قرآنی انقلاب

قرآنی انقلاب
نذر حافی nazarhaffi@yahoo.com

عام طور پر کہیں بھی اجتماعی تبدیلی کو انقلاب کہاجاتاہے۔[1]یہ لفظ انگریزی کے کلمے"revolution" اور عربی کے کلمے "ثورہ"کے مترادف ہے۔ محقیقین کے مطابق " لفظِ انقلاب" شروع میں صرف علم نجوم میں استعمال ہوتاتھا اور ستاروں کی حرکت کو انقلاب کہاجاتاتھا۔یہ اصطلاح یورپ میں سترہویں صدی عیسوی میں اور ایران میں انقلابِ مشروطہ کے دور میں استعمال کی جانے لگی۔[2] لغت میں انقلاب: لغت میں ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہونے،بنیادی تبدیلی،گردش ،دور،پرانے سیاسی یامعاشی نظام کی جگہ نئے نظام کا نفاذ نیزمتغیّر ہونے،تہہ و بالاہونے اور پلٹنے وغیرہ کو انقلاب کہتے ہیں۔[3] اصطلاح میں انقلاب: ارسطو کا نظریہ انقلاب ارسطو کے نزدیک انقلاب کے دو معنی ہیں: ﴿۱﴾ریاست کے مروّجہ آئین میں تبدیلی﴿۲﴾اقتدار کی منتقلی اسی طرح ارسطو نے انقلاب کی دو بنیادی قسمیں بیان کی ہیں: ﴿۱﴾مکمل انقلاب ﴿۲﴾نامکمل انقلاب ارسطو کے نزدیک ایک مکمل انقلاب وہ ہے جس میں معاشرے کے عمومی سماجی ڈھانچے ، سیاسی نظام کے ڈھانچے اور سیاسی اصولوں میں تبدیلی واقع ہو جبکہ ایک نامکمل انقلاب وہ ہے جس میں مذکورہ تین نکات میں سےکسی ایک نکتے میں تبدیلی آئے۔[4] ارسطو کے مطابق انقلاب کبھی حکومت کو تبدیل کرنے کا باعث بنتاہے اور کبھی حکومتی ڈھانچے کے اند رہی وقوع پذیر ہوتاہے اور فقط انتقالِ اقتدار کا سبب بنتاہے۔[5] اصطلاح میں کی گئی انقلاب کی مختلف تعریفوں کو اگر جمع کیاجائے تو کہیں پر بھی ایک اجتماعی تبدیلی کو انقلاب کہاجاتاہے۔[6] انقلاب کے اسباب ارسطو کے مطابق انقلاب کے عمومی طور پر تین سبب ہیں :۱۔مادی ۲۔فاعلہ ۳۔غائی مادی سبب: انقلاب کا مادی سبب یہ ہے کہ لوگوں کا ایک گروہ اپنے حقوق کا استحصال ہوتے دیکھتاہے تو وہ حکومت سے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑاہوتاہے۔ سبب فاعلہ: کچھ لوگ اپنے زیان کے ازالے کے لئے ار اپنے نقصانات کی تلافی کے لئے حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ سبب غائی: یہ سبب دراصل ۹ وجوہات کا مجموعہ ہے۔وہ نو وجوہات مندرجہ زیل ہیں: حکومتی ادروں کی من مانی،لوگوں کی بے حرمتی،لوگوں کا ذہنی و علمی لحاظ سے مضبوط ہوجانا،لوگوں کا عدم تحفظ کا احساس،۔۔۔۔[7] راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق بنیادی طور پر انقلاب کسی تبدیلی کی خواہش سے جنم لیتاہے اور اس خواہش کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں: ﴿۱﴾انسان فطری طور پر تبدیلی،نوآوری اور خلّاقیّت کادلدادہ ہے چنانچہ وہ ایک مدت کے بعدکسی بھی مروجہ نظام سے اکتاجاتاہے اور اسے تبدیل کرنے کے بارے میں سوچنے لگتاہے۔ ﴿۲﴾کوئی بھی مروّجہ نظام جب انسان کی مادی و معنوی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہوجاتاہے تو انسان اس کاطوق اپنے گلے سے اتار پھینکنے کی فکر کرنے لگتاہے۔[8] دینِ اسلام ،مکمل یا نامکمل انقلاب؟ یوں تو انسانی زندگی ازل سے ہی مسلسل انقلابات کی زد میں ہے اور اس دنیا میں آج تک ان گنت انقلابات رونما ہو چکے ہیں۔ دینِ اسلام کی خوبی یہ ہے کہ یہ دین جہاں پر بھی گیا اپنے ہمراہ ایک مکمل انقلاب لے کر گیا،اس دین نے لوگوں کی سیاسی و سماجی فکر،دینی نظریات،حکومتی ڈھانچے حتی کہ عبادات اور رسوم و رواج کو بھی تبدیل کردیا۔اس دین کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ یہ دین ،دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں انسان کی بھلائی چاہتاہے اور انسان کی مادی و معنوی دونوں طرح کی ضروریات کو پورا کرتاہے۔اس کی تعلیمات میں کشش،اس کے پیغام میں جاذبیّت،اس کے احکامات میں حکمت،اس کے معارف میں نو آوری اور اس کی شریعت میں خلاقیت پائی جاتی ہے ۔ بلاشبہ دین ِاسلام نام ہے ایک ایسی خوشبوکا کہ جس نے اقوام عالم کے درمیان حائل ذات پات اور ملک و نسب کی خلیج کو پاٹ دیا،جس نے عربی اور عجمی کے درمیان مشرق و مغرب کی طرح پھیلے ہوئے فاصلے کو مٹادیا،جس نے عزّت کی میزان،برتری کے معیار اور فضیلت کے ترازو کو تبدیل کردیا۔ بعثت رسول اکرم [ص]سے لے کر آج تک اس دین کی آفاقی و انقلابی تعلیمات نے اطراف عالم میں اقوام عالم کے مفکرین،ادیان،تحریکوں اور معاشروں پر اثر انداز ہوکر کئی مرتبہ مظلوم و محکوم انسانوں کو جبر و استبداد اور ظلم و بربریّت کی زنجیروں سے نجات دلائی ہے۔اسلام جہاں بھی داخل ہوا وہاں پر ایک مکمل سیاسی ،دینی ،ذہنی اور تمدنی تبدیلی کا باعث بنا۔ ایران میں اسلامی انقلاب ،مکمل یا نامکمل؟ دشمنانِ اسلام نے جتنا بھی اسلام کو محدود کرنے کی کوشش کی عالم بشریت کو اس کی تشنگی اتنی زیادہ محسوس ہوئی اور خصوصاً موجودہ صدی میں جب دین کو افیون کہاجانے لگاتھا تو ایسے میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے ایک مرتبہ پھر دشمنانِ اسلام کے مفروضوں کو باطل ثابت کردیا۔ آج جیسے جیسے اسلامی انقلاب اپنی ترقی اور کامیابی کے زینے طے کرتاچلاجارہاہے اقوامِ عالم پر یہ حقیقت واضح ہوتی چلی جارہی ہے کہ اسلام ہر دور میں ایک مکمل اور جامع نظامِ حیات ہے۔ اگر ہم بغیر کسی تعصب کےعلمی و تحقیقی تناظر میں ایران میں اسلامی انقلاب کا جائزہ لیں تو بلاشبہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ انقلاب ایک مکمل اسلامی انقلاب ہے۔اس نقلاب نے ایران میں مروجہ شاہی سماجی و سیاسی نظام اور اصولوں مکمل طور پر بدل دیا ۔ایران میں صرف چہرے نہیں تبدیل ہوئے بلکہ لوگوں کا طرزِ فکر اور اندازِ زندگی دونوں تبدیل ہوگئے۔ شہنشاہیت کے کالے قانون کے بجائے اسلام کا قانون نافذہوگیا نیز بدمعاش،کرپٹ اور اوباش لوگوں کی جگہ دیندار ،نیک اور صالح قیادت وجود میں آگئی۔