مکتب کفر کے بانی کی کہانی[۱]

 

ابن تیمیہ پنے والد کے مرنے کے بعد دمشق کی مسجد جامع میں کرسی تدریس پر بیٹھا اور مختلف علوم جیسے تفسیر، فقہ اور عقاید کے دروس شروع کئے لیکن اپنی کج فہمی اور منحرف ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان رائج عقاید کی مخالفت کرنے لگااوراس زمانہ میں رائج تمام مذاہب کی مخالفت شروع کردی ، اس کے فقہی اور اعتقادی فتوے اور نظریات اس کے لئے مشکل ساز بن گئے ،اپنی تقریروں اور خطوط کے جواب میں ان اعتقادات کو بیان کرتا تھا جو تمام مسلمانوں کے عقاید سے مختلف تھے جیسے تجسیم ، اولیاء کی قبور کی زیارت کو حرام قرار دینا، اولیاء خدا کی ارواح سے استغاثہ کو حرام قرار دینا ، شفاعت کا حرام ہونا، اور توسل وغیرہ کو حرام قرار دینا ۔
جب اس کے نظریات اور عقاید اس زمانہ کے علماء تک پہنچے تو انہوں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے ان کو منتشر ہونے سے منع کیا ۔ (ابن تیمیہ کے ایک شاگرد) ابن کثیر کہتے ہیں : حاکم دمشق کے محل میں سات شعبان کو ایک جلسہ ہوا ،وہاں پر سب علماء متفق ہوگئے کہ اگر ابن تیمیہ اپنے باطل افکار سے دست بردار نہیں ہوا تو اس کو قیدخانہ میں ڈال دیں گے ،لہذا اس کو قاضیوں کے سامنے مصر کے ایک قلعہ میں بھیج دیا ۔ شمس الدین عدنان نے اس کے ساتھ مباحثہ کیا اس نے وہاں پر اپنے عقاید کو ظاہر کیا تو قاضی کے حکم سے چند دنوں کے لئے برجی میں قید کردیا اور پھر اس کو مشہور جیل «جب« میں منتقل کردیا (١) ۔
وہ کہتے ہیں : اسی سال شب عید فطر میں مصر کے نائب امیر سیف الدین سالار نے تین مذہب کے قاضیوں کو فقہاء کی ایک جماعت کے ساتھ دعوت دی اور انہوں نے پیشنہاد کی کہ ابن تیمیہ کو اس شرط کے ساتھ آزاد کردیاجائے کہ وہ اپنے عقاید سے دستبردار ہوجائے ، ایک شخص کو اس کے پاس بھیجا اور اس کو تمام باتیں بتائیں لیکن وہ شرطوں کوقبول کرنے پر حاضر نہیں ہوا ، اگلے سال بھی ابن تیمیہ اسی طرح مصر کے«قلعہ الجبل« میں قید رہا یہاں تک کہ اس کو جمعہ کے روز ٢٣ ربیع الاول کو قیدخانہ سے آزاد کردیا اور اس کو اختیار دیا کہ چاہے مصر میں رہے اور چاہے اپنے وطن شام چلا جائے ،اس نے مصر میں رہنے کو انتخاب کیا لیکن اپنے عقاید کو نہیں چھوڑا ۔
٧٠٧ ہجری میں جب اس نے اپنے عقاید کو منتشر کیا تو اس کی دوبارہ شکایت ہوئی ۔ ایک مجلس میں ابن عطاء نے اس کے خلاف دعوی کیا ، قاضی بدرالدین بن جماعة متوجہ ہوگئے کہ ابن تیمیہ ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرتا ہے ،لہذا شہر کے قاضی کو لکھا کہ وہ شریعت کے حکم کے مطابق اس کے ساتھ برتائو کرے، ، قاضی کے حکم سے دوبارہ اس کو جیل میں ڈال دیا گیا لیکن ایک سال کے بعد آزاد ہوگیااور وہ قاہرہ میں سکونت پذیر رہا یہاں تک کہ ٧٠٩ ہجری میں اس کو اسکندریہ کی طرف جلاوطن کردیا ،اس نے وہاں پر آٹھ ماہ سکونت اختیار کی اور حالات کے تبدیل ہونے کے بعد عید فطر کے روز ٧٠٩ ہجری میں قاہرہ واپس آگیا اور ٧١٢ تک قاہرہ ہی میں رہا اور پھرشام واپس چلا گیا ۔
ابن تیمیہ نے ٧١٨ ہجری میں شہر شام میں تدریس و فتوی دینے کی ذمہ داری سنبھالی اور وہاں پر بھی اپنے نادر فتووں اور عقاید کو پیش کیا ،یہ خبر علماء ،قاضیوں اور حاکم تک پہنچی تو انہوں نے پانچ مہینہ کے لئے اس کو قلعہ میں قید کر دیا ، آخر کار ٧٢١ ہجری میں عاشور کے روز قلعہ سے آزاد ہوگیا ، آزاد ہونے کے بعد ٧٢٦ ہجری تک تدریس کرتا رہا ،اس کے بعد دوبارہ اپنے عقاید ونظریات کو بیان اور منتشر کرنے کی وجہ سے اسی قلعہ میں قید اور نظر بند کردیا گیا ،اس زمانہ میں تصنیفات کرنے میں مشغول ہوگیا ،لیکن کچھ دنوں کے بعد اس کو لکھنے اور مطالعہ کرنے سے منع کردیا گیا اور اس کے پاس سے ہر طرح کی کتاب ،قلم اور داوات لے لی گئی (٣) ۔
بافعی نے کہا : ابن تیمیہ کا اسی قلعہ میں انتقال ہوا اور مرنے سے پانچ ماہ پہلے اس سے قلم و داوات لے لیا گیا تھا (٤) ۔
اہل سنت کے بزرگ عالم شوکانی نے کہا ہے : «صرح محمد بن محمد البخاری الحنفی المتوفی سنة ٨٤١ بتبدیعہ ثم تکفیرہ ، ثم صار یصرح فی مجلسہ: ان من اطلق القول علی ابن تیمیہ انہ شیخ الاسلام فھو بھذا الاطلاق کافر « (٥) ۔ محمد بن محمد بخاری حنفی متوفی ٨٤١ کو ابن تیمیہ کی بدعت گزاری اور کفر کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنی مجلس میں تصریح کی کہ اگر کوئی ابن تیمیہ کو «شیخ الاسلام« کے نام سے پکارے تو وہ کافر ہے (٦) ۔

1.البداية و النهاية، ج 14، ص 4.
2 - البداية و النهاية، ج 14، ص 52.
3- المنهل الصافى و المستوفى بعد الوافى، ص 340.
4 - مرآة الجنان، ج 4، ص 277.
5- البدر الطالع، ج 2، ص 260.
6 - على اصغر رضوانى، سلفى گرى و پاسخ به شبهات، ص 44 و 46.

Add new comment