کوکھوں کی جنگ= The War of the Womb
صہیونیوں نے اس منصوبے کو «کوکھوں کی جنگ= The War of the Womb» قرار دیا ہے اور صہیونی حکام کو یقین ہے کہ موجودہ حالات میں نہ صرف بیرونی یہودیوں کی مقبوضہ فلسطین کی جانب ہجرت میں کمی آئی ہے بلکہ بہت سے مقیم یہودی واپس اپنے آبائی ممالک کی طرف الٹی ہجرت کررہے ہیں اور بہت سے پرانے یہودی بھی امن و امان میں زندگی بسر کرنے کے لئے دیگر ممالک کی طرف جارہے ہیں۔ 1948 سے دیگر ممالک سے یہودیوں کی ہجرت صہیونی ریاست کی وجود کی بنیاد بنتی چلی آئی ہے اور دنیا جانتی ہے کہ صہیونی ریاست دنیا کے گوشوں میں رہنے والے یہودیوں کو مالی مدد اور پرامن اور بہتر زندگی کا جھانسہ دے کر انہیں فلسطین آنے کی ترغیب دلاتے آئی ہے۔۔۔۔ صہیونی ریاست کی مختصر سی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ریاست کا جغرافیہ جعلی ہے اور واحد فلسطینی سرزمین پر قبضہ کرکے اور اسے تقسیم کرکے اس کا جغرافیہ معرض وجود میں آیا ہے ۔۔۔ لیکن مسجدالاقصی کا انتفاضہ اور معیشت اور امن و امان کی صورت حال پر اس کے منفی اثرات کی وجہ سے دنیا کے ممالک سے یہودیوں کی فلسطین ہجرت میں شدید کمی آئی اور الٹا مقبوضہ فلسطین سے یہودیوں کی معکوس ہجرت کا آغاز ہوا اور ہزاروں یہودی خاندان اپنے آبائی ممالک سمیت امریکہ اور مغربی یورپ کی جانب نقل مکانی کرگئے۔۔۔ بات یہیں رکی نہیں بلکہ 2006 جولائی میں صہیونی ریاست پر حزب اللہ کی عظیم فتح کے بعد یہودی آبادکاروں کو یقین ہوچکا ہے کہ وہ فلسطین میں آرام اور امن کے ساتھ زندگی نہیں گذار سکیں گے ۔۔۔۔ گو کہ عبرانی زبان کے مختلف ذرائع ابلاغ میں ابھی تک ایسی رپورٹیں نشر ہورہی ہیں کہ گویا یہودی اب بھی مقبوضہ سرزمین میں آرہے ہیں اور یہ ذرائع کبھی بھی اسرائیلیوں کو یہ نہیں بتاتے کہ بہت سے یہودی مقبوضہ فلسطین کو ترک کرچکے ہیں اور بہت سے دیگر ترک کررہے ہیں اور اس بارے میں بات چیت یا اظہار خیال «سخت منع ہے»۔ اور اگر کوئی اس بارے میں صہیونی ذرائع ابلاغ میں اظہار خیال کرے اس کا سروکار پلیس اور عدالت سے ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ صہیونیوں کو اس بات کا خوف ہے کہ کہیں اس طرح کا اظہار خیال دیگر یہودی آبادکاروں کو بھی فلسطین چھوڑنے کی ترغیب نہ دلائے۔۔۔ 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کی فتح کے بعد فلسطین سے یہودیوں کی الٹی ہجرت میں شدید اضافہ ہوا ہے کیونکہ انہیں حزب اللہ کے راکٹوں نے وحشت زدہ کردیا ہے اور اب وہ یہاں ناامنی کا احساس کررہے ہیں۔۔۔ سیاحوں کی آمد میں 25 فیصد کمی آئی ہے اور سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کرنے والے سرمایہ کار اپنا سرمایہ نکال کر دوسرے ممالک میں لگانے لگے ہیں ۔۔۔ فرار کرنے والے یہودیوں نے کہا ہے کہ ان کے فرار کا سبب یہ ہے کہ اسرائیل حکمران ان سے بہت زیادہ ٹیکس وصول کررہے ہیں، نوجوان اور پڑھے لکھے افراد کے لئے مناسب روزگار کے مواقع میسر نہیں ہیں، جبکہ پرانے لوگ اپنے مناصب پر جم کر بیٹھے ہیں، دوسری طرف سے مزاحمتی تحریکوں کی طاقت میں زبردست اضافہ ہورہا ہے اور حتی کہ 1948 کی مقبوضہ سرزمینوں تک میں شہادت طلبانہ حملوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔۔۔ صہیونی ریاست کو اس وقت یہودیوں کی آبادی میں شدید کمی کے حوالے سے اس ریاست کا مستقبل مبہم نظر آنے لگا ہے۔