ایران میں اتنی بڑی تبدیلی اور ایک مکمل انقلاب کا اندازہ ہم ایرانی قوم کے دینی نیز ملی و قومی افکارات و اجتماعات اور تہواروں سے بخوبی لگاسکتے ہیں۔ [1] استفادہ از وکی پیڈیا http://fa.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%86%D9%82%D9%84%D8%A7%D8%A8 [2] تاثیرانقلاب اسلامی برسیاست بین الملل از محسن مجرّد ص ۶۳ لغت نامہ دہخدا از علی اکبر دہخدا ص ۳۶۵،فرہنگِ فارسی از محمد معین چاپ ہفتم ص ۳۸۷،فیروزاللغات اردو ص۱۳۱[3] [4] استفادہ از سیاسیات ارسطو[اقتباسات] مترجم پروفیسرتنویر بخاری و استفادہ ازمغربی سیاست ص ۲۱۵ عمانویل یونس و از کتب ہای متفاوت و متفرق [5]ص ۲۰۳ ارسطوسیاست کتاب پنجم مترجم دکترحمید عنایت [6]یادرہے کہ اجتماعی تبدیلی سے مراد یکمشت تبدیلی نہیں ہے بلکہ تمام شعبہء حیات میں تبدیلی مقصودہے جو کہ تدریجی طور پر وقوع پذیر ہوتی ہے۔یکمشت حادثہ ہوتاہے انقلاب نہیں۔انقلاب کے لئے ؂ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔نظریہ مولف [7] وہی کتاب ص۲۰۵ [8] نظریہ مولف Normal 0 false false false EN-US X-NONE AR-SA /* Style Definitions */ table.MsoNormalTable {mso-style-name:"Table Normal"; mso-tstyle-rowband-size:0; mso-tstyle-colband-size:0; mso-style-noshow:yes; mso-style-priority:99; mso-style-parent:""; mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt; mso-para-margin-top:0in; mso-para-margin-right:0in; mso-para-margin-bottom:10.0pt; mso-para-margin-left:0in; line-height:115%; mso-pagination:widow-orphan; font-size:11.0pt; font-family:"Calibri","sans-serif"; mso-ascii-font-family:Calibri; mso-ascii-theme-font:minor-latin; mso-hansi-font-family:Calibri; mso-hansi-theme-font:minor-latin; mso-bidi-font-family:Arial; mso-bidi-theme-font:minor-bidi;} اسلامی انقلاب یا ایرانی انقلاب؟ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے کہ کیا یہ انقلاب ایرانی انقلاب ہے یا اسلامی ،ہمیں سب سے پہلے خود اس نقلاب کی نمایاں اور ممتاز شخصیات کے افکار سے آگاہی حاصل کرنی ہو گی تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ خود اس انقلاب کے علمبردار اپنے اس انقلاب کو کس نگا ہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد ہم دیگر مفکرین کے افکار و نظریات کا جائزہ لیں گے۔ بانی انقلاب حضرت امام خمینی ؒ اپنے انقلاب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ "انقلاب ِ ایران ایک مستقل انقلاب ہےیہ سرکاری ،گروہی یا طبقاتی انقلاب نہیں،یہ اسلامی بنیادوں پر ایک ملّی انقلاب ہے۔یہ وحی اور خدا سے جڑے ہوئے ان مستقل تاریخی انقلابات میں سے ہےجو انبیاءِ کرام کے ہاتھوں انجام پائے۔[1] اسی طرح آپ نے ایک اور مقام پر یہ بھی فرمایاہے کہ "ہماری یہ تحریک اسلام کی خاطر تھی اور اسلامی تحریک کو کسی ایک ملک میں محدود نہیں کیاجاسکتا۔اسلامی تحریک انبیاءِ کرام کی تحریکوں کا تسلسل ہے اور انبیاءِ کرام کی تحریکیں کسی ایک جگہ کے لئے نہیں تھیں۔[2] بانی انقلاب نے ایک مقام پر یہ بھی فرمایاہے کہ "میں اسلامی جمہوریہ کے ذمہ داروں کو یادہانی کراتاہوں کہ ہمارا انقلاب فقط ایران کے لوگوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ انقلاب حضرت امام مہدی  کےعالمی انقلاب کی شروعات ہےتاکہ خداوند تمام مسلمانوں اور دنیاپر احسان کرےاوران کے ظہور کو عصرِ حاضر میں قراردے۔[3] یہاں پر یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی شِق نمبر ۱۵۴ میں یہ جملے درج ہیں: پورے عالمِ بشریت میں انسانوں کی خوشبختی کو اسلامی جمہوریہ اپنے اہداف میں سے سمجھتی ہے۔خودمختاری،آزادی اور ایک عادل حکومت تمام انسانوں کا مشترکہ حق ہے۔چنانچہ کسی ملک میں دخالت کئے بغیر اسلامی جمہوریہ اپنا حق مانگنے والے تمام مظلوموں کی دنیابھر میں حمایت کرے گی۔[4] انقلابِ اسلامی ایران کے مشہور دانشمند شہید مطہریؒ اس انقلاب کے بارے میں کچھ اس طرح سے رقمطراز ہیں: انقلابِ صدرِ اسلام ،اسی وقت جب مذہبی اور اسلامی تھا،سیاسی ،اقتصادی اور معنوی بھی تھا۔یعنی ہمارے انقلاب کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ معنوی ہونے کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور سیاسی بھی ہے۔[5] اسلامی انقلاب کے حوالے سے انقلاب کے موجودہ رہبر سید علی خامنہ ای کی گفتگو میں سے بھی ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں: اسلامی انقلاب پوری دنیامیں ایک عظیم تحریک کاآغازہے۔اسلامی انقلاب کی کامیابی نے مسلمانوں میں نئی روح پھونک دی،بہت سارے غیرمسلم ایمان لائے اور بہت سارے اجتماعی تبدیلیوں کے لئے دین سے امید لگائے بیٹھے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔۔۔[6] دنیابھر کے غیر متعصب مسلم و غیر مسلم دانشمندوں نے بھی اس انقلاب کو مکمل اسلامی انقلاب قراردیاہے اورعالمِ بشریت کے مسائل کے حل کے لئے اس انقلاب کی حفاظت اور حمایت کو لازمی اور ضروری سمجھاہے۔ثبوت کے طور پر ہم کچھ مفکرین کے اقوال یہاں پر درج کررہے ہیں: ایک مغربی مفکر کے بقول: تاریخ جدید کا پہلا انقلاب،انقلابِ اسلامی ایران ہے چونکہ اس میں آئیڈیالوجی حاکم ہے،اس کے ادارے منظم ، قیادت مشخص اور اہداف آشکار ہیں یہ انقلاب ظاہری اور باطنی طورپر مکمل مذہبی ہے۔[7] اسی طرح اس انقلاب کے حوالے سے اخوان المسلمین کے سرکردہ لیڈر شیخ عمر تلسمانی کے نظریات کچھ اس طرح سے ہیں: اخوان المسلمین انقلاب ِ ایران سے خوش ہے اور مبارکباد کہتی ہے چونکہ رہبِر انقلاب اسلامی نے اعلان کیاہے کہ یہ انقلاب احکامِ اسلامی کے اجراء کے لئے وجود میں لایاگیاہے۔