سرکاری اداروں کا گٹھ جوڑ اور عوام

نذر حافی

 nazarhaffi@gmail.com

حالات حاضرہ پر نگاہ رکھنے سے بخوبی پتہ چلتاہے کہ جب بھی کوئی حکومت غیر قانونی اقدامات کرتی ہے تو اسے اندرونی اور بیرونی طور پر زبردست حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔چنانچہ بیرونی طاقتیں بھی اپنے مفادات کی خاطر ایسے بدقماش حکمرانوں سے گٹھ جوڑ کر کے اپنے مقاصد پورے کرتی ہیں۔ظالم حکومتوں کا بیرونی اور بڑی طاقتوں کے ساتھ ملی بھگت کرنا موجودہ دور میں معمول کی بات ہے۔ جب بڑی طاقتیں ظالم حکومتوں کے ساتھ سازباز کر لیتی ہیں تو پھر ظالم حکمران صدام اور شہنشاہ ایران کی طرح جو چاہیں کریں کوئی بھی ان کے مظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا اور نہ ہی انسانی حقوق کی تنظیمیں بیان بازی سے آگے قدم بڑھاتی ہیں۔جہاں بھی اورجب بھی کوئی حکومت ،عوامی طاقت کے سامنے اپنے آپ کو کمزور پاتی ہے یا اسے یہ احساس ہونے لگتاہے کہ عوام میں اس کی مقبولیّت کم ہے یا پھر لوگ اس کی پالیسیوں سے نالاں ہیں تو ایسے میں حکومتی مشینری ایک سرکاری مافیا تشکیل دیتی ہے جو چند وزراء،قومی سلامتی کے کچھ ماہرین،چند ایک بیوروکریٹس،خفیہ اداروں اور فوج کے چند اعلی افیسران پر مشتمل ہوتاہے۔ یہ سرکاری مافیا اپنی فعالیت کے لئے مجبور ہوتا ہے کہ وہ اپنے حکومتی اہداف کے ساتھ ساتھ بڑی طاقتوں کے اہداف کو بھی پورا کرئے بصورت دیگر بین الاقوامی سطح پر مزاحمت اور ملکی سطح پر ناکامی کا امکان بہت زیادہ ہوتاہے۔

