شام میں باغیوں کے لئے ہتھیار پاکستان فراہم کرے گا۔ٹی وی شیعہ رپورٹ
ٹی وی شیعہ [میڈیا نیوز] گذشتہ روز عالمی خبر رساں ایجنسی نے خبر دی جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کو فوجی ہتھیار دے گا جو شام میں باغیوں کو فراہم کیے جائیں گے، ان ہتھیاروں میں طیارہ شکن اور توپ شکن راکٹ شامل ہیں، تاہم دفتر خارجہ نے ان خبروں کی سختی سے ترید کی ہے لیکن عالمی میڈیا پر اس خبر کے چرچے ہو رہے ہیں کہ پاکستان مشرق وسطٰی کے حوالے سے اپنی پالیسی میں جارہانہ تبدیلی لاچکا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے دونوں ایوانوں میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے خارجہ پالیسی پر اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے تو اس حد تک کہہ دیا ہے کہ لگتا ہے پاکستان نے افغانستان میں اپنائی جانیوالی پالیسی سے سبق نہیں سیکھا اور اب شام میں بھی وہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اگر شام کے معاملے پر پاکستان باغیوں کو سپورٹ کرتا ہے تو پھر ہم خود اس بات کا جواز کھو بیٹھیں گے کہ بھارت بلوچستان میں باغیوں کو کیوں سپورٹ کرتا ہے۔ عالمی فورمز پر ہم کچھ ثابت نہیں کرسکیں گے اور خود ہی دنیا کو یہ جواز فراہم کردیں گے کہ کسی دوسرے ملک میں باغیوں کو سپورٹ کیا جاسکتا ہے۔
سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ نواز حکومت شام کے معاملہ پر اپنی پالیسی تبدیل کرے، سنا ہے کہ پاکستان شام میں باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا سوچ رہا ہے، اگر ایسا ہوا تو وہی ہتھیار پاکستان میں بھی استعمال میں لائے جائیں گے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ شام پر پالیسی میں تبدیلی پر ان کیمرا اجلاس بلایا جائے جبکہ خود حکمران جماعت کے سینیٹر و قائد ایوان راجہ ظفرالحق نے اپوزیشن کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام کے معاملے پر پالیسی کی تبدیلی خودکشی ثابت ہوگی۔ اے این پی کے افراسیاب خٹک نے بھی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی خبروں پر حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
سابق آرمی چیف مزا اسلم بیگ نے سعودی عرب فوج بھیجنے سے متعلق میڈیا پر جاری خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودیہ فوج بھیجی گئی تو وہ ایران کیخلاف استعمال ہوسکتی ہے۔ امریکہ نے مشرق وسطٰی میں سعودی کردار محدود کر دیا ہے۔ اسلم بیگ نے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسی اطلاعات مل رہی ہیں جس پر انہیں تشویش ہے۔ پاکستان کی فوج کو اب کرائے کی فوج بنایا جا رہا ہے۔ جنرل اسلم بیگ نے یاد دلایا کہ وزیراعظم نواز شریف 1991ء میں بھی یہ غلطی کر رہے تھے، جس کو انہوں نے درست کیا تھا، جب امریکی سعودی عرب کو عراق سے خوفزدہ کر رہے تھے لیکن عراق کے خلاف امریکہ کی سازش کچھ اور تھی اور سعودی عرب میں پاکستان کی ایک ڈویژن فوج کو استعمال کرنے کی اجازت مانگی گئی تھی۔ مرزا اسلم بیگ کا کہنا تھا کہ انہوں نے بطور آرمی چیف نواز شریف سے اختلاف کیا تھا اور یہی کہا تھا کہ ہم کرائے کے فوجی نہیں ہیں اور یہ ہماری جنگ نہیں ہے۔
سعودی عرب اس وقت تنہائی کا شکار ہے، جنیوا کانفرنس کی ناکامی اور تین سال سے شام میں جاری لڑائی میں ناکامی نے ریاض کو پاگل بنا دیا ہے، سعودیہ نواز شریف پر عام الیکشن کے دنوں میں کیے جانے والے احسانات کا بدلہ بھی چاہتا ہے اور پیسوں کے عوض اپنی پالیسی کو آگے بڑھانے کا خواہاں ہے۔ اس وقت پاکستان کی حکمران جماعت کو تمام پہلوؤں پر نظر ڈالنی ہوگی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تبدیلی سے بالعموم خطے میں اور بالخصوص پاکستان میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کو یاد رکھنا چاہئے کہ شام کے معاملے میں ایران، روس اور چین ایک پیج پر ہیں، ایسی میں اسلام آباد کی پالیسی تبدیلی ہوتی ہے تو اس کے ان ممالک کیساتھ تعلقات میں کس حد تک کشیدگی آسکتی ہے اور اس کے براہ راست اثرات کیا مرتب ہوسکتے ہیں۔ پالیسی میکرز کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ دنیا میں ہر چیز بدل سکتی ہے لیکن ہمسائے نہیں بدلے جاسکتے۔ پاکستان سعودیہ کیساتھ اتنی ہی پیار کی پیگنیں بڑھائے جتنا برداشت بھی کرسکے۔
این اے بلوچ
Add new comment