[8] پاکستان کے نامور دانشمند مولانا مودودی کے افکار بھی ملاحظہ فرمائیں: انقلابِ امام خمینی ؒ ایک اسلامی انقلاب ہے،اس انقلاب کی پشت پر اسلامی گروہ اور ایسےاسلامی جوان ہیں کہ جنہوں نے اسلامی تحریکوں کے دامن میں تربیت پائی ہے اور اس انقلاب کی حمایت اور اس سے تعاون تمام اسلامی تحریکوں اورمسلمانوں پر واجب ہے ۔[9] فلسطین کے مجاہد رہنما شہید فتحی شقاقی نے اپنے جذبات و افکار کا اظہار کچھ یوں کیاہے: امام خمینی نے جس طرح ایرانیوں کی زندگیوں کو بامقصد بنادیاہے اس طرح فلسطینیوں کی زندگیوں کو بھی باہدف بنادیاہے۔انہوں نے امید کو از سرِ نو ہمارے دلوں میں زندہ کیاہے۔[10] اسپین کے اے،بی،سی نامی اخبار نے اس انقلاب کے بارے میں اپنی رائے بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ"اس وقت اسلامی انقلاب ایسے خطوں میں بھی آگے بڑھ رہاہے جن کے بارے میں آیت اللہ خمینی ؒ کے جانشین تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔[11] وائٹ ہاوس کے شعبہء مشرقِ وسطیٰ کے چئیرمین کا کہناہے کہ "۔۔۔کسی زمانے میں مغرب کے لئے یہ خطرہ صرف فوجی نقطہ ء نظر سے اہمیت رکھتاتھالیکن اس وقت انقلابِ اسلامی نے ایک ثقافتی تحریک کی حیثیت سےدنیاء مغرب کی فکری اور عقیدتی بنیادوں کو خطرات سے دوچار کردیاہے۔[12] ایران میں اسلامی انقلاب کی جھلک اگر آپ ایران میں اسلامی انقلاب کی ایک جھلک دیکھنا چاہیں تو ایرانی مراسم اور اجتماعات پر ایک انگاہ ڈالیں چونکہ کسی بھی قوم یاملک کے دینی و سیاسی نیز ثقافتی تہوار ہی اس کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔آپ نمونے کے طورپر اسلامی انقلاب کی سالگر ہ کے اجتماعات کو ہی لے لیجئے۔ایرانی، اسلامی انقلاب کی سالگرہ ہر سال ۲۲ بہمن یعنی۱۱فروری کوخداوند عالم کی بارگاہ میں اظہارِ تشکر کے طورپر "یوم اللہ" کے نام سے مناتے ہیں۔ "یوم اللہ "کے جوش و خروش کا آغاز یوں تو ماہِ بہمن کے ساتھ ہی ہوجاتاہے لیکن ۱۰فروری کی نماز مغرب و عشاء کے بعد لوگوں میں ایک عجیب قسم کی روحانی خوشی اور ولولہ دیکھنے میں آتاہے۔لوگ چھتوں پر نکل آتے ہیں اور باآوازِ بلند تکبیر کی صدائیں بلند کرتے ہیں اور یوں پوراایران "اللہ اکبر" کی صداوں سے گونج اٹھتاہے۔ اگلے روز یعنی ۱۱ فروری کو یہ ملّت "یوم اللہ "کے نام سے بناتی ہے اور اس روز ایران بھر میں اسلامی انقلاب کی ترقّی اور ارتقاء کے لئے دعائیں کی جاتی ہیں،اسلامی انقلاب کے دشمنوں سے اور بے دین طاقتوں سےاظہارِ بیزاری اوراپنی دینی قیادت سے اظہارِ محبّت کیاجاتاہے۔ اس روز پورےایران میں بڑے پیمانے پر جلسے جلوس اور ریلیاں نکلتی ہیں ،جن میں شاید ہی کوئی ایرانی حصّہ نہ لیتاہو۔چنانچہ ہرسال فرزندانِ توحید کی یہ عظیم الشّان ریلیاں ایک طرف تو استعماری طاقتوں کی کمر توڑ دیتی ہیں اور دوسری طرف اسلامی حکومت کے حق میں ریفرنڈم ثابت ہوتی یں۔[13] یوں تو اسلامی انقلاب کے بعد ملتِ ایران کا ہر اجتماع باطل قوتوں پر خوف و ہراس طاری کردیتاہے لیکن طاغوتی طاقوتوں پر جو ہیبت "یوم اللہ" کی طاری ہوتی ہے وہ واقعتاً قابلِ دید اور قابلِ مشاہدہ ہے۔ اس یوم کی ہیبت سے خوفزدہ میڈیا اس روز کواس لئے اصلاً کوریج نہیں دیتاکہ کہیں ایران میں طلوع کر نےوالا اسلامی انقلاب دیگر ممالک میں "صادر "نہ ہوجائے۔ "صدورِ انقلاب " یعنی انقلاب صادر کرنا "صدورِ انقلاب" کے حوالے سےغیراسلامی طاقتوں اور ان کے ہم پیالہ و ہم نوالہ گروپوں کی اطلاع کے لئے اسلامی انقلاب کے رہنما سید علی خامنہ ای حفظہ تعالی اپنے ایک خطاب میں نےفرما چکے ہیں کہ ہمیں دشمن کہتے ہیں کہ انقلاب کو صادر مت کرو۔ہم پوچھتے ہیں کہ کیا انقلاب کوئی صادر کرنے والی شئے ہے؟انقلاب تو پھولوں کی خوشبو کی مانند ہےجو خود بخود پھیل جاتی ہے۔انقلاب تو موسم بہار میں چلنے والی بادِنسیم کی مانند ہےکہ جو خود بخود بدبودار اور گھٹن ماحول کو خوشبودار اور معطر کر دیتی ہے۔انقلاب کو صادر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کی لہر خودبخود پھیل جاتی ہے۔[14] جی ہاں! انقلاب کو صادر کرنے کی ضرورت نہیں، انقلاب تو موسم بہار میں چلنے والی بادِنسیم کی مانند ہےکہ جو خود بخود بدبودار اور گھٹن ماحول کو خوشبودار اور معطر کر دیتی ہے۔ کیا آج ہم نہیں دیکھ رہے کہ استعماری طاقتوں کے پروپیگنڈے کے باوجود،امریکی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے مفتیوں اور مولویوں کے فتووں کے باوجود گزشتہ ۳۳ برس سے یہ انقلاب مسلسل ترقی،استقلال،سربلندی اور عظمت کی شاہراہ پر گامزن ہے۔آج علم و جتہاد سے لے کر سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان تک ہر طرف دور دور تک اس انقلاب کا کوئی حریف نہیں،کوئی ثانی نہیں اور کو ئی مدّمقابل نہیں۔ بقولِ اقبال نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا[15] اسلامی انقلاب کی دستک افکارِ حسینی ؒمیں موجودہ صدی میں اسلامی انقلاب کی دستک کو سننے والوں میں ایک اہم نام علامہ عارف حسین الحسینیؒ کابھی ہے۔آپ نے متعدد خطبات میں اس امر کا اظہار کیاہے۔نمونے کے طور پر چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں: ہمیں امید ہے کہ انشاءاللہ جس طریقے سے ایران سے استعمار کا جنازہ نکل گیاہے۔اسی طرح دوسرے اسلامی ممالک چاہے پاکستان ہو مصر ہو ،مراکش ہو،تونس ہو ان مالک سے بھی انشاءاللہ استعمار کے جنازے کو باہر پھینک دیا جائے گا۔[16] اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: آج اگر مصر کے مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اسلامی نظام کا مطالبہ کر رہے ہیں تو یہ انقلاب اسلامی ایران کی برکت سے ہے۔اگر مراکش،اردن،افغانستان،ترقی اور ملائیشیا میں اسلامی تحریکیں چل رہی ہیں تو ان کی وجہ انقلاب اسلامی ایران ہے۔یقین کریں کے انقلاب اسلامی ایران کامیاب نہ ہوتا تو انقلاب اسلامی افغا نستان کی یہ پوزیشن نہ ہوتی۔