قرآن و سنت کی حکمرانی
تحریر: سید اسد عباس تقوی
آج کل میڈیا پر قرآن و سنت کی حکمرانی کی باتیں عام ہیں اور میڈیا سے یوں لگتا ہے جیسے اس کے سب سے بڑے داعی طالبان کے نمائندے مولانا عبد العزیز صاحب ہیں۔ ان کے مطابق اس ملک کا آئین انگریز کا بنایا ہوا ہے۔ ہمیں اس آئین کو معطل کرکے قرآن و سنت کی حکمرانی قائم کرنی ہوگی۔ اس سلسلے میں وہ دلیل دیتے ہیں کہ آپ عدالتوں میں چلے جایئے وہاں تمام قوانین انگریزوں کی کتب سے اخذ شدہ ہیں۔ اس قانون کے مطابق لوگوں کو انصاف میسر نہیں ہے۔ ہمیں اسلامی قوانین کی جانب جانا ہوگا، جس میں پندرہ دن کے اندر اندر انصاف مہیا ہوجاتا ہے۔
بہت سے لوگ انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مولانا! قرآن و سنت اس ملک کا بالادست قانون ہے، جو ہمارے اکابر نے قرآن و سنت کی روشنی میں وضع کیا اور اس میں اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے منافی نہ بنے اور اگر ایسے کسی قانون کی نشاندہی ہو جائے جو قرآن و سنت کے منافی ہو تو اس کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، لیکن مولانا ہیں کہ میں نہ مانوں کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ وہ مکرر فرماتے ہیں کہ اس قانون کے تحت غریب کو انصاف میسر نہیں، یہ انگریز کا قانون ہے، اس کو ختم کر دو۔ ان کی یہ بات ہے تو درست کہ ہمارے عدالتی نظام میں ایسے سقم موجود ہیں جن کے سبب غریب کو انصاف میسر نہیں، لیکن بات تو آئین پر ہو رہی تھی، یہ ذیلی موضوع کہاں سے آن دھمکا۔ مولانا عبد العزیز کی گفتگو سن کر مجھے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ وہ قانون اور آئین میں فرق نہیں کر پا رہے یا وہ اپنے حقیقی مافی الضمیر کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
انتہائی باریک بینی کے بعد ان کی باتوں سے جو نتائج میں نے اخذ کئے یہ ہیں کہ مولانا صدر اسلام میں متشکل ہونے وال نظام خلافت کے سوا تمام نظام ہائے حکومت کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے حالیہ تاریخ میں مولانا کے پاس اگر کوئی رول ماڈل موجود ہے تو وہ افغانستان میں طالبان کی چند سالہ حکومت ہے۔ اسی طرح مولانا انسانوں کے بنائے ہوئے کسی بھی قانون و اصول کو نہیں مانتے۔ مولانا کے رویے سے محسوس ہوتا ہے کہ ایسے کسی بھی قانون یا اصول کے خلاف جنگ کرنے والے مجاہدین اسلام ہیں اور ان کا ہر عمل دین اسلام کی عظیم خدمت ہے۔
مولانا کو ان کے ہم مسلک اور دیگر مسالک کے علماء نے سمجھانے کی بہترین کوشش کی کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قرآن و سنت ہمارے ہر قانون و اصول کا بنیادی ماخذ ہونا چاہیے۔ جو بھی شے اس بنیادی ماخذ سے متصادم ہو ہمیں قبول نہیں کرنی چاہیے، لیکن مولانا اس ٹوپی کے نیچے آنے والے نہیں۔ وہ تو کہتے ہیں کہ اس ملک میں صدر نہیں بلکہ خلیفہ ہونا چاہیے، جس کے لیے ملا فضل اللہ سے بہتر کوئی نہیں۔ چیف جسٹس انگریزی عہدہ اور نام ہے، اس کی جگہ قاضی القضاۃ کا عنوان اختیار کیا جائے۔ چیف آف آرمی سٹاف بھلا کیا عہدہ ہوا، اس کے بجائے لفظ ’’امیر البر‘‘ یا ’’سپہ سالار اعظم‘‘ استعمال کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح نیول چیف کو امیر البحر کہا جائے۔ سکولوں کے نصاب سے انگریزی کتب نکال دینی چاہئیں۔ یہی حقیقی اسلام اور شریعت کی حکمرانی ہے یا کم از کم اس حکمرانی کی جانب پہلا قدم۔
