ظلم
تحریر: سید قمر رضوی
اردو زبان میں ظلم کا مطلب کسی کے ساتھ زیادتی برتنے یا نامناسب رویہ اختیار کرنے میں لیا جاتا ہے جو کہ اس لفظ کے بہت سارے مطالب میں سے ایک ہے اور درست بھی، جبکہ بنیادی طور پر یہ عربی زبان کا لفظ ہے، جسکے بیشمار معنوں میں سے معروف ترین مطلب کسی چیز کا اسکے جائز مقام پر نہ ہونا ہے۔ مثلاً لباس کو محفوظ رکھنے کے لئے الماری مناسب مقام ہے اور اشیائے خوردونوش کے لئے فریج۔ اب اگر کوئی پھلوں کو الماری میں رکھ دے اور کپڑے اتار کر فریج کے حوالے کردے تو لغت کی زبان میں اس نے ظلم کا ارتکاب کیا اور وہ ظالم کہلائے گا۔ اسی طرح باورچی خانہ گھر کا وہ گوشہ ہے جہاں کھانا پکایا جاتا ہے۔ اگر کوئی چولہے کو بیٹھک میں رکھ کر صوفے پر براجمان ہو کر روٹی پکانے کی بیوقوفی کرے گا تو وہ بھی ظالم ہے، جس نے ایک نظام کے خلاف ظلم کا ارتکاب کیا ہے، بھلے ہم اسے بیوقوف، احمق، کم عقل، گدھا، پاگل اور پاجی کہتے رہیں۔ ظلم دراصل عدل کی ضد ہے، اور عدل کا مطلب ہے کہ جس چیز کی جو جگہ ہو، اسکو وہی مقام دیا جائے۔ اس مطلب کی رو سے جوتے کو پاؤں میں پہننا، ٹوپی کو سر پر رکھنا، نوالے کو منہ میں ڈالنا، لباس کو الماری میں رکھنا وغیرہ سب عدل کے مظاہرے ہیں۔
عدل اور ظلم کے حوالے سے اردو میں ایک ضرب المثل "جسکا کام اسی کو ساجھے" بھی رائج ہے، جسکا مفہوم بھی یہی ہے کہ جو جس میدان کا ماہر ہو، اسکو اسی میں زور آزمائی کرنا چاہئے۔ وگرنہ وہ بھی کسی کے ساتھ ظلم کر بیٹھے گا اور اس کے روا کئے گئے ظلم کے نتیجے میں نجانے کون کون نقصان اٹھائے گا۔ یہاں بھی چند مثالیں عرض کرتا چلوں۔ جیسے ۔۔۔
کوئی ایسا شخص بس کی ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھے جس کی ڈرائیونگ کی الف بے سے بھی دور تک کی واقفیت نہ ہو تو وہ بس میں بیٹھے پچاس لوگوں کے ساتھ ایسا ظلم کر بیٹھے گا کہ اپنے ساتھ ساتھ سبکو ہی دوسرے جہان کی سیر پر لے چلے گا۔
کسی درزی کو اسٹاک مارکیٹ میں بٹھا دیں تو کسی کے وارے نیارے ہو جائیں گے اور کسی کی نیا ڈوب جائیگی۔
درخت کے سائے میں بیٹھے جوتوں کی مرمت کرتے ہوئے کسی موچی کو اٹھا کر چوراہے میں ٹریفک کنٹرول کرنے پر لگا دیں تو سوچیں وہاں کیا ہوگا۔
ہاتھ میں ڈنڈا لئے محلے بھر کے بچوں کو ہراساں کرنے والے کسی پاگل سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی دفتر میں بیٹھ کر کوئی پالیسی لکھ سکتا ہے۔
اپنے خوابوں میِ بھینسوں کو دیکھنے والا کوئی گوالا کیا کسی بینک کا کیش کاؤنٹر سنبھال سکتا ہے؟
کیا آپ کسی چور سے یہ امید وابستہ کرسکتے ہیں کہ وہ آپکی غیر موجودگی میں آپکے گھر کی خفاظت کرے گا۔؟
کسی دوسرے شہر جاتے ہوئے راستے میں اگر آپکی گاڑی خراب ہوجائے تو ایسے میں گندم کاٹتے ہوئے کسان سے مدد طلب کرنا کیسا ہے؟
