قرآن مجید اور امامت

 

اس سے قبل ہم نے آیت "الیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الاِسۡلَامُ دیناً [1] کے سلسلہ میں بحث کی تھی اور یہ بھی عرض کیا تھا کہ خود آیت کے اندر موجود قرائن اور ان کے علاوہ اس سے متعلق دوسرے آثار و شواہد، یعنی آیت کی شانِ نزول کے تحت شیعہ و سنی ذرائع سے وارد هونے والی روایات بھی یہ ظاہر کرتی هیں کہ مذکورہ آیت واقعہ غدیر خم سے تعلق رکھتی هے۔

چونکہ اس موضوع کے ذیل میں قرآن کی آیتیں ہماری بحث کا محور هیں یعنی وہ آیتیں جن سے شیعہ اس باب میں استدلال کرتے هیں لہٰذا ہم مزید دو تین آیتیں جنهیں علماء شیعہ استدلال میں پیش کرتے هیں یہاں ذکر کررهے هیں تاکہ اچھی طرح واضح هو جائے کہ استدلال کا طریقہ کیا هے؟

ان آیات میں سے ایک اسی "سورۂ مائدہ کی آیت هے جو مذکورہ بالا آیت سے تقریباً ساٹھ آیتوں کے بعد ذکر هوئی هے اور وہ یہ هے: یا ایھاالرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس (مائدہ / ۶۷) اے پیغمبر جو کچھ آپ کے پروردگار کی جانب سے آپ پر نازل هوا هے اسے لوگوں تک پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو رسالت کی تبلیغ نهیں کی اور اپنا فریضہ ادا نهیں کیا۔ خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

گفتگو آگے بڑھانے سے پہلے مقدمہ کے طور پر کچھ باتیں ذکر کرنا ضروری هیں تا کہ اس آیت کےمفاد کی وضاحت هوجائے نیز یہ مقدمہ گزشتہ آیت کے تحت بیان کئے گئے مطالب کے لئے بھی معاون و مددگار ثابت هوگا۔
اہل بیت علیہ السلام سے متعلق آیات کا خاص انداز

یہ بات واقعاً ایک اسرار کی حیثیت رکھتی هے کہ مجموعی طور پر قرآن میں اہل بیت سے متعلق آیتیں اور خصوصاً وہ آیتیں جو کم ازکم ہم شیعہ کے نقطۂ نظر سے امیرالمومنین (علیه السلام)کےبارےمیں نازل هوئی هیں، ایک خاص وضع و کیفیت کی حامل هیں۔ اور وہ یہ کہ خود اس آیت کے اندر مطلب کی حکایت کرنے والی دلیلیں اور قرائن تو پائے جاتے هیں لیکن ساتھ هی یہ کوشش بھی نظر آتی هے کہ اس بات کو دوسرے مطالب کے درمیان یا دوسری باتوں کے ضمن میں بیان کرتے هوئے گزر جایا جائے۔ اس پہلو کو جناب محمد تقی شریعتی نے اپنی کتاب " ولایت و خلافت" کی ابتدائی بحثوں میں نسبتاً اچھے انداز سے بیان کیا هے اگر چہ دوسروں نے بھی اس نکتہ کو بیان کیا هے لیکن فارسی میں شاید پہلی بار انهوں نے هی اس کا ذکر فرمایا هے۔ آخر اس کا راز کیا هے ؟ اس سوال کے جواب میں ان لوگوں کا جواب بھی هوجائے گا جو یہ کہتے هیں کہ اگر خدا چاہتا تھا کہ علی (علیہ السلام) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانشین هوں، تو پھر قرآن میں صاف صاف ان کے نام کا ذکر کیوں نهیں هے۔
آیت تطهیر

مثال کے طور پر آیت تطهیر کو لے لیں " اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللہُ لِیُذۡھِبَ عَنۡکُمُ الرِجۡسَ اَھۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَھِّرَکُمۡ تَطۡھِیۡراً " ( احزاب /۳۳) اس آیت کے بارے میں دریافت کیا جائے تو ہم کهیں گے کہ اس کا مفهوم و مطلب بالکل واضح هے۔ اللہ نے یہ ارادہ کیا هے اور وہ یہ چاہتا هے کہ (اہل بیت علیھم السلام) تم سے کثافتوں کو دور کرے، تمهیں پاک و پاکیزہ رکھے، ویطھرکم تطھیراً اور تمهیں مخصوص نوعیت اور خاص انداز میں تطهیر و پاکیزہ رکھے یا کرے۔ ظاہر هے کہ جس تطهیر کا ذکر خدا کررہا هے وہ عرفی یا طبی تطهیر نهیں هے کہ یہ کہا جائے کہ خدا تم سے بیماریوں کو دور کرنا چاہتا هے یا (معاذاللہ) کے تمہارے بدن کے امراض کے جراثیم کو زائل کررہا هے۔ ہم یہ نهیں کہنا چاہتے کہ یہ تطهیر کا مصداق نهیں هے، لیکن مسلّم طور پر جس کو خدا اس آیت میں بیان فرمارہا هے اس سے مراد پہلی منزل میں وہ تمام چیزیں هیں جنهیں خود قرآن جس کا نام دیتا هے۔ قرآن کے بیان کردہ رجس و رجز وغیرہ یعنی وہ تمام چیزیں جن سے قرآن منع کرتا اور روکتا هے اور جنهیں گناہ شمار کیا جاتا هے چاهے وہ اعتقادی گناہ هو، اخلاقی گناہ هو یا عملی گناہ، یہ سب رجس و کثافت هیں اسی بنیاد پر کہا جاتا هے کہ اس آیت سے مراد عصمت اہل بیت علیھم السلام هے یعنی ان کا ہر طرح کی کثافت اور آلودگیوں سے پاک و پاکیزہ هونا۔

فرض کیجئے کہ نہ ہم شیعہ هیں نہ سنی، بلکہ ایک عیسائی مستشرق هیں، عیسائی دنیا سے نکل کر آئے هیں اور یہ دیکھنا چاہتے هیں کہ مسلمانوں کی کتاب (قرآن)کیا کہنا چاہتی هے ہماری نظر قرآن کے اس جملہ پر پڑتی هے پھر ہم اس سے متعلق مسلمانوں کی تاریخ اور سنن و احادیث کا جائزہ لیتے هیں، ہم دیکھتے هیں کہ نہ صرف وہ فرقہ جسے شیعہ کہتے هیں اور جو اہل بیت (علیہ السلام) کا طرفدار هے بلکہ وہ فرقے بھی جو اہل بیت (علیہ السلام) کے کوئی خصوصی طرفدار نهیں هیں اپنی معتبر ترین کتابوں میں جب اس آیت کی شان نزول بیان کرتے هیں تو اسے اہل بیت علیھم السلام پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت قرار دیتے هیں، اور کہتے هیں کہ جس واقعہ کے تحت یہ آیت نازل هوئی اس میں حضرت علی (علیه السلام)، حضرت فاطمہ(علیها السلام)، حضرت حسن (علیه السلام)، حضرت حسینِ (علیه السلام)، اور خود حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود تھے اور اہل سنت کی احادیث میں هے کہ جب یہ آیت نازل هوئی تو زوجۂ رسول اکرم(ص) ام سلمہ [2] آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) " اہل بیت (علیہ السلام)" میں میرا بھی شمار هے یا نهیں؟ آپ نے فرمایا تم خیر پر هو لیکن ان میں شامل نهیں هو۔ عرض کرچکا هوں کہ اہل سنت کی روایات میں اس واقعہ کے حوالے ایک دو نهیں بلکہ بہت زیادہ هیں۔

یهی آیت ہمیں اپنے مفهوم سے مختلف دوسری آیات کے درمیان نظر آتی هے۔ اس سے قبل و بعد کی آیتیں ازواجِ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق هیں۔ اس سے پہلے کی آیت یہ هے " یَا نِسَاءَ النَّبِیّ لَستُنَّ کَاَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ"[3] اے ازواج پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)!تم دوسری عورتوں جیسی نهیں هو تم اور دوسری عورتوں میں فرق هے، ( یقیناً قرآن یہ نهیں کہنا چاہتا کہ تم دوسروں پر امتیاز رکھتی هو )۔ تمہارا گناہ دگنا اور دُہرا هے کیونکہ اگر تم گناہ کرو گی تو ایک گناہ تو یہ هے کہ تم نے وہ عمل بد انجام دیا اور دوسرے یہ کہ اپنے شوہر کی رسوائی کی مرتکب هوئیں۔ اس طرح دو گناہ تم سے سر زد هوئے۔ یوں هی تمہارے نیک اعمال بھی دوہرا اجر رکھتے هیں کیو نکہ تمہارا ہر عمل خیر دو عمل کے برابر هے۔ بلکل یوں هی جیسے کہا جاتا هے کہ سادات کرام کے کار خیر کا ثواب اور بُرے عمل کا گناہ دُہرا هے۔ اس کا یہ مطلب نهیں هے کہ دوسروں کے مقابلہ میں ان کا ایک گناہ سنگین هوجاتا هے اور فرق رکھتا هے۔ بلکہ ان کا ایک گناہ دو گناہ هوجاتا هے۔ مثال کے طور پر ایک سید (معاذاللہ) شراب پیئے۔ تو وہ شراب پینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے عمل کا بھی مرتکب هوا هے، اور وہ یہ کہ چونکہ وہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آل پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منسوب هے لہٰذا اپنی شراب نوشی کے ذریعہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہتک و رسوائی کا مرتکب بھی هوا هے۔ اگر کوئی شخص یہ دیکھے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد اس قدر کھلم کھلا ان کے حکم کے خلاف عمل کر رهی هے تو اس کی روح پر اس کا بڑا گہرا اثر هوگا۔

ان آیات میں تمام ضمیریں مؤنث کی استعمال هوئی هیں " لَسۡتُنَّ کَاَحِدٍ مِنۡ النِّسَاءِ اِن اتَّقَیۡتُنَّ " ٓصاف ظاہر هے کہ اس سے مراد ازواج پیغمبر اکرم (ص ) هیں۔ دو تین فرقوں کے بعد یک بیک ضمیر مذکر هوجاتی هے اور ہم اس آیت کی تلاوت کرتے هیں، " اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللہُ لِیُذۡھِبَ عَنۡکُم ( عَنکُنَّ نهیں هے ) الرِّجۡسَ اَھۡلَ الۡبیۡتِ وَ یُطَھِّرَکُمۡ تَطۡھِیۡراً"اس کے بعد دوبارہ مؤنث کی ضمیریں استعمال هونے لگتی هیں قرآن کا کوئی لفظ عبث اور غلط نهی هے۔ اولاً یہاں کلمہ "اہل البیت " استعمال هوا هے۔ اوراس کے پہلے ازواج رسول کا تذکرہ هے " یانِسَاءَ النبَّی " یعنی " نساء النبی " کا عنوان " سے "اہل البیت " میں تبدیل هوگیا اور دوسرے مؤنث کی ضمیر مذکر میں تبدیل هوگئی یہ سب لغو اور عبث نهیں هے۔ ضرور کوئی دوسری چیز هے۔ یعنی قرآن گذشتہ آیات سے الگ کوئی دوسری بات کہنا چاہتا هے۔ آیت تطهیر سے قبل و بعد کی آیتوں میں ازواج پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے حکم، دھمکی اور خوف و رجاء کا انداز پایا جاتا هے: وَقَرۡنَ فِی بُیُوۡتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاھِلِیَّۃ " اپنے گھروں میں رهو اور زمانہ جاہلیت کے مانند اپنے بناؤ سنگھار کو دکھاتی نہ پھرو۔ گویا ایک کے بعد ایک حکم اور تہدید و دھمکی هے۔ ساتھ هی خوف و رجاء بھی هے کہ اگر نیک اعمال بجالاؤ گی تو ایسا هوگا اوراگر بُرے اعمال کروگی تو ویسا هوگا۔