یہودی مہاجرین کو جذب کرنے والے ادارے کے صہیونی وزیر «تزيبي ليوني» کا خیال ہے کہ: اسرائیلی حکومت موجودہ حالت میں تبدیلی لانے کی حکمت عملی پر غور و خوض کررہی ہے۔ اور اس کی کوشش ہے کہ اسرائیل کو عالمی یہودیوں کے لئے بہت ہی دلچسپ ملک میں تبدیل کردے!۔
بہرحال یہودیوں کی فلسطین ہجرت کا مزید سہارا لینا ممکن نہیں ہے اور اسرائیلی حکام کی کوشش ہے کہ دین یہود کے عقائد کے سہارے یہودی آبادی میں اضافہ کرنے کی غرض سے یہودی عورتوں میں زیادہ سے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کا اہتمام کرے۔
تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق صہیونی ریاست نے دینی مبلغین کو ہدایت کی ہے کہ یہودی قصبوں کی عورتوں کو 8 سے لے کر 10 بچے پیدا کرنے کی ترغیب دلائیں۔۔۔ یہ مبلغین یہودی عورتوں کو سرزمین موعود کی نجات کے سلسلے میں قوم یہود کی نجات دہندہ عناصر کا خطاب دے رہی ہیں اور بقول ان کے ان عورتوں کا کردار بہت ہی زیادہ تعمیری ہے اور ان سے کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کو ٹوٹنے سے نجات دیں اور زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ : مؤمن عورت وہ ہے جو اسرائیل کے لئے مفید ہو اور مفید عورت وہ ہے جو کم از کم 8 بچوں کی ماں بنے۔۔۔
یہ مبلغین اپنی اس تبلیغ کی توجیہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ہم صرف اسی صورت میں ڈیموگرافی اور بشری شماریات کے حوالے سے فلسطینیوں پر فوقیت حاصل کرسکتے ہیں۔
یہودی نظریہ پرداز اور دائیں بازو کے صہیونی اہل قلم «حوجي ہوبرمن»، نے «ہتسوفیہ» نامی روزنامے میں چھپنے والے ایک مضمون کے ضمن میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی جنگ میں «مؤمن یہودی عورتوں کی کوکھ کی اہمیت» کے بارے میں لکھا ہے: یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ بائیں بازو کے صہیونیوں کو پراپیگنڈے کے شعبے میں خاطرخواہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور وہ ذرائع ابلاغ کی خدمات حاصل کرکے یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں کہ اصل جنگ مقبوضہ سرزمینوں میں مقیم آبادکاروں اور فلسطینوں کے درمیان ہے اور جنگ کی اصل بنیاد سرزمین اور ڈیموگرافی یا بشری شماریات ہیں۔
اس کے باوجود اکثر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ فلسطینی مسلمانوں پر صہیونیوں کی کامیابی کی امید نہیں رکھی جاسکتی اور آبادی میں اضافے کے ذریعے بھی صہیونیوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتے۔
رپورٹ: ف۔ح۔مہدوی
Add new comment