وہ نبیوں ؑمیں رحمت لقب پانے والا
کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں
سبب یا علامت گر ان کو سجھائیں تو تشخیص میں سو نکالیں خطائیں
دوا اور پرہیز سے جی چرائیں یونہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں
طبیبوں سے ہر گز نہ مانوس ہوں وہ یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے بھنور میں جہاز آ کے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دُور اور طوفان بپا ہے گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی
گھٹا سر پہ ادبار کی چھار رہی ہے فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس و پیش منڈلا رہی ہے چپ و راست سے یہ صدا آ رہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہو گئے تم؟ ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم؟
پر اس قومِ غافل کی غفلت وہی ہے تنزّل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں پررعُونت وہی ہے ہوئی صُبح اور خوابِ راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں
نہ ذلت سے نفرت نہ عزت کا ارماں نہ دوزخ سے ترساں نہ جنت کے خواں
لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انہوں نے کیا دینِ برحق کو بدنام انہوں نے
وہ دیں جس نے اعدا کو اخواں بنایا وحوش اور بہائم کو انساں بنایا
درندوں کو غمخوارِ دوراں بنایا گڈریوں کو عالم کا سُلطان بنایا
وہ خطہ جو تھا ایک ڈھوروں کا گلہ گراں کر دیا اس کا عالم سے پلہ
وہ نبیوں ؑمیں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطا کار سے درگزر کرنے والا بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا قبائل کو شِیر و شکر کرنے والا
اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
مسدس حالی
Add new comment