یہ آیت یعنی (آیت تطهیر) مدح سے بالاتر ایک بات هے قرآن اس میں اہل بیت علیھم السلام کی گناہ و معصیت سے پاکیزگی اور طہارت کے مسئلہ کو بیان کرنا چاہتا هے۔ اس آیت کا مفهوم اس سے پہلے اور بعد کی آیتوں کے مفهوم و مطلب سے ایک دم الگ ہے۔ یہاں اہل بیت (علیهم السلام) سے خطاب هورہا ہے اور وہاں ازدواج رسول(ص) سے۔ یہاں مزکر کی ضمیر ہے اور وہاں مؤنث کی۔ لیکن یهی آیت (تطهیر)جس کا مفهوم و مطلب پہلے اور بعد کی آیتوں سے اس قدر مختلف هے، ان آیت کے درمیان میں قراردی گئی هے۔ اس کی مثال اس شخص کے مانند هے جو اپنی گفتگو کے دوران الگ سے ایک بات کہہ کر گفتگو کے سلسلہ کو پھر جوڑ دیتا هے۔ اور اپنی بات جاری رکھتا هے یهی وجہ هے کہ ائمہ علیہم السلام کی روایات میں بڑی تاکید سے یہ بات کهی گئی هے کہ ممکن هے قرآنی آیات کی ابتدا میں کوئی ایک مطلب بیان هوا هو۔ درمیان میں کوئی دوسرا مطلب اور آخر میں کوئی تیسری بات کهی گئی هو۔ اور قرآن کی تفسیر کے مسئلہ کو ان حضرات نے جو اتنی اہمیت دی هے اس کا سبب بھی یهی هے۔

یہ بات صرف ہماری روایات اور ائمہ کے ارشادات میں هی نهیں پائی جاتی بلکہ اہل سنت حضرات نے بھی ان تمام مطالب کو نقل کیا هے "اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللہُ لِیُذۡھِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ …… " اپنے پہلے اور بعد کی آیتوں سے فرق رکھتی هے۔ اس آیت کا مضمون اور اس کے مخاطب بھی الگ هیں یہ آیت ان هی لوگوں سے متعلق هے جو اس واقعہ (کساء) میں شامل هیں۔

دوسرا نمونہ

آیت "اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ " میں بھی ہمیں یهی بات نظر آتی هے۔

بلکہ یہاں مذکورہ بالا آیت تطهیر سے زیادہ عجیب انداز نظر آتا هے۔ اس سے پہلے کی آیت میں بہت هی سادے اور معمولی مسائل ذکر کئے گئے هیں"اُحِلَّتۡ لَکُم بَھِیمَۃُ الۡاَنۡعَامِ "[4] چوپایوں کا گوشت تمہارے لئے حلال هے، ان کا تزکیہ یوں کرو اور اگر مردار هو تو حرام هے۔ وہ جانور جنهیں تم دم گھونٹ کر مار ڈالتے هو (مُنۡخَنِقَۃ) حرام هیں اور وہ جانور جو ایک دوسرے کے سینگ مارنے سے مرجاتے هیں ان کا گوشت حرام هے اور……پھر یک بیک ارشاد هوتا هے "اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡھُمۡ وَاخۡشَوۡنِ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُم وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡناً " اس کے بعد دوبارہ مسائل کا ذکر شروع هوجاتا هے جو پہلے بیان هورهے تھے مذکورہ آیت کے یہ جملے اپنے پہلے اور بعد کی آیتوں سے سرے سے میل نهیں کھاتے۔ یعنی یہ اس بات کی نشاندھی هے کہ یہ وہ بات هے جو دوسرے مطالب کے درمیان الگ سے سر سری طور پر بیان کردی گئی هے اور پھر اسے ذکر کر کے آگے بڑھ گئے هیں۔ اس وقت ہم جس آیت کا ذکر کرنا چاہتے هیں (آیت بَلِّغ) اس کا بھی یهی حال هے، یعنی وہ بھی ایسی آیت هے کہ اگر ہم اس سے پہلے اور بعد کی آیات کے درمیان سے نکال دے تو بھی اُن آیتوں کا ربط کسی طرح نهیں ٹوٹ سکتا۔ جیسا کہ آیت "الیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ " کو اس کی جگہ سے ہٹادیں تو اس سے پہلے اور بعد کی آیتوں میں کوئی خلل واقع نهیں هوتا یوں هی زیر بحث آیت میں دوسری آیت کے درمیان ایک ایسی آیت هے نہ اسے ما قبل کی آیتوں سے متعلق کہا جاسکتا هے اور نہ مابعد کی آیتوں کا مقدمہ، بلکہ اس میں ایک دم الگ سے بات کهی گئی هے۔ یہاں بھی خود آیت میں موجود قرائن اور شیعہ و سنی روایات اسی مطلب کی حکایت کرتی نظر آتی هیں، لیکن اس آیت کو بھی قرآن نے ایسے مطالب کے درمیان رکھا هے جو اس سے دور کا بھی واسطہ نهیں رکھتے اس میں ضرور کوئی راز هوگا، آخر اس کا راز کیا هے؟

اس مسئلہ کا راز: اس میں جو راز پوشیدہ هے، خود قرآن کی آیت کے اشارء سے بھی ظاہر هے اور ہمارے ائمہ (علیہم السلام) کی روایات میں بھی اس کی طرف اشارہ پایا جاتا هے۔ اور وہ یہ هےکہ اسلام کے تمام احکام و دستورات میں آلِ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مسئلہ یعنی امیر المومنین (علیہ السلام) کی امامت اور خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیت هی ایسا مسئلہ اور ایسا حکم تھا جس پر بدقسمتی سے سب سے کم عمل هوسکا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ اہل عرب اپنی روح کی گہرائیوں میں تعصبات رکھتے تھے جس کے سبب ان میں اس مطلب کے قبول کرنے اور ا س پر عمل پیرا هونے کی آمادگی بہت هی کم نظر آتی تھی اگر چہ پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں امیرالمومنین (علیه السلام) سے متعلق حکم پہنچتے تھے لیکن حضرت علیہ السلام ہمیشہ اس تردد میں رہتے تھے کہ اگر میں حکم بیان کردوں تو وہ منافقین جن کا ذکر قرآن برابر کرتا رھا هے کہنے لگیں گے کہ دیکھو ! پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کنبہ نوازی سے کام لے رهے هیں۔ جبکہ پوری زندگی پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ شیوہ رہا هے کسی مسئلہ میں اپنے لئے کسی خصوصیت کے قائل نہ هوئے۔ ایک تو آپ کا اخلاق ایسا تھا، دوسرے اسلام کا حکم هونے کی بناپر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات سے غیر معمولی طور پر گریز کرتے تھے کہ اپنے اور دوسروں کے درمیان کوئی امتیاز برتیں اور یهی پہلو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کامیابی کا سب سے بڑا سبب تھا۔

یہ مسئلہ (یعنی اس حکم کی تبلیغ کہ علی (علیه السلام) میرے جانشین هیں) خدا کا حکم تھا، لیکن پیغمبر(ص) جانتے تھے کہ اگر اسے بیان کردیں تو ضعیف الایمان افراد کا گروہ جو ہمیشہ رہا هے، کہنے لگے گا کہ دیکھو! پیغمبر(ص) اپنے لئے عظمت و امتیاز پیدا کرنا چایتے هیں۔ آیت"اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ"میں ہم نے دیکھا کہ اس سے قبل کی آیت "اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡھُمۡ وَاخۡشَوۡنِ " تھیَ۔ جس میں قرآن فرماتا هے کہ اب کافروں کی امیدیں تمہارے دین سے منقطع هوچکی هیں۔ مطلب یہ هے کہ یہ لوگ اسلام کے خلاف اب تک جو جد وجہد کررهے تھے کہ اس دین پر کامیاب هوجائیں گے ان کی یہ امیدیں ٹوٹ چکی هیں اور وہ مایوس هوچکے هیں۔ وہ یہ سمجھ گئے هیں کہ اسبان کے بگاڑے کچھ بگڑ نهیں سکتا۔ "فَلَا تَخۡشَوھُمۡ " لہٰذا اب کافروں کی جانب سے کسی طرح کا خوف وخطر نہ رکھو "وَاخۡشَوۡنِ " لیکن مجھ سے ڈرتے رهو۔ میں عرض کرچکا هوں کہ اس کامطلب هے اس بات سے ڈرتے رهو کہ اگر تم میں خود اندرونی طور پر خرابیاں پیدا هوئیں تو میں اپنی سنت اور قانون کے مطابق یعنی جب بھی کوئی قوم (فساد اور بُرائی میں پڑ کر) اپنی راہ بدلتی هے میں بھی ان سے اپنی نعمت سلب کرلیتا هوں۔ (نعمت اسلام کو تم سے سلب کرلوں گا) یہاں "وَاخۡشَوۡنِ" کنایہ هے۔ مجھ سے ڈرو کا مطلب یہ هے کہ اپنے آپ سے ڈرو یعنی اب خطرہ اسلامی معاشرہ کے اندر سے هے باہر سے کوئی خطرہ نهیں رہ گیا هے۔ دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے هیں کہ یہ آیت سورۂ مائدہ کی هے اور سورۂ مائدہ پیغمبر اکرم (ص) پر نازل هونے والا آخری سورہ هے۔ یعنی یہ آیت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے دو تین ماہ پہلے نازل هونے والی آیتوں میں سے هے جب اسلام طاقت واقتدار کے اعتبار سے وسعت پاچکا تھا۔

جو آیت ہماری بحث کا محور هے اورجسے میں پہلے بھی عرض کرچکا هوں، اس میں بھی یهی بات نظر آتی هے کہ خطرہ داخلی طور پر هے خارجی طور پر کسی طرح کا خطرہ باقی نهیں رہا۔ ارشاد هے :"یَااَیّھَا الرَّسُولُ بَلِّغۡ مَااُنۡزِِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَبِّکۡ وَاِنۡ لَمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہ وَاللہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ" ہمیں قرآن میں اس آیت کے علاوہ کوئی اور آیت نظر نهیں آتی جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (کسی عمل کی انجام دهی کے لئے) آمادہ کرے اور شوق دلائے۔ اس کی مثال ایسی ھی ھے جیسے آپ کسی کو کسی کام کے لے تشویق کیجیئے اور وہ اس کے لیئے ایک قدم آگے بڈھے پھر ایک قدم پیچھے ھٹ جائے جیسے وہ خطرے یا تزبزب کا شکار ھے۔ یہ آیت بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبلیغ کی دعوت دیتی هے اوراس تبلیغ کے سلسلہ میں ایک طرف دھمکی دیتی هے اور دوسری طرف شوق پیدا کراتی اور تسلّی دیتی هے۔ دھمکی یہ هے کہ اگر اس امر کی تبلیغ تم نے نهیں کی تو تمہاری رسالت کی تمام خدمت اکارت اور بے کار هے اور تسلّی یوں دی جاتی هے کہ ڈرو نهیں! خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ وَاللہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ" آیت "اَلیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡھُمۡ" میں فرمایا آپ کافروں سے خوف زدہ نہ هو۔ در حقیقت پہلی منزل میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافروں سے نهین ڈرنا چاہئے۔ لیکن آیت "یَااَیُّھَا الرَّسُول…… سے یہ ظاہر هوتا هے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمناک اور فکر مند تھے۔ پس ظاہر هے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ تردد و فکر مندی مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے افراد سے هے۔ مجھے فی الحال اس سے سروکار نهیں هے کہ مسلمانوں میں وہ لوگ (جو اس تبلیغ یعنی علی (علیہ السلام) کی جانشینی قبول کرنے پر تیار نهیں تھے) باطنی طور پر کافر تھے یا نهیں تھے۔ بہر حال یہ مسئلہ کچھ ایسا تھا کہ وہ لوگ اس کے لئے آمادہ اور اسے قبول کرنے پر تیار نهیں تھے۔
تاریخی مثالیں

