ایک دلخراش حقیقت
پیغمبر اکرم (ص) نے وفات پاکر پوری کائنات کو سوگوار و عزادار کردیا اور اس مصیبت کی عظمت اتنی تھی کہ انسانی عقل اس کے ادراک سے عاجز ہے۔ مناسب تو یہ تھا کہ نبوت کا چمکتا دمکتا سورج غروب ہونے پر امت کے اوپر پیغمبر اکرم (ص) کی بے انتہا رحمت و محبت لوگوں کے ذہنوں میں اور یادوں میں زندہ ہوجاتی۔ وہ رحمت و محبت و مہربانی جو خدا نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے: عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ (سورہ توبہ آیت128 ۔
آپ (ص) کے لئے تمہارے (یعنی مسلمانون کی) اوپر آنے والی ہر مصیبت شاقّ اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ آپ (ص) تمہاری ہدایت کا حرص رکھتے ہیں اور مؤمنین پر شفیق و مہربان ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے پسماندگان میں صرف ایک بیٹی "فاطمہ سلام اللہ علیہا" چھوڑی تھی۔ وہی بیٹی جس کو آپ (ص) اپنا ٹکڑا کہا کرتے تھے، مہینوں تک صبح و شام آپ (ص) اپنی اس بیٹی کے گھر کے دروازے پر حاضر ہوتے اور اور منظر عام و خاص میں اس پر درود و سلام بھیجتے اور اس آیت کی تلاوت فرماتے جو آپ سلام اللہ علیہا کی طہارت کی دلیل تھی: " إِنَّمَا يُرِيدُ اللہ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا"۔ (درالمنثور ـ سیوطی ـ ج6 ص605)۔
اور اپنی اس بیٹی کی رضا اور غضب کو اپنی اور خدا کی رضا اور غضب قرار دیتے ہوئے فرمایا کرتے تھے: فاطمة بضعة منی من اذاها فقد اذانی (فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ہے) یا فاطمة بضعة منی من اغضبها فقد اغضبنی (= فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اس کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا ہے)۔ (صحیح بخاری ج3 ص 96)۔
"یا فاطمة انّ اللہ یغضب لغضبِکِ و یرضی لرضاک (= اے فاطمہ! بتحقیق تیرے غضبناک ہونے پر خدا غضبناک ہوتا ہے اور تیری خوشنودی پر خدا خوشنود ہوتا ہے)۔ (کنزالعمال ج13 ص674 ح73725)۔
پیغمبر اسلام (محسن امت) (ص) کی یہی اکلوتی یادگار ـ جن پر اپنے والد معظم (ص) کی وفات حسرت آیات کی عظیم مصیبت سب سے زیادہ گران تھی، ابوبکر کے پاس آئیں اور فدک کا مطالبہ کیا۔ یہ ایسی مسلمہ حقیقت ہے جس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے اور کسی نے بھی اس سے انکار نہیں کیا ہے اور اہل سنت کے معتبر منابع نے بھی اس حقیقت کو بیان کیا ہے۔
فدک:
فدک خیبر کے مشرق اور مدینه منوره سے 20 فرسخ (120 کیلومیٹر) کے فاصلے پر واقع ایک سرزمین کا نام ہے. آب و ہوا کے اعتبار سے سر سبز و شاداب اور قابل دید جگہ تھی اس کی زمین زرخیز اور پانی کے فراوان چشموں پر مشتمل کھیتی باڑی کے موزوں خطه تھا اور یہاں رہنے کے لئے ایک رہائشی قلعہ تھا خیبر کے عظیم قلعوں کے بعد حجاز یہودیوں کا دوسرا اہم سہارا سمجھا جاتا تھا. فدک کے باغات نھایت پر ثمر اور بے حساب دولت و ثروت کے حصول کا ذریعہ تھے۔
جب اہل خیبر نے محسوس کیا کہ اسلام کے مقابلے ڈٹ نہیں سکیں گے، فدک اور ۔۔۔ کو صلح کے عنوان سے پیغمبر اکرم (ص) کے حوالے کردیا۔
انہوں نے اپنى آدھى زمينيں اور باغات آنحضرت (ص) كے سپرد كرديئے اور آدھے اپنے پاس ركھے _ انہوں نے پيغمبر اسلام (ص) كے حصہ زمينوں كى كاشتكارى بھى اپنے ذمہ لي _ اپنى كاشتكارى كى زحمت كى اجرت وہ پيغمبر اسلام (ص) سے وصول كرتے تھے، _ انہوں نے پرچم اسلام تلے زندگی گذارنے کا اعلان کیا. اور عہد کیا کہ تسلیم کے بعد کبھی بھی اسلام کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہ بنے گا. اس طرح یہ زرخیز خطہ اسلام کے تصرف میں آیا ،سب مسلمان منتظر تھے کہ اس زمین کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا فیصلہ سنادیں کہ یہ زمین سارے مسلمانوں کے حوالے کی جاتی ہے یا رسول اللہ (س) اسے اپنی ملکیت قرار دیتے ہیں؟
خدا نے اس آیت کے ضمن میں فدک کو رسول اللہ (ص) کی ملکیت خاص قرار دیا: وَمَا أَفَاء اللہ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللہ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَن يَشَاء وَ اللہ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (14) ۔
