شام میں دہشت گردوں کے نئے اتحاد کے پس پردہ عوامل

 شام میں دہشت گردوں کے نئے اتحاد کے پس پردہ عوامل

 شام میں دہشت گردوں کے نئے اتحاد کے پس پردہ عواملءاللهءخداءقرآنءمحمدءعلیءشیعهءاسلامءtvshiaءمهدیء

العالم کے ڈائریکٹر نے کہا: سعودی اور امریکی دہشت گردوں کو مالی اور عسکری امداد اور لاجسٹک کمک رسانی کے ذریعے اس کوشش میں ہیں کہ نیا نام نہاد اتحاد میدان جنگ میں بھی کچھ کامیابیاں حاصل کرے تاکہ جنیوا مذاکرات میں موقف پیش کرنے کے لئے ان کا قد کچھ اونچا ہوسکے؛ حالانکہ مذکورہ دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ داعش اور جبہۃالنصرہ کی سرپرستی بھی آل سعود کی خفیہ ایجنسیوں کے سپرد ہے۔
 کے مطابق العالم کے ڈائریکٹر  ڈاکٹر سادات سے شام کی جامعات کے اساتذہ اور سماجی کارکنوں کی ملاقات میں کہا گیا کہ شام میں مسلح دہشت گردوں کے مابین جھڑپوں میں شدت اور القاعدہ اور آل سعود کی باغی دہشت گرد تنظیم "دولۃ الاسلامیہ في العراق والشام (داعش)" کے مقابلے میں نئے دہشت اتحاد کی تشکیل ایسے حال میں سامنے آرہی ہے کہ مغربی اور عرب حکومتوں سے وابستہ ذرائع ابلاغ نے اس نئے اتحاد کے لئے وسیع تشہیری مہم کا آغاز کردیا ہے۔
 کے مطابق العالم نیٹ ورک کے ڈائریکٹر "ڈاکٹر سید احمد سادات" نے شام کے دارالحکومت دمشق میں جامعات کے اساتذہ اور سماجی کارکنوں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے شام میں دہشت گردوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کی شدت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: شام قوم اور افواج کی استقامت اور کئی اہم علاقے دہشت گردوں سے آزاد کرانے کی وجہ سے تکفیری تنظیموں اور ان کے بیرونی حامیوں کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔
انھوں نے شام کی مسلح افواج کی قوت و استقامت کی وجہ سے دہشت گردوں اور ان کے عرب اور مغربی آقاؤں کی حیرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: جب شام نے جنیوا 2 کانفرنس کے بارے میں اپنا موقف واضح کیا اور روس نے مغربی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردوں کی مالی اور عسکری امداد بند کریں، اور مغربی ممالک دہشت گرد کے پھیلاؤ سے خوفزدہ ہوئے، سعودی عرب اور امریکہ کو حیرت اور لاچارگی اور شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اسی بنا پر انھوں نے ایک بار پھر مکر و فریب کا سہارا لیا۔
سادات کا کہنا تھا کہ سعودی حکمران کبھی بھی اس مسئلے کے سیاسی حل کے حامی نہ تھے اسی بنا پر وہ مختلف ذرائع سے جنیوا 2 کانفرنس کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔
سید احمد سادات نے کہا: سازشی ممالک اور ان کی چوٹی پر سعودی عرب اور امریکہ اپنے اور اپنے حمایت یافتہ دہشت گردوں کے مسخ شدہ چہرے کی زیبائش و آرائش کرنے کے لئے نفسیاتی جنگ لڑرہے ہیں تاہم ان کے تشدد آمیز اور بھیانک اقدامات کی وجہ سے وہ شام کے سنی، شیعہ اور علوی باشندوں کے نزدیک ناقابل اعتماد ہوچکے ہیں چنانچہ وہ اپنی پرانی پوزیشن دوبارہ بحال کرنے کے لئے انہی دہشت گردوں کو نئے سانچے میں ڈھال کر ان کا نیا چہرہ شامی عوام اور عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش کررہے ہیں اور اس کو نام نہاد "جبہۃ الاسلامیہ" کا نام دے رہے ہیں۔
انھوں نے کہا: امریکہ اور سعودی عرب رائے عامہ کو جتانا چاہتے ہیں کہ یہ نیا اتحاد داعش اور جبہۃالنصرہ کے خلاف لڑنے والا گروپ ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ جس طرح کہ داعش اور النصرہ کی بنیادی آل سعود نے رکھی تھی اس نئے اتحاد کی بنیادی بھی آل سعود نے رکھی ہے اور سعودی حکمران ہی ان کے سرپرستی کررہے ہیں۔
