ام المومنین حضرت عائشہ کا قاتل
منابع اسلامی کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہ کو یزید کے باپ معاویہ نے قتل کیا ہے۔سید بن طاؤس نے اس سلسلہ میں کتاب“ اوائل الاشتباہ” تالیف ابو عروبہ ﴿ وفات ۳١۸ھ﴾[2] سے دوروایتیں نقل کی ہیں۔
ابو عروبہ نے اپنی پہلی روایت میں یوں لکھا ہےکہ: “ معاویہ مدینہ میں پیغمبر ﴿ص﴾ کے منبر پر یزید کے لئے بیعت لینے میں مشغول تھا، کہ جناب عائشہ نے اپنے کمرے سے آواز بلند کی:“ خاموش ھو جاؤ! خاموش ھوجاؤ! کیا یہی رسم ہے کہ بزرگ افراد اپنے بیٹے کے حق میں بیعت لینے کے لئے لوگوں کو دعوت دیں؟ معاویہ نے جواب میں کہا: نہیں۔ جناب عائشہ نے کہا: پس اس کام میں تم نے کس کی اقتداء کی ہے اور کس کی سنت کی پیروی کرتے ھو؟ معاویہ شرم کے مارے شرمندہ ھوکر منبر سے نیچے اترا اور بعد ازاں اس نے ایک کنواں کھدوایا اور ایک دن مکر و فریب سے جناب عائشہ کومہمانی کی دعوت دے کر اس کنویںمیں گرا دیا اور اسی وجہ سے جناب عائشہ کی موت واقع ھوئی۔
لیکن ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ:“ جناب عائشہ ایک گدھے پر سوار ھوکر معاویہ کے گھر گئیں۔ جناب عائشہ نے معاویہ کا احترام نہیں کیا اور گدھے پر سوار حالت میں فرش پر چلیں اور گدھے نے فرش پر پیشاب کیا۔ معاویہ نے جناب عائشہ کے اس کام کے سلسلہ میں مروان کے پاس شکایت کی اور کہا: میں اس عورت کو برداشت نہیں کرسکتا ھوں۔ معاویہ کی اجازت سے مروان نے اس مشکل کو حل کرنے کی ذمہ داری لے لی۔ اس نے ایک کنواں کھدوایا اور ایسی چال چلی کہ جناب عائشہ اس کنواں میں گرگئیں، یہ حادثہ ذی الحجہ کی آخری تاریخ کو پیش آیا۔”[3]
کتاب “ الصرط المستقیم” کے مولف نے، پہلی روایت کو نقل کرنے کے بعد، ابی العاص سے بھی ایک روایت نقل کی ہے۔[4] اس کتاب کا مولف اس داستان کو جاری رکھتے ھوئے اعمش سے نقل کرتا ہے کہ: جب معاویہ کوفہ آگیا تو اس نے کوفیوں سے مخاطب ھوکر کہا کہ“ میں نے تم لوگوں سے اس لئے جنگ نہیں کی ہے کہ تم نماز پڑھوگے یا روزہ رکھو گے، بلکہ میں نے اس لئے جنگ کی ہے کہ تم لوگوں پر حکومت کروں“۔ اس کے بعد اعمش کہتا ہے : کیا آپ نے اس ﴿ معاویہ﴾ سے بے حیا تر کسی کو دیکھا ہے اس نے ستر ہزار افراد کو قتل کیا، جن میں عمار، خزیمہ، حجر، عمرو بن حمق، محمد بن ابو بکر، مالک اشتر، اویس قرنی، ابن صوحان، ابن تیہان، عائشہ اور ابن حسان بھی شامل تھے۔“[5]
[1] ۔ ذهبى، محمد بن احمد، تاریخ اسلام، تحقیق: تدمرى، عمر عبد السلام، ج 4، ص 164، دار الكتاب العربى، بيروت، طبع دوم، 1413ق؛ ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج 3، ص 520، دار صادر، بیروت، 1385ق.
[2] ۔ ابو عروبہ ، حسین بن محمد، بن ابی معشر مودود ابن حماد السلمی الحرانی ملا حظہ ھو: امین عاملی، سیدمحسن، اعیانالشیعة، ج 6، ص 166 – 167، دارالتعارفللمطبوعات، بیروت، 1406ق.
[3] ۔ سید بن طاوس، الطرائف فی معرفة مذاهب الطوائف، ج 2، ص 503، الخیام، قم، طبع اول، 1399ق.
[4]۔ عاملی نباطی، علی من محمد، الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم، محقق و مصحح: رمضان، میخائیل، ج 3، ص 45، المکتبة الحیدریة، نجف، طبع اول، 1384ق.
[5]۴۸۔ ۔ ایضا، ص
Add new comment