اک لہو کی بوند

تحریر: ارشاد حسین ناصر

ایک سوال جس نے سب کی نیندیں حرام کی ہوئیں ہیں اور خطے کی سیاست و معیشت اور امن و سلامتی کو چیلنج کیئے ہوئے ہے، وہ افغانستان میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کی اس برس اعلان کے مطابق رخصتی بارے ہے، کیا ہندوستان، کیا ایران اور کیا چائنہ و ترکی ہر ایک اس مفروضے پر سوچ کر اپنے مفادات کی نگہبانی و حفاظت کی فکر میں دکھائی دیتا ہے۔ افغانستان جہاں اس وقت کرزئی کی کمزور حکومت قائم ہے، اگر امریکہ اور نیٹو افواج کی مکمل رخصتی کے بعد اپنا وجود قائم رکھتی ہے تو صورت عملی کیا ہوگی اور اگر کرزئی اپنا وجود قائم نہیں رکھ پاتا تو اس وقت کون حکمران ہوگا، اگر طالبان اپنی نام نہاد تنگ نظر شریعت کے نعرہ کے ساتھ برسر اقتدار ہو جاتے ہیں تو خطے کے ممالک اور مفادات رکھنے والوں کا اثر و رسوخ کیسا ہوگا، کس کو کیا ملے گا، کون کس مقام اور کس کردار کا حامل ہوگا، ایسے ہی سوالات اور مفروضوں کے باعث پاکستان بھی اپنے مفادات کی حفاظت اور تحفظ نیز اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کیلئے نئی اسٹرٹیجی پر عمل پیرا دکھائی دیتا ہے۔ کیا اب بھی طالبان کا ایک گروہ جسے حقانی نیٹ ورک کہا جاتا ہے پاکستان کا قیمتی اثاثہ کہا جاسکتا ہے، ایسا اثاثہ جس کے ذریعے افغان طالبان کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔؟

حکومت پاکستان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بڑے ہی کڑوے گھونٹ پیئے اور سخت تنقید اور پریشر کے باوجود مذاکرات کا راستہ اختیار کیا، مگر ایک بار پھر سب نے دیکھ لیا کہ اسلام کے مقدس نام پر بدنما دھبہ یہ ظالمان، ملک دشمن، انسانیت کے قاتل، اپنے وحشی پن سے مجبور ہو کر انسانوں کے گلے کاٹنے اور ان کی لاشوں کا مثلہ کرکے انہیں توہین آمیز انداز میں سڑک پر پھینکنے کی روش پر عمل پیرا نظر آئے، یہ عمل انہوں نے پہلی بار نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے قبائلی علاقوں اور سوات میں لاشوں کے ساتھ ایسا سلوک بارہا کرچکے ہیں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مقتولوں کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر انہیں درختوں اور کھمبوں پر لٹکانا ان کا مشغلہ رہا ہے، افواج پاکستان نے حکومت کی ہلہ شیری اور ہم آہنگی سے جوابی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اب نقصان یک طرفہ نہیں ہو رہا بلکہ دشمنان وطن کو بھی سبق سکھایا جا رہا ہے، ان وطن دشمنوں کے حامیوں کے چہروں سے نقاب اتر جانا بھی بہت بڑی کامیابی ہے، پاکستانی عوام کو جماعت اسلامی اور اس کی مرکزی شخصیات سے اس قدر شدت پسندی کی توقع نہ تھی، جس قدر منور حسن امیر جماعت نے اپنے خیالات و بیانات میں دکھائی ہے، ہاں البتہ اب پاکستانی عوام میڈیا اور حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے حضرات یہ سمجھ چکے ہیں کہ موجودہ جماعت اسلامی دراصل طالبان کی حمایت میں ان جماعتوں سے کہیں آگے کھڑی ہے جن کی کوکھ سے طالبان نے جنم لیا ہے، میری مراد کالعدم سپاہ صحابہ، جمعیت علما اسلام سین اور ف ہیں، جو دیوبندی مکتب فکر کی نمائندہ جماعتیں ہیں اور طالبان سب کے سب ہی دیوبندی ہیں بلکہ وہ دیوبندی جن پر تکفیریت نے غلبہ پا لیا ہے۔

طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے ہم کبھی بھی پرامید نہیں رہے، نہ ہی کبھی کسی بڑے بریک تھرو کی امید رکھی ہے، جس سے حالات یکا یک پلٹ جائیں اور ملک میں امن و شانتی لوٹ آئے، جن لوگوں کو خون کی لت پڑگئی ہو، ان سے سلامتی کی توقع رکھ لینا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے، جو پیسے کے پجاری بن چکے ہوں، انہیں سادگی اور راستگی کا خو گر بنانا اکیسویں صدی میں ممکنات میں سے نہیں، سابق وزیر داخلہ طالبان کو کرائے کے ٹٹو کہا کرتے تھے، یہ بات ایسے ہی نہیں ہے بلکہ حقیقت پر مبنی ہے، ان کے پاس پاکستان کو تباہ کرنے کا ٹھیکہ ہی تو ہے، یہ بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا تھا، تاکہ پاکستان کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے اور واحد اسلامی ایٹمی پاور کے حصے بخرے کر دیئے جائیں۔ گذشتہ دس بارہ برسوں میں ان لوگوں نے جتنا بھی خون بہایا ہے اس کا حساب بہرحال انہیں دینا ہے، یہ لوگ خدا کی بارگاہ میں مجرم ہیں اور جن بیگناہوں کا خون بہایا گیا ہے ان کے مظلوم و ستم رسیدہ ورثاء کی بددعائیں آخر آسمان کو چیرتی ہوئیں بارگاہ خداوندی میں پہنچنا تھیں، ہمیں اسی دن کا انتظار ہے جب ظالموں پر قہر خداوندی نازل ہوگا اور ان کے ہر ظلم کا حساب اسی دنیا میں چکایا جائے گا اور عدل الہی کا نظارہ ہم سب ملاحظہ کریں گے۔
قتل کرنا سہل سمجھیں ہیں مرا صاحب چہ خوش
یہ نہیں سمجھے دو عالم خوں بہا ہو جائے گا

ملت تشیع پاکستان ہمیشہ سے ہی اس ملک کے وفادار اور اس کی سلامتی و استحکام کیلئے قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرتی آئی ہے، گذشتہ چھیاسٹھ سال کی تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی افواج پاکستان اور اس ملک کی سلامتی کے ضامن اداروں کے خلاف بغاوت نہیں کی اور نہ ہی ان پر بندوق و اسلحہ اٹھایا ہے، جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے افواج پاکستان اور سلامتی کے ضامن اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، وہی ملت تشیع پر بھی ایک عرصہ سے حملہ آور ہیں اور ملت تشیع کا نقصان بھی ویسے ہی کر رہے ہیں جیسے اس ملک اور اس کی سلامتی کے ضامن اداروں کا کر رہے ہیں۔ فطری طور پر افواج پاکستان اور دفاعی اداروں کو ملت تشیع کے ساتھ ہمدردانہ رویہ رکھنا چاہیئے، مگر بوجوہ اس کے الٹ روش اختیار کی جاتی ہے، اس وقت جب پاکستان کے تمام قبائلی علاقوں میں طالبان، افواج پاکستان کیلئے چیلنج بن چکے ہیں اور ان کے دہشت گردانہ حملے ہو رہے ہیں، ایک قبائلی علاقہ جہاں ملت تشیع کی اکثریت ہے، میں افواج پاکستان کیلئے تمام راستے کھلے ہیں اور انہیں کسی بھی قسم کی سکیورٹی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

میری مراد کرم ایجنسی پارہ چنار ہے، جہاں افواج پر کبھی بھی حملے نہیں ہوئے، مگر اسی علاقہ پر طالبان کی طرف سے مسلسل یلغار ہے، کبھی جنگ مسلط کر دی جاتی ہے تو کبھی خودکش بمبار بھیجے جاتے ہیں اور معصوم لوگوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے، نہایت افسوس ناک امر ہے کہ اس خطے کے پرامن اور وطن دوست عوام کیلئے پارا چنار سے لیکر پشاور تک تمام شہر سخت خطرات سے دوچار کر دیئے گئے ہیں، kpk میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی حکومت نے جس قدر مایوس کیا ہے، اس کی مثال تاریخ سے نہیں ملتی، اگر دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں ملت تشیع کیلئے ہر طرف سے سختیوں اور مشکلات نے یلغار کر دی ہے، kpk میں آج جس قدر ملت تشیع در بدری کا شکار ہے اور جن مشکلات سے دوچار ہے اس کی مثال نہیں ملتی، کچھ مسائل تو سراسر داخلی نوعیت کے ہیں، جن کو حل کرنے میں تمام طبقات اور گروہوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور کچھ مسائل و چیلنجز حکمرانوں اور متشدد، دہشت گرد گروہوں کی طرف سے ہیں، اگر یہ ملت داخلی طور پر متحد و منظم ہو جائے تو کوئی مشکل نہیں رہیگی اور اگر مسائل، مشکلات نے ایسے ہی گھیرے رکھا تو نہ جانے دشنمان مزید کتنے بیگناہوں کا خوں بہانے میں کامیاب ہوجائیں گے، ہمیں کسی بھی صورت دشمن کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیئے۔ جہاں تک بیگناہوں کے بہائے جانے والے خوں کا تعلق ہے تو یہ خون ان کے چہروں سے نقاب اتارتا رہیگا اور ان کے جرائم پر پڑے پردے کو آشکار کرتا رہیگا۔
اک لہو کا رنگ تیرے جرم عریاں کر گیا
اک لہو کی بوند میرے پیرہن کو دھو گئی

Add new comment