یہ مذاکرات
از۔۔شمس جیلانی
کہتے ہیں کہ کسی ملک میں کوئی با دشاہ تھا اسے عوام کا درد اٹھا یا صرف تفریحاً یہ معلوم کر نا چاہا کہ میرے ملک میں طبیب کتنے ہیں؟ وزیر اس زمانے آج کی طرح سفارشی نہیں بلکہ بڑے باصلاحیت ہو تے تھے کیونکہ وہ اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر ہی وزیر بنتے تھے۔ وزیر جانتا تھا کہ فہرست کی نہ اس سے پہلے کبھی ضرورت پڑےگی نہ آئندہ پڑے گی کیونکہ یہ ضرورت وہاں پڑتی ہے جہاں کوئی منصوبہ ہو؟ ہم نے کبھی یہ پخ پالی نہیں لہذا ملک میں موجود اطباءکاریکارڈ بنا نا اورپیش کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لیے اس نے ایسا جواب دیا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اس نے کہا کہ سرکار پورا ملک ہی طبیبوں پر مشتمل ہے؟ بادشاہ نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر ایک طبیب ہو؟ کہنے لگا کہ جان کی اماں پاؤں توکچھ عرض کروں ! بادشاہ اسکی اس چاپلوسی سے خوش ہوکر گویا ہوا، کہ عالی جاہ! تمہیں اجازت دیتے ہیں ۔ تو اس نے کہا کہ آپ نے مجھے اجازت عطا فرمائی ہے تو آپ کو اب میرے کہنے پر عمل کرنا ہوگا، میں اعلان کرادیتا ہوں کہ بادشاہ کی نصیبِ دشمناں طبیعت ناساز ہے اور عوام عیادت کو حاضر ہوں؟
چونکہ اس کے باوجود کہ وہ بادشاہ بھی غاصب ہوتے تھے جیسے کہ آجکل ہیں مگر اتنے غیر مقبول نہیں کہ اپنے ہی عوام سے خطرہ محسوس کریں اس لیے سکوریٹی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا؟ اجازت عام تھی ہر ایک عیادت کے لیے حاضرہونا شروع ہو ا، جو آیا اس نے تکلیف پوچھی! اور علاج ضرور بتایا، صبح سے شام ہوگئی بادشاہ کو ایک آدمی بھی ایسا نہ ملا جو طب میں شد بد نہ رکھتا ہو؟ وہ ملاقاتیوں سے تنگ آگیا۔اس نے کہا کہ میں نے تمہاری بات مان لی اب میری صحت یابی کا اعلان کرادو تاکہ میں بستر سے اٹھ سکوں ورنہ میں سچ مچ بیمار پڑ جاؤنگا؟
یہ ہی صورت ِ حال آجکل ہمارے ہاں کی ہے کہ ٹی وی اسٹیشن زیادہ ہیں اور ماہرین کم، جبکہ ہر ایک کی کوشش یہ ہے کہ کم ازکم تین پارٹیوں کی نمائندگی ضرور ہو؟ لہذا جو بھی آئے چلے گا؟ چاہے اسکاتعلق سابق صوبہ سرحد سے ہو یا نہ ہو اس نے وہ علاقہ کبھی خواب میں بھی دیکھا ہو یا نہ ہو؟ مگر بلاکر بٹھال لیتے ہیں کہ نمائندگی رہے اور ٹی وی اسٹیشن کی سبکی نہ ہو؟پھر وہ اپنی نادر تجاویز اور تحفظات پیش کرتے رہتے ہیں۔ جو لوگ مذاکرات کے حق میں ہیں وہ کہتے ہیں کہ دیکھئے امریکہ جیسی سپر پاور انہیں زیر نہیں کر سکی اور مذاکرات کے موڈ میں ہے تو ہم جو ان ان کے باجگزار ہیں کیوں نہ ان کی پیروی کریں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ افغانستان کا جغرافیہ اور تہذیب علاحدہ ہے پھر صورت ِ حال مختلف ہے کہ افغان اپنی آزادی اور تہذیب بچانے کے لیے جنگ کر رہے ہیں؟ اور یہ امر مسلمہ ہے کہ حملہ آور کو کبھی مظلوم قوم کی حمایت حاصل نہیں ہوتی؟