باتھ روم کی نالی بند ہوجائے تو جمعدار بلانے کی بجائے آپ اپنی کمپنی کے ڈائریکٹر کو فون کرکے اسکا حل معلوم کیجئے اور دیکھئے کہ آپکے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
بجلی کے کھمبے پر چڑھے کسی محنت کش مزدور سے بلب تو تبدیل کروایا جاسکتا ہے، کسی کی آنکھوں کا آپریشن نہیں کروایا جا سکتا۔ وغیرہ۔۔۔۔
یہ تو مثالیں تھیں روز مرہ زندگی کے امور کی۔ ان انتہائی سادہ ترین کاموں میں بھی صحیح چیز اور صحیح مقام کا تعین کئے بغیر اگر کوئی کام سر انجام دیا جائے تو سب سے پہلا نقصان نظم و ضبط کا خاتمہ اور بالآخر اس کام یا شے کا کلی طور پر خاتمہ ہوتا ہے، جس میں اب نہ کسی تصحیح کی گنجائش رہتی ہے اور نہ ہی نقص دور کرنے کی۔ ایک لمحے کو ذرا سوچئے کہ جب ہم اپنی ذاتی، گھریلو اور معاشرتی زندگی میں تباہی سے بچنے کے لئے چیزوں اور امور کو انکے موافق مقام اور وقت پر انجام دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور اسی کوشش کے نتیجے میں نقصان سے محفوظ بھی رہتے ہیں۔ لیکن جب بات ہو قومی اور بین الاقوامی امور کی تو یہاں ظلم کی انتہا ہے، جسے عرفِ عام میں آوے کا آوا بگڑنا کہتے ہیں۔ ہمارے یہاں کچھ اس قسم کا ظلم رائج ہے کہ ملک کے ان پڑھ، جاہل، حرام خور، نوسرباز، ہیراپھیری کے ماہر، جھوٹے، بدمعاش، مسخرے، خوفِ خدا سے عاری اور جاہ و حشم اور نفس پرستی کے ماہر ہمارے حال و مستقبل اور ہماری آنیوالی نسلوں کی قسمت سے گھناؤنے کھلیل کھیلنے کے لئے ایوانوں میں جا بیٹھتے ہیں۔
اب ذرا پیچھے عرض کی گئی مثالوں کو اپنی قومی زندگی پر لاگو کرکے سوچیں کہ خدانخواستہ ایک انگوٹھا چھاپ یا نیم خواندہ شخص آپکا وزیرِ تعلیم بن جائے تو کیا ہو؟
کوئی گوالا یا پٹواری آپکا وزیرِاعظم بن جائے تو کیا ہوگا؟
کوئی مسخرہ آپکے ملک کے داخلی امور کا نگران بن جائے تو کیا ہو؟
پبلک ٹوائلٹ کے باہر بیٹھا پانچ پانچ روپے جمع کرنے والا آپ پر مذہبی فتوے تھوپنا شروع کردے تو آپ کا کیا ردِ عمل ہوگا؟
کیا کوئی درباری قصیدہ خواں ملک و قوم کے دشمن کو زیر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔؟
ملک اور قوم کے خون کے پیاسوں کا سر کچلنے کی بجائے انہیں دعوتِ مذاکرات دے کر انکے تلوے چاٹنا کیسا عمل ہے؟ وغیرہ۔۔۔۔۔
ان خطوط پر سوچنا شروع کریں تو آپکو اپنا ملک یقیناً کسی معجزے سے کم دکھائی نہیں دیگا کہ جس کا کوئی ایک گوشہ بھی ظلم سے خالی نہیں۔ لیکن پھر بھی زندگی کی گاڑی چلے جا رہی ہے۔ خداوند عادل ہے اور وہ ظلم کو ناپسند کرتا ہے۔ نہ صرف ظلم کو بلکہ ظالم اور اسکے مددگار اور ظلم ہوتا دیکھ کر خاموش رہنے والے کا بھی دشمن ہے اور اس پر لعنت بھی بھیجتا ہے۔ شاید خدا ہمیں اس ظلم سے اس لئے نجات نہیں دے رہا کہ یا تو ہم خود ظالم ہیں، یا ظلم کرنے میں ظالمین کی دانستہ و نادانستہ مدد بھی کرتے ہیں، یا ظلم کی تاریخ رقم ہوتا دیکھتے تو ہیں لیکن خاموش رہتے ہیں۔
Add new comment