السلام علی الاسلام
مولانا کو بہت سمجھایا گیا کہ قرآن ہمیں اصول و قوانین وضع کرنے سے نہیں روکتا۔ حد صرف یہ ہے کہ کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے منافی نہ ہو۔ قرآن سے قانون اخذ تو کیا جاسکتا ہے لیکن ملک کا نظام چلانے کا مکمل نسخہ قرآن میں کہیں بھی بیان نہیں کیا گیا، لیکن پھر وہی مرغی کی ایک ٹانگ۔۔۔ جس سے سمجھ یہی آتی ہے کہ مولانا جو کہنا چاہتے ہیں وہ کہ نہیں پا رہے یا انہیں معلوم ہی نہیں کہ انھیں کہنا کیا ہے۔
ایسا بھی نہیں کہ مولانا جو کچھ بیان کرنا چاہتے ہیں اس کی کوئی علمی بنیاد نہیں۔ میری دانست میں مولانا کے موقف کو معروف مصری دانشور سید قطب شہید کی کتاب ’’المعالم فی الطریق‘‘ میں بیان کردہ جاہلی معاشرے اور اس معاشرے سے نمٹنے کی تدابیر کا ایک فہم قرار دیا جاسکتا ہے۔ سید قطب شہید کی فکر کی تفسیر یا توجیہ کا سہرا القاعدہ کے اہم راہنما عبداللہ عظام کے سر جاتا ہے، جو اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی تھے۔ آج دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اکثر داعیان خلافت عبداللہ عظام کے پروردہ ہیں، جنہیں خود عبداللہ عظام یا ان کے شاگردوں سے کسب فیض کا موقع ملا۔ کسب فیض کا یہ سلسلہ افغانستان کی سنگلاخ وادیوں میں تین دہائیوں تک جاری رہا۔
جاہلی معاشرہ کیا ہے اور اس سے کیسے نمٹنا چاہیے، پر اظہار خیال کرتے ہوئے سید قطب شہید اپنی کتاب ’’المعالم فی الطریق‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے ہمیں باہر سے لی ہوئی ہر شے کو خیر باد کہنا ہوگا۔ جب تک معاشرہ اس حالت سے نہیں نکلتا چاہے کچھ بھی ہو اسلامی معاشرہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس کو جاہلی معاشرہ کہا جائے گا۔ وہ امت مسلمہ کے مسائل کا بنیادی سبب قرآن و سنت سے دوری کو سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ صدر اسلام کے اسلامی معاشرے کی مانند ایک معاشرہ اسی وقت تشکیل دیا جاسکتا ہے، جب دنیا سے کنارہ کش ہو کر فقط قرآن و سنت کو ماخذ علم و حکمت بنایا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں مغرب سے لی ہوئی ہر چیز چاہے نظام ہو یا اصطلاحات، کو ترک کرکے خالص اسلامی نظام و اصطلاحات کو اپنانا ہوگا۔
سید قطب کے اس نظریئے سے اختلاف یا اس کی تائید ایک علمی مسئلہ ہے جس پر بحث کی جاسکتی ہے، تاہم ایک چیز واضح ہے کہ اس نظریئے کی رائج توجیہات نے عالم اسلام کو جس مشکل میں ڈالا ہوا ہے، اس کا حل تا حال ہمارے پاس موجود نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام پر پڑنے والی اس عظیم آفت سے نکلنے کے لیے اس نظریئے کا علمی جائزہ لیا جائے، اگر اس نظریئے کو قبول کرنا ہے تو سب کریں اور اگر اس نظریئے کو رد کرنا ہے تو سب کریں۔ عالم اسلام میں پھیلی ہوئی دہشت گردی کو اس نظریئے کی گتھیاں سلجھائے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بعض حضرات شاید اعتراض کریں کہ کیا دہشت گردی کا فقط یہی ایک سبب ہے، غیر ملکی مداخلت کو ہم کس زمرے میں ڈالیں گے تو عرض گزار ہوں کہ خرابی کا بنیادی عامل ہمارے اندر موجود ہے، بیرونی قوتیں تو فقط اس عامل سے فائدہ اٹھا کر مسائل کی نمو میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ہمیں ہر محاذ پر کھلی آنکھوں اور جاگتے ذہنوں کے ساتھ جنگ کرنی ہوگی، یہی ہمارے مسائل کا حل اور ہماری ذمہ داری ہے۔
Add new comment