امیر جماعت اسلامی کافتویٰ

 

تحریر: اثر چوہان

امیر جماعت ِ اسلامی سیّد منور حسن کا تعلق دِلّی کے نستعلِیق اُردو سپِیکنگ گھرانے سے ہے لیکن اُن کی سیاست کا انداز جماعت ِ اسلامی کے مرحوم ”پختون امیر“ قاضی حسین احمد کا سا ہے. اُسامہ بن لادِن کے بارے میں سیّد منور حسن کے تازہ ترین بیان کے بعد مَیں نے اُن کا تصّوراتی انٹرویو ریکارڈ کِیا ہے جو ہدیہ قارئین ہے۔
س: سیّد منور حسن صاحب! آپ نے فرمایا ہے کہ” اُسامہ بن لادِن ”سیّداُلشُہدا “ہیں اور اُن جیسے لوگ مرتے نہیں بلکہ دِلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔؟
ج: ”جی ہاں! فرمایا ہے۔“
س: آپ سیّد ہیں۔؟
ج: ”جی ہاں! الحمدُ للہ۔“
س: آپ کو علِم ہوگا کہ ”سیّداُلشُہدا “تو نواسہ رسول حضرت امام حسین ؓ کو کہا جاتا ہے۔؟
ج: ”جی ہاں! حضرت امام حسین ؓ اپنے دور کے ”سیّداُلشُہدا“ تھے اور اُسامہ بن لادِن آج کے دور کے ”سیّداُلشُہدا“ ہیں۔“

س: اور آپ کا یہ کہنا کہ ”اُسامہ بن لادِن جیسے لوگ دِلوں میں رہتے ہیں۔؟ کِس قِسم کے لوگوں کے دِلوں میں؟ کُچھ وضاحت فرمائیں گے آپ۔؟
ج: ”ایسے لوگوں میں 33 ہزار تو جماعت ِ اسلامی کے ارکان ہیں۔ ہزاروں متفقِین اور اِسی طرح کے لاکھوں اہلِ ایمان!“
س: جماعت ِ اسلامی کے متفقِین اور لاکھوں اہلِ ایمان کو مِلا کر کُل کتنے لوگوں کے دِلوں میں بستے ہیں اُسامہ بن لادِن۔؟
ج: ”پِھر کسی وقت تشریف لایئے تو بتا دوں گا۔“
س: لیکن پاکستان کی آبادی تو 19 کروڑ اور 75 لاکھ ہے۔؟
ج: ”مَیں پورے عالم ِ اسلام کی بات کر رہا ہوں۔ اُسامہ بن لادِن پوری اُمتّ ِمُسلمہ کے دِلوں میں زندہ ہیں۔“
س: آپ نے اپنے بیان میں فرمایا ہے کہ ”امریکہ خوفزدہ ہے کہ کہیں اُسامہ بن لادِن افغانستان میں زندہ ہی نہ ہوجائے۔؟
ج: ”جی ہاں! فرمایا ہے۔ آپ نے سُنا ہی ہوگا کہ
”جہاں میں اہلِ ایِمان صُورتِ خُورشید جِیتے ہیں
اِدھر ڈُوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈُوبے، اِدھر نکلے“

س: کیا آپ کو یقین ہے کہ اُسامہ کو قتل کرنے کے بعد سمندر میں ڈبو دِیا گیا تھا۔؟
ج: ”اِس میں یقین کرنے، یا نہ کرنے کا کیا سوال ہے۔؟ قومی اور بین الاقوامی میڈیا نے تو یہی خبر دی تھی۔“
س: گویا اُسامہ بن لادِن کی لاش تیرتے تیرتے کسی دِن افغانستان پہنچ جائے گی اور پِھر لاش زندہ انسان کی شکل اختیار کر لے گی۔ کیا امریکیوں نے اُسامہ بن لادِن کی قبر دریائے کابل میں ڈبوئی تھی۔؟
ج: ”جماعت ِ اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد ایم اے جغرافیہ تھے، اگر وہ زندہ ہوتے تو مَیں اُن سے پوچھ کر ضرور بتا دیتا!“
س: کیا کوئی مرا ہوا شخص زندہ ہوسکتا ہے۔؟
ج: ”اللہ تعالٰی چاہیں تو کِیا نہیں ہوسکتا؟“
س: لیکن عام مسلمانوں کا تو یہی عقِیدہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد قیامت کے روز زندہ ہوگا اور اُس کے بعد اُسے داورِ حشر کے سامنے پیش کِیا جائے گا۔؟“ کِیا آپ آواگون یا تناسخ کے عقِیدے پر یقین رکھتے ہیں۔؟
ج: ”یہ ہندوﺅں کا عقِیدہ ہے میرا نہیں۔“
س: آواگون اور تناسخ کے عقِیدے کے مطابق سارے انسان اور ہر قِسم کے جانور بھی زیادہ سے زیادہ 86 ہزار جنم لیتے ہیں اور مُکتی (بخشش یا نجات) کے لئے کسی کو ایک جنم، کسی کو دو، اور کسی کو ہزاروں جنم لینا پڑتے ہیں، کبھی انسانوں اور کبھی جانوروں کی شکل میں۔؟
ج: ”مَیں اِس فضول بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔“