اسی طریقے سے فلسطین میں جو اسلامی حرکت شروع ہوئی ہے اس سے پہلے وہ زمین کی بات کرتے تھے۔عربوں کی بات کرتے تھے ایک عصبی تحریک تھی۔ایران کے انقلاب کی وجہ سے وہاں لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انقلاب مسجد سے شروع ہوا ہے۔اللہ اکبر کے نام سے شروع ہوا ہے۔[17] آپ نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ اور دوسری طاغوتی طاقتوں کو اسلامی انقلاب سے خطرہ ہے۔شیعوں سے خطرہ نہیں ہے۔ایران سے بھی نہیں ہے۔کیونکہ یہ جو اسلامی انقلاب کی لہر ایران کی سر زمین سے اٹھی ہے۔اس کے اثرات مراکش میں بھی پائے جاتے ہیں۔تونس میں بھی پائے جاتے ہیں،مصر میں بھی پائے جاتے ہیں۔ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔[18] آج عراق، تونس،مصر ،لیبیا،فلسطین،کشمیر،افغانستان،یمن،بحرین اور سعودی عرب میں اسلامی انقلاب کی موجیں عالمِ بشریّت کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اب تو اپنی آنکھوں سے تعصّب کے پردے ہٹادو اور اس حقیقت کو تسلیم کرلو کہ حقیقی فتح صرف اور صرف حق کی ہوتی ہے۔ ۳۳ سالوں میں اسلامی انقلاب کے مخالفین کی ناکامی ان ۳۳سالوں میں حضرت امام خمینی ؒ کے خلاف دئے گئے فتوے "آسمان پر تھوکا "کے مصداق ثابت ہوئے،اسلامی انقلاب کو شیعہ انقلاب کہنے کی مذموم سازشیں بے نقاب ہوگئیں۔ نیزصدام اور قذافی سمیت ظالموں،بادشاہوں،ڈکٹیٹروں اور آمروں کی پشت پناہی کرنے والے "ناصبی و امریکی"صہیونی و خارجی"دنیا بھر میں زلیل و رسوا ہوئے۔ یہ اسلامی انقلاب کی بادِ نسیم کاہی ثمر ہے کہ یمن کی محکوم عوام نے اپنے وجود سے بادشاہت کے خوف کا چوغہ اتار پھینکا،تونس کی مظلوم ملت نے ظالم آمریت کی آنکھیں نکال دیں،بحرین کے تہی دست لوگ اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر لئے گلی کوچوں میں نکل آئے،مصر کے مظلوموں نے یزیدِ وقت کاجنازہ نکال دیا،لیبیاکے بہادروں نے آمریت کابھرکس بنادیا،حماس نے ناصبیت کے منہ پر طمانچے مارے،حزب اللہ نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے،عراقیوں نے امریکیوں کے نجس وجود کو اپنی مقدس سر زمین سے باہر دھکیلا اور ایرانیوں نے امریکی جاسوسی ٹیکنالوجی کا توڑ پیش کرکے کر وائٹ ہاوس کی چولیں ہلادیں۔ یہ سب کچھ ایسے ہی ہوا جیسے آج سے چودہ سو سال پہلے دنیاکے بڑے بڑے دانش مندوں،کاہنوں اور نجومیوں کو اس بات کی خبر نہ تھی کہ مکّے کی سنگلاخ چٹانوں کے درمیان انگڑائیاں لینے والا دین اسلام اپنے سینے میں ایسی آتش انقلاب کو دبائے ہوئے ہے کہ جس کے بھڑکتے ہی ذات پات جیسی زنجیریں،قیصر و کسری جیسی بادشاہتیں،روم و ایران جیسی سلطنتیں، عربی اور عجمی جیسی دیواریں خاکستر ہوجائیں گی۔[19] جیسے چودہ سو سال پہلے کفّارمکہ اور ان کے گماشتےاسی انتظار میں تھے کہ جیسے ہی پیغمر اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوگا اسی وقت اسلام بھی ختم ہوجائیگا اسی طر عصرِ حاضر میں بھی انہی کفّار کی فکری و نسلی اولاد بھی اسی امید پر تھی کہ جیسے ہی فرزندِ رسول ﷺ حضرت امام خمینی کا انتقال ہوگا اس کے ساتھ ہی ایران میں اسلامی انقلاب کی شمع خاموش ہوجائیگی لیکن جس طرح چودہ سو سال پہلے وہ ناامید اور مایوس ہوئے تھے اسی طرح اس صدی میں بھی مایوس،زلیل اور رسوا ہوئے ۔ ان کےدیکھتے ہی دیکھتے جس طرح چودہ سو سال پہلے دین اسلام مکّے کے افق سے ابھرا اور مدینے کی وادی پر چمکتا ہوا آفاق عالم میں بادِ نسیم کی طرح گھل مِل گیا اسی طرح ایران کا یہ اسلامی انقلاب نہ صرف یہ کہ ختم نہیں ہوا بلکہ بادِ نسیم کی طرح اطرافِ ہستی میں پھیل گیا۔اس انقلاب کے ابھرنے کے بعد آج تلک ہر چشم بینا اورہر مرد دانا کے لئے ہرصبح ،انقلاب کی خوشبو لے کر طلوع ہوتی ہے۔ایک ایسے انقلاب کی خوشبو جو چودہ سو سالوں سےوقت کے سینے میں گلاب کی طرح مہک رہا ہے۔ جونادان بھی اس انقلاب کے سامنے سینہ سپر ہونے کی کوشش کرتے ہیں انہیں یہ انقلاب خاطر میں نہ لاتے ہوئےنسل در نسل اور صدی بہ صدی آگے ہی بڑھتا چلاجارہاہے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ایران کی اجتماعی صورتحال ہاں۔۔۔ مگر چشم فلک نے برسوں تک وہ مناظر بھی دیکھے ہیں جب اسلام کی انقلابی تعلیمات کو درہم و دینار اور طاقت و تلوار کے ذریعے دبا دیا گیاتھا۔وہی ظالم اور جابر حکمران جن کے ظلم و جبر سے اسلام نے اقوام عالم کو نجات دلائی تھی اب دنیا ئےاسلام پر حکومت کر رہے تھے۔اموی شہنشاہ،عباسی حکمران اور مغل و لودھی بادشاہ بیت المال سے شراب بھی پیتے تھے،رنگ رلیاں بھی بناتے تھے اور امیرالمومنین بھی کہلاتے تھے۔[20] یہ بادشاہ خود تو محلّات میں رہتے تھے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ جھونپڑیوں میں زندگی گزارو کہ یہ اسلام کی تعلیم ہے،یہ خود توعیاشیاں کرتے تھے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ تم بکریاں چراتے رہو کہ یہ انبیاء کا پیشہ ہے ۔ عرصہ دراز تک دنیا ئےاسلام بادشاہت و ملوکیّت کےبوجھ تلے دبی رہی،تقریباً تیرہ سو برس تک دین اسلام بادشاہت و ملوکیّت کے پنجوں میں سسکتارہا،تیرہ سو سال کے بعدسرزمین ایران سے بادشاہت و ملوکیّت کے خلاف ایک ایسے شخص نے قیام کیاجس کی رگوں میں پیغمبر اسلام [ص]کا خون تھا اور جس کے ہاتھوں میں پیغمبر اسلام [ص]کی کتاب قرآن تھی۔[21] اس مرد مجاہد نے ایک ایسے دور میں قیام کیا جب پوری دنیا میں ملت اسلامیہ غلامی کی عادی ہو چکی تھی اور ایران کا یہ حال تھا کہ ایران مسلسل تیل بیچ رہاتھااورزرہ پوش گاڑیاں،ٹرک،اینٹی کرافٹ توپیں اور بھاری اسلحہ خرید رہاتھا،یہاں تک کہ ۱۹۷۶سے ۱۹۷۷ کے دوران امریکہ سے اسلحے کی خریداری کا بل چار ارب ڈالر سےبڑھ کربارہ ارب سے بھی زیادہ ہوگیاتھا۔