پیامبر اکرم نے فدک بیٹی کو بخش دیا :
اس کے بعد جبرئیل نازل ہو کر خدا کا پیغام لے کر آئے: وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ (15) اور پیغمبر (ص) نے خدا کے حکم سے فدک حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بخش دیا۔ شاید سب لوگ حیرت زدہ تھے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے زہد اور بندگی کی رفعتوں کے باوجود، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فدک آپ سلام اللہ علیہا کو ہی کیوں بخش دیا؟ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اس کی کیا ضرورت ہے؟
لیکن کسے معلوم تھا کہ فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ہاتھ میں، تاریخ کی سب سے بڑی دستاویز تھا؟!
اہل سنت کے منابع حدیث و تاریخ میں رسول خدا (ص) کی طرف سے اپنی بیٹی کو اس بخشش کے بارے میں کثیر روایات ذکر ہوئی ہیں۔ سیوطی درالمنثور میں بعض منابع کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے اس حقیقت کو دو صحابیوں ابو سعید خدری اور عبد اللہ بن عباس سے نقل کیا ہے۔ سیوطی مسند بزاز، مسند ابی یعلی، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیت (و آت ذالقربی حقه) نازل ہوئی، رسول خدا (ص) نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلایا اور فدک انہیں بخش دیا۔ (16)
اس حقیقت نے سنہ 7 ہجری کو عملی جامہ پہنا اور فدک تین برسوں تک فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ہاتھ میں رہا اور جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے ان برسوں کے دوران وہاں کاشتکار اور مزارع رکھ لئے تھے۔
یہ مضبوط و مستحکم سند تاریخ کے طول و عرض میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی حقانیت کی واضح دلیل تھی، جس کا ایک گوشہ یأقوت ابن عبد اللہ حموی نے اپنی کتاب "معجم البلدان" میں ذکر کیا ہے۔ اور ہم اس کے مختصر ترجمے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ یأقوت فدک کے بارے میں کہتے ہیں: "فدک ان املاک میں سے ہے جو حملے اور محنت و مشقت کے بغیر ہی حاصل ہوئے ہیں۔
چنانچہ یہ رسول اکرم (ص) کا مِلکِ خاص تھا۔ اسی لیے فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا: رسول اللہ (ص) نے فدک مجھے بخش دیا ہے۔
فدک چھین لیا گیا
ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کا واقعہ تازہ ہی تھا اور جناب ابوبکر کی خلافت کی عمر دس روز سے زیادہ نہ تھی اور لوگ علی و فاطمہ سلام اللہ علیہما کے گھر آکر تعزیت پیش کررہے تھے اور سیدہ سوگوار تھیں کہ خلیفہ اول نے کچھ افراد فدک روانہ کئے اور مالکہ یعنی سیدہ سلام اللہ علیہا کے اس علاقے کو غصب کردیا، خلیفہ نے اجر رسالت کی ادائیگی کے قرآنی حکم کے مطابق "مودة فی القربي"( قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى ،کہہ دو:میں تم سے رسالت کے عوض کوئی اجرت طلب نہیں کرتا سوائے اس کے کہ تم میرے قرابتداروں (اہل بیت علیہم السلام) سے مودت و محبت رکھو) کی راہ میں اپنا پہلا قدم اٹھاتے ہوئے سیدہ کا وکیل فدک سے نکال باہرکروایا اور فدک کو بزور شمشیر اپنے قبضے میں لیا ،سیدہ نے ابوبکر کے پاس جاکر اپنا حق چھینے جانے کی شکایت کی اور جناب فاطمہ (ع) نے كہا كہ ميرے بابا نے فدك اپنى زندگى ميں مجھے بحش ديا تھا اورجوجناب ابوبکر نے فیصلہ سنایاوہ سب کو معلوم ہے.اورخلیفہ خود ہی مدعی (Complainant) بھی تھے اور قاضی بھی! اور یہ امر اسلامی فقہ کی رو سے ہرگز مجاز نہیں ہے. اور فقہ کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ جب تک متصرف جائداد کے خلاف کسی نے شکایت نہ کی ہو قاضی (یا حاکم) کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس کے خلاف کوئی اقدام کرے. اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ سیدہ کے خلاف کسی نے بھی جاکر دربار خلیفہ میں شکایت نہیں کی تھی.