یہ مافیا حکومتی مشینری کو لاحق خطرات کے تدارک کے لئےایک رابطہ سیل قائم کرتا ہے، جس کے ذریعے وزارت داخلہ،پولیس ،فوج اور خفیہ اداروں کے اعلی عہدیداران کو مختلف ایجنڈے اور مختلف ہدایات فراہم کی جاتی ہیں۔ ملک میں جب تمام سرکاری ادارے ان ہدایات کی روشنی میں کام شروع کردیتے ہیں تو تھوڑے عرصے کے لئے عارضی طور پر ایک مخصوص ماحول پیدا ہوجاتا ہے جس سے حکومت وقت بھر پورفائدہ اٹھاتی ہے۔
اس طرح کے ماحول کو پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح میں آرٹیفیشل کنڈیشنز کہاجاتاہے۔ان" آرٹیفیشل کنڈیشنز "کے تحت کبھی مثبت اور کبھی منفی ماحول تشکیل دیاجاتاہے۔
ماضی میں ہندوستانی حکومت نے ان ہی " آرٹیفیشل کنڈیشنز "کے ساتھ ہی مسئلہ کشمیر کو دبایا اور وادی میں ایسا ماحول جنم دیا کہ لوگ سمجھتے تھے کہ نہرو صاحب بہت جلد کشمیر میں ریفرنڈم کرائیں گے اورعوامی رائے شماری کے بعدبھارت کشمیر سے دستبردار ہوجائے گا۔جب مصنوعی حالات کے بادل چھٹے تو دنیا نے دیکھا کہ یہ سب ایک سیاسی گیم تھی اور کچھ نہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں بھی بڑے عرصے تک ڈکٹیٹر حکمران اپنی ناجائز حکومتوں کو عوام میں مقبول کرانے کے لئے دہشت گردی سے کچھ لوگوں کوقتل کروانے کے بعد میڈیا کے سامنےمقتولین کے ورثاء کے پاس بیٹھ کر مگر مچھ کے آنسو بہاتے تھے۔ حکمرانوں کا جب یہ کاروبار چمکنے لگا تو پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں ہتھوڑا گروپ،چھرا فروپ،قاری قصائی گروپ اور نہ جانے کتنے ہی ایسے گروپ وجود میں آنے لگ گئے جو ایک ایک رات میں سینکڑوں لوگوں کو نیند کی حالت میں موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔اس کے علاوہ متعدد سیاسی ،لسانی اور دینی شدت پسند گروہ بھی تشکیل دئے گئے۔یہاں پر یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اگر کسی بھی ملک یا علاقے میں دہشت گردی ہورہی ہو تو دہشت گردی میں ملوث افراد کو پہچاننے کے لئے مقتولین کی درجہ بندی ضروری ہے۔جہاں پر سرکاری مافیا ملوث ہوگا وہاں پر دہشت گردی ہمہ جہتی ہو گی اور ٹارگٹ کلنگ سے متفکرین،ڈاکٹرز،علماء کرام،سیاستدانوں،شعراء و ادبا اور صحافیوں تک کو نشانہ بنایا جائے گا۔ سرکاری مافیا ٹارگٹ کلنگ کو اس لئے اہمیّت دیتا ہے چونکہ وہ بعض دانشمندوں اور مفکرین کو اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھ رہاہوتاہے اور بڑی شخصیات کے قتل سے بڑی سطح کے فوائد حاصل کرنے کے چکر میں ہو تاہے۔اسی طرح بعض لو گ ان کے راستے کی رکاوٹ نہیں ہوتے یاپھر خود حکومتی پارٹی میں سے ہی ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں قتل کروادیا جاتاہے چونکہ عوام میں مقبولیت بڑھانے ،عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنےاور بہت ساری حکومتی بدعنوانیوں سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے ان کا قتل ہوجانا ان کے زندہ رہنے سے زیادہ مفید ہوتاہے۔ گویاسرکاری مافیا کچھ لوگوں کو اس لئے قتل کرادیتا ہے کہ ان کے قتل کرانے کی بڑی طاقتوں سے قیمت وصول کی جاتی ہے اور کچھ کو اس لئے قتل کرایاجاتاہے کہ ان کے قتل ہونے کے بعد ان کی قیمت کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی قریب میں خاص کر ضیا ء الحق کے دور میں جب بھی کوئی دہشت گردانہ کاروائی ہوتی تھی اسے "را" کے سر تھونپ دیا جاتاتھا۔ لوگ بیچارے جذبہ حب الوطنی کی بناء پر نہ صرف یہ کہ مظالم سہہ جاتے تھے تھے بلکہ ایک فوجی حکومت کو اپنی اور اپنے ملک کی حفاظت کے لئے نہایت ضروری خیال کرتے تھے۔ مقتولین کے جنازوں میں جہاں "پاکستان زندہ باد" اور" ہندوستان مردہ باد" کے نعرے لگتے تھے وہیں پر "پاک فوج زندہ باد " اور "صدر پاکستان" زندہ باد کے نعرے بھی لگتے تھے۔
وقت گزرتا گیا اور میڈیا کے فروغ کے باعث شعور کی شرح بڑھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے خود ہی پاکستان میں "را" کے وجود کو مسترد کردیا اور مقتولین کے جنازوں میں بھارت کے بجائے صدر پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلاف نعرے گونجنے لگے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کچھ عرصے بعد طالبان کے جن کو بوتل سے باہر نکالاگیا اور پاکستانی طالبان، پنجابی طالبان، اچھے طالبان، برے طالبان، الغرضیکہ طرح طرح کے طالبان کو پاکستان کے گوش و کنار میں پھیلایا گیا، دوسری طرف سرکاری مافیا سے وابستہ علاقائی و لسانی شدت پسند دھڑوں کو بھی جو بظاہر طالبان کی شدت پسندی کے خلاف ہیں، میدان میں لایا گیا اور یوں پورے ملک خصوصا کراچی میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا۔ اس قتل و غارت میں مارے جانے والوں کی اکثریت بے گناہ ہے۔ ہمارے لئےلمحہ فکریہ ہے کہ یہ بے گناہ لوگ۔۔۔یہ بے چارے لوگ۔۔۔ خودکش دھماکوں سے اڑائے جانے والے، مساجد اور امام بارگاہوں میں خاک و خون میں غلطاں کئے جانے والے، یہ ایجنسیوں کے ہاتھوں سالہا سال اغوا رہنے والے، یہ بازاروں کے چوراہوں پہ بھون دیئے جانے والے، جن کا خّون گرتے ہی جم جاتا ہے، جن کا استغاثہ دنیا کی کسی عدالت میں نہیں گونجتا، جن کے گھروں میں کئی مہینوں تک چولہا نہیں جلتا، جنہیں جعلی پولیس مقابلوں میں آوارہ کتّوں کی طرح گولی ماردی جاتی ہے۔۔۔یہ بے گناہ۔۔۔یہ بے چارے لوگ۔۔۔ آخر کب تلک سوئے رہیں گے اور سرکاری مافیا ان کی لاشوں پر رقص کرتارہے گا۔

Add new comment