[22] دوسری طرف ملک میں ہر روز نت نئے جشن اور میلے منعقد کئے جاتے تھے۔مثلاً۲۶ اکتوبر کو شاہ کی سالگرہ ،۲۶جنوری کو سفید انقلاب کی سالگرہ ،۶دسمبر کو آزادی خواتین کی سالگرہ اس کے علاوہ جشن تاجپوشی،شہنشاہیت کا ۲۵ سوسالہ جشن وغیرہ وغیرہ۔۔۔صرف شہنشاہیت کے ۲۵ سوسالہ جشن کے اخراجات کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اسے دنیاکی عظیم ترین نمائش کہاگیاتھا۔[23] یہ سب کچھ کرنے کے باوجود"شاہ" کے لئے مریکی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری تھا کہ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے اختیارات میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ کرتا چلاجائے،ایجنسیوں اور فوج کے کارندے اپنے وسیع اختیارات کے باعث کسی کو سراٹھانے کی مہلت نہیں دیتے تھے ،جوکوئی بھی شاہ پر یا شاہ کی پالیسیوں پر تنقید کرتا تھا اسے ملک دشمن ،غدار اور خائن قرار دےدیاجاتا تھا۔ جیلیں قیدیوں سے چھلک رہی تھیں،ٹارچر سیل خون اور ہڈیوں سے لتھڑ گئے تھے،لوگوں کی ایک بڑی تعداد خفیہ ایجنسیوں نے اغواء کر رکھی تھی ،۱۹۷۸ تک ملکی معیشت کا یہ حال ہوگیاتھاکہ شاہ اور اس کی بیوروکریسی پرائیویٹ بنکوں کے ۵۰ فی صد حصص کی مالک تھی،ایران کی غیرملکی تجارت صرف ۶۰ افراد کے ہاتھ میں آگئی تھی،کمپنیوں کے زیادہ تر شئیرز صرف ۵۰ خاندانوں کے پاس تھے،ہرروز شاہی خاندان کے افراد،شاہی محل کے ملازمین اور کارندوں کے لئےجنیوا میں سویس بینک کے اکاونٹ نمبر۲۱۴۸۹۵-۲۰ میں پہلوی فاونڈیشن کے اکاونٹ میں کئی ملین ڈالرڈالے جاتے تھے۔[24] ایرانی یونیورسٹیاں دن بدن بے روزگار وں کو جنم دے رہی تھیں،ملک کے طول و عرض میں غیرملکی سرمایہ کاری خصوصاً امریکی سرمایہ کاری کا جال بچھاہواتھاجبکہ ایرانی نوجوان اپنے ہی ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں ٹھوکریں کھاتے پھررہے تھے،ایران کی یہ نام نہاد ترقی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ ایران جو کبھی گہیوں برآمد کرتا تھا اس نے گہیوں بھی در آمد کرنی شروع کر دی تھی۔[25] ۱۹۶۰ء میں جب ایران کی حکومت نے اسرائیل کو سرکاری طور پرتسلیم کرلیا تواسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے ٹریننگ اور تربیّت حاصل کرنے کے لئے ایرانی فوج اور ایرانی خفیہ ایجنسی ساواک کےکئی اہم عہدیداران اسرائیل گئے اور اسی طرح موساد کے سینکڑوں اسرائیلی عہدیدار ایران آکر بھی ایرانی فوج اور خفیہ اداروں کو ٹریننگ دینے میں مصروف رہے۔[26] اس ٹریننگ کے نتیجے میں ساواک نے اپنے ہم وطنوں پر ایسا شکنجہ کسا کہ یونیورسٹیوں سے میمنے،بکریاں اور طوطیاں نکلنے لگیں،کسی میں دم نہ تھا کہ وہ ساواک،فوج اورشاہ یا اس کی پالیسیوں کے خلاف زبان کھولے،پورے ملک میں اسرائیلی اور امریکی مفادات کے تحفظ اور فروغ کا عمل زوروشور سے جاری تھا۔[27] ملک میں حکومتی وحشت و برریت کااندازہ اس امر سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ اسی دور میں حکومت نے مچھلیوں کاشکاربھی غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کردیااورغیرملکی کمپنیوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے جاسوسی انتظامات کے ساتھ ساحل پر ایک ساحلی گارڈ بنائی جس کا نام "گارد ساحلی شیلات" تھا۔اس ساحلی گارڈ کو یہ اجازت تھی کہ وہ غیر ملکی کمپنیوں کے علاوہ شکار کے لئے آنے والوں کو گولی کا نشانہ بنادے۔چنانچہ ایران کے ساحلوں پہ سینکڑوں غریب ایرانی اپنے ہی ملک میں اپنی ہی گارڈ کے ہاتھوں ،مچھلی شکار کرنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے تھے۔[28] شاہ کے مظالم اور اسلامی انقلاب یادرہے کہ یہ اس دور کی بات ہے جب ایک طرف تو ایرانیوں کی غربت کا یہ حال تھا کہ وہ اپنی جان لڑا کر مچھلی شکار کرنے کی کوشش کرتے تھے جبکہ دوسری طرف ایران اور اسرائیل کے درمیان تجارتی لین دین چالیس کروڑ ڈالر سے بھی تجاوز کرچکا تھا۔ کچھ عرصے بعد ہی طاقت کے نشے میں دھت ایرانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں نے اپنے اختیارات کی وسعت کے باعث تعلیمی اداروں خصوصاً دینی مدارس کا رخ کر لیا۔انہوں نےمارچ ۱۹۶۳ ء میں قم کے مدرسہ فیضیہ اور تبریز کے مدرسہ طالبیہ پر چڑھائی کی اورسینکڑوں نہتّے طالبعلوں پر گولی چلاکر انہیں خاک و خون میں غلطاں کردیا۔ فوج کا تخمینہ اور خفیہ ایجنسیوں کا گمان یہ تھاکہ انہوں نے عوام کو میمنے اور طوطیاں بنا رکھا ہے لہذادوسرے بہت سارے واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی چھپ جائے گالیکن ان کا یہ گمان اس وقت غلط ثابت ہو گیا جب ایرانی قوم اس خون کوعلم بنا کر کوچہ و بازار میں نکل آئی،مظاہروں نے زور پکڑا اورساواک کے مظالم کی داستانیں ایرانی بارڈرز کو پھلانگ گئیں اور پھر ۱۰ جولائی ۱۹۶۳ء کو "مصر"کی الازہر یونیورسٹی کے وائس چانسلرمحمود شلتوت نے اس ظلم کے خلاف پمفلٹ چھاپا۔ جامعۃ الازہر کے بعدروزنامہ "الاہرام" نے ۶ اور ۷جون ۱۹۶۳ء کے شمارے میں اس پر تبصرہ چھاپا،ہفتہ وار جریدے "ابزرواتورعرب"نے ۱۷جون ۱۹۶۳ء کے شمارے میں"حیلہ عظیم " کے عنوان سے اس حادثے کے بارے میں مقالہ چھاپا اور پھر مسلسل"جامعہ اسلامی لبنان"نے ،کویتی جوانوں نے،جرمن میں مقیم ایرانی جوانوں اور کئی دوسری تنظیموں نے پمفلٹ،مقالے اور کالم چھاپنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی شخصیتوں کو ٹیلیگرام بھیجے اور یہ تحریک اس جوش اور ولولے کے ساتھ آگے بڑھی کہ ایرانیوں کے خون کو چوسنے والی فوجی جونکیں اور ان کی لاشوں پر رقص کرنے والےخفیہ اداروں کے بھیڑیے ایک ساتھ تاریخ کے قبرستان میں دفن ہوگئے۔ ۔۔۔ اور ۔۔۔پھر وہ دن بھی آپہنچا کہ جب ایک جرمن روزنامے "اشپی گل" کے خبرنگار نے تہران ائیر ہورٹ پر ملک چھوڑکر بھاگتی ہوئی ملکہ فرح سے یہ سوال کیا کہ کیاآپ کو یہ امید تھی کہ آپ سے عوام اس قدر متنفر ہوجائے گی ؟۔۔۔