من پسند شریعت
گزرا اسد مسرتِ پیغامِ یار سے
قاصد پہ مجھ کو رشکِ سوال و جواب ہے
غالب کا عہد کیسا تھا؟ اور وہ شاطر طبع قاصد، کی کس طرح کی حیلہ سازیوں سے تنگ آ کر مسرتِ پیغامِ یار کی لذت کو خیر باد کہہ رہا ہے؟ غالب نے قاصد کی حیلہ سازیوں کو شک کی نظر سے دیکھا یا اس مسرت آفریں پیغام سے ناامید ہوگیا تھا؟ جس پیغام کے سننے کو وہ نامہ بر کی ’’پیغام گری‘‘ کے فن کو کام میں لانا چاہتا تھا؟ نامہ بر اور غالب کے ’’محبوب‘‘ میں کیا ’’رشتہ‘‘ مشترک تھا کہ وہ غالب کی بات تو نہ سنتا تھا مگر نامہ بر کی زبان سے وہ ’’سب بھی سن لیتا‘‘ جس کا غالب نے کبھی اظہار ہی نہیں کیا تھا؟ کیا نامہ بر اور محبوب کا ہدف کہیں ایک ہی تو نہیں تھا؟ غالب کو چرکے لگانا؟ کیا قاصد، یعنی مذاکرات کار، جو غالب کے محبوب سے "مذاکرات‘‘ کرکے اسے سمجھا رہا تھا کہ غالب تو اندر سے تمھارا ہی خیر خواہ ہے، کیا اس کی حیثیت واقعی ایک پیغام کار کی تھی یا وہ باقاعدہ ایک ’’دلال‘‘ تھا؟ اور دلیلیں دے کر اپنی ’’فن کاری‘‘ کا لوہا منوانا چاہتا تھا؟ اس نے کسی مسرت انگیز نتیجے تک پہنچنے میں اتنی دیر کیوں کی؟ اور اس ساری مذاکرات کاری اور پیغام گری میں قاصد غالب کو ان دکھوں سے کیوں نہ بچا سکا، جو صرف رقیبِ رو سیاہ کا ہی مقدر ہونے چاہیے تھے۔؟
یہ ایک بحث طلب مسئلہ ہے اور اس کے لیے تو ضروری ہے کہ اس عہد کی سماجی و معاشرتی قدروں کے ساتھ ساتھ بطورِ خاص اس عہد کے ’’مذہبی رویوں‘‘ کو بھی دیکھا جائے۔ لیکن کس میں اتنی ہمت ہے کہ غالب ایسے ’’مے نوش‘‘ کے عہد کی طرف اتنی دور تک پیچھے مڑ کر دیکھے؟ وہ تو ایک ایسے ’’فن‘‘ کو اختیار کیے ہوئے تھا، جس کی اسلام نے ’’شدید مذمت‘‘ کی ہے، مجھے تو یقین کی حد تک یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ غالب کے عہد میں بھی کوئی مولوی عبدالعزیز ہوگا، جس نے غالب ایسے نابغہء روزگار کو یہ یاد دلایا ہوگا کہ وہ انگریزوں کے خلاف شمشیر زن ہونے کے بجائے جس ’’علت‘‘ میں پڑا ہوا ہے وہ تو ایک ’’گناہ‘‘ ہے اور غالباً غالب ایسے شاعر کو روز روز کے طعنوں سے تنگ آکر یہ کہنا پڑا کہ
سو پشت سے ہے پیشہء آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعہء عزت نہیں مجھے
مگر میں غالب، اس کے محبوب اور قاصد کے باہمی تعلق کا سراغ لگانے والا کون ہوتا ہوں؟ یہ ادبی ’’تفسیر نگاروں‘‘ کا کام ہے کہ وہ غالب کی اس ناامیدی کا سراغ لگائیں اور اس شوخی کا بھی، جس کا اس نابغہء روزگار نے دو مصرعوں میں اظہار کر دیا۔ ہر عہد کے اگرچہ اپنے اپنے تقاضے ہوا کرتے ہیں اور ہر عہد کی اپنی کچھ روایات بھی ہوتی ہیں، ہم مگر ضدی لوگ ہیں اور قبائلی و نسلی روایات کے ہی ’’پاسدار‘‘۔ ہمیں یہ ضد ہے کہ اپنے اجداد کی رسومات کو بھی دین کی قبا میں لپیٹ کر اسے شریعت کا مقدس نام دے دیں۔ اس طرح ’’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘ والی بات کی از خود فہم کاری کا شکار رہنے والے اپنے اجداد اور خدا، دونوں کو راضی رکھنے کا ایجنڈا، رکھتے ہیں۔ قاصد مگر اس پیغام کاری اور نشست گری کے کسی بھی پہلو سے کوئی ’’مسرت انگیز پیغام‘‘ اپنے اور اپنے فکری رفقائے کار کے لیے نہیں لاسکیں گے۔ قاصد کے مگر سوال و جواب واقعی قابلِ رشک ہیں۔
