حج کی برکتیں
جاوید عباس رضوی
اس سال بھی مکہ کی سرزمین وحی پر حاجیوں کا عظیم عالمی اجتماع منعقد ہوا جس میں حسب سابقہ امسال بھی 20 لاکھ حاجیوں نے اپنا دینی فریضہ انجام دیا اور مجموعاً فریضہ حج پر ہوائی و زمینی کرایہ سے لیکر رہائش و اعمال حج پر بھاری رقم خرچ کی گئی، قرآن کریم اور احادیث شریف سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر قسم کے دینی اعمال و عبادات کا ایک فلسفہ و مقصد ہوا کرتا ہے، مثلاً نماز کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان کو برائی سے روکے اور اسکے معنوی تطہیر کا انتظام کرے، اسی طرح روزہ کا مقصد تقویٰ حاصل کرنا ہے، بالکل حج کا بھی ایک اہم مقصد ہے اور اسکے ہر رکن اور عمل میں ظاہر اور باطن میں مخلتف مقاصد چھپے ہوئے ہیں، عبادت کے عنوان سے حج کو دیکھیں تو اللہ کے حکم کے سامنے اپنے نفس اور خواہشات کی قربانی کی بہترین تربیت گاہ ہے، سماجی طور سے دیکھیں تو ایک دوسرے کے معاشی و ثقافتی مسائل کو سمجھنے کا موقعہ فراہم کرتا ہے، سیاسی اعتبار سے دیکھیں تو امت مسلمہ کے بڑے بڑے سیاسی مسائل کا حل حج کے صحیح انعقاد میں ہے، اللہ تعالی نے مسلمانوں کو مخصوص مقام پر طلب کرکے انہیں ایسے اعمال و حرکات کے سلسلے میں کئی شب و روز تک ایک جگہ مجتمع کر دیا ہے جو پرامن بقائے باہمی، نظم و ضبط اور ہم آہنگی کے مظہر ہیں۔
دنیا میں اگرچہ مختلف ادیان کے پیروکار زندگی بسر کرتے ہیں لیکن آج کے دور میں صرف مسلمانوں سے حق حیات چھینا گیا ہے، صرف مسلمانوں کا ہی خون ارزاں ہوگیا ہے، یہی وہ تنہا ملت ہے جو بے شمار مشکلات اور پریشانیوں میں گرفتار ہے، امت مسلمہ اپنے قدیمی و خطرناک دشمنوں سے غافل ہو کر باہمی اختلافات میں الجھ کر باہم دست بہ گریباں ہوچکی ہے، ان حالات میں دنیا کے اطراف و اکناف سے 20 لاکھ مسلمانوں کا حج کے سالانہ اجتماع میں جمع ہونا بڑی اہمیت رکھتا ہے، لیکن صد افسوس کہ حج اپنے سیاسی و عبادتی فلسفہ سے خالی ہوکر رہ گیا ہے، خانہ کعبی جو ہمیشہ طاغوت و متکبرین کے خلاف قیام کے مرکز کے طور پر مشہور ہے آج یہی بیت اللہ مٹھی بھر افراد کے ہاتھوں جو خود کو خادمان حرم کہتے ہیں یرغمال ہوچکا ہے، یہاں حاجی حضرات کو درس اتحاد و اخوت کے بجائے آپسی منافرت کو ہوا دی جاتی ہے، حج اسلامی قوت کا عملی مظاہرہ ہے جب دنیا بھر کے مسلمان مل کر اعمال حج کو انجام دیتے ہیں، ایک امام کے پیچھے نمازیں ادا کرتے ہیں سب کا رخ ایک ہی قبلہ کی طرف ہوتا ہے، سعی کے وقت شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے غرض ہر جگہ مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں، سب مل کر عزت و احترام کے ساتھ، باہمی تعاون کے ساتھ تمام اعمال انجام دیتے ہیں۔
مسلم امت کو جتنی آج اتحاد کی ضرورت ہے اتنی کبھی بھی نہیں تھی، امریکی حکمران ہمارے لئے مخلتف قسم کے منحوس ارادے رکھتے ہیں، تازہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکام کا عراق، ایران اور سعودی عرب کو تقسیم کرنے کا پروگرام بھی ہے، مذہبی و مسلکی منافرت پھیلانے پر تیزی سے کام ہورہا ہے، اسلامی اسکالرز کا خریدنا یا ان پر مخلتف قسم کے الزامات لگانا، دین کو سیاست سے دور رکھنا، مسلمان نوجوانوں میں بے راہ روی ایجاد کرنا انکے اہم ترین اہداف میں شامل ہے، ان حالات میں حج کے عالمی اجتماع سے پیغام وحدت دینے کے بجائے آپسی منافرت کا لٹریچر تقسیم جاتا ہے، مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ ہو کر بھی ایک دوسرے کے احوال سے بے خبر ہیں، فرزندان ابراہیم (ع) امریکہ و اسرائیل جیسے مشرکین سے اعلان برات کے بجائے ساز باز کئے ہوئے ہیں، فلسطینی مظلوموں کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لئے کوئی قرارداد پاس نہیں ہوتی، یہاں تک کہ امام کعبہ کبھی بھولے سے بھی فلسطین کی آزادی کے لئے دعا نہیں کرتے، ہر قوم دوسری قوم کی نفی اور تحقیر کا وسیلہ بنا ہوا ہے اس کے بجائے ہر قوم کو دیگر اقوام کے درمیان اپنی تاریخی، نسلی اور جغرافیائی خصوصیات اور خوبیوں کی منتقلی کا ذریعہ بننا چاہئے تھا، حج کہ جو زخم کا مداوا، اتحاد کا ذریعہ اور عالم اسلام کے دلوں، نیتوں اور ارادوں کی یکسانیت و ہم آہنگی کا وسیلہ ہے انتشار اور بغض و عناد کا حربہ نہیں بننا چاہئے تھا، معلوم نہیں کہ ہمارا دینی شعور خود بہ خود کم ہوگیا ہے یا اسے دشمن کی نظر لگ گئی ہے۔
Add new comment