کٹھ پتلیوں سے مذاکرات
محمد عرفان صدیقی، جاپان
اس کا نام تو خوشحال خان تھا، تاہم اس کی زندگی اس کے نام کے بالکل مخالف سمت سفر کر رہی تھی، وہ گیارہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، اس کا تعلق سوات سے تھا، جبکہ اس کا باپ ایک کسان تھا، جو بڑی مشکل سے اپنے کنبے کی ضروریات زندگی کھیتی باڑی کی آمدنی سے پوری کر پا رہا تھا۔ خوشحال خان کو اس کے باپ نے چھ برس کی عمر سے ہی اپنے ساتھ کھیتی باڑی کے کاموں میں لگا لیا تھا، تاہم اس کا دل کھیتی باڑی میں بالکل نہیں لگتا تھا، جس کا اندازہ اس کے باپ کو بھی ہوچکا تھا، لہٰذا چند سال کے بعد علاقے کے مولوی صاحب کے کہنے پر خوشحال خان کے باپ نے اسے مقامی مدرسے میں داخل کرا دیا، جہاں نہ صرف خوشحال خان کو رہائش بلکہ کھانے پینے کے علاوہ کپڑے بھی فراہم کیے جانے لگے۔ خوشحال خان کے والدین کے لئے یہ بھی بہت بڑی نعمت تھی کہ گیارہ بچوں میں سے ایک بچے کی ذمہ داری کم ہوگئی تھی جبکہ بچہ دینی تعلیم بھی حاصل کر رہا تھا، جو آگے جا کر مذہبی عالم بنے گا۔
خوشحال خان ایک شرارتی طبعیت کا مالک بچہ تھا، جس کی وجہ سے مدرسے میں بھی بچے اس سے تنگ تھے، جبکہ مدرسے کے استاد بھی خوشحال خان کو مدرسے میں رکھنے کے حامی نہیں تھے۔ اگلے تین سال تک وہ مدرسے میں رہا تھا، تاہم وہ قرآن پاک بھی مکمل طور پر ختم نہیں کرسکا اور ایک دن اسے مدرسے سے نکال دیا گیا، لہٰذا ایک بار پھر وہ باپ کے ساتھ کھیتی باڑی کے کام میں شامل ہوگیا۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور اب خوشحال خان سولہ برس کے گھبرو جوان میں تبدیل ہوچکا تھا، اپنے لمبے ڈیل ڈول اور طاقتور جسم کے باعث وہ اپنی عمر سے کافی بڑا ہی دکھائی دیتا تھا۔ خوشحال خان خاندانی غربت اور افلاس کے باوجود اب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا اور اب اسے اپنے علاقے کے زمیندار کی بیٹی اچھی لگنے لگی تھی جسے اس نے محبت کا نام دے دیا تھا، تاہم جس روز اس نے زمیندار کی بیٹی کو راستے میں روک کر اپنی محبت کا اظہار کیا، اسی روز زمیندار کے آدمیوں نے مار مار کر اس کی جان ہی نکال لی تھی، اس سے پہلے اس جرم کی پاداش میں اسے قتل کر دیا جاتا، علاقے کے معززین اور خوشحال کے باپ نے گڑ گڑا کر زمیندار سے اپنے بیٹے کی جان کی بھیک مانگی، جو اس شرط کے ساتھ ملی کے خوشحال خان کو فوری طور پر علاقہ بدر کر دیا جائے۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے خوشحال کے والد نے کراچی میں اپنے دوست سے بات کرکے اسے کراچی روانہ کر دیا، یہ خوشحال خان کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی تھی۔ کراچی آکر خوشحال خان نے مزدوری سے اپنی زندگی کا آغاز کیا، جس کے بعد اس نے ڈرائیونگ سیکھ کر ڈرائیور کی نوکری حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں، جس میں اسے کامیابی حاصل ہوئی۔ اس طرح مختلف دفاتر اور ملازمتوں سے ہوتا ہوا وہ اگلے چند سالوں بعد کسی سفارش کے ذریعے میرے پاس ملازمت کے لئے پہنچا۔ خوشحال خان انتہائی کم گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والا شخص تھا، تاہم وقت کا پابند اور انتہائی مستعد ہونے کے سبب میرے لئے وہ کافی اہمیت کا حامل تھا، وہ نہ صرف میرے لئے ڈرائیور کی خدمات انجام دیتا تھا بلکہ سکیورٹی گارڈ کی ذمہ داریاں بھی نبھاتا تھا، کبھی کبھار کسی لمبی ڈرائیونگ کے دوران میں اس سے گپ شپ بھی کر لیا کرتا تھا ، اس بات چیت کے دوران مجھے اس کے تمام حالات زندگی سے واقفیت حاصل ہوئی، وہ اکثر مجھے سوات آنے کی دعوت بھی دیتا تھا، تاہم میں اپنی بیرون ملک مصروفیات کے سبب اسے ٹال دیا کرتا تھا۔ خوشحال خان ایک بہادر شخص تھا، جس کا کئی دفعہ میں مظاہرہ بھی دیکھ چکا تھا، وہ نماز بھی باقاعدگی سے پڑھتا تھا، خوشحال خان میرے لیے انتہائی ایماندار اور وفادار شخص تھا، یہی وجہ تھی میں روزانہ ہی تنخواہ کے علاوہ بھی اسے خاصی معقول رقم دے دیا کرتا تھا جو وہ کافی تکلف کے بعد لے لیا کرتا تھا۔
