حضرت امام محمد تقی علیہ السلام
فرزندرسول حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا نام محمد اور کنیت ابوجعفر الثانی اور القاب تقی ،جواد، مرتضی، مختار ،منتجب، قانع اور عالم ہیں، البتہ تقی اور جواد الائمہ کا لقب زیادہ مشہورہے، آپ کےوالد گرامی کا نام حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام اور والدہ ماجدہ کا نام سبیکہ ہے فرزندرسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اس عظیم خاتون کا نام " خیزران " رکھا تھا۔
" خیزران " شمالی افریقہ کے علاقے " نوبہ " اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمسر ماریہ قبطیہ کے خاندان سے ہیں اور وہ اپنے زمانے کی عظیم خاتون تھیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے زمانے میں اس خاتون کے بارے میں پیشنگوئی کی تھی اور ایک حدیث میں فرمایا تھا: بابی ابن خیرہ الاماء النوبیہ الطیبہ میرے ماں باپ اس بہترین کنیز کے فرزند کے قربان جو " نوبہ " کی ہو گی اور پاکیزہ سرشت ہوگی،
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے بھی اس عظیم خاتون کے بارے میں پیشنگوئی کی ہے، امام علیہ السلام نے ایک حدیث میں یزید بن سلیط سے فرمایا: مکہ کے راستے سے جب میرے بیٹے علی بن موسی الرضا کے ساتھ ملاقات کرو گے تو اس کو بیٹے کی بشارت دینا جو کہ امانتدار اور مبارک ہوگا، اس دن میرا بیٹا تجھے اس بات کی خبر دے گا کہ کس دن میرے ساتھ ملاقات کی اور کیا گفتگو ہوئی اور اس وقت تم بھی اس کو یہ خبر دینا کہ تمھارا بیٹا جس کنیز سے پیدا ہوگا وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کنیز ماریہ قبطیہ کے خاندان سے ہو گی، اگر اس خاتون کو دیکھو گے تو اس تک میرا سلام پہچادینا۔
فرزندرسول حضرت امام محمد تقی علیہ السلام 10 رجب سن 195 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔اور زیارت ناحیہ مقدسہ میں اس کی تائید ہے، دعای ناحیہ میں ہم پڑھتے ہیں:اللھم انی اسئلک بالمولودین فی رجب محمد بن علی الثانی و ابنہ علی ابن محمد المنتجب۔
کلیم بن عمران سے روایت ہے: وہ کہتے ہیں کہ میں امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور امام سے درخواست کی کہ خدا کی بارگاہ میں دعا کریں کہ آپ کو اولاد عطا فرمائے، امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:حق تعالی مجھے فرزند عطا کرے گا اور وہ میرا جانشین اور امامت کا وارث ہوگا، جب امام محمد تقی علیہ السلام پیدا ہوۓ تو امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا خدای متعال نے مجھے ایسا فرزند عطا کیا ہے کہ جس کی شباہت موسی ابن عمران سے ہے جس نے دریا کے دو ٹکڑے کۓ اور اس کی مثال عیسی ابن مریم کے مانند ہے کہ خداوند نے اس کی والدہ کو پاکیزہ ، طاہر و مطہر خلق کیا ہے ۔
فرزندرسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے جب مامون کی درخواست پر خراسان (ایران ) کا سفر کیا تو اس وقت آپ کے فرزند امام محمد تقی علیہ السلام پانچ سال کے تھے اور جب حضرت امام علی رضا علیہ السلام مامون کے ہاتھوں شہید ہوۓ اس وقت امام محمد تقی علیہ السلام آٹھ سال کے تھے،فرزندرسول امام محمد تقی علیہ السلام بچپن میں ہی امامت کے منصب پر فائز ہوۓ، اور اس کم سنی میں تشیع کی کشتی کی ہدایت کے فریضہ کو بنحو احسن انجام دیا اور اپنے والد اور اجداد طاہرین کے مانند عدالت کے طلب گاروں اور مکتب اھل بیتعلیہم السلام کے پیرو کاروں کی پناہ گاہ بنے رہے۔
مامون عباسی جوکہ ایک زبردست دانشمند تھا اور اپنے زمانے کے خردمندوں میں سے تھا، اس نے عباسیوں کی مخالفت کے باوجود اپنی بیٹی "ام الفضل" کا نکاح فرزندرسول امام محمد تقی علیہ السلام کے ساتھ کیا، اس نے امام علیہ السلام کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار یوں کیا ہے،" میں نے ابو جعفر محمد بن علی کو اپنا داماد بنایا اور اس کو اپنی بیٹی ام الفضل کا شوہر انتخاب کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی کم سنی میں ہی تمام اہل فضل اور صاحبان علم و اندیشہ کے درمیان برتری حاصل کر چکے ہیں وہ اپنے زمانے کے نابغہ ہیں مجھے امید ہے کہ جس طرح میں نے ان کے علمی کمالات کو سمجھا ہے لوگ بھی اس کو سمجھنے کی کوشش کریں اور جان لیں کہ صحیح وہی ہے جو میں پسند کروں۔
یہی مامون عباسی ہے جس نے امام علیہ السلام کے علمی مقام و مرتبہ کا اعتراف کیا تھا اور انہیں اپنی بیٹی ام الفضل کا شوہر انتخاب کیا تھا مگر مامون کے مرنے کے بعد جب امام علیہ السلام نے دوسری مرتبہ بغداد کا سفر کیا تو ام الفضل کے چچا نے ام الفضل کو امام علیہ السلام کو مسموم کرنے کے لۓ اکسایا اور اس طرح امام اپنی بیوی کے ہاتھوں زہر سے شہید ہوگۓ۔اور آج بھی آپ کاروضہ کاظمین میں مرجع خلائق بنا ہوا ہے اور پوری دنیا سے زائرین آکر فیضیاب ہورہے ہيں۔
Add new comment