اتفاق سے تاریخی واقعات اور اسلامی معاشرہ کے مطالعہ سے بھی یهی بات ظاہر هوتی هے چنانچہ عمر نے کہا کہ: ھم نے جو علی (علیہ السلام) کو خلافت کے لئے منتخب نهیں کیا وہ "حِیۡطَۃً عَلیٰ الاِسلَام " تھا، یعنی ہم نے اسلام کے حق میں احتیاط سے کام لیا کیونکہ لوگ ان کی اطاعت نهیں کرتے اور انهیں (خلیفہ) نهیں مانتے!! یا ایک دوسری جگہ ابن عباس سے گفتگو کے دوران ان سے کہا: قریش کی نگاہ میں یہ عمل صحیح نهیں تھا کہ امامت بھی اسی خاندان میں رهے جس خاندان میں نبوت تھی۔ مطلب یہ تھا کہ نبوت جب خاندان بنی ہاشم میں ظاہر هوئی تو فطری طور پر یہ اس خاندان کے لئے امتیاز بن گئی لہٰذا قریش نے سوچا کہ اگر خلافت بھی اسی خاندان میں هوگی تو سارے امتیازات بنی ہاشم کو حاصل هوجائیں گے۔ یهی وجہ تھی کہ قریش کو یہ مسئلہ (خلافت امیرالمومنین) ناگوار تھا اور وہ اسے درست نهیں سمجھتے تھے۔ ابن عباس نے بھی ان کو بڑے هی محکم جواب دیئے اور اس سلسلہ میں قرآن کی دو آیتیں پیش کیں جوان افکار و خیالات کا مدلّل جواب هیں۔

بہر حال اسلامی معاشرہ میں ایک ایسی وضع و کیفیت پائی جاتی تھی جسے مختلف عبارتوں اور مختلف زبانوں میں بیان کیا گیا هے۔ قرآن اُسے ایک صورت اور ایک انداز سے بیان کرتا هے اور عمر اسی کو دوسری صورت سے بیان کرتے هیں یا مثال کے طور پر لوگ یہ کہتے تھے کہ چونکہ علی علیہ السلام نے اسلامی جنگوں میں عرب کے بہت سے افراد اور سرداروں کو قتل کیا تھا، اور اہل عرب فطرتاً کینہ جو هوتے هیں لہٰذٓ مسلمان هونے کے بعد بھی ان کے دلوں میں علی سے متعلق پدر کشی اور برادر کشی کا کینہ موجود تھا (لہٰذا علی علیہ السلام خلافت کے لئے مناسب نهیں هیں) بعض اہل سنت بھی اسی پہلو کو بطور عذر پیش کرنے کی کوشش کرتے هیں۔ چنانچہ وہ کہتے هیں کہ یہ سچ هے کہ اس منصب کے لئے علی (علیه السلام) کی افضلیت سب پر نمایاں اور ظاہر تھی لیکن ساتھ هی یہ پہلو بھی تھا کہ ان کے دشمن بہت تھے۔

بنابر ایں اس حکم سے سرتابی کے لئے ایک طرح کے تکدر وتردد کی فضا عہد پیغمبر میں هی موجود تھی اور شاید قرآن کا ان آیات کو قرائن و دلائل کے ساتھ ذکر کرنے کا راز یہ هے کہ ہر صاف دل اور بے غرض انسان حقیقی مطلب کو سمجھ جائے لیکن ساتھ هی قرآن یہ بھی نهیں چاہتا کہ اس مطلب کو اس طرح بیان کرے کہ اس سے انکار و رو گردانی کرنے والوں کا انحراف قرآن اور اسلام سے انحراف و انکار کی شکل میں ظاہر هو۔ یعنی قرآن یہ چاہتا هے کہ جو لوگ بہر حال اس مطلب سے سرتابی کرتے هیں ان کا یہ انحراف قرآن سے کھلّم کلھلّا انحراف و انکار کی شکل میں ظاہر نہ هو بلکہ کم از کم ایک ہلکا سا پردہ پڑا رهے۔ یهی وجہ هے جو ہم دیکھتے هیں کہ آیت تطهیر کو ان آیات کے درمیان میں قرار دیا گیا هے لیکن ہر سمجھدار، عقلمند اور مدبّر انسان بخوبی سمجھ جاتا هے کہ یہ ان سے الگ ایک دوسری هی بات هے۔ اسی طرح قرآن نے آیت "الیَومَ اکملت" اور آیت "یَااَیَّھَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ " کو بھی اسی انداز میں دوسری آیتوں کے درمیان ذکر کیا۔
آیت اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ

اس سلسلہ میں بعض ایسی آیتیں بھی هیں جو انسان کو سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کردیتی هیں کہ یہاں ضرور کوئی خاص بات ذکر کی گئی هے اور بعد میں متواتر احادیث و روایت سے بات ثابت هوجاتی هے۔ مثال کے طور پر آیت "اِنَّمَا وَلِیُّکمُ اللہُ وَرَسُولُہ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلوٰ ۃَ وَیُؤتُونَ الذَّکوٰۃَ وَھُمۡ رَاکِعُوۡنَ" (مائدہ/ ۵۵) عجیب تعبیر هے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ " تمہارا ولی خدا هے اور ان کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان هیں جو نماز قائم کرتے هیں اور حالتِ رکوع میں زکوٰۃ ادا کرتے هیں۔ حالت رکوع میں زکوٰۃ دینا کوئی معمولی عمل نهیں هے جسے ایک اصل کلی کے طور پر ذکر کیا جائے بلکہ یہ مطلب و مفهوم کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ کررہا هے۔ یہاں اس کی تصریح و وضاحت بھی نهیں کی گئی هے کہ اس سے سرتابی دوست و دشمن کے نزدیک براہِ راست قرآن سے روگردانی شمار کی جائے۔ لیکن ساتھ هی کمالِ فصاحت کے ساتھ اسے اس انداز سے بیان بھی کردیا گیا هے کہ ہر صاف دل اور منصف مزاج انسان سمجھ جائے کہ یہاں کوئی خاص چیز بیان کی گئی هے اور کسی اہم قضیہ کی طرف اشارہ کیا جارہا هے۔

الَّذِیۡنَ یُؤتُوۡنَ الزَّکوٰ ۃَ وَھُمۡ رَاکِعُونَ۔ وہ لوگ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دیتے هیں "یہ کوئی عام سی بات نهیں هے بلکہ ایک غیر معمولی واقعہ هے جو وجود میں آگیا۔ آخر یہ کون سا واقعہ تھا ؟ ہم دیکھتے هیں کہ بلا استثناء تمام شیعہ و سنی روایات کہتی هیں کہ یہ آیت حضرت علی بن ابی طالب (علیه السلام) کے بارے میں نازل هوئی هے۔
عرفاء کی باتیں

دوسری آیتیں بھی هیں جن پر گہرائی کے ساتھ غور وفکر سے مطلب واضح اور حقیقت روشن هوتی هے۔ یهی وجہ هے کہ عرفاء ایک زمانہ سے اس سلسلہ میں اظہارِ خیال کرتے رهے هیں۔ در اصل یہ شیعی نقطۂ نظر هے۔ لیکن عرفاء نے اسے بڑے حسین انداز میں بیان کیا هے وہ کہتے هیں کہ امامت و ولایت کا مسئلہ باطن شریعت سے تعلق رکھتا هے۔ یعنی وهی اس تک رسائی حاصل کرسکتا هے جو کسی حد تک شریعت اور اسلام کی گہرائیوں سے آشنا هو یعنی اس نے پوست اور چھلکے سے گزر کر اس کے مغز و جوہر تک رسائی حاصل کرلی هو اور بنیادی طور پر اسلام میں امامت و ولایت کا مسئلہ لُبّی اور اصل مسئلہ رہا هے یعنی بہت مدیرانہ فکر عمیق رکھنے والے افراد هی اسے درک اور سمجھ سکے هیں۔ دوسروں کو بھی اس گہرائی کے ساتھ غور وفکر کی دعوت دی گئی هے۔ یہ اور بات هے کہ کچھ لوگ اس مفهوم تک پہنچتے هیں اور کچھ نهیں پہنچ پاتے۔

اب ہم اس سے متعلق بعض دیگر آیات پر توجہ دیتے هیں ہمارا مقصود یہ هے کہ شیعہ جو دلائل پیش کرتے هیں ہم ان سے آگاہ هوں اور ان کی منطق کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
امامت شیعوں کے یہاں نبوّت سے ملتا جلتا مفهوم

قرآن میں ایک آیت ھے جو ان ھی مزکورہ آیات کے سلسلہ کا ایک حصہ بھی هے اور بظاہر عجیب آیت هے۔ البتہ یہ خود امیرالمومنین(علیہ السلام) کی ذات سے متعلق نهیں هے بلکہ مسئلۂ امامت سے متعلق هے، ان هی معنٰی میں هے جسے ہم ذکر کرچکے هیں اور یہاں اشارتاً اسے دوبارہ ذکر کرتے هیں۔

ہم کہہ چکے هیں کہ عہد قدیم سے هی اسلامی متکلمین کے درمیان ایک بہت بڑا اشتباہ موجود رہاهے اور وہ یہ کہ انهوں نے اس مسئلہ کو اس انداز میں اٹھایا هے کہ : امامت کے شرائط کیا هیں ؟ انهوں نے مسئلہ کو یوں فرض کیا کہ امامت کو ہم بھی قبول کرتے هیں اور اہل سنت بھی لیکن اس کے شرائط کے سلسلہ میں ہم دونوں میں اختلاف پایا جاتا هے؛ ہم کہتے هیں شرائط امام یہ هیں کہ وہ معصوم هو اور منصوص هو یعنی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے معیّن و مقرر کیا گیا هو۔ اور وہ کہتے هیں ایسا نهیں هیں جب کہ شیعہ جس امامت کا عقیدہ رکھتے هیں، اہل سنت سرے سے اس کے معتقد نهیں هیں اہل سنت امامت کے عنوان سے جس چیز کا عقیدہ رکھتے هیں وہ امامت کی دنیوی حیثیت هے جو مجموعی طور سے امامت کا ایک پہلو هے جیسے نبوت کے سلسلہ میں هے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک شان یہ بھی تھی کہ وہ مسلمانوں کے حاکم تھے لیکن نبوّت خود حکومت کے مساوی اور ہم پلّہ نهیں هے۔ نبوت خود ایک ایسی حقیقت اور ایسا منصب هے جس کے ہزاروں پہلو اور ہزاروں معانی و مطالب هیں۔ پیغمبر کی شان یہ هے کہ اس کی موجودگی میں کوئی اور مسلمانوں کا حاکم نهیں هوسکتا۔ وہ نبی هونے کے ساتھ مسلمانوں کا حاکم بھی هے، اہل سنت کہتے هیں کہ امامت کا مطلب حکومت هے اور امام وهی هے جو مسلمانوں کے درمیان حاکم هو، یعنی مسلمانوں میں کی ایک فرد جسے حکومت کے لئے انتخاب کیا جائے گویا یہ لوگ امامت کے سلسلہ میں حکومت کے مفهوم سے آگے نهیں بڑھے۔ لیکن یهی امامت شیعوں کے یہاں ایک ایسا مسئلہ هے جو بالکل نبوت کے هی قائم مقام قدم بقدم هے بلکہ نبوت کے بعض درجات سے بھی بالاتر هے یعنی انبیاء اولوالعزم وهی هیں جو امام بھی هیں۔ بہت سے انبیاء امام تھے هی نهیں۔ انبیاء اولوالعزم اپنے آخری مدارج میں منصب امامت پر سرفراز هوئے هیں۔