ایک نے کہا ’’حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کی جانب سے یہ اعلامیہ کہ دونوں جانب سے امن مخالف کارروائیاں نہیں کی جائیں گی، بچوں والی باتیں ہیں، جب تک نفاذِ شریعت کو مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا جاتا، اس وقت تک ملک میں امن کا قیام ممکن نہیں۔‘‘ یہ اعلان اس قاصد کی جانب سے ہے جو ریاست کے سامنے اس کمیٹی کا ممبر ہے جسے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کی مذاکراتی کمیٹی کہا جاتا ہے۔ ریاست کی طرف سے کالعدم تحریکِ طالبان سے مذاکراتی کمیٹی کے جو اراکین ہیں، وہ بھی اسی رسم کے نمائندہ ہیں جو ’’طالبانی‘‘ نقش گری سے پھوٹی۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین نے کالعدم تحریکِ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ مل کر جس اعلامیے کا ظہور کیا ہے، اس میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے لفظ ’’امن مخالف کارروائیاں‘‘ بطورِ خاص شامل کیا گیا ہے۔ ایک خواہش کو بھی اعلامیے کا حصہ بنا دیا گیا کہ طالبان کو فوری طور پر ایسی کارروائیوں سے اعلانِ لاتعلقی کرنا چاہیے جو امن مخالف ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر پھر سامنے آئے اور گویا ہوئے کہ ’’کالعدم تحریک طالبان سے اگر مذاکرات اگر ناکام ہوتے ہیں تو بھی مذاکرات ہی کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ سیکولر قوتیں اور دین بیزار لابی اس بات پر پریشان ہے کہ کہیں حکومت اور طالبان میں صلح نہ ہو جائے۔‘‘ یعنی اگر دونوں میں صلح ہوتی ہے تو یہ دین کی سربلندی کا مظہر ہوگی۔
میرا سوال مگر اس مصرعے سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہے کہ ’’قاصد پہ مجھ کو رشکِ سوال و جواب ہے‘‘ وہ ’’نفاذِ شریعت‘‘ جس کے فروغ کے لیے کالعدم تحریک طالبان پاکستان، لال مسجد والے مولوی عبدالعزیز اور ایسے ہی ان کے فکری رفقا، جس فکری و جسمانی قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں، کیا ایسی ’’شریعت‘‘ اپنے نفاذ کے حق میں کوئی ایک بھی عقلی دلیل دے سکتی ہے؟ میرے اس سوال پر مجھے دین بیزار بھی کہا جائے گا اور گناہ گار بھی، لیکن بھلا ہو غالب کا جو میرے ایسے لوگوں کا کام آسان کر گیا، ادھر سے تہمت آئی، ادھر ہم نے دیوانِ غالب کو گلے لگا لیا،
کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو
کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے
وہ جنھیں امن کے نام سے گھِن آتی ہے، اور جو اپنے مذموم مقاصد کو اپنی ’’من پسند شریعت‘‘ کی ردا میں لپیٹ کر ریاست پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں، ریاست ان سے یہ امید باندھ رہی ہے کہ وہ ایک تین رکنی کمیٹی سے رام ہو جائیں گے۔ وہ جن کا اسلام آباد میں بسنے والا ایک نمائندہ ہی ’’برقعے‘‘ سے نکل کر جامے میں نہیں آرہا، ان سے امن کی بھیک مانگنے کے بجائے ریاست انھیں اپنے ہونے کا احساس دلائے۔ یہی امن کی آخری امید ہے کہ ریاست دہشت گردوں کو ریاستی طاقت سے کچل ڈالے۔
Add new comment