سورہء رحمٰن کا منظوم ترجمہ

اے فنا انجام انساں کب تجھے ہوش اٌئے گا؟

تیر گی میں ٹھو کریں اٌ خر کہا ں تک کھائے گا؟

اس تمرد کی روش سے بھی کبھی شرمائے گا؟

کیا کرے گا سامنے سے جب حجاب اٰٹھ جائے گا؟

کب تک اٌ خر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا ؟

 

یہ سحر کا حسن یہ سیارگاں اور یہ فضا

یہ معطر باغ یہ سبزہ یہ کلیاں دلربا

یہ بیاباں یہ کھلے میدان یہ ٹھنڈی ہوا

سوچ تو کیا کیا کیا ہے تجھ کو قدرت نے عطا

کب تک اٌ خر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا ؟

 

خلد میں حو ریں تیری مشتاق ہیں اٌنکھیں اٰٹھا

نیچی نظریں جنکا زیور جنکی اٌرائش حیا

جن و انساں میں کسی نے ھی نہیں جنکو چھُوا

جنکی باتیں عطر میں ڈوبی ہوئ جیسے صبا

کب تک اٌ خر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا ؟

 

اپنے مرکز سے نہ چل منھ پھیر کر بہر خدا

بھولتا ہے کوی اپنی ابتدا و انتہا؟

یاد ہے وہ دور بھی تجھ کو کہ جب تو خاک تھا

کس نے اپنی سانس سے تجھ کو منور کر دیا

کب تک اٌ خر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا ؟

 

سبز گہرے رنگ کی بیلیں چڑھی ہیں جا بجا

نرم سانسیں جھو متی ہیں رقص کری ہے صبا

پھل وہ شا خوں میں لدے ہیں دلفریب و خوشنما

جنکا ہر ریشہ ہے شہد و قند میں ڈوبا ہوا

کب تک اٌ خر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا ؟

 

پھول میں خوشبو بھری جنگل کی بوٹی میں دوا

بحر سے موتی نکالے صاف روشن خوشنما

آگ سے شعلہ نکالا ابر سے آب صفا

کس سے ہو سکتا ہے اسکی بخششوں کا حق ادا؟

کب تک اٌ خر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا ؟

 

ھر نفس طوفان ہے ہر سانس ہے اک زلزلہ

موت کی جانب رواں ہے زندگی کا قافلہ

مضطرب ہر چیز ہے جنبش میں ہے ارض و سما

ان میں قائم ہے تو تیرے رب کے چہرے کی ضیاء

کب تک اٌ خر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا ؟

 

جوش ملیح آبادی

 

Add new comment