تنہائیوں کا شکار آدمی
احمد علی برقیؔ اعظمی
ساتھ رہتے ہوئے بے شمار آدمی
مِثلِ سیماب ہے بیقرار آدمی
ہجر میں کھو کے صبر و قرار آدمی
کب تک آخر کرے انتظار آدمی
کرکے مجروح اپنا وقار آدمی
کیوں پسِ پُشت کرتا ہے وار آدمی
مال و زر پر یہ مَرتا ہے سارا جہاں
یہ بتائیں کرے کس سے پیار آدمی
ڈھونڈتا ہے ہر اک سمت ذہنی سکوں
’’ پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی‘‘
دل کی دنیا کو کرتا ہے زیر و زَبَر
کیوں یہ ناقابلِ اعتبار آدمی
ننگِ انسانیت ہے یہ نوعِ بشر
کس پہ آخر کرے انحصار آدمی
چاہتا ہے یہ تسخیر کرلے جہاں
گرچہ ہے ایک مُشتِ غُبار آدمی
ابن آدم کو حاصل ہو جس سے سکوں
ہے وہی باعثِ افتخار آدمی
کام لے اپنے حُسنِ عمل سے اگر
دستِ قدرت کا ہے شاہکار آدمی
بھول بیٹھا ہے اپنی حقیقت کو اب
چند سانسیں لئے مُستعار آدمی
زیب دیتا نہیں ہے جو برقیؔ اسے
کررہا ہے وہی بار بار آدمی
Add new comment