[29] ۱۱فروری ۱۹۷۹ کو شہنشاہیت کاگہن زدہ سورج ایران کے افق سے ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا اور شہیدوں کے مقدس لہو میں تر بتر"اسلامی انقلاب" درخشندہ مہتاب کی طرح دمکنے لگا۔ اسلامی انقلاب کے ثمرات ایران میں آنے والے اس اسلامی انقلاب سے بین الاقوامی برادری بڑے پیمانے پرمتاثرہوئی اور مجموعی طور پر دنیا میں اس انقلاب کےتین طرح کےثمرات دیکھنے میں آئے۔[30] ۱۔فوری طور پر حاصل ہونے والےثمرات ۲۔کچھ عرصے بعد ظاہرہونے والے ثمرات ۳۔ایسےثمرات جو جلد یا بدیر ضرور سامنے آئیں گے۔ ۱۔فوری طور پر مرتب ہونے والے ثمرات ۱لف۔اسلام کے کھوئے ہوئے تشخص کی بحالی۔ ایک طویل مدّت تک بادشاہت و ملوکیّت کے زیر تسلط رہنے کے باعث اسلامی ممالک میں دیگر غیراسلامی ممالک کی طرح فسق و فجور اور بے راہروی کا دوردورہ ہوچکاتھا،مسلمان سلاطین غیر مسلم بادشاہوں کی طرح عیاشیاں کرتے تھے اور دین کو اپنی حکومت کے استحکام کی خاطر ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے چلے آرہے تھے۔اسلامی انقلاب کی کامیابی نے بادشاہت و ملوکیّت کو اسلام سے جدا کیا اور اسلامی حکومت کو سیرت النّبی{ص}کے احیاء اور اجراء کا ذریعہ بنا دیاجس سے لوگوں کے سامنے اسلام کی حقیقی شکل ایک مرتبہ پھر نمودار ہوئی۔ ب۔اسلامی وحدت اور استعمار شناسی کا شعور اسلامی انقلاب سے پہلے اسلامی دنیا مختلف گروہوں اور بلاکوںمیں بٹی ہوئی تھی،علاقائی تعصبات کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرت اور فرقہ واریّت عروج پر تھی۔ بادشاہ صاحبان اپنی مکروہات کو چھپانے کے لئے درباروں میں علمی مناظروں کے نام پر شیعہ ،سنّی علماء کو اکٹھا کر کےفرقہ وارانہ مباحث کو از سر نو زندہ کرتے تھے اور پرانے اختلافات کو پھر سے بھڑکاتے تھے چنانچہ لوگ اپنے دینی جذبے کے باعث فرقہ وارانہ جھگڑوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور یوں یہ بغض و حسد نسل در نسل آگے چلتا رہتا ،لوگ ایک دوسرے کو گریبان سے پکڑے رکھتے تھے اور حکمران رنگ رلیاںمناتے تھے۔ اسی طرح استعماری طاقتیں بھی اپنے مفادات کے حصول کے لئےہمفرے اور لارنس آف عریبیہ کی طرح کےاپنے جاسوسوں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتی تھیں ۔اس طرح کے جاسوس مسلمانوں کی صفوں میں گھس کر فسادات اور فرقہ واریّت کو ہوا دیتے تھے۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے شیعہ اور سنّی مسلمانوں کو صدر اسلام کی طرح بھائی بھائی بننے کا شعور عطاکیا۔ایران کے شیعہ و سنّی علماء نے کے اتحاد اور اتفاق سے تمام دنیاکے مسلمانوں نے متفق اور متحد ہونے کا شعور لیا ،ملت ایران نے عملی طور پر متحد ہو کرپورے عالم اسلام کو یہ باور کرایاہے کہ مسلمانوں کی اصل طاقت اتحاد میں مضمرہے ۔ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جو شخص بھی فرقہ وارانہ مسائل کو اچھالنے کی کوشش کرتا ہے اسے شیعہ یا سنّی سمجھنے کے بجائے استعمار کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری آلہ کار اور امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹ بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ یوم القدس سے لے کرمسئلہ فلسطین،مسئلہ کشمیر اور عراق و افغانستان سمیت تام تر اسلامی مسائل کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف تمام تر تعصبات سے بالاتر ہے۔ اسی طرح اسلامی انقلاب نے دنیائے اسلام کے معدنی وسائل اور آبی ذخائرکو لوٹتی ہوئی استعماری طاقتوں کے خلاف بھی آوازبلند کی ہے اور بین الاقوامی اسلامی برادری کو مل کر استعماری سازشوں کا مقابلہ کرنے کا شعور بھی دیاہے۔ جس کے بعد اسلامی منڈی ،اسلامی بینک اور مشترکہ اسلامی آرمی جیسے کئی عظیم منصوبے آج بھی اسلامی دنیا میں زیر بحث ہیں۔ ج۔احساسِ کمتری سے نجات اسلامی انقلاب نے ایرانی عوام کو یہ شعور دیا کہ کہ انہوں نے اپنی گردنوں سے استعمار کی غلامی کا طوق اتار پھینکا اور اپنے گلی کوچوں سے غیر ملکی ایجنٹوں کو مار بھگایا۔جس کے بعدایرانی سائنسدان،انجینئر،پروفیسر ،ڈاکٹر اور علماء ۔۔۔سب نے ایرانیوں سے احساس کمتری کو ختم کرنے اور ملت ایران کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔ آج کے ایران میں اور ماضی کے ایران میں یہی فرق ہے کہ آج کا ایرانی احساس کمتری سے نکلا ہوا ہے ،آج ایران کے اعلی حکام کے نزدیک ان کی اپنی زبان "فارسی" میں گفتگو کرنا ان کے لئے فخر کا باعث ہے،انہیں اپناتعارف کرانے کے لئے انگریزی اصطلاحات کی بیساکھیوں کا سہارا نہیں لینا پڑتا،آج ان کی یونیورسٹیوں میں انگریزی کو ترقّی کامعیار نہیں سمجھاجاتا اوران کے پالیسی ساز اداروں میں غیرملکی قرضوں اور بیرونی امداد پر تکیہ نہیں کیا جاتا۔ جب تک اسلامی انقلاب کا خورشید ایرانی افق نہیں چمکا تھا ایرانی احساس کمتری کے باعث سر جھکا کر جی رہے تھے اور جب اسلامی انقلاب نے ایرانی معاشرے کو اپنی آغوش میں لے لیا تو پھر انہوں نے وہ سربلندی حاصل کی کہ قیامت تک پورا عالم بشریّت ان پرفخر کرتا رہے گا۔ اسلامی انقلاب نے سب سے پہلے ایرانی قوم کو استقلال اور خود مختاری کا شعور دیا اور پھر ملت ایران سے اقوام عالم نے یہ درس لیا جس کے باعث پوری دنیا میں استعماری طاقتوں کے مفادات کو خطرہ پڑ گیا اور انہوں نے اسلامی انقلاب کےثمرات کو محدود کرنے کے لئے دنیا پھر میں اپنے جاسوسوں اور ایجنٹوں کو پروپیگنڈے کے لئے فعال کیا جنہوں نے کبھی اس انقلاب کو" مُلّا انقلاب " کبھی "شیعہ انقلاب "اور کبھی ایرانی انقلاب کہہ کر اس کے خلاف مزاحمت شروع کی لیکن استعمار اور استعماری ایجنٹوں کو جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ علم وشعور اور معرفت و بیداری کو جھوٹ اور پروپیگنڈے کے ذریعے نہیں روکا جاسکتا ۔ چنانچہ ایک طرف تو صدام کو اسلامی انقلاب کے خلاف استعما ل کیاگیا جس کے باعث۸سال تک صدامی فوجی ،اسلامی انقلابیوں کے خون میں ہاتھ رنگتے رہے اور دوسری طرف دنیا بھر میں اسلامی انقلاب کے پیغام اور ثمرات کو منتقل کرنے والے مفکرین اور دانشمندوں کو شہید اور اغواء کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ان شہید کئے جانے والوں میں عراق سے باقرالصدر،لبنان سےموسی صدراور پاکستان سے ڈاکٹر محمد علی نقوی اور علامہ عارف حسین الحسینی کے نام سرِ فہرست ہیں اوراسی طرح حج کے موقعہ پر سینکڑوں حاجیوں کو گولی ماری گئی۔ تاہم آج یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ فوری طور پر ایران میں اسلامی انقلاب کےثمرات کو محدودکرنے کئے استعمار نے جو خون ناحق بہایا تھا وہی خون ،اسلامی انقلاب کی ترویج و اشاعت کا بہتریں وسیلہ بنااور دینی و ملّی استقلال و خود مختاری کی جس لہر کو استعمار ایران کے اندر ہی دبا دینا چاہتا تھا آج تونس،ترکی اور اردن سمیت پوری دنیا میں اس کے جھٹکے محسوس کئے جارہے ہیں۔ د۔گزشتہ اسلامی تحریکوں کی ناکامی کا ازالہ دنیا اسلام میں اس سے پہلے کئی اسلامی تحریکیں ناکامی سے دوچار ہوچکی تھیں،مثلاً حضرت شاہ ولی اللہ کی تحریک،مصر کی الاخوان ،تحریک خلافت،تحریک ہجرت،وغیرہ وغیرہ،جس کے باعث مسلمان مسلسل مایوسی اور ناکامی سے دوچار تھے۔ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے جہاں گزشتہ ناکامیوں کا ازالہ کردیا وہاں حزب اللہ اور حماس جیسی تحریکوں کی فکری پرورش کرکے امت مسلمہ کو مسلمانوں کو مستقبل میں بھی کامیابی و کامرانی کی امید دلائی ہے ۔ ر۔مرجعیّت کاحترام اورعظمت اسلامی انقلاب کے ثمرات میں سے ایک اہم ثمر یہ ہے کہ مراجع عظّام عزّت و عظمت عوام النّاس پر آشکار ہوئی۔حضرت امام خمینی خود بھی دیگر مراجع عظام کا دل و جان سے احترام کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی نصیحت کرتے تھے۔ثبوت کے طور امام کے ارشادات میں سے یہ چندجملے من و عن ملاحظہ فرمائیں: میں جوان طلبہ کو نصیحت کرتاہوں جو تازہ آئے ہیں اور سخت کوش و تند مزاج ہیں۔وہ متوجہ رہیں کہ اگر کوئی شخص ایک لفظ سے سے بھی کسی ایک مرجع اسلام کی اہانت کرتاہے ،اس کے اور خدا کے درمیان ولایت کارشتہ منقطع ہوجائے گا۔اسے آپ معمولی نہ سمجھیں۔مراجع عظّام کو برابھلاکہناکیاکوئی معمولی مسئلہ ہے؟ اگر بعض لوگوں کےاس طرح کے جاہلانہ اقدامات کے باعث اسلامی انقلاب کی تحریک کو نقصان پہنچتاہے تو انہیں خداندِ عالم کے سامنےجواب دیناہوگا اور بہت مشکل ہے کہ ان لوگوں کی توبہ قبول ہو۔کیونکہ انہوں نے اسلام کی آبرو کو نقصان پہنچایاہے۔پھر اگلے صفحے پر آپ کے کلمات یوں درج ہیں: تمام مراجع عظّام ساٹھ سال سے آگے بڑھ چکے ہیں ،آیایہ افراد جنہوں نے اسلام کی خدمت میں اپنی داڑھیاں سفید کی ہیں،کیاوہ خدانخوستہ اسلامی مفادات کے خلاف عمل انجام دے رہے ہیں۔نہیں ہر گز نہیں۔ جناب !اگر ایک موقع پر اجتہاد میں رائے کا اختلاف پیش آئے تو تمام مسائل شرعیہ کی مانند بچوں اور جوانوں کو اس میں دخل نہیں دیناچاہیے۔یہ بہت خطرناک بات ہےاور دشمن بہت ہوشیار ہے۔یہ خیال نہ کیجئے گا کہ [مراجع عظام] کو گالیاں کسی ایک شخص سے مربوط ہیں بلکہ یہ پورے اسلامی معاشرے کی اہانت اور توہین ہے۔[31] امام خمینی کی خود شخصیت جہاں مراجع عظام کے لئے عظمت و شرف کا باعث تھی وہیں پر آپ کے اقوال و فرمودات نے بھی مرجعیّت کی عظمت کو چار چاند لگائے۔ ۲۔ایسےثمرات جو کچھ دیر بعد ظاہر ہوئے الف۔مسلمانوں کی صفوں میں استعماری ایجنٹوں کی نقاب کشائی۔ ایران میں اسلامی انقلاب آنے کے بعدپہلی مرتبہ دنیا بھر میں لوگ مسلمانوں کی صفوں میں چھپے ہوئے استعماری ایجنٹوں اور جاسوسوں کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کرنے لگے۔یہ اسلامی انقلاب کا عطا کردہ شعور ہی ہے کہ صدام کو امیرالمومنین اور مجاہد اعظم کہنے والے لوگ بھی اس سے متنفّرہوگئے اوراسی طرح طالبان اور القاعدہ کے مظالم کی دنیا بھر کے باشعورمسلمانوں نے شروع سے ہی مخالفت کی نیز بین الاقوامی اسلامی برادری اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ طالبان اور دیگر تمام متعصّب اورشدّت پسند ٹولے امریکہ اور استعمار کے بنائے ہوئے ہیں۔ اسلامی انقلاب سے پہلے استعمار شناسی کا شعور اس قدر عام نہیں تھا،انقلاب کے بعد استعماری ایجنٹوں کی نقاب کشائی کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اب ان شااللہ تا ابد جاری رہے گا۔ ب۔ دیگرممالک سے استعماری تسلط کا خاتمہ اسلامی انقلاب سے پہلے عام طور پرخود مسلمانوں پر بھی یہ واضح نہیں تھاکہ ہم کسی استعمار کے غلام ہیں یا نہیں،لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ہم بڑی طاقتوں دوست ممالک میں شامل ہوتےہیں لیکن جب استعمار شناسی کی بحث عام ہوئی اور محکوم و مغلوب اقوام نےکشمیر،فلسطین ، لبنان، چیچنیا، بوسنیا، عراق اور افغانستان کی طرح مختلف مناطق میں استعمار سے اپنا حق مانگنا شروع کیا تو اس وقت استعمار کا اصلی چہرہ لوگوں کے سامنے آیا اور لوگوں پر واضح ہوگیا کہ انہوں نےامن،صلح، دوستی اور فلاح و بہبود کے نام پر ہمیں اپنا غلام بنا رکھا ہے۔[32] اس حقیقت کے منکشف ہوتے ہی دنیا بھر میں استعمار کے خلاف مختلف صورتوں میں قلمی ،فکری اور عملی جدوجہد کا آغاز ہوگیا اور اس جد وجہد کو روکنا اب کسی طوربھی استعمار کے بس میں نہیں۔اس وقت افغانستان میں استعمار اپنی ذلت آمیز زندگی کے آخری دن گزاررہاہے جبکہ عراق سے انخلا ء کرچکا ہے۔اسی طرح مصر،تونس،لیبیا وغیرہ میں استعمار کی خوب درگت بنی ہے۔[33] ج۔