قانون کے مطابق جب قاضی خود حقیقت کا علم رکھتا ہو. (حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ اول و خلیفہ دوئم ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہتے تھے اور قطعی طور پر اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فدک سیدہ فاطمةالزہراء سلام اللہ علیہا کو واگذار کیا تھا؛ مگر خلیفہ نے در حقیقت اپنے علم و یقین کے برعکس فیصلہ دیا) وہ اپنے علم کے مطابق فیصلہ کرسکتا ہے. خلیفہ آیہ تطہیر" إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا " (احزاب – 33﴾ کے ظاہر و مفہوم کے تحت بخوبی جانتے تھے کہ حضرت فاطمہ (س) ، معصومہ اور طاہرہ ہیں اور کبھی جھوٹ نہیں بولتیں مگر انہوں نے سیدہ کی بات قبول کرنے سے صاف انکار کیا اور ان سے گواہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا!
گواہ پیش کرنے کی ذمہ داری خلیفہ پر عائد ہوتی تھی (کیونکہ مدعی وہی تھے)،لیکن پھر بھی سیدہ فاطمہ (س) نے دو گواہ پیش کئے: «حضرت علی علیہ السلام» اور رسول اللہ (ص) کی خادمہ «جناب ام ایمن»، (فتوح البلدان، ص 44)، على ابن ابى طالب (ع) فرماتے ہيں كہ فا طمہ (ع) جناب ابوبكر كے پاس گئيں اور فرمايا كہ ميرے والد نے فدك ميرے سپرد كيا تھا على (ع) اور امّ ايمن نے گواہى بھى دى تم كيوں مجھے ميرے حق سے محروم كرتے ہو،
ان دو گواہوں میں سے ایک بحکم آیہ تطہیر معصوم تھے اور دوسری ام ایمن تھیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نی جنت کی بشارت سنائی تھی. آیہ تطہیر پر ایمان رکھنے والے ہر شخص کے لئے اس آیت کے مطابق، مصداق آیت "حضرت علی علیہ السلام" کی گواہی مفیدِ علم اور حجت تھی اور دو گواہوں کی گواہی کا نعم البدل ہوسکتی تھی. اسی طرح ام ایمن کی گواہی رسول اللہ (ص) کے وعدہ جنت کی رو سے اطمینان بخش تھی اور یہ گواہی دو عورتوں کی گواہی کا نعم البدل ہوسکتی تھی یا پھر ایک مرد (خواہ وہ علی علیہ السلام کی بجائے کوئی عام آدمی ہی کیوں نہ ہو) کی گواہی کو مکمل کرسکتی تھی. مگر تعجب و تأسف کا مقام ہے کہ خلیفہ نے ان دو کی شہادت قبول نہیں کی اور کہا: ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی قابل قبول نہیں ہے بلکہ دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہی دینی چاہئے!، اسلامی سماعتی رویئے کے مطابق عدالت میں مالکیت کے اثبات کے لئے دو مرد گواہوں کی ضرورت نہیں ہوتی؛ بلکہ ایک شاہد اور ایک قسم بھی کافی ہے؛ بالفاظ دیگر مال و جائداد کے مقدمات میں "قسم" گواہی کو مکمل کر دیتی ہے اور فدک کا مسئلہ بھی مال و جائداد کا مسئلہ تھا.(تألیف آیت اللہ رضااستادی)،