انھوں نے کہا: امریکی بھی اس اتحاد کے سرغنوں سے ملاقات کرتے ہیں اور مذکورہ اتحاد میں شامل دہشت گرد تنظیموں کو قانونی حیثیت دینے کے ضمن میں انہیں دی جانے والی اپنی مالی اور عسکری امداد کو بھی قانونی حیثیت دینے کے لئے کوشاں ہیں تاکہ یہی دہشت گرد اتحاد امریکہ اور آل سعود کی طرف سے "شامی عوام کے نمائندے کے طور پر" جنیوا 2 کانفرنس میں شرکت کرسکے۔
ڈاکٹر سادات نے کہا: سعودی اور امریکی دہشت گردوں کو مالی اور عسکری امداد اور لاجسٹک کمک رسانی کے ذریعے اس کوشش میں ہیں کہ نیا نام نہاد اتحاد میدان جنگ میں بھی کچھ کامیابیاں حاصل کرے تاکہ جنیوا مذاکرات میں موقف پیش کرنے کے لئے ان کا قد کچھ اونچا ہوسکے؛ حالانکہ مذکورہ دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ داعش اور جبہۃالنصرہ کی سرپرستی بھی آل سعود کی خفیہ ایجنسیوں کے سپرد ہے۔
انھوں نے کہا: مسلح دہشت گردوں باہم منتشر ہیں، وہ نہایت درندگی کا مظاہرہ کررہے ہیں، عورتوں اور بچوں کے سر تن سےجدا کررہے ہیں اور ذرائع ابلاغ پر بھی خون خواری اور درندگی کے ان واقعات کو کوریج دی جارہی جس کی وجہ سے پوری دنیا ان سے نفرت کرنے لگی ہے؛ اسی بنا پر سعودی عرب ـ جو دہشت گردوں کے اصلی حلیفوں میں سے ایک ہے ـ نے سیاسی اور ابلاغی حوالے سے اپنے مسخ شدہ چہرے کی مرمت کرنے کی کوشش کی اور داعش کے خلاف اقدامات کرکے اپنے آپ کو دہشت گردی اور القاعدہ کے خلاف جدوجہد کرنے والی حکومت کے طور پر متعارف کرانے کی سعی کی۔ [جبکہ یہی داعش القاعدہ کی ذیلی تنظیم کے طور پر عراقی حکومت کے خلاف بھی برسر پیکار ہے اور سعودی حکمران عراق میں اسی داعش کی ہمہ جہت مدد و حمایت کررہے ہیں]۔
ڈاکٹر سادات نے کہا: اسلامی محاذ مزاحمت کے ذرائع ابلاغ ـ منجملہ العالم نیٹ ورک ـ نے گذشتہ تین سال کے عرصے میں دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کے پلید چہرے مؤثر انداز میں عالمی رائے عام کے سامنے بے نقاب کردیئے ہیں اور العالم نیٹ ورک وہابیت اور تکفیریت کا سد باب کرنے اور شام میں ہونے والے جرائم کو فاش کرنے کے لئے نئے پروگراموں کا تدارک کررہا ہے جن میں الازہر، نجف اور قم کے علماء، اور سیاسی اسلام اور دینی تحریکوں کے سرگرم راہنماؤں اور تجزیہ نگاروں کو دعوت دی جاتی ہے اور ان کے زبانی علمی انداز سے تکفیری اور وہابی افکار کے خطرات کو اپنے ناظرین کے گوش گذار کرا دیتا ہے۔
انھوں نے کہا: دو خطرناک تفکرات کو انگریزی حکومت اور رجعت پسند عرب حکومتوں نے ایک ہی زمانے میں جنم دیا جن میں سے ایک "صہیونیت" (اور یہودی حکومت) ہے اور دوسری "وہابیت" (اور سعودی حکومت) ہے اور ان دو نے دو الگ الگ محاذوں پر عورے عالم اسلام کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
انھوں نے کہا: عراقی صوبے الانبار کے شہر الفلوجہ پر القاعدہ کی ذیلی تنظیم داعش کے وہابی دہشت گردوں نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور سازشی محاذ سے وابستہ ذرائع ابلاغ حقائق کو توڑ مروڑ کر یہ جتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ فلوجہ پر اس شہر کے عوام نے قبضہ کرلیا ہے!! حالانکہ فلوجہ کے قبائل حکومت کے دوش بدوش دہشت گردوں اور تکفیری وہابیوں کے خلاف برسر پیکار ہیں [یا پھر قابض دہشت گردوں کے خوف سے شہر سے نکل کے شیعیان عالم کے مقدس شہروں کربلا اور نجف میں پناہ لئے ہوئے ہیں]۔
اس موقع پر شامی گروپ کے سربراہ شي علی عباس نے شام کےحقائق بیان کرنے کے سلسلے میں العالم کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے شامی عوام کی طرف سے اس چینل کے حکام کا شکریہ ادا کیا۔

ابنا

Add new comment