غرض یہ کہ جب ہم نے اس حقیقت کو مان لیا کہ جب تک پیغمبر موجود هے کسی اور کے حاکم بننے کا سوا هی نهیں اٹھتا۔ کیونکہ وہ بشریت سے مافوق ایک پہلو کا حامل هے، یوں هی جب تک امام موجود هے حکومت کے لئے کسی اور کی بات هی پیدا نهیں هوتی۔ جب وہ نہ هو (چاهے یہ کهیں کہ بالکل سے موجود هی نهیں هے یا ہمارے زمانہ کی طرح نگاهوں سے غائب هے) اس وقت حکومت کا سوال اٹھتا هے کہ حاکم کون هے؟ ہمیں مسئلہ امامت کو مسئلۂ حکومت میں مخلوط نهیں کرنا چاہئیے کہ بعد میں یہ کہنے کی نوبت آئے کہ اہل سنت کیا کہتے هیں اور ہم کیا کہتے هیں۔ یہ مسئلہ هی دوسرا هے۔ شیعہ کے یہاں امامت بالکل نبوت سے ملتا جلتا ایک مفهوم هے اور وہ بھی نبوت کے عالی ترین درجات سے۔ چنانچہ ہم شیعہ امامت کے قائل هیں اور وہ سرے سے اس کے قائل نهیں هیں۔ یہ بات نهیں هے کہ قائل تو هیں مگر امام کے لئے کچھ دوسرے شرائط تسلیم کرتے هیں۔
امامَت ابراهیم علیہ السلام کی ذرّیت میں

یہاں ہم جس آیت کی تلاوت کرنا چاہتے هیں وہ امامت کے اُسی مفهوم کو ظاہر کرتی هے جسے شیعہ پیش کرتے هیں۔ شیعہ کہتے هیں، اس آیت سے یہ ظاہر هوتا هے کہ امامت ایک الگ هی حقیقت هے، جو نہ صرف پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بلکہ انبیاء ماسلف کے زمانے میں بھی موجود رهی هے اور یہ منصب حضرت ابراهیم کی ذرّیت میں تا صبح قیامت باقی هے وہ آیت یہ هے: "وَاِذِابۡتَلیٰ اِبۡرَاھِیۡمَ ربُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَاَتَمَّھُنَّ قَالَ اِنَّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماً قَالَ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ قَالَ لَا یَنَالُ عَھۡدِی الظَّالِمِیۡنَ"[5] جب خداوند عالم نے چند امور و احکام کے ذریعہ ابراهیم کو آزمایا اور وہ ان آزمائشوں میں پورے اُترے تو (خدا نے) فرمایا:میں بلا شبہ تمهیں لوگوں کا امام بناتا هوں (ابراهیم علیہ السلام نے) کہا: اور میری ذرّیت سے: فرمایا؛ میرا عھد ظالموں تک نهیں پهونچے گا۔
ابراهیم معرض آزمائش میں
حجاز کی جانب ہجرت کا حکم

خود قرآن حکیم نے جناب ابراهیم علیہ السلام کی آزمائشوں سے متعلق بہت سے مطالب ذکر کئے هیں۔ نمرود اور نمرودیوں کے مقابلہ میں ان کی استقامت و پائداری کہ نارِ نمرودی میں جانے سے نہ ہچکچائے اور ان لوگوں نے انهیں آگ میں ڈال بھی دیا اور اس کے بعد پیش آنے والے دوسرے واقعات۔ ان هی آزمائشوں میں خداوند عالم کا ایک عجیب و غریب حکم یہ بھی تھا جسے بجالانا سوائے اس شخص کے جو خدا کے حکم کے سامنے مطلق تعبّد و بندگی کا جذبہ رکھتا هو اور بے چون و چرا سرِ تسلیم خم کردے کسی اور کے بس کی بات نهیں هے۔ ایک بوڑھا جس کے کوئی اولاد نہ هو اور ستّر اسّی سال کے سن میں پہلی مرتبہ اس کی زوجہ ہاجرہ صاحب اولاد هوتی هے اور ایسے میں اسے حکم ملتا هے کہ شام سے ہجرت کرجاؤ اور حجاز کے علاقہ میں اس مقام پر جہاں اس وقت خانۂ کعبہ هے، اپنی اس بیوی اور بچہ کو چھوڑدو اور خود وہاں سے واپس چلے آؤ۔ یہ حکم سوائے مطلق طور پر تسلیم و رضا کی منطق کے کہ چونکہ یہ حکم خدا هے لہٰذا میں اس کی اطاعت کررہا هوں (جسے حضرت ابراهیم نے محسوس کیا تھا کیونکہ آپ پر وحی هوتی تھی) کسی اور منطق سے میل نهیں کھاتا۔

"رَبَّنَا اِنِّیۡ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرَ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ المُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیۡمُوۡاالصَّلاۃ" [6] پروردگارا : میں نے اپنی ذرّیت کو اس بے آب گیاہ وادی میں تیرے محترم گھر کے نزدیک ٹھرا دیا تاکہ یہ لوگ نماز ادا کریں البتہ آپ خود وحی الٰهی کے ذریعہ یہ جانتے تھے کہ انجام کار کیا هے ؟ لیکن منزل امتحان سے بخوبی گزر گئے۔
بیٹے کو ذبح کردو

ان سب سے بالا تر بیٹے کو ذبح کرنے کا مرحلہ هے۔ آپ کو حکم دیا جاتا هے کہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کو منیٰ میں ذبح کردو۔ وهیں جہاں آج ہم جناب ابراهیم علیہ السلام کی اس بے مثال اطاعت و بندگی اور تسلیم و رضا کی یاد میں جانوروں کی قربانی کرتے هیں (چونکہ خدا نے حکم دیا هے لہٰذا انجام دیتے هیں۔ یہاں چون و چرا کی گنجائش نهیں هے۔) دو تین مرتبہ جب خواب کے عالم میں آپ پر وحی هوتی هے اور آپ کو یقین هوجاتا هے کہ یہ وحی پروردگار هے تو اپنے بیٹے کے سامنے یہ بات رکھتے هیں اور اس سے مشورہ کرتے هیں۔ بیٹا بھی بلا کسی حیل وحجت اور بہانے کے کہتا هے: " یَا اَبَتِ افۡعَلۡ مَاتُؤۡمَرُ " اے پدر بزرگوار جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا هے اسے بجالائیے "سَتَجِدُنِیۡ اِنۡ شَاءَ اللہُ مِنَ الصَّابِرِیّنَ " [7] آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ قرآن کیسا عجیب اور حیرت انگیز منظر پیش کرتا هے:" فَلَمَّا اَسۡلَمَا " جب یہ دونوں تسلیم هوگئے یعنی جب انهوں نے ہمارے حکم کے آگے مکمل طور پر اطاعت و بندگی کا اظہار کیا: " وَ تَلَّہ لِلۡجَبِیۡنِ " اور ابراهیم نے اپنے فرزند کو پیشانی کے بھل لٹایا (یعنی اس آخری مرحلہ پر پہنچ گئے جہاں نہ ابراهیم علیہ السلام کو بیٹے کے ذبح کرنے میں شک رہا اور نہ اسماعیل علیہ السلام کو ذبح هوجانے میں کوئی شبہ باقی رہا باپ بھی اطمینانِ کامل کی منزل پر اور بیٹا بھی یقینِ کامل کے درجہ پر) " وَنَا دَیۡنَاہُ انۡ یا اِبۡرَاهِیمُ قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّؤۡیَا"[8] تو ہم نے ندادی اور وحی کی کہ اے ابراهیم علیہ السلام تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ یعنی ہمارا مقصد فرزند کو ذبح کرنا نهیں تھا۔ ہم نے نهیں چاہا تھا کہ اسماعیل علیہ السلام ذبح کردیئے جائیں، یہ نهیں فرمایا کہ اس حکم کو عملی طور پر انجام دینا لازمی نهیں هے بلکہ فرمایا تم نے انجام دے دیا، کام ختم هوگیا، کیونکہ ہم یہ نهیں چاہتے تھے کہ اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کردیا جائے بلکہ ہمارا مقصد اسلام و تسلیم کی نمود اور تم دونوں باپ بیٹوں کی تسلیم و رضا کا اظہار تھا جو انجام پا گیا۔

قرآن کے مطابق خدا وند عالم نے جناب ابراهیم علیہ السلام کو عالم پیری میں نعمت اولاد سے نوازا۔ قرآن حکایت کرتا هے کہ جب فرشتوں نے آکر ان کو یہ خبر دی کہ خداوند عالم آپ کو فرزند عطا کرے گا تو ان کی زوجہ نے فرمایا :" ءاَلِدُ وَاَنَا عَجُوۡز وَ ھٰذا بَعۡلِیۡ شَیۡخاً…… " میں بوڑھی عورت صاحب اولاد هوں گی جب کہ یہ میرا شوہر بھی، بوڑھا هے؟ "قَالُوۡا اَتَعۡجَبِیۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللہِ رحۡمَتُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ، عَلَیۡکُمۡ اَھۡلَ البَیۡتِ " [9] فرشتوں نے ان سے کہا، کیا آپ کو امر خدا پر تعجب هے ؟ اے اہل بیت (علیھم السلام) آپ پر خدا کی رحمتیں اور اس کی برکتیں هیں۔ بنابر ایں خداوند عالم نے ابراهیم علیہ السلام کو بوڑھاپے میں اولاد عطا کی جب تک جوان تھے صاحب اولاد نهیں تھے آپ اس وقت صاحب اولاد هوئے جب منصب پیغمبری پر فائز هوچکے تھے۔ کیونکہ جناب ابراهیم علیہ السلام کے بارے میں قرآن کے اندر بہت سی آیتیں هیں جن سے ظاہر هوتا هے کہ جناب ابراهیم علیہ السلام کے پیغمبر هونے کے سالہا سال کے بعد زندگی کے آخری ایام یعنی ستّر اسّی سال کے سِن میں خداوند عالم انهیں نعمتِ اولاد سے نوازتا هے اور آپ اس کے دس بیس سال بعد تک زندہ بھی رہتے هیں یہاں تک کہ جناب اسماعیل علیہ السلام و جناب اسحٰق علیہ السلام بڑے هوجاتے هیں اور جناب اسماعیل علیہ السلام تو ان کی حیات میں اتنے بڑے هوجاتے هیں کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر سے اپنے پدر بزرگوار کا ہاتھ بٹاتے هیں آیت : "وَاِذِابۡتَلیٰ اِبۡرَاهِیۡمَ رَبُّہ بِکَلِمَاتٍ فَاَتَمَّھُنَّ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماً قَالَ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ قَال لایَنَالُ عَھۡدِی الظَّالِمِیۡنَ " [10] بتاتی هے کہ خدا وند عالم نے جناب ابراهیم علیہ السلام کو آزمائش میں مبتلاکیا۔ آپ نے ان آزمائشوں کو پورا کر دکھایا اور ان میں کھرے اترے اس کے بعد خداوند عالم نے فرمایا ؛ میں تمهیں لوگوں کا امام قرار دیتا هوں جناب ابراهیم علیہ السلام نے دریافت کیا، کیا میری ذریّت سے بھی یہ منصب متعلق رهے گا ؟ جواب ملا، میرا عہد (ان میں سے ) ظالموں تک نهیں پهونچے گا۔ یہ آیتیں کس زمانہ سے تعلق رکھتی هیں؟ کیا جناب ابراهیم علیہ السلام کے اوائل زندگی سے ؟ مسلّم طور پر نبوت سے پہلے کی نهیں هیں۔ کیونکہ ان آیتوں میں وحی کی بات کهی گئی هے۔ بہر حال دوران نبوت سے تعلق رکھتی هیں۔ کیا یہ زمانہ نبوت کا ابتدائی زمانہ هے ؟ نهیں، بلکہ نبوت کا آخری زمانہ هے۔ اس کی دو دلیلیں هیں۔ ایک یہ کہ آیت کہتی هے کہ یہ منصب آزمائشوں کے بعد ملا اور جناب ابراهیم کی تمام آزمائشیں آپ کی نبوت کے پورے دور میں پھیلی هوئی هیں اور ان میں سے اھم ترین آزمائش آپ کے اواخر عمر سے متعلق رہی ہے اور دوسرے یہ کہ اسی آیت میں آپ کی ذرّیت اور اولاد کا تذکرہ بھی هے۔ جیسا کہ ابراهیم علیہ السلام نے خود فرمایا "وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ" جس سے معلوم هوتا هے کہ آپ صاحب اولاد تھے۔