وہ تقریباً دو سال تک میرے پاس بحیثیت ڈرائیور کام کرتا رہا، پھر وہ ایک روز بغیر بتائے ملازمت چھوڑ کر واپس سوات چلا گیا، ان دنوں سوات اور وزیرستان میں فوجی آپریشن بھی جاری تھا جبکہ طالبان کی کارروائیاں بھی عروج پر تھیں، میں خوشحال خان کے لئے پریشان تھا کہ ان خطرناک حالات میں اسے سوات نہیں جانا چاہئے تھا لیکن پھر میں نے یہ سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی کہ شاید وہ اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کی محبت میں کراچی چھوڑ کر چلا گیا، لیکن کچھ عرصہ قبل جب میں پاکستان پہنچا تو میرے موبائل فون پر خوشحال خان کی کال موصول ہوئی، اب اس کا نمبر تبدیل ہوچکا تھا، اس کی آواز بھی پہلے کی نسبت کافی تبدیل ہوچکی تھی، پہلے تو اس نے مجھ سے بغیر وجہ بتائے واپس جانے کی معافی مانگی لیکن اگلے ہی لمحے اس کے الفاظ میری سماعت سے کسی بم کی طرح ٹکرائے کہ بقول اس کے وہ اب صرف خوشحال خان نہیں رہا ہے بلکہ طالب کمانڈر خوشحال خان بن چکا ہے اور اس کی ٹیم میں کئی درجن مقامی طالب بھی شامل ہیں، جبکہ علاقے میں لوگ بقول اس کے اس کی بے حد عزت کرتے ہیں اور اس نے اسی زمیندار کی بیٹی سے نکاح بھی کر لیا ہے، جس نے اسے قتل کرتے کرتے چھوڑا تھا، اب اس کے پاس ڈبل کیبن گاڑیاں بھی موجود تھیں، جبکہ اس کے پاس ڈالروں اور روپوں کی شکل میں بے تحاشہ دولت بھی تھی۔
وہ میرے پاس اپنی ملازمت کے دنوں میں اس کے ساتھ کی گئی مہربانیوں کا شکریہ ادا کر رہا تھا اور اب بھی مجھے سوات آنے کی دعوت دے رہا تھا اور مکمل سکیورٹی کی گارنٹی بھی دے رہا تھا، لیکن اب مجھے خوشحال خان سے بات کرتے ہوئے کوئی خوشی محسوس نہیں ہو رہی تھی، میں سمجھ گیا تھا کہ وہ اب ملک دشمن طاقتوں کا آلہ کار بن چکا ہے، اس نے اپنی طاقت اور دہشت کے بل بوتے پر زمیندار کی بیٹی سے نکاح کرکے ماضی میں اپنی بے عزتی کا بدلہ لے لیا ہے، وہ غیر ملکی طاقتوں کے کہنے پر ملک کے مفاد کے خلاف کام کرکے دولت جمع کر رہا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ وہ پاکستان دشمن طاقتوں کے حکم پر پاکستان مخالف کارروائیاں کر رہا تھا، جس سے معصوم لوگوں کی جانیں جا رہی تھیں، وہ ایک کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہا تھا، جس کی ڈوریں باہر سے بیٹھ کر ہلائی جا رہی تھیں۔
لیکن میں اس بات پر حیران ہوں کہ حکومت ان کٹھ پتلیوں سے مذاکرات کے لئے کیوں رضا مند ہوگئی ہے جن کے اختیار میں کچھ نہیں ہے، جبکہ ہماری حکومت اور ایجنسیاں بھی یہ لازمی طور پر سمجھتی ہوںگی کہ ان کٹھ پتلیوں کی ڈوریاں ہلانے والی طاقتیں دراصل کوئی اور ہیں، یہ وہ طاقتیں ہیں جو ہمارے ملک کے باشندوں کو ہمارے ملک کے خلاف ہی استعمال کرنے کے لئے اسلحہ، دولت، تربیت اور منصوبے تک فراہم کر رہی ہیں۔ اگر ان ہی دشمن طاقتوں سے براہ راست مذاکرات کر لیے جائیں تو مسائل زیادہ جلدی حل ہوسکتے ہیں یا پھر ان چھوٹے چھوٹے گروپوں کو اس سے زیادہ قیمت ادا کرکے خرید لیا جائے، جس قیمت پر یہ دشمن قوتوں کے ہاتھوں فروخت ہو رہے ہیں تو بھی شاید صورتحال میں بہتری آجائے، تاہم اگر اصل طاقتوں سے مذاکرات نہ کیے جائیں اور مقامی گروپوں کو ان کی منہ مانگی قیمت میں خریدا نہ جائے تو حالات سدھرتے نظر نہیں آ رہے ہیں، کیونکہ مقامی گروپوں کا مفاد صرف لڑائی میں ہے جس کی قیمت ان کو باہر سے ملتی ہے، امن و امان میں صرف پاکستان اور پاکستانی عوام کا مفاد ہے، جس کی قیمت ہمیں بہرحال ادا کرنی ہے۔
Add new comment