جبکہ ہمارے ہاں اس کا الٹ ہے۔ کہ پاکستانی طالبان کسی ایک خطہ کے لوگ نہیں بلکہ وہ پورے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ بختون برادری اور بقیہ پاکستان کے مسائل اور رسم ورواج قطعی مختلف ہیں ۔ ان میں کوئی چیز بھی مشترک نہیں ہے سوائے لوٹا ماری کہ وہ یہ سب کراچی سے سیکھ کر آئے ہیں جو وہاں کئی عشروں سے کامیابی سے جاری ہے؟ چونکہ ان کے یہاں بے روز گاری ہے لہذا یہ کاروبار آسان ہے کہ بھتہ خوری کرو، بردہ فروشی کرو (لوگوں کو گھروں سے اٹھاؤ اور سرحدی علاقے میں لے جاؤ ) پیسے وصول کرو اور عیش کرو؟ اس کے لیے آزاد علاقے جہاں کبھی کسی کی حکومت نہیں رہی وہ ان سب کی جنت کا کام دے رہے ہیں؟
جبکہ ان علاقوں کا مسئلہ علاحدہ ہے وہ کبھی کسی کے غلام نہیں رہے اسلام اور رسم و رواج ان کا طریقہ زندگی رہا؟ وہ اسی کو شرعی قوانین کہتے ہیں؟ اور وہی قوانین چاہتے ہیں۔ ہم نے ایک صاحب کو کل کہتے سنا کہ دنیا میں آپ نے کبھی کسی ایک ملک میں دو قانون دیکھے؟ میرے خیال میں انہوں نے دنیا ہی نہیں دیکھی اگر دیکھی ہو تی تو یہ جانتے ہو تے کہ جہاں بھی فیڈرل سسٹم ہے وہاں بہت سی جگہ ایسا ہی ہے مثلا ً امریکہ کولے لیں کنیڈا کو لے لیں۔ ہر صوبے یا اسٹیٹ کا اپنا علاحدہ قانون ہے؟ جبکہ غیر منقسم انڈیا میں تو انگریز کے دور سے ہی یہی صورت ِ حال تھی ہر مذہب اور ہر فرقہ کا اپنا پرسنل لاءتھا ان کے معاملات برٹش عملداری میں رہتے ہوئے ان کے عقیدے کہ مطابق عدالتیں فیصل کرتی تھیں یعنی ہندؤں کے فیصلے ہندو دھرم کے مطابق اور مسلمانوں کے فیصلے شرع محمدیہ کے مطابق ۔ جبکہ قبائلی علاقوں میں وہ اپنے معاملات اپنے رسم اور رواج کے مطابق طے کر تے تھے۔ یہ ہی رواج ترقی یافتہ ملکوں میں بھی رائج ہے؟ مثلاً کنیڈا میں ہر صوبے کا اپنا سسٹم ہے سوائے چند مرکزی معاملات کے وہ اپنی قانون سازی خود کرتے ہیں، دس صوبے ہیں ، تین ٹریٹیز ہیں جن میں قدیم باشندے رہتے ہیں اور وہ اپنے سردار کے تحت ( جوچیف کہلاتا) اپنے علاقے اپنے رسم ورواج کے تحت کروبارَ حکومت چلاتے ہیں؟ جبکہ قومی زبانیں دو ہیں فرانسیسی اور انگریزی جبکہ فرنچ اکثریت کے صوبے میں سوائے فرنچ کے بوڑد بھی نہیں لگائے جاسکتے۔ یہ ہی حال امریکہ کا ہے؟ کوئی کسی کے عقیدے اور کام میں مداخلت نہیں کر تا سب کے اپنے اپنے حدود ہیں ان سے کوئی تجاوز بھی نہیں کرتا ؟