یہ آیت جناب ابراهیم علیہ السلام سے جو نبی بھی تھے اور رسول بھی، اب آخر عمر میں یہ کہتی هے کہ ہم تمهیں ایک نیا عہدہ اور ایک دوسرا منصب دینا چاہتے هیں۔ "اِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماً " میں تمهیں لوگوں کا امام بنانا چاہتا هوں۔" معلوم هوا کہ ابراهیم علیہ السلام پیغمبر تھے۔ رسول تھے۔ ان مراحل کو طے کر چکے تھے، لیکن ابھی ایک مرحلہ اور تھا جس تک ابھی رسائی حاصل نهیں کرپائے تھے اور نهیں پہنچے جب تک تمام آزمائشوں سے کامیابی کے ساتھ گزر نهیں گئے۔ کیا یہ بات یہ ظاہر نهیں کرتی کہ قرآن کی منطق میں منصب امامت ایک دوسری هی حقیقت کا نام هے؟ اب دیکھنا یہ هے کہ امامت کے معنی کیا هے ؟
امامت، خدا کا عہد

امامت کا مطلب یہ هے کہ انسان اس منزل پر فائز هو کہ اصطلاحی زبان میں اُسے انسان کامل کہا جائے کہ یہ انسان کامل اپنے پورے وجود کے ساتھ دوسروں کی رہبری و ہدایت کا فریضہ انجام دے سکے۔ جناب ابرهیم علیہ السلام کو فوراً اپنی ذرّیت اور اولاد یاد آتی هے خدا یا! کیا میری ذریت اور میری نسل کو بھی یہ منصب نصیب هوگا؟ جواب دیا جاتا هے :"لَایَنَالُ عَھۡدِی الظَّالِمِیۡنَ " میرا عہد ظالموں تک نهیں پہنچے گا۔ یہاں امامت کو خدا کا عہد کہا گیا هے۔ یهی وجہ هے کہ شیعہ کہتے هیں کہ ہم جس امامت کی بات کرتے هیں وہ خدا کی جانب سے هے۔ چنانچہ قرآن بھی یهی فرماتا هے "عَھۡدِیۡ" یعنی میرا عہد، نہ کہ عوام کاعہد۔ جب ہم یہ سمجھ لیں گے کہ امامت کا مسئلہ حکومت کے مسئلہ سے جدا هے۔ تو اس پر تعجب نہ هوگا که یہ عہد یعنی امامت خدا سے متعلق کیوں هے؟ سوال یہ اٹھتا هے کہ حکومت و حاکمیت خدا سے متعلق هے یا انسانوں سے؟ جواب یہ هے کہ یہ حکومت جسے ہم حکومت کہتے هیں امامت سے الگ ایک چیز هے۔ امامت میرا عہد هے اور میرا عہد تمہاری ظالم اور ستم گر اولاد تک نهیں پہنچے گا۔ ابراهیم علیہ السلام کے سوال کا نہ کلی طور سے انکار کیا اور نہ کلی طور سے اقرار فرمایا۔ جب قرآن نے ابراهیم (علیه السلام) کی اولاد کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ظالم اور ستم گر افراد کو الگ کردیا تو ان میں وہ افراد رہ جاتے هیں جو ظالم و ستم گر نهیں هیں۔ اور اس آیت سے ظاہر هوتا هے کہ نسل ابراهیم علیہ السلام میں اجمالی طور سے امامت پائی جاتی هے۔
دوسری آیت

اس سلسلہ میں قرآن کی ایک اور آیت : وَجَعَلَھَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہِ [11] بھی جناب ابراهیم علیہ السلام سے متعلق هے۔ ارشاد هوتا هے کہ؛خداوند عالم نے اسے (یعنی امامت کو)ایک باقی اور قائم رہنے والی حقیقت کی صورت میں ابراهیم علیہ السلام کی نسل میں باقی رکھا۔

ظالم سے کیا مراد هے ؟

یہاں "ظالمین" کا مسئلہ پیش آتا هے۔ ائمہ علیہم السلام نے ہمیشہ ظالمین سے متعلق اس آیت سے استدلال کیا هے۔ ظالم سے مراد کیا هے ؟ قرآن کی نگاہ میں ہر وہ شخص جو خود اپنی ذات پر یا دوسروں پر ظلم کرے، ظالم هے۔ عرفِ عام میں ہمیشہ ہم ظالم اسے کہتے هیں جو دوسروں پر ظلم کرے یعنی جو لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے ہم اسے ظالم کہتے هیں، لیکن قرآن کی نظر میں ظالم عمومیت رکھتا هے چاهے وہ دوسرے کے ساتھ ظلم کرے یا خود پر کرے جو شخص دوسروں پر ظلم کرتا هے وہ بھی اپنے آپ پر ظلم کرتا هے۔ قرآن میں اپنی ذات یا اپنے نفس پر ظلم کو بیان کرنے والی بہت سی آیتیں موجود هیں۔

علّامہ طباطبائی (رح) اپنے ایک استاد سے نقل کرتے هیں کہ حضرت ابراهیم علیہ السلام نے اپنی اولاد سے متعلق خدا وند عالم سے جو سوال کیا هے، اس سلسلہ میں نسل و ذریت ابراهیم علیہ السلام کے نیک و بد هونے کی تفسیر کچھ اس طرح هوتی هے۔ ایک یہ کہ ہم فرض کریں کہ حضرت کی اولاد میں کچھ ایسے افراد تھے جو ابتدا سے آخر عمر تک ہمیشہ ظالم تھے۔ دوسرے یہ کہ بعض ایسے افراد تھے جو ابتدائے عمر میں ظالم تھے لیکن آخر عمر میں نیک اور صالح هوگئے۔ تیسرے کچھ افراد وہ تھے جو ابتدائے عمر میں نیک تھے اور بعد میں ظالم هوگئے۔ اور چوتھے یہ کہ کچھ افراد ایسے بھی تھے جو کبھی ظالم نہ تھے۔ وہ فرماتے هیں کہ جناب ابراهیم علیہ السلام منصب امامت کی عظمت و جلالت کو سمجھتے هوئے اور یہ جانتے هوئے کہ یہ منصب اتنا اہم هے جو نبوت و رسالت کے بعد آپ کو عطا کیا گیا هے، لہٰذا محال هے کہ ایسے منصب کی درخواست خداوند عالم سے آپ نے اپنی ان اولاد کے لئے کی هو۔جو ابتدا سے آخر عمر تک ظالم اور بدکار تھے۔ یوں ہی یہ بھی محال ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا یہ تقاضا اپنے ان فرزندوں کے لئے ہو جو ابتدائے عمر میں تو نیک تھے لیکن جب انھیں منصب دیا جانے والا ہو تو ظالم ہوں۔ لہٰذا حضرت ابراھیم علیہ السلام نے یہ تقاضا اپنی صالح اور نیک اولاد کے لئے کیا ہے۔ اب ان نیک اور صالح افراد کی بھی دوقسمیں هیں۔ ایک وہ جو ابتدا سے زندگی کے آخری لمحہ تک ہمیشہ نیک رهے اور ایک وہ جو پہلے ظالم اور بُرے تھے اب نیک اور صالح هوگئے۔ جب یہ طے هوگیا کہ حضرت ابراهیم علیہ السلام کا تقاضا ان دو طرح کے افراد کے علاوہ کسی اور کے لئے نهیں هوسکتا، تو اب ممکن هے کہ یہ منصب ان افراد کو نصیب هو جو اگرچہ اس وقت ظالم و ستمگر نهیں هیں لیکن ان کی گزشتہ زندگی آلودہ اور ظالمانہ تھی۔ یعنی ان کی زندگی کا پچھلا ریکارڈ اچھا نهیں هے۔ (لیکن ہم دیکھتے هیں کہ) قرآن صاف طور سے فرماتا هے، "لَایَنَالُ عَھۡدِی الظّا لمِینَ " جو لوگ ظلم سے سابقہ رکھتے هیں اس منصب کے اہل نهیں هوسکتے۔ ہمارا عھد ظالموں تک نهیں پہنچے گا۔ لہٰذا مسلّم طور پر جو اس وقت ظالم هے یا ہمیشہ ظالم رہا هے یا پہلے ظالم نهیں تھا لیکن اس وقت ظالم هے، ان میں سے کوئی ایک حضرت ابراهیم علیہ السلام کی درخواست کا مصداق نهیں هے۔ اس بنا پر قرآن صاف طور پر اس کی نفی کرتا هے کہ امامت اس شخص تک پہنچے جس کی پچھلی زندگی ظالمانہ رهی هو۔

یهی وہ چیز هے جس کی بنیاد پر شیعہ استدلال کرتے هیں کہ یہ ممکن هی نهیں هے کہ امامت ان لوگوں تک پہنچے جو اپنی زندگی کے کسی دور میں مشرک رهے هوں۔
سوال و جواب

سوال: معصوم کا کیا مطلب هے ؟ یہ ہماری شیعہ منطق کا ساختہ و پرداختہ کوئی کوئی مفهوم هے یا اس کی کچھ بنیادیں هیں اور ہم نے انهیں پروان چڑھا کر بہتر بنایا هے ؟ اصولی طور ہر کیا معصوم اس شخص کو کہتے هیں جو گناہ نہ کرے، یا اسے کہتے هیں جو گناہ کے علاوہ کوئی اشتباہ یا غلطی بھی نہ کرتا هو ؟

