منور حسن کا شہید
اثر چوہان
’’نوائے وقت‘‘ کے ایک دیرینہ قاری ننکانہ صاحب کے رانا نیامت علی خان نے ٹیلی فون پر مجھ سے پوچھا ہے کہ ’’اثر چوہان صاحب! امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل حکیم اللہ محسود کو ’’شہید‘‘ قرار دیا ہے تو تحریک پاکستان کے دوران 1947ء میں مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر میں مسلم لیگ نیشنل گارڈز کی حیثیت سے میرے جو چار بزرگ سکھوں کے ساتھ لڑتے لڑتے ’’شہید‘‘ ہوئے تھے وہ کیا تھے؟‘‘ میں نے رانا نیامت علی خان سے کہا کہ اس سوال کا جواب تو اصولاً سید منور حسن صاحب کو ہی دینا چاہیے لیکن میں اپنے طور پر کالم میں اس کا تذکرہ ضرور کروں گا۔
سید منور حسن (اگست 1944ء میں) جماعت اسلامی کے قیام کے تین سال بعد دہلی میں پیدا ہوئے تھے ممکن ہے تحریک پاکستان کے حوالے سے ان کا پس منظر مختلف ہو فی الحال میں ان کی خدمت میں یہ شعر پیش کر رہا ہوں۔
’’خنجر چلے، کسی پہ، تڑپتے ہیں ہم امیر ۔۔۔ سارے جہاں کا درد، ہمارے جگر میں ہے‘‘
یہ شعر حضرت امر مینائی کا ہے سید منور حسن جماعت اسلامی کے ’’امیر‘‘ ہیں ان کے جگر میں سارے جہاں کا درد تو نہیں لیکن وہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر تڑپ اٹھے ہیں۔ سید منور حسن کوئی باقاعدہ مفتی نہیں ہیں باقاعدہ مفتی تو سیاست کے کباڑخانے میں پڑی۔ متحدہ مجلس عمل کے امیر قاضی حسین احمد بھی نہیں تھے، جب انہوں نے مولانا فضل الرحمن اور مولانا عبدالغفور حیدری کے ساتھ 12 جولائی 2007ء کو اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’لال مسجد کے خلاف آپریشن میں قتل ہونے والے پاک فوج کے افسران اور اہلکاروں کو ’’شہید‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
مولانا فضل الرحمان بھی ’’مفتی‘‘ نہیں ہیں البتہ ان کے والد کا نام مولانا مفتی محمود تھا، جن کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ’’ خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے‘‘ پھر مولانا مفتی محمود قائداعظمؒ کے پاکستان میں، اقتدار کے ثمرات سے لُطف اندوز ہوئے۔ جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا مودودی مرحوم نے اپنی تالیف ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ‘‘ میں تحریر فرمایا تھا کہ ’’لیگ (یعنی آل انڈیا مسلم لیگ) کے قائداعظم سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی طرزِ فکر رکھتا ہو اور معاملات کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھتا ہو۔‘‘ جو مذہبی قائدین اب ’’نظریہ پاکستان‘‘ کے مفسر بنے پھرتے ہیں وہ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ جب ’’اسلام کے نام پر ‘‘ پاکستان بن رہا تھا تو ان کے بزرگوں نے علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے خلاف کفر کے فتوے کیوں دیئے تھے؟
’’متحدہ مجلس عمل‘‘ میں شامل تمام مذہبی جماعتوں کے اکابرین کے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے ریکارڈ پر ہیں لیکن یہ سب قائدین ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز بھی پڑھ لیتے تھے۔ جمعیت علمائے ہند اور بعد میں اس کی وارث جمعیت علماء اسلام کے دونوں گروپوں کے اکابرین کا فتویٰ تھا کہ ’’مولانا مودودی چونکہ کسی دینی مدرسے کے فارغ التحصیل نہیں ہیں لہٰذا ہم انہیں مستند عالم دین نہیں سمجھتے۔ جماعت اسلامی کے دوسرے امرائ، میاں طفیل محمد ، قاضی حسین احمد بھی دینی مدرسوں کے فارغ التحصیل نہیں تھے اور نہ ہی سید منور حسن ہیں اور سید منور حسن کے ممدوح ، یا ہیرو حکیم اللہ محسود نے تو کسی مدرسے کا منہ تک نہیں دیکھا۔
عرفِ عام میں اللہ کی راہ میں مارے جانے والے مسلمان کو ’’شہید‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین نے سید منور کی طرف سے حکیم اللہ محسود کو ’’شہید‘‘ قرار دینے کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہوئے سوال کیا ہے کہ ’’کیا پاک فوج اور پولیس کے افسروں اور جوانوں کے سفاک قاتل اور مساجد، امام بارگاہوں اور اولیائے کرام کے مزاروں پر خودکش حملے کرانے اور بے گناہ اور معصوم لوگوں کو موت کی وادی میں دھکیلنے والے مجرم کو ’’شہید‘‘ کہا جا سکتا ہے۔؟‘‘
سید منور حسن نے فرمایا کہ ’’الطاف حسین‘‘ قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو اُن پر ’’شہید‘‘ کا مطلب واضح ہو جائے گا۔ حکیم اللہ محسود نے جہاد کیا تھا اور وہ افغانستان کے اندر اسلام دشمنوں کے خلاف لڑتا ہوا شہید ہوا‘‘۔
سید منور حسن نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ کیا (خدانخواستہ) پاکستان کا نقشہ تبدیل ہو گیا ہے؟ کیا میران شاہ، افغانستان میں ہے؟ مولانا مودودی اگر آج زندہ ہوتے تو اس طرح کا فتویٰ ہر گز نہ دیتے۔
’’طالبان کے باپ‘‘ کہلانے والے مولانا سمیع الحق نے احتیاط سے کام لیا جب انہوں نے کہا کہ ’’یہ اللہ تعالی کو علم ہے کہ حکیم اللہ محسود ہلاک ہوا یا شہید‘‘ البتہ ’’شہیدوں کی پارٹی‘‘ کہلانے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے بھی حکیم اللہ محسود کو ’’شہید‘‘ قرار دینے کو چیلنج کیا ہے ۔ حضرت امیر مینائی نے ایک اور مقام پر کہا ؎
’’کُوئے جاناں میں ہوئی ہے جو شہادت میری ۔۔۔ دامنِ نوحؑ کے سائے میں ہے، تربت میری‘‘
حکیم اللہ محسود کا مسئلہ ’’کُوئے جاناں‘‘ نہیں تھا اس لئے ان کی ’’تربت ‘‘ (قبر) دامنِ نوحؑ کے سائے میں تونہیں ہو سکتی۔ اسے کسی نامعلوم مقام پر سپردِخاک کر دیا گیا ہے۔ طالبان کے سابقہ ترجمان شاہد اللہ شاہد کو شاید علم ہو سید منور حسن کو تو نہیں بتایا گیا ہو گا ورنہ وہ بھی لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کی طرح دعویٰ کر سکتے تھے کہ ’’غازی عبدالرشید کی قبر کی طرح حکیم اللہ محسود کی قبر سے بھی خوشبو آتی ہے‘‘ بہرحال سید منور حسن نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کو ’’شہادت‘‘ قرار دے کر اپنی ’’شہادت‘‘ (گواہی) کو فتوے کے طور پر عام کر دیا ہے۔
’’کوئی دِلوائے گر فتویٰ تو، آئے ہم سے دِلوائے‘‘
بشکریہ ۔۔۔۔ نوائے وقت
Add new comment