اور جناب ابوبكر نے فرمايا كہ آپ سوائے حق كے اور كچھ نہيں فرماتيں فدك آپ كو ديتا ہوں پس فدك كو جناب فاطمہ (ع) كے لئے تحرير كرديا اور قبالہ آپ كے ہاتھ ميں دے ديا جناب فاطمہ (ع) نے وہ خط ليا اور باہر آگئيں راستے ميں جناب عمر نے آپ كو ديكھا اور پوچھا كہ كہاں سے آرہى ہيں؟ آپ نے فرمايا كہ جناب ابوبكر كے يہاں گئي تھى اور ميں نے كہا كہ ميرے والد نے فدك مجھے بخشا تھا اور ام ايمن نے گواہى دى تھى لہذا انہوں نے فدك مجھے واپس كرديا ہے اور يہ اس كى تحرير ہے جناب عمر نے وہ تحرير لى اور جناب ابوبكر كے پاس آئے اور كہا كہ تم نے فدك تحرير كركے فاطمہ (ع) كو واپس كرديا ہے؟ انہوں نے كہا ہان، عمر نے كہا كہ على (ع) نے اپنے نفع كے لئے گواہى دى ہے اور امّ ايمن ايك عورت ہے اس كے بعد اس تحرير كو پھاڑ ڈالا (شرح ابن ابى الحديد، ص 16 ص 274)جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبكر سے كہا كہ امّ ايمن گواہى ديتى ہے كہ رسول خدا(ص) نے فدك مجھے بخش ديا تھا جناب ابوبكر نے كہا اے دختر رسول (ص) ،۔۔۔فدك پيغمبر(ص) كا شخصى مال نہ تھا بلكہ مسلمانوں كا عمومى مال تھا آپ كے والد اس كى آمدنى سے فوج تيار كرتے تھے اور خدا كى راہ ميں خرچ كرتے تھے، جب آپ(ص) دنيا سے چلے گئے تو اس كى توليت اور سرپرستى ميرے ہاتھ ميں آئي ہے (شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 214)،اس قسم كى گفتگو جناب فاطمہ (ع) اور جناب ابوبكر كے درميان ہوئي ليكن جناب ابوبكر نے جناب فاطمہ (ع) كى بات تسليم نہيں كى اور جناب زہراء (ع) كو ان كے حق سے محروم كرديا۔
چھین کر باغ فدک یہ پھل ملا
اپنے حق میں آپ کانٹے بو گئے
فدک کے فقہی اور قانونی نقائص:
آیت اللہ رضااستادی فرماتے ہیں سماعتی ضوابط اور عدالتی کاروائی کی قواعد کی رو سی ابوبکر کا فیصلہ متعدد عدالتی خامیوں اور نواقص کا مجموعہ ہے؛ جیسا کہ:
1- اسلامی سماعتی رویئے (Islamic Hearing Procedure) اور فقہی قواعد کے مطابق اگر کسی شخص کے قبضے میں کوئی مال یا جائیداد ہو (مثلا ایک مکان اس کے تصرف میں ہو) اور دوسرا شخص اس پر اپنی مالکیت کا دعوي کرے مدعی کا فرض ہے کہ وہ اپنا دعوي ثابت کرے اور گواہ پیش کرے اور جو شخص متصرفِ مال و مِلک (Possessor) ہے اس پر اس طرح کا کوئی فرض عائد نہیں ہوتا؛ جبکہ خلیفہ اول نے اس مسلمہ اور حقیقی و یقینی قانون کے برعکس اپنا دعوي ثابت کرنے کے لئے کوئی شاہد و گواہ پیش نہیں کیا بلکہ سیدہ فاطمہ (س) سے گواہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا.
2- فقہ کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ جب تک متصرف جائداد کے خلاف کسی نے شکایت نہ کی ہو قاضی (یا حاکم) کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس کے خلاف کوئی اقدام کرے. اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ سیدہ کے خلاف کسی نے بھی جاکر دربار خلیفہ میں شکایت نہیں کی تھی.
3- خلیفہ خود ہی مدعی (Complainant) بھی تھے اور قاضی بھی! اور یہ امر اسلامی فقہ کی رو سے ہرگز مجاز نہیں ہے.
4- قاضی کو مدعی اور مدعي علیہ کا موقف سن کر فیصلہ کرنا چاہئے اور اس کے بعد حکم پر عملدر آمد کرانا چاہئے؛ جبکہ اس مخصوص مسئلے میں شکایت، فرد جرم عائد کرنے، فیصلہ سنانے اور دیگر مراحل طے کرنے سے قبل ہی خلیفہ نے فدک کو اپنے قبضے میں لے رکھا تھا اور یہ امر بھی عدالتی معیاروں سے مطابقت نہیں رکھتا.