ہم بیس سال پہلے میرزا ابوالحسن خان فروغی مرحوم کے درس میں شریک هوا کرتے تھے یہ بزرگوار خاص طور سے عصمت کے مسئلہ میں خصوصی اور وسیع مطالعہ اور خاص عقیدہ رکھتے ھتے، اور اس موضوع پر بہترین انداز میں بڑی تفصیل کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے اگر چہ ہم اس وقت ان کی اسی فی صد گفتگو سمجھنے سے قاصر تھے لیکن اس میں سے بیس فیصدی جو سمجھتے تھے، اس کے مطابق وہ عصمت کی ایک دوسرے انداز میں تعریف کرتے تھے وہ فرماتے تھے، معصوم وہ نهیں هے جو گناہ نہ کرے۔ ہماری نگاہ میں بہت سے ایسے افراد هیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی میں گناہ هی نهیں کیا، لیکن انهیں معصوم نهیں کہتے۔ اس وقت ہمیں اس فکر سے سروکار نهیں هے۔ آقائے مطہری کے پاس یقیناً اس کا جواب هوگا کہ معصوم سے کیا مراد هے؟ اگر معصوم وہ شخص هے جس سے کبھی کوئی غلطی یا بھول چوک بھی نہ هوئی هو تو ہم دیکھتے هیں کہ بارہ ائمہ علیہم السلام میں سے صرف دو حضرات مسندِ خلافت پر جلوہ افروز هوئے: حضرت علی (علیه السلام) اور حسن (علیه السلام) اور وہ بھی بڑی مختصر مدت کے لئے اوراس میں بھی شک نهیں کہ ان حضرات سے خلافت کے معاملات اور حکومت چلانے کے سلسلہ میں بہت سے اشتباہ هوئے اور تاریخی نقطۂ نظر سے ان اشتباہات اور غلطیوں میں کسی شک و شبہ کی گنجائش بھی نهیں۔ اور یہ بات معصوم کی مذکورہ بالا تعریف سے کسی طرح میل نهیں کھاتی۔

مثال کے طور پر امام حسن علیہ السلام کا عبیداللہ بن عباس کو معاویہ سے جنگ کے لئے مامور کرنا۔ یا خود حضرت علی علیہ السلام کا عبداللہ بن عباس کو بصرہ کا حاکم مقرر کرنا۔ اگر آپ جانتے هوتے کہ یہ شخص اس قدر رسوائی کا باعث هوگا اور ایسی بد عملی کا مظاہرہ کرے گا تو یقیناً آپ یہ کام نہ کرتے۔ لہٰذا یہ طے هے کہ آپ حقیقت سے واقف نہ تھے یعنی پہلے آپ کا خیال یہ تھا کہ میں نے جسے انتخاب کیا هے وہ اس کام کے لئے بہترین شخص هے، لیکن بعد میں وہ شخص غلط نکلا۔ اور اگر حضرت کے دورۂ حکومت سے متعلق مزید تحقیق کی جائے تو یقیناً اس طرح کے اور بھی مسائل نظر آئیں گے اور تاریخی لحاظ سے اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش بھی نهیں هے۔ لیکن یہ بات عصمت کی اس تعریف سے بالکل میل نهیں کھاتی۔

اور یہ جو میں نے عرض کیا کہ بحث کرنے کا یک طرفہ انداز یعنی سارے موافق حضرات کا کسی بحث میں حصہ لینا زیادہ مفید نهیں هے، اس کی وجہ یہ هے کہ واقعی جب انسان کوئی عقیدہ رکھتا هے تو اسے دوست بھی رکھتا هے اور اسے یہ گوارہ نهیں هوتا کہ اپنے اس عقیدہ کے خلاف کچھ بھی سُنے۔ خاص طور سے ہم جو بچپن سے هی شیعیت اور خاندان علی بن ابی طالب علیہ السلام سے محبت اپنے دل میں رکھتے آئے هیں اور کبھی اس کے خلاف تنقید نهیں سنی ہے۔ شاید خود دین و اصول دین یہاں تک کہ توحید خدا پرستی سے متعلق اعتراضات یاتنقیدیں تو آسانی سے سن لی هوں لیکن تشیع اور ا ئم علیھم السلام پر تنقید یا کسی کا ان حضرات کی زندگی کہ انھوں نے یہ کام کیوں کیا اور وہ کیوں نہ کیا، سے ہمارے کان آشنا نهیں هیں،اسی وجہ سےاگر کوئی مثال کے طور پرامام حسن (علیه السلام) کے عمل یا امام حسین (علیه السلام) کے اقدام پر اعتراض کرے تو ہمیں بہت شاق گزرتا هے۔

لیکن مثال کےطور پر یہ آیت جسے آقائے مطہری نے پہلے جلسہ میں اور اس جلسہ میں موضوع قرار دیا هے۔ اس میں ارشاد هوتا هے " وہ لوگ جو نماز قائم کرتے هیں اور حالت رکوع میں زکات ادا کرتے هیں " اس کے بعد آپ نے استدلال فرمایا کہ یہ آیت اس واقعہ کے تحت جس میں حضرت علی(ع( نے رکوع کی حالت میں انگوٹھی سائل کو دی تھی، سوائے حضرت علی (علیه السلام) کے کسی اور کے بارے میں نهیں هے۔ میری نظر میں یہ بات کچھ منطقی اور معقول نهیں لگتی، کیونکہ اول تو ہم نے امیر المومنین (علیه السلام) کی زندگی کے بارے میں یہ پڑھا اور سنا هے کہ نماز کی حالت میں آپ کی توجہ خدا وند عالم کی جانب سے اس قدر هوا کرتی تھی کہ گردو پیش کے لوگوں سے بے خبر هوجاتے تھے، یہ بھی کہا جاتا هے کہ وضو کرتے وقت بھی اگر آپ کے سامنے سے لوگ گزر جاتے تھے تو آپ انهیں پہچان نهیں پاتے تھے۔ پھر یہ کیسے هوسکتا هے کہ نماز کی حالت میں ایسے شخص کے حواس اس قدر دوسروں کی طرف متوجہ هوں کہ سائل مسجد میں وارد هوتا هے، سوال کرتا هے، کوئی اسے کچھ نهیں دیتا اور حضرت اپنی انگوٹھی اتار کر اس کے حوالہ کردیتے هیں۔ مزید یہ کہ سائل کو پیسے دینا کوئی اچھی بات بھی نهیں هے۔ سائل کو پیسہ دینا اس قدر اہم نهیں هے کہ انسان اپنی نماز کو کم از کم باطنی اور روحانی اعتبار سے هی ناقص کردے یا اس میں خلل پیدا کرے ؟

اس کے علاوہ زکات کا تعلق انگوٹھی سے نهیں هے اور فقہائے شیعہ کے فتووں کے مطابق زکوٰۃ سے تعلق رکھنے والی چیزوں میں شامل بھی نهیں هے۔ ان سب باتوں سے بڑھ کر وہ افراد جو اس سلسلہ میں کٹّر هیں اس موضوع کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لئے یہ بھی فرما گئے هیں کہ یہ انگوٹھی بہت زیادہ قیمتی تھی ۔ جبکہ حضرت علی (علیہ السلام) نے قیمتی انگوٹھی نهیں پہنی۔؟

جواب : جس نکتہ کی طرف انهوں نے اشارہ فرمایا کہ جلسہ میں مخالف موقت رکھنے والے افراد بھی هونے چاہئے یقیناً تمام جلسوں کے لئے یہ ایک مفید فکر هے اور میں اسی پر اکتفا کرتا هوں کہ یہ کام اچھا اور مفید هے۔

اب رہا یہ مسئلہ کہ عصمت کیا هے ؟ تو اس سلسلہ میں اکثر انسان یہ خیال کرتا هے کہ عصمت کا مطلب یہ هے کہ اللہ اپنے بندوں میں بعض مخصوص افراد کی ہمیشہ نگرانی کیا کرتا هے کہ جیسے هی وہ کسی گناہ کا ارادہ کرتے هیں فوراً انھیں روک دیتا هے۔ مسلّم طور پر عصمت کے یہ معنی نهیں هیں۔ اور اگر هوں بھی تو یہ کسی کے لئے کمال کی بات نهیں هے۔ اگر کسی بچہ پر ایک شخص برابر نگرانی رکھے اور اسے کوئی غلط کام کرنے نہ دے تو یہ اس بچہ کے لئے کوئی کمال شمار نہ ھوگا۔ لیکن عصمت کا ایک مفهوم اور بھی هے جو قرآن سے ظاہر هوتا هے اور وہ یہ کہ ہم دیکھتے هیں کہ قرآن مجید حضرت یوسف علیہ السلام صدیق کے بارے میں اس سخت منزل میں جب زلیخا ان کو اپنی طرف مائل کر رهی تھی، فرماتا هے ؛

" وَلَقَدۡ ھَمَّتۡ بِہ یعنی اس عورت نے یوسف کا ارادہ کیا۔

وَھَمَّ بِھَا لَوۡلَا اَنۡ رَّاٰبُرۡھَانَ رَبِّہ"[12] اور یوسف بھی اگر دلیل پروردگار کا مشاہدہ نہ کرتے هوتے تو اس کا ارادہ کرتے۔

یعنی وہ بھی ایک انسان تھے،جوان تھے اور جذبات رکھتےتھے۔ زلیخا یوسف علیہ السلام کی طرف بڑھی لیکن یوسف علیہ السلام اس کی طرف نهیں بڑھے۔ یوسف علیہ السلام بھی اگر شهود کی منزل پر نہ هوتے یعنی اس عمل کی حقیقت کو اپنے سامنے ظاہر و عیاں نہ دیکھتے تو اس کی طرف مائل هوجاتےحضرت یوسف علیہ السلام چونکہ صاحب ایمان تھے اور آپ کا ایمان کامل تھا اور ایمان شهودی کی حد کو پہنچا هوا تھا۔یعنی گویا وہ اس عمل کی اچھائی اور برائی کو دیکھ رهے تھے وہ ایمان جو خدا نے یوسف علیہ السلام کو عطا کیا تھا، وهی ایمان آپ کو اس عمل سے روک رہا تھا۔

ہم میں کا ہر شخص کسی طاقت کے روکے ٹوکے بغیر بعض لغزشوں اور گناهوں سے معصوم هے اور یہ ہمارے اس ایمانی کمال کا نتیجہ هے جو ہم ان گناهوں کے خطرات سے تعلق رکھتے هیں۔ مثال کے طور پر کسی چار منزلہ عمارت کی چھت سے چھلانگ لگانا۔ یا آگ میں کود پڑنا یہ بھی گناہ هیں لیکن ہم ہرگز ان گناهوں کے مرتکب نهیں هوتے کیونکہ ان کے خطرات و نقصان ہمارے لئے ثابت اور ایک دم عیاں هیں۔ ہم جانتے هیں کہ ادھر ہم نے بجلی کے ننگے تار کو چھوا ادھر ہماری جان گئی۔ ہم صرف اسی وقت اس گناہ کے مرتکب هوسکتے هیں جب ان خطرات سے آنکھیں بند کرلیں، لیکن ایک بچہ دہکتے هوئے انگارہ پر ہاتھ مارتا هے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس خطرہ کا گناہ جس قدر ہم پر ثابت و عیاں هے اس پر عیاں نهیں هے ایک عادل انسان تقویٰ کا ملکہ رکھتا هے اسی بنا پر بہت سے گناہ وہ سرے سے انجام هی نهیں دیتا۔ یهی ملکہ اسے اس حد تک کہ وہ ان گناهوں سے دور رهے، عصمت بخشتا هے۔ بنابر ایں گناهوں سے عصمت کا تعلق انسان کے درجۂ ایمان سے هے کہ وہ فلاں گناہ کو گناہ اور فلاں خطرہ کو خطرہ سمجھتا هے یا نهیں۔ ہم نے گناهوں کو نعبداً قبول کیا هے یعنی ہم یہ کہتے هیں کہ چونکہ اسلام نے کہا هے کہ شراب نہ پیو اس لئے ہم نهیں پیتے، کہا هے کہ جوا نہ کھیلو، ہم نهیں کھیلتے۔ ہم کم و بیش جانتے بھی هیں کہ یہ جان برے هیں، لیکن جس قدر خود کو آگ کے حوالے کردینے کا خطرہ یا گناہ ہم پر روشن و واضح هے اس قدر ان گناهوں کے خطرات ہم پر واضح نهیں هیں۔ ہم جتنا اس خطرہ سے متعلق یقین رکھتے هیں اگر اتنا هی ان خطرات اور گناهوں پر یقین و ایمان رکھتے تو ہم بھی ان گناهوں سے معصوم هوتے۔ پس گناهوں سے عصمت کا مطلب هے منتهی و کمالِ ایمان۔ لہٰذا جو شخص یہ کہتا هے " لَوۡ کُشِفَ الغطَاء لَمَا ازۡدَدۡتُ یَقِیۡنِی " [13] "اگر پردے اٹھ جائیں پھر بھی میرے یقین میں کوئی اضافہ نهیں هوگا۔" وہ قطعی طور پر گناهوں سے معصوم هے۔ وہ پردے کے اس سمت سے بھی پس پردہ کی چیزوں کو مجسّم دیکھتا هے۔ یعنی مثال کے طور پر وہ محسوس کرتا هے کہ ایک بُری بات منہ سے نکالنے کا مطلب یہ هے کہ اس نے حقیقتاً اپنی جان کے لئے ایک بچھو پیدا کرلیا هے اسی بنا پر وہ ایسے کام نهیں کرتا، اور بلا شبہ قرآن بھی اس پایہ کے ایمان کا تذکرہ فرماتا هے۔ لہٰذا معلوم هوا کہ عصمت نسبی هے یعنی اس کے مراتب و درجات هیں۔