پاکستان بننے کے بعد پہلی دفعہ یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ اس وقت کی حکومت نےپوچھا کونسا اسلام نافذ کیا جائے ؟ اس کاجواب تمام مکتبہ فکر کے علماءنے متفق ہو کر قراردادَ مقاصد کی شکل میں پیش کردیا کہ یہ سا اسلام؟ مگر قرارداد مقصد کوجزدان میں بند کرکے رکھدیا گیا۔ اس کے بعد طالع آزما آتے رہے اور یہ سوال بار بارپوچھتے رہے اور ملت میں نفاق پیدا کرتے رہے کہ انکا مفاد اسی میں تھا ۔ ضیاءالحق آئے انہوں نے اس کی گرد جھاڑی اور اس کی کچھ دفعات نافذ کردیں ۔ ان میں جبری زکات بھی شامل تھی؟ فقہ جعفریہ نے انہیں یاد دلایا کہ ہمارے یہاں مسئلہ مختلف ہے ؟ انہیں ماننا پڑا ؟ کاش وہ یہ بات پہلے ہی سوچ لیتے؟تو کیابرائی تھی۔ مثال موجود تھی کہ یوپی (انڈیا) میں اوقاف کے انتظامات کے لیئے انگریزوں کے زمانے سے سنی وقف بورڈ اور شیعہ وقف بورڈ الگ تھے ابھی ہیں۔ رہی پاکستانی مثال کہ قائدِ اعظم کے ورثا نے ان کی وصیت کو کورٹ میں چیلنج کیا تھا ک ہوہ فقہ جعفریہ کے مطابق درست نہیں ہے۔ فیصلہ محفوظ کے ہم یہاں آگے معلوم کے ابھی محفوظ ہے یا سنا دیاگیا۔
مگر ہمیں اتحاد صرف نعروں کی حدتک اچھا لگتا ہے۔ دوسرے کی سنتے نہیں اپنی مرضی ٹھونسےکی عادت ہے؟ پہلے ہم نے یک زبان کے مسئلہ پر پاکستان کی اکثریت کو ناراض کیا پھر ایک دن میں عید سب جگہ کے مسئلہ ایک ہزار میل دور بیٹھی اکثریت کو ناراض کیا؟ پھر نا انصافیاں کرکے ان سے جان جھڑائی جو ہماری آبادی کا ٥٤ فیصد تھے۔
کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ سب کو اپنے حال میں مست رہنے دیں ۔ تمام دنیا کا ٹھیکہ ہم نہ لیں؟ ہم بھی خوشی اور وہ بھی خوش کی پالیسی اپنا ئیں، تکفیر کے کار خانوں کی سر پرستی بند کر دیں؟ اور جو جس فرقہ کا عقیدہ ہے اسے اپنا طریقہ اپنانے دیں۔ کیونکہ پہلے بھی رہتے ہی تھے ۔ تکفیری اور بدعتی فرقوں کے علمبر دار توابھی کو ئی ایک سو سال سے کم ہی پہلے ہی پیدا ہو ئے ہیں۔ بصورت دیگر ہر طالع آزما اپنا اسلام چاہے گا تو حکومت کس کس کو راضی کریگی ؟ اگر ایک ہو گا تو دوسر ا ناراض ہو جائے گا ؟ بد عنوانیوں کے جو بازار کھلے ہو ئے ہیں ان کو بند کر نا حکومت کی اولین ترجیح ہو نا چاہئے؟ ہم نے عرفان صدیقی کا ایک کالم پڑھا ہے جو مصالحتی کمیٹی کے رکن ہیں۔ جس میں انہوں نے ایک طالبان لیڈر کو اتنا نوزا ہے ک باقی طالبان گروپ ناراض ہو گئے ہونگے اور وہ ان کی بات کبھی نہیں مانیں گے؟۔ یہ بالکل ایسا ہی کہ ٹورنٹو میں ایک تقریب تھی اس میں ایک انگریزی کے کالم نگار کو تقریر کرنا تھی، جو صاحب نظامت کے فرائض انجام دے رہے تھے انہوں نے ان کا تعارف کرایا تو کہا یہ قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں ، یہ قوم کا حسن ہیں یہ قوم کی عزت اور آبرو ہیں وغیرہ وغیرہ ،اس پر انور مقصود صاحب نے فل البد یہ تبصرے کہا کہ دلہن پورا جہیز تیار ہے صرف غرارے کی کمی ہے؟
بشکریہ عالمی اخبار
Add new comment