حکومت آپریشن کا شوق پورا کرکے دیکھ لے، اس کا نقصان زیادہ ہوگا، جبکہ افواج پاکستان کیطرف سے بھی اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہ دشمن کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کر دیگی اور طالبان نامی گروہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ اس بات میں کسی کو شک و شبہ نہیں کہ پاکستان افواج کی پیشہ وارانہ تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات اور موسم و علاقہ میں اپنی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے دانت کھٹے کر سکے۔ طالبان جیسے دشمن سے لڑنے کا بھی اسے وسیع تجربہ حاصل ہے، کسی بھی فوج کی کامیابی کیلئے اس کے خفیہ اداروں کا مضبوط ہونا لازمی تصور کیا جاتا ہے، پاکستان کی سول و ملٹری خفیہ ایجنسیاں اپنی صلاحیتوں کا لوہا انٹرنیشنل سطح پر منوا چکی ہیں، اس حوالے سے بھی کسی کو شک و شبہ نہیں رہنا چاہیئے۔ حالیہ دنوں میں بعض قبائلی علاقوں میں ہونے والے سرجیکل آپریشن اس صلاحیت کا معمولی مظاہرہ یا جھلک کہے جا سکتے ہیں، جن میں طالبان کو کافی زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

اس موقعہ پر اس بات کا اعتراف کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ گذشتہ دس برس کے دوران پاکستانی افواج کے پانچ ہزار نوجوان و آفیسران کو طالبان نے شہید کیا ہے، جبکہ دہشت گردی میں عوام کی ایک بڑی تعداد بھی ملک دشمنوں کی وحشت و بربریت کا شکار ہوئی ہے، طالبان کی طرف سے پاکستان کے عسکری اداروں اور مراکز جن میں راولپنڈی کا جی ایچ کیو، کامرہ ایئر بیس، کراچی نیول بیس، آئی ایسّ آئی کے لاہور، فیصل آباد، ملتان، پشاور کے دفاتر پر ہونے والے خودکش حملوں کی سیریز دراصل طالبان کے وسیع، منظم نیٹ ورک کا پتہ دیتے ہیں، پاکستان آرمی کو اگر اقوام متحدہ کے تحت مختلف شورش زدہ ملکوں میں امن کی بحالی اور فتنہ پرورں کی سرکوبی کا وسیع تجربہ ہے تو طالبان کا سب سے زیادہ تجربہ ہے نہتے و بے گناہوں کے سر قلم کرنا ہے۔

یہ وحشی درندے معصوم لوگوں کو ذبح کرکے ان کے سر کے ساتھ فٹ بال کھیلنے کا بھی وسیع تجربہ بھی رکھتے ہیں، یہ لوگ بازاروں، درباروں اور امام بارگاہوں کیساتھ ساتھ مساجد اور سینما گھروں میں یکساں بم دھماکے کرنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ طالبان آگ و خون کی ہولیاں کھیلنے اور سکولوں، کالجز کو بارود کے ذریعے راکھ کا ڈھیر بنانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، یہ گروہ وحشت، درندگی اور ظلم ڈھانے کا ایسا تجربہ رکھتے ہیں، جس میں رحم نام کی کوئی چیز شامل نہیں ہوتی، ان کے تجربہ میں جنگ کے سبھی ضابطے ان کی اپنی شریعت ہیں، جس میں بچوں، عورتوں، قیدیوں کے کوئی حقوق نہیں ہوتے، سب سے اہم بات جس کا ذکر یہاں بے حد ضروری ہے، وہ اس دہشت گرد و ملک دشمن گروہ کو پاکستان کے دشمن ممالک انڈیا، افغانستان اور امریکہ کی مکمل آشیر باد حاصل ہونا ہے، ان کی روش رہی ہے کہ یہ ہر ایک سے مدد لیتے ہیں، ہر ایک کے لئے کام کرنے پر تیار رہتے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کی اصل قوت و مدد پاکستان کے گوش و کنار میں پھیلے ہوئے وہ مدارس دینیہ ہیں جنہیں سعودی و امریکی امداد سے روس کے ساتھ جنگ میں بنایا گیا تھا، انہی مدارس سے ہی طالبان کا وجود سامنے آیا اور انہی سے ہی اب ان کو نئی کھیپ ملتی ہے، جو ان کیلئے لاجسٹک سپورٹ کا کام بھی کرتے ہیں اور شہروں میں واقع ٹارگٹس کو نشانہ بنانے میں بھرپور معلومات دیتے ہیں۔ آج اگر کہیں سے آرمی آپریشن کیخلاف آواز بلند ہو رہی ہے تو وہ یہی مدارس ہیں یا پھر ان سے وابستہ شخصیات و سیاسی دینی جماعتیں۔ اس تمام صورتحال میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اگر آپریشن کیا جاتا ہے تو قوم پاکستانی افواج کے ساتھ کاندھے کے ساتھ کاندھا ملا کر کھڑی ہو جائے۔ پاکستانی قوم اس وقت ایک قوم کی حیثیت سے، ایک ملت کی حیثیت سے سامنے آئے، تاکہ میڈیا اور پراپیگنڈہ محاذ پر طالبان دوست و حامیان اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے سرگرم نہ ہوجائیں۔

ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ قوم میں نئی دھڑے بندی ہونے جا رہی ہے، ایک دھڑا طالبان کا کھلا حمایتی، جو کسی بھی صورت ان کی مذمت کرنے کو گناہ کبیرہ سمجھتا ہے اور ان کے نزدیک پاکستانی فوج سے لڑنے والے، ان کی گردنیں کاٹنے والے اور انہیں تہہ تیغ کرنے والے اگر فوج کے ہاتھوں مارے جائیں تو شہید کہلائیں گے، جبکہ دوسرا دھڑا طالبان اور ان کے حمایتیوں کا مخالف ہے۔ یہ دھڑا طالبان کو خوارج قرار دیتا ہے اور انکی بیخ کنی کیلئے مکمل آپریشن، بلکہ بے رحم کارروائی کا مطالبہ کرتا ہے، دراصل اس دھڑے کے اکثر افراد اور مراکز دینیہ ان طالبان کے دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنتے آئے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ لوگ جو طالبان کو خوارج سمجھتے ہیں، ان کو متحد و منظم کیا جائے اور ایک پیج پر لایا جائے، یہ مظلوموں کا ایک اتحاد ہوسکتا ہے، اس میں ان لوگوں کو شامل کیا جائے، جن کے بچے طالبان کے حملوں میں مساجد، مزارات، بازاروں، درباروں، امامبارگاہوں، مجالس، جلوسوں اور جنازوں میں شہید کئے گئے ہیں، ان کو ایک جگہ اور ایک صف میں ہونا چاہیئے۔ ان ظالمان نے پاکستان کے ساٹھ ہزار لوگوں کا خون کیا ہے، جو کسی بھی طرح سے کم نہیں، اتنے لوگوں کا بیگناہ قتل عام معمولی بات نہیں، اگر ان کے ہزاروں نہیں لاکھوں ورثاء اکٹھے ہوجائیں تو پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں میں بیٹھے طالبان کے حمایتیوں کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ درست روش اختیار کریں اور مظلوم کے حامی بنیں نہ کہ ملک دشمن اور عوام دشمن طالمان کے۔

اس وقت پاکستان کے مظلوم طبقات اور طالبان کے متاثرین میں اہل سنت بریلوی حضرات کے ساتھ مل کر مجلس وحدت مسلمین نے جو اقدامات اٹھائے ہیں، وہ بھی ہر ایک کی نظر میں قابل ستائش ہیں اور انکی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیئے، اس کیساتھ ساتھ اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ بطور شیعہ بھی باہمی اتحاد و وحدت کی فضا قائم کی جائے اور ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کرتے ہوئے موجودہ حالات کا مقابلہ کیا جائے۔ ہمارے افتراق کا فائدہ صرف اور صرف دشمن کو ہی ہوتا ہے، میں یہ تو نہیں کہتا کہ کوئی بھی تنظیم اپنے وجود کو ختم کرکے کس دوسرے میں ضم ہوجائے مگر اپنے تنظیمی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مشترکہ موقف اختیار کریں اور مشترکہ جدوجہد کریں، تاکہ اس ملت، اس ملک اور اس پاک وطن کو اسلام دشمن طالبان کے وجود سے پاک کیا جاسکے اور ملک حقیقی معنوں میں امن کا گہوارہ بن سکے۔

حکومت اور افواج بھی اب یہ بات مستقل بنیادوں پر طے کر لیں کہ ہم اپنے ملکی مفادات کے حصول کیلئے بہتر سفارت کاری اور حکمت سے کریں گے۔ کسی بھی مسلح گروہ کو کسی بھی شکل میں برداشت نہیں کیا جائے گا اور آج کے بعد کوئی بھی گروہ ہمارہ اسٹرٹیجک پارٹنر نہیں ہوگا، اگر اس ملک کے بیگناہ عوام کے قتل عام کو روکنا ہے اور قائد اعظم کے پاکستان کی سلامتی سب سے عزیز ہے تو یہ بات طے کر لیں کہ طالبان، طالبان ہیں، ان میں اچھے اور برے کی تمیز اب ہمیشہ کیلئے ختم کر دی جائے ۔۔!

تحریر: ارشاد حسین ناصر

Add new comment