استعماری ممالک کے اندر سے استعمار کے خلاف آواز اسلامی انقلاب کا ایک نمایاں اثر یہ ہے کہ لوگوں میں حقیقی معنوں میں ظلم سے نفرت اور انسان دوستی جیسے جذبوں کو فروغ ملا ہے۔جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ خود استعماری ممالک کے باسیوں نے اپنی استعماری حکومتوں کے خلاف آواز بلند کر رکھی ہے اور ابھی بے شمار ایسی تنظیمیں،دانشمند،پروفیسر اور صحافی حضرات موجود ہیں جو برطانیہ،امریکہ ،اسرائیل،فرانس ،جرمنی اور روس وغیرہ میں رہتے ہوئے مظلوم اقوام کی حمایت اور اپنی حکومتوں کی جابرانہ اور استبدادی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ د۔بین الاقوامی اداروں کی بے بسی اسلامی انقلاب کے بعد اقوام عالم کو اور خصوصاً مسلمانوں کو یہ شعور ملا کہ انسانیّت کی خدمت اور فلاح و بہبود کے نام پر بنائے جانے والے بین الاقوامی ادارے صرف اور صرف چند بڑی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔اس شعور اور آگاہی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مستضعف اور کمزور اقوام ان اداروں سے امیدلگانےکے بجائے باہمی تعاون کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ اب آئیے اسلامی انقلاب کےایسےثمرات پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں جو جلد یا بدیر ضرور سامنے آئیں گے۔ ۳۔ایسےثمرات جو جلد یا بدیر ضرور سامنے آئیں گے۔ الف۔بین الاقوامی فلاحی معاشرے کی تشکیل اسلامی انقلاب نے عالم بشریّت کو جس شعور سے آشنا کیا ہے اس کا لازمی نتیجہ استعماری اور طاغوتی طاقتوں کی نابودی کی صورت میں نکلے گا۔ ،ادیان اور تہذیبوں کے درمیان علمی و فکری مکالمے کا آغاز ہوگا اور یوں پوری دنیا علم و معرفت کے سائے میں حقیقی طورپر"مدینۃ الفاضلۃ" یا امن،دوستی اور اخوّت و عدالت کےگہوارے میں تبدیل ہوجائے گی۔ ب۔منجئی بشریت کی جلدآمد دنیا کے تقریباً تمام ادیان میں ایک منجئی بشریّت کی آمد کا نظریہ پایا جاتاہے،اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس نظریے کو اور زیادہ تقویّت ملی اور اقوام عالم نے اس نظریے کو مسلسل موضوع بحث بنا لیا ،جیسے جیسے اس نظریے پر بحث ہوتی گئی اسلام کا "نظریہ مہدویّت "بھی لوگوں میں عام ہوتاگیا۔آج دنیا کا ہر منصف مزاج اور عدالت پسند انسان اُس مہدی موعود{ع} یا منجئی بشریّت کے استقبال کے لئے تیاری اور آمادگی کرنا چا ہتاہے جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔اسلامی انقلاب نے دنیا بھر کو مادیّت سے نکال کر معنویّت سے آشنا کیا ہے اور استعمار سے مدد مانگنےکے بجائے،منجئی بشریّت کی مدد اور آمد کی امید دلائی ۔آج جیسے جیسے دنیا میں معرفت ومعنویّت کے ساتھ مہدویّت کی بحث پھیل رہی ہے ویسے ویسے حضرت امام مہدی {ع} کی جلدآمد کے لئے مقدمات بھی فراہم ہورہے ہیں۔ نتیجہ دین ِ اسلام ،انسان کی دینی و معنوی ضروریات کو بدرجہ اتم پورا کرتاہے ۔ہر دور کاانسان فطری طور پر اسلامی معارف کا تشنہ ہے۔عالم ِ بشریت کو موجودہ اضطراب اور بے چینی سے نجات دلانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم بغیر تعصب، ضد اور ہٹ دھرمی کے ایرانی افق پر چمکنے والے خورشیدِ انقلاب کی شعاوں کو مختلف زبانوں میں منتقل کر کے اقوامِ عالم کی تشنگی اور پیاس کوبجھائیں۔ جبر و استبداد اور استعماری سازشوں کے موجودہ دور میں محکوم اور مجبور انسانوں کو ظالموں،جابروں اور آمروں کے تسلط سے رہائی دلانے کے لئے ایک موثر قدم یہ بھی ہے کہ لوگوں کوایران کے اسلامی انقلاب سے آگاہ کیا جائے اور انہیں یہ سمجھایاجائے کہ عالم ِ بشریت کے تمام تر مسائل کا حل دینِ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہی مضمر ہے۔انسانی معاشرے کو ظالموں اور آمروں سے نجات دلانا ہم سب کا دینی و اجتماعی نیز انسانی فریضہ ہے۔ یہ انقلاب، انبیاء کرام کی تحریکوں کا ہی تسلسل ہے اور انبیاء کرام کی تحریکیں کسی ایک ملک یاقوم کے لئے مخصوص نہیں تھیں بلکہ پورے عالمِ بشریت کے لئے تھیں۔چنانچہ اسلامی انقلاب ہمارے پاس پورے عالم بشریت کی امانت ہےاور عالمی برادری تک اس کے پیغام کو پہنچانا بھی ہم سب کی خصوصاً صاحبانِ ایمان کی دینی ذمہ داری ہے۔ [1]صحیفہ امامؒ ج ۱۵ ص۱۴۶ [2] استفادہ از صحیفہ نور جلد۱۰ ص۱۱۵ [3] صحیفہ نور،ج۲۱،ص۱۰۸ [4] استفادہ از اقتباسات آئینِ ایران [5] استفادہ از پیرامونِ انقلابِ اسلامی از مرتضی مطہری ص۴۱/۴۲ [6] انقلاب اسلامی کی کامیابی کی سالگرہ کے موقع پر فروری ۱۹۹۹میں رہبر کا پیغام [7] Hallidey,F. "The Iranian Revolution and its indications” [8] روزنامہ اطلاعات ۲۷/۱۱/۱۳۶۶ [9] روزنامہ کیہان،۲/۵/۱۳۶۶ [10] نشریہ نداء القدس،ویژہ نامہ ی شہادت فتحی شقاقی،ش۲،آبان۱۳۷۷ص۵۶ [11] ماہنامہ شاہد ص ۲۳،نومبر ۱۹۸۳ [12] ماہنامہ امید انقلاب،ش ۲۲۲ [13] تحقیق میدانی [14] حکومت اسلامی کے مسئولین اور ملازمین سے ۱،۵،۲۰۰۳ کو خطاب[اسلامی بیداری ،مترجم فیاض حسین علوی ص۲۸] [15]کلیاتِ اقبال [16] {اسلوب سیاست ص۲۵۰} [17] {اسلوب سیاست ص ۲۴۱} [18] {اسلوب سیاست ص ۲۶۴} [19] استفادہ از تاریخ اسلام[جاہلیت تا رحلت پیامبر اسلام] ازمہدی پیشوائی [20] استفادہ از کتبِ تواریخ متفرق [21] ۔حضرت امام خمینی کی طرف اشارہ ہے [22] کوثر ج۱ ص۵۴۴ [23] کوثر ج۱ص۴۱۳ [24] کوثر جلد۲ص۲۳۳ [25] استفادہ کوثر ج۲ص ۱۸۹ [26] استفادہ از مشن ٹو تہران از سولیوان[ایران میں آخری امریکی سفیر] ص۶۹ [27] استفادہ از کوثر ج۲ ص۲۷۹ [28] استفادہ ازسید ضیاتا بختیار [29] کوثرج۳ص۲۵۱ [30] مولف کانظریہ [31] مجموعہ خطبات امام خمینی کوثر ج۱ خطاب۱۴ ص ۲۶۷/۲۶۸ [32] استفادہ از وضعیت کنونی جہان اسلام ازاستاد ناصری [33] استفادہ از اطلاعات سیاسی۔اجتماعی دفتر تحقیقات مرکز جہانی علومِ اسلامی

Add new comment