معصومین ان چیزوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو ہمارے لئے گناہ هے اور کبھی ہم ان کے مرتکب هوتے هیں اور کبھی ان سے پر هیز کرتے هیں۔۔۔۔۔۔۔۔معصوم هیں اور ہر گز گناہ نہٰں کرتے ۔ لیکن تمام معصومین ایک جیسے نهیں هیں۔ عصمت کو بھی مراحل و مراتب هیں۔ عصمت کے بعض مراحل میں وہ ہمارے جیسے هیں یعنی جس طرح ہم گناهوں سے معصوم نهیں هیں، وہ حضرات بھی (عصمت کے ان مراحل و مراتب میں)معصوم نھیں ھیں۔ جن چیزوں کو ہم گناہ شمار کرتے هیں ان میں وہ صد فی صد معصوم هیں لیکن ایسی چیزیں ان کے لئے گناہ هیں جو ہمارے لئے حسنہ و نیکیاں هیں، کیونکہ ہم (اس درجہ تک) نهیں پہنچے هیں۔۔مثال کے طور پر درجہ پانچ کا طالب علم چھٹے درجہ کا کوئی سوال حل کردے تو یہ اس کے لئے باعث شرف و فضیلت اور انعام کے لائق بات هے۔ لیکن اگر اسی سوال کو نویں درجہ کا طالب علم حل کرے تو یہ اس کے لئے کچھ اہمیت کی بات نہ هوگی۔ اسی طرح سمجھیں کہ کچھ چیزیں ہمارے لئے تو حسنات هیں لیکن ان کے لئے گناہ هیں۔

یهی وجہ هے کہ ہم دیکھتے هیں کہ قرآن انبیاء کے معصوم هونے کے باوجود ان کی طرف عصیان کی نسبت دیتا هے ( وَعَصَیٰ اٰدَمُ رَبَّہ ) [14] ( آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی ) یا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب کرتے هوئے فرماتاهے :

"لِیَغۡفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ "[15]

تا کہ خدا وند عالم آپ کے پچھلے اور اگلے گناهوں کو بخش دے۔

ان آیتوں سے معلوم هوتا هے کہ عصمت ایک نسبی امر هے۔ گویا وہ اپنی حد میں اور ہم اپنی حد میں۔ پس عصمت کی اصل و ماهیت گناہ سے ایمان کے درجہ اور کمال ایمان کی طرف پلٹتی هے۔ انسان ایمان کے کسی بھی درجہ میں هو لیکن جس موضوع سے متعلق وہ کامل ایمان رکھتا هے۔ یعنی:

" وَلَو لَا اَنۡ رَّاٰ بُرۡھَانَ رَبِّہِ " کے درجہ پر فائز هے اور دلیل پروردگار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا هے۔ اس میں وہ لامحالہ معصوم هے۔ نہ کہ خود معصوم بھی ہماری هی طرح هے کہ وہ گناہ و معصیت کی طرف قدم بڑھانا چاہتا هے لیکن اللہ کی طرف سے مامور کوئی فرشتہ اس کی راہ میں حائل هوجاتا هے اور اسے روک دیتا هے۔ اگر ایسا هے تو مجھ میں امیر المومنین (علیه السلام) میں کوئی فرق نهیں هے کیونکہ میں بھی گناہ کی طرف مائل هوتا هوں اور ( معاذاللہ ) وہ بھی مائل هوتے هیں، فرق یہ هے کہ ان پر ایک ملک معین هے جو انهیں اس کام سے روکتا هے اور ہم پر اس طرح کا کوئی مامور نهیں هے۔ اگر انسان کو گناہ سے روکنے کے لئے کوئی خارجی مامور بھی موجود هو تو یہ کوئی کمال کی بات نہ هوئی۔ اس کی مثال یوں هے کہ ایک شخص چوری کرتا هے اور میں چوری نهیں کرتا۔ لیکن میں جو چوری نهیں کرتا اس کا سبب یہ هے کہ ہمارے اعمال کا نگراں ایک شخص ہمیشہ ہمارے ساتھ هے۔ اس صورت میں، میں بھی اسی کی طرح چور هوں فرق یہ هے کہ کوئی نگراں اسے اس کام سے نهیں روکتا اور میرے حرکات و سکنات کا نگراں میری راہ میں حائل هے۔ یہ کوئی کمال کی بات نهیں هوئی۔

مسئلۂ عصمت میں اہم اور کلّی مسئلہ گناہ سے معصوم هونے کا مسئلہ هے۔ خطا سے معصوم هونا ایک دوسرا مسئلہ هے اور اس کی بھی دو حیثیتیں هیں۔ ایک احکام کی تبلیغ میں خطا کا مسئلہ هے مثلاً ہم یہ کهیں کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے لئے احکام بیان فرمائے هیں لیکن شاید اس میں خطا یا اشتباہ سے کام لیا هے۔ شاید خدا وند عالم نے ان پر وحی کسی اور شکل میں نازل فرمائی تھی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشتباہاً اسے دوسری طرح سے بیان فرمایا۔ بالکل یوں هی جیسے ہم خطا کرتے هیں۔ یعنی ہم سے کہا جاتا ہےکہ جاؤ یہ پیغام پہنچادو اور ہم جاکر اس کا الٹا پیغام بیان کردیتے هیں۔یعنی اس امکان پر کہ ممکن هے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ احکام میں خطا یا اشتباہ سے کام لیا هو،سرے سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتوں پر اعتماد هی نہ هو، قطعی ایسی کوئی بات نهیں هے۔

اب رهی تمام مسائل میں معصوم سے خظا کی بات تو یہاں انجینیئر صاحب نے اپنی سرعت فیصلہ کا ثبوت دیتے هوئے امیر المومنین علیہ السلام پر ظلم کیا هے اور واقعی یہ بہت بڑا ظلم هے۔آپ نے کیسے تیزی کے ساتھ یہ فیصلہ کرلیا کہ اگر آپ امیر المومنین علیہ السلام کی جگہ پر هوتے تو عبد اللہ ابن عباس کا انتخاب نہ کرتے، اور……؟ اسی طرح کے تاریخی مسائل میں ظنی وگمانی فیصلوں کے اظہار میں تو کوئی ہرج نهیں هے۔ مثلاً انسان کسی شخص کے بارے میں اظہار خیال کرے کہ میں سوچتا هوں اگر فلاں شخص پانچ سو سال پہلے اُس کام کے بجائے یہ کام کرتا تو بہتر تھا، اور کوئی اس سے یہ کهے کہ کیا قطعی ایسا هے؟ تو وہ جواب دے کہ میرا یهی خیال هے؟ تو اس میں کوئی ہرج نهیں هے۔ لیکن ان مسائل میں کوئی قطعی فیصلہ کرنا امیر المومنین علیہ السلام هی کی نسبت نهیں؟ دوسرے افراد کی نسبت بھی صحیح نهیں هے۔

حضرت علیہ السلام ان واقعات و مسائل میں خود حاضر و ناظر تھے اور عبد اللہ بن عباس کو ہم اور آپ سے بہتر جانتے تھے، یوں هی اپنے دوسرے اصحاب کو بھی ہم سے اور آپ سے زیادہ بھتر طور پر پہچانتے تھے۔اور ہم اپنی جگہ بیٹھ کر قضاوت کریں کہ اگر حضرت علی عبد اللہ بن عباس کی جگہ پر کسی دوسرے کو منتخب فرماتے تو وہ اس کام کو بہتر طور پر انجام دیتا۔ یہ در اصل اس طرح کے مسائل میں عجولانہ قضاوت کی نشانی هے۔ مزید یہ کہ آپ نے خود اپنے بیانات میں جن سے ہم ہمیشہ استفادہ کرتے رهے هیں، برابر یہ بات ذکر کی هے کہ علی علیہ السلام ایک مخصوص سیاست پر گامزن تھے اور نہ وہ خود چاہتے تھے نہ ان کے لئے سزاوار هی تھا کہ ذرہ برابر بھی اس سیاست سے الگ هوتے اور یہ وہ راہ سیاست تھی جس میں ان کے پاس ناصر و مددگار نهیں تھے۔ حضرت علیہ السلام خود بھی ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ افسوس میرے پا س افراد نهیں هیں۔ یهی عبد اللہ بن عباس اور دوسرے افراد حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں آتے تھے اور ان سے اپنی روش میں لوچ اور نرمی پیدا کرنے کی درخواست کرتے تھے یعنی وهی طرز عمل اپنانے کو کہتے تھے جسے آج کی دنیا میں سیاست کہتے هیں۔ آپ کم از کم یهی ثابت کیجیئے کہ حضرت علی (علیه السلام) کے پاس ان کے ہم فکر و ہم نوا کافی افراد موجود تھے اور آپ علیہ السلام نے ان کے درمیان اشخاص کے انتخاب میں اشتباہ سے کام لیا۔ میں تو ثاہت نهیں کرسکتا کہ حضرت علی (علیه السلام) کے پاس حسب ضرورت افراد موجود رهے هوں۔ میں بس اسی قدر جانتا هوں کہ علی علیہ السلام جنهیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلافت کے لئے معین فرمایا تھا۔ جب لوگوں نے خلافت پر قبضہ کر لیا تو اس قدر احتجاج اور شکوہ کرتے نظر آتے هیں کہ لوگوں نے میرا حق مجھ سے چھین لیا، لیکن عثمان کے بعد جب لوگ آپ کی بیعت کے لئے آپ کے پاس آتے هیں تو آپ خود کو اس امر سے دور رکھنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے هیں اور فرماتے هیں:

"دَعَوۡنِی وَالتَمِسُوا غَیۡریۡ فَاِنَّا مُسۡتَقۡبِلُونَ اَمۡراً لَہ وُجُوہٌ وَاَلۡوَان…… وَاِنَّ الآفاقَ قَدۡ اَغَامَتۡ وَالۡمَحَجَّۃَ قَدۡ تَنَکَّرَتۡ "[16]

مجھے چھوڑ دو اور ( اس خلافت کے لئے ) کسی دوسرے کو ڈھونڈ لو۔ بلا شبہ ہمارے سامنے ایک ایسا معاملہ هے جس کے کئی رُخ اور کئی رنگ هیں، جسے نہ دل برداشت کرسکتے هیں اور نہ عقلیں مان سکتی هیں۔ فضائیں تاریک هوچکی هیں اور راستہ پہچاننے میں نهیں آتا"