س: آپ کو علِم ہے کہ امریکہ میں زیادہ تر عیسائی ہیں اور وہاں کی سیاست اور مُعِیشت پر یہودی اقلیت قابض ہے۔؟“
ج: ”آپ میری معلومات کا امتحان نہ لیں، مجھ سے زیادہ اور کِسے علِم ہوگا۔؟“
س: آپ کے علِم میں یہ بھی ہوگا کہ عیسائی اور یہودی مسلمانوں کی طرح صِرف ایک ہی جنم کے قائل ہیں، کئی جنموں کے قائل نہیں۔؟
ج: ”میں جانتا ہوں“
س: اور صدر براک حسین اوبامہ عیسائی ہیں۔؟
ج: ”یہ بھی جانتا ہوں“
س: پِھر صدر اوبامہ اور اُن کی انتظامیہ میں شامل عیسائی اور یہودی لوگ کیسے خوفزدہ ہوسکتے ہیں کہ اُسامہ افغانستان میں دوبارہ زندہ ہوجائے گا؟ اور امریکہ اِس بات سے خوفزدہ ہے۔؟
ج: ”امریکہ اِس بات سے خوفزدہ ہے، یہ بات مَیں یقین سے کہہ سکتا ہوں۔ باقی باتیں پِھر کبھی سہی!“
س: آپ نے کہا تھا کہ ”دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاں بحق ہونے والے پاک فوج کے افسران اور جوان ”شہید“ نہیں ہیں۔؟
ج: ”مَیں نے واقعی کہا تھا، مجھ سے پہلے قاضی حسین احمد ( مرحوم) مولانا سمیع اُلحق، مولانا فضل اُلرحمن اور مولانا عبداُلغفور حیدری بھی یہ ”فتویٰ“ دے چکے ہیں۔“
س: لیکن اِن تینوں حضرات میں سے تو کوئی بھی ”مُفتی“ نہیں؟
ج: ”مُفتی تو مَیں بھی نہیں، لیکن فتویٰ تو دینا ہی پڑتا ہے۔“

س: آپ نے 8 ہزار فوجی افسروں اور جوانوں اور 42 ہزار معصوم اور بے گناہ شہریوں کے قاتلوں کے سرغنہ حکیم اللہ محسود کو ”شہید“ قرار دیا تھا۔؟
ج: ”ہاں! مَیں نے حکیم اللہ محسود کو ”شہید“ قرار دِیا تھا، حکیم اللہ محسود تو کلمہ گو مسلمان تھا۔ مولانا فضل اُلرحمن نے تو یہ فتویٰ بھی دے دِیا تھا کہ ”اگر امریکہ کسی کُتےّ کو بھی مار دے تو وہ بھی ”شہید“ ہوگا“ کسی نے مولانا فضل اُلرحمن کا یہ فتویٰ دینے پر اُن کا کیا بگاڑ لیا۔؟“
س: ممکن ہے کسی کُتےّ نے مولانا فضل اُلرحمن کے اِس فتوے پر بُرا منایا ہو۔ کُتےّ تو عام طور پر اپنی موت یعنی کُتےّ کی موت ہی مرنا چاہتے ہیں۔؟
ج: ”اگلا سوال۔؟“
س: جماعت ِ اسلامی کے مخالف مذہبی قائدین کا فتویٰ ہے کہ مولانا مودودی، میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد کسی دِینی مدرسے کے فارغ اُلتحصیل نہیں تھے۔؟
ج: دِینی مدرسے کا فارغ اُلتحصیل تو مَیں بھی نہیں ہوں، اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔؟ اسلامی جماعت کا سربراہ تو کوئی بھی مسلمان ہوسکتا ہے۔“
س: اور مُفتی نہ ہونے کے باوجود ”فتویٰ“ بھی دے سکتا ہے۔؟
ج: ”کیوں نہیں دے سکتا۔؟“
س: آپ نے ”فتاویٰ عالمگیری“ پڑھی ہے۔؟
ج: ”وقت ہی نہیں مِلا“
س: آپ ”فتاویٰ مُنّور حسنی“ کب منظرِ عام پر لا رہے ہیں۔؟
ج: ”مارچ کے مہینے میں جماعت ِ اسلامی کے امیر کا انتخاب ہوگا۔ اُس کے بعد دیکھوں گا۔ اب آپ تشریف لے جائیں، خدا حافظ۔“
بشکریہ: نوائے وقت

Add new comment