5- قانون کے مطابق جب قاضی خود حقیقت کا علم رکھتا ہو. وہ اپنے علم کے مطابق فیصلہ کرسکتا ہے. خلیفہ آیت تطہیر کے ظاہر و مفہوم کے تحت بخوبی جانتے تھے کہ حضرت فاطمہ (س) ، معصومہ اور طاہرہ ہیں اور کبھی جھوٹ نہیں بولتیں مگر انہوں نے سیدہ کی بات قبول کرنے سے صاف انکار کیا اور ان سے گواہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا!
6- گو کہ گواہ پیش کرنے کی ذمہ داری خلیفہ پر عائد ہوتی تھی (کیونکہ مدعی وہی تھے)، سیدہ فاطمہ (س) نے دو گواہ پیش کئے: «حضرت علی علیہ السلام» اور رسول اللہ (ص) کی خادمہ «جناب ام ایمن».
ان دو گواہوں میں سے ایک بحکم آیت تطہیر معصوم تھے اور دوسری ام ایمن تھیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نی جنت کی بشارت سنائی تھی. آیت تطہیر پر ایمان رکھنے والے ہر شخص کے لئے اس آیت کے مطابق، مصداق آیت "حضرت علی علیہ السلام" کی گواہی مفیدِ علم اور حجت تھی اور دو گواہوں کی گواہی کا نعم البدل ہوسکتی تھی. اسی طرح ام ایمن کی گواہی رسول اللہ (ص) کے وعدہ جنت کی رو سے اطمینان بخش تھی اور یہ گواہی دو عورتوں کی گواہی کا نعم البدل ہوسکتی تھی یا پھر ایک مرد (خواہ وہ علی علیہ السلام کی بجائے کوئی عام آدمی ہی کیوں نہ ہو) کی گواہی کو مکمل کرسکتی تھی. مگر تعجب و تأسف کا مقام ہے کہ خلیفہ نے ان دو کی شہادت قبول نہیں کی اور کہا: ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی قابل قبول نہیں ہے بلکہ دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہی دینی چاہئے!!
7- ہم (اِس زمانے میں) جانتے ہیں (تو خلیفہ بھی اُس دور میں ضرور جانتے ہونگے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جلیل القدر صحابی «خزیمة بن ثابت» کی گواہی دو گواہوں کی گواہی کے بدلے قبول فرمائی جس کی وجہ سے خزیمہ ذوالشہادتین کے لقب سے مشہور ہوئے. اب سوال یہ ہے کہ کیا علی علیہ السلام کی گواہی / شہادت – جو سابق فی الاسلام بھی تھے اور قرآن کی صریح گواہی کے مطابق معصوم بھی تھے – خزیمہ کی گواہی کے برابر بھی نہ تھی؟ !
8- اسلامی سماعتی رویئے کے مطابق عدالت میں مالکیت کے اثبات کے لئے دو مرد گواہوں کی ضرورت نہیں ہوتی؛ بلکہ ایک شاہد اور ایک قسم بھی کافی ہے؛ بالفاظ دیگر مال و جائداد کے مقدمات میں "قسم" گواہی کو مکمل کر دیتی ہے اور فدک کا مسئلہ بھی مال و جائداد کا مسئلہ تھا.
9- خلیفہ اول و خلیفہ دوم کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کثرت مصاحبت کی بنا پر ان دونوں کو قطعی طور پر اس حقیقت سے آگاہی حاصل تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فدک سیدہ فاطمةالزہراء سلام اللہ علیہا کو واگذار کیا تھا؛ ان دونوں کو اس حقیقت کا علم تھا مگر خلیفہ نے سماعت کی متعدد خامیوں اور نواقص کے باوجود اپنے علم و یقین کے برعکس فیصلہ دیا.
10- شاید خلیفہ اول کے فیصلے کے بے بنیاد ہونے کی اصلی ترین دلیل یہ ہو کہ تاریخ نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور فدک کئی بار اہل بیت علیہم السلام کو لوٹا دیا گیا. یہ کام سب سے پہلے عمربن عبدالعزیز نے کیا۔
http://www.fatmiafoundation.com/index.php?option=com_content&view=articl...
Add new comment