مفهوم یہ هے کہ، حالات اب خراب هوچکے هیں، اب کام نهیں کیا جاسکتا یعنی میرے پاس افراد نهیں هیں، میرے رفقاء تمام هوگئے اب میرے کام کے آدمی نهیں رهے (جن کی مدد سے معاشرہ کی) اصلاح کرسکوں۔ اس کے بعد فرماتے هیں:

لَوۡلَا حُضُوۡر الۡحَاضِر وَقیَام الحُجَّۃِ لِوُجُودِ النَّاصِرِ……

اب مجھ پر حجت تمام هوگئی میں تاریخ کے روبرو کوئی عذر نهیں رکھتا تاریخ میری یہ بات نهیں مانے گی، کہا یهی جائے گا کہ علی علیہ السلام نے موقع ہاتھ سے کھو دیا، اس کے باوجود کہ یہ موقع میرے لئے کوئی موقع نهیں هے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن تاریخ کا منھ بند کرنے کے لئے کہ یہ نہ کہا جائے کہ بہترین موقع تھا جسے علی علیہ السلام نے کھو دیا۔۔۔۔۔۔۔۔اس منصب کو قبول کرتا هوں۔

لہٰذا ہم دیکھتے هیں کہ آپ نے خود اس کا اظہار فرمایا کہ میرے پاس آدمی نهیں هیں اور یہ میری خلافت کا موقع نهیں هے۔

انسان ہر شخص کے سلسلہ میں شک و تردید کا شکار هوسکتا هے لیکن خود حضرت علی علیہ السلام کے لئے تاریخ کو بھی اس بات میں شک نهیں هے کہ آپ خود کو دوسروں کی بہ نسبت خلافت کا سب سے زیادہ حقدار سمجھتے تھے اور اہل سنّت بھی یہ بات تسلیم کرتے هیں کہ علی علیہ السلام خلافت کے لئے خود کو ابوبکر و عمر وغیرہ…… سے زیادہ حقدار سمجھتے تھے۔ پھر یہ کیا هوا کہ جو علی علیہ السلام اپنے آپ کو ابوبکر و عمر سے خلافت کا زیادہ حقدار سمجھے، جب لوگ عثمان کے بعد خلافت کے لئے اس کے پاس جائیں تو وہ پیچھے ہٹتا هوا نظر آئے اور یہ کهے کہ:۔

تمہارا امیر بننے سے بہتر هے کہ میں اس کے بعد بھی تمہارا مشیر هی بن کر رهوں۔ اس سے صاف ظاہر هوتا هے کہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس ایسے افراد نهیں تھے۔ اب اس کے اسباب و علل کیا تھے، یہ ایک دوسری بحث هے۔

اب رہا:" وَیُؤتُوۡن الزَّکوٰۃَ وَھُمۡ رَاکِعُوۡن" کا مسئلہ تو اول یہ جو انهوں نے فرمایا کہ زکات انگوٹھی پر نهیں هوتی، اس کا جواب یہ هے کہ کلی طور پر کارِ خیر کے لئے ہر طرح کے انفاق کو زکات کہتے هیں۔ آج کل جو فقہا کی عرف میں زکات کی اصطلاح رائج هے اس سے مراد زکات واجب هے۔ ایسا نهیں هے کہ قرآن کریم میں جہاں بھی "یُقِیۡمُونَ الصَّلوٰۃَ وَیُؤتُونَ الزَّکوٰۃَ " آیا هو اس سے مراد یهی زکوٰۃ واجب هے۔ زکات کا مطلب هے مال کا پاک و صاف کرنا۔ حتیٰ کہ اس سے مراد روح اور نفس کا پاک کرنا بھی ہے۔قرآن کلی طور پر مالی خیرات کو مال کی زکات یا روح و نفس کی زکات کہتا ہے۔ چنانچہ لفظ صدقہ کا مفهوم بھی اسی قدر وسعت رکھتا هے آج صدقہ کا ایک خاص مفهوم هے مثلاً کہتے هیں صدقۂ سرّی (چھپا کر صدقہ دینا) لیکن قرآن ہر کار خیر کو صدقہ کہتا هے۔ اگر آپ ایک اسپتال تعمیر کریں یا کوئی کتاب لکھیں جس کا فائدہ عام طور سے لوگوں کو پہنچتا هو۔ قرآن کی نظر میں وہ صدقہ هے "صدقۃ جاریۃ" ایک جاری صدقہ۔ یهی وجہ هے کہ اہل سنّت نے بھی جب مزکورۃ آیت سے اخذ شدہ مفهوم پر اعتراض کرنا چاہا هے تو اس لفظ پر ایسا کوئی اعتراض نهیں کیا هے کہ زکات انگوٹھی سے متعلق نهیں هوتی۔ کیونکہ وہ ادبیات عرب سے واقف هیں اور جانتے هیں کہ لفظ زکات، زکات واجب سے مخصوص نهیں هے۔

اب سوال یہ هے کہ عمل حالتِ رکوع میں کیوں اور کیسے انجام پایا؟ یہ اعتراض فخرالدین رازی جیسے قدیم مفسرین نے بھی اٹھایا هے کہ علی علیہ السلام ہمیشہ حالت نماز میں اس قدر کھو جاتے تھے کہ انهیں ارد گرد کا احساس بھی نہ رہتا تھا۔ پھر آپ علیہ السلام یہ کیسے کہتے هیں کہ نماز کی حالت میں یہ عمل انجام پایا؟ جواب یہ هے کہ

اول تو: علی کا نماز کی حالت میں اپنے آپ سے بے خبر هوجانا ایک حقیقت هے، لیکن ایسا نهیں هے کہ اولیائے خدا کے تمام حالات و کیفیات ہمیشہ ایک هی جیسے رهے هیں۔ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دونوں کیفیتیں بیان کی جاتی هیں۔ کبھی نماز کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وہ کیفیت طاری هوجاتی تھی کہ اذان کے تمام هونے کی تاب بھی نہ رہتی تھی فرماتے تھے:"اَرۡحِنَایَا بلَالُ” ائے بلال جلد اذان ختم کرو کہ ہم نماز شروع کریں اور کبھی نماز کی حالت میں هوتے تھے، سجدہ کے لئے سر مبارک کو خاک پر رکھتے تھے اور آپ کے نواسے امام حسن یا امام حسین آکر آپ کی پشت مبارک پر سوار هوجاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورے اطمینان کے ساتھ یوں هی ٹھہرے رہتے تھے کہ یہ بچہ کهیں گر نہ پڑے اور جب تک نواسہ اتر نہ آتا تھا سجدہ کو طول دیتے تھے۔

ایک مرتبہ پیغمبر اکرم(ص) نماز میں قیام کی حالت میں تھے۔ نماز کی جگہ پر سامنے گویا کسی نے تھوک دیا تھا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قدم آگے بڑھایا اور پاؤں سے اسے مٹی میں چھپادیا اس کے بعد اپنی جگہ واپس پلٹ آئے۔ فقہاء نے اس واقعہ کی روشنی میں نماز سے متعلق بہت سے مسائل اخذ کئے هیں۔ سید بحرالعلوم فرماتے هیں:۔

وَمَشیُ خَیۡرا لخَلۡق فِی الۡمِحۡرَابِ یُفۡتَحُ مِنۡہُ اکۡثَرُ الۡاَبۡوَاب

مطلب یہ هے کہ نماز کی حالت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قدم آگے بڑھے۔ وہ عمل انجام دیا اور واپس پلٹ آئے اس عمل ان بہت سے مسائل کو حل کردیا کہ نماز کی حالت میں کس حد تک اضافی عمل جائز هے یا جائز نهیں هے۔ اسی طرح اور بہت سی باتوں کا حل مل گیا۔ چنانچہ ان حضرات کے حالات و کیفیات مختلف رهے هیں۔

اس سلسلہ میں دوسرا مطلب جو عرفانی هے یہ هے کہ وہ افراد جو عرفانی مزاق رکھتے هیں ان کا اعتقاد هے کہ اگر استغراق و انجذاب کی کیفیت اپنے کمال پر هو تو اس میں "بر گشت" کی حالت پائی جاتی هے یعنی اس صورت میں انسان خدا کی ذات میں مستغرق هونے کے ساتھ هی ماسواے اللہ میں بھی مشغول رہتا هے۔ یہ اہل عرفان کا خیال هے اور میں بھی اُسے تسلیم کرتا هوں۔ لیکن اس جلسہ میں شاید بہت زیادہ قابل قبول نہ هو کہ میں اسے عرض هی کردوں۔ یہ خلعِ بدنی کے مسئلہ کی مانند هے۔ جو افراد اس مرحلہ میں تازہ وارد هوتے هیں ایک لمحہ یا دو لمحہ ایک گھنٹہ تک اپنے آپ سے بے خبر یا اپنے جسم سے الگ هوجاتے هیں۔ بعض افراد بہر حال میں اپنے جسم سے الگ یا خود سے بے خبر رہتے هیں ( البتہ میں اس کا معتقد هی نهیں بلکہ عینی گواہ بھی هوں) مثال کے طور پر اس وقت ہمارے اور آپ کے ساتھ بیٹھے هیں اپنے جسم سے دور الگ اور لا تعلق هیں۔

اہل عرفان کی نظر میں یہ حالت و کیفیت کہ نماز کے دوران پاؤں سے تیر نکال لیا جائے اور انسان متوجہ نہ هو، اس حالت و کیفیت سے ناقص تر هے جس میں انسان نماز کے دوران فقیر و سائل کی طرف بھی متوجہ هو۔ ایسا نهیں هے کہ یہاں وہ خدا سے غافل هے اور فقیر کی طرف متوجہ هے بلکہ اس کی توجہ خدا کی طرف اس قدر کامل هے کہ اس حالت میں وہ تمام عالم کو اپنے سامنے موجود پاتا هے۔ لہٰذا ان تمام قرائن کی موجودگی میں ان حقائق سے انکار نهیں کیا جاسکتا۔

[1] سورہ مائدہ آیت نمبر ۳

[2] یہ معظمہ شیعوں کے نزدیک بہت محترم ہیں۔ اور خدیجہ کے بعد پیغمبر اکرم (ص) کی سب سے زیادہ جلیل المرتبت زوجہ ہیں۔ اہل سنت کے یہاں بھی بہت محترم ہیں اور ان کی نگاہ میں خدیجہ و عائشہ کے بعد امّ سلمہ ہی معظم و محترم خاتون ہیں۔

[3] سورہ احزاب آیت ۳۲

[4] سورہ مائدہ، آیت نمبر ۱

[5] سورۂ بقرہ آیت ۱۲۴

[6] سورۂ ابراہیم آیت ۳۷

[7] سورۂ صافات آیت ۱۰۳۔۱۰۲

[8] سورۂ صٰفّٰت آیت ۱۰۴

[9] سورۂ ہود آیت نمبر ۷۲۔ ۷۳

[10] سورۂ بقرہ آیت ۱۲۴

[11] سورہ زخرف آیت ۲۸

[12] سورہ یوسف آیت ۲۴

[13] سفینۃ البحار ج۲ ص ۷۳۴ ( از حضرت علی علیہ السلام )

[14] سورہ طٰہٰ آیت ۱۲۱

[15] سورہ فتح آیت ۲

[16] ۔ نہج البلاغہ فیض الاسلام۔ خطبہ۹۱

http://sadeqeen.com/index.php?option=com_content&view=article&id=69:1391...

Add new comment