ذلت طالبان کا مقدر ہے

 

تحریر: ابو فجر

لیجیئے صاحب! تقدیر نے طالبان کو ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں ان کی بہت سے باتیں خود بخود بے نقاب ہوگئی ہیں۔ پاکستان کے حالات اب اس ڈگر پر چل پڑے ہیں کہ حق چھا رہا ہے اور باطل مٹ رہا ہے کیونکہ باطل نے مٹنا ہی ہے۔ محب وطن قوتیں ایک جانب متحد ہوتی چلی جا رہی ہیں اور ملک دشمن دوسری جانب جمع ہو رہے ہیں، جس سے تقدیر کی بوڑھی آنکھیں یہ منظر ملاحظہ کر رہی ہیں کہ قاتل، وحشی، درندے، خونخوار، انسانیت کے دشمن اور ننگ انسانیت ایک طرف ہوچکے ہیں۔ جب کہ پاکستان بنانے والے اب پاکستان بچانے والے بھی بن چکے ہیں اور پاکستان کی بقا کے لئے قربانیاں دیئے جا رہے ہیں اور پاکستان کی سلامتی کے لئے اب ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

طالبان کے ساتھ حکومت کی حالیہ مذاکراتی فلم اس موڑ پر پہنچ چکی ہے کہ طالبان نے دو انتہائی اہم نقاط سے پردہ ہٹا دیا ہے۔ ایک اہم نقطہ یہ کہ دہشت گردی خود طالبان کر رہے تھے جب سے مذاکراتی ٹیموں کا اعلان ہوا ہے، دہشت گردی کی وارداتیں رک گئی ہیں۔ ثابت ہوا طالبان ہی تھے جو دہشت گردی کی یہ وارداتیں کر رہے تھے اور ان کی ہمت تھی کہ وہ ہر واردات کا اعتراف بھی کر لیتے، جو وہ حملہ کرتے ان کا ترجمان تسلیم کرتا کہ یہ ہم نے کیا ہے جبکہ ''طالبان سے زیادہ طالبان کے وفادار'' اس کی تردید کرتے نہیں تھکتے تھے۔ خیر دہشت گردی کے واقعات میں ٹھہرائو نے طالبان کی جانب سے قبول کی جانے والی تمام ذمہ داریوں پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ اب یقیناً جو تردیدیں کرتے نہیں تھکتے تھے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ہوں گے اور اس منہ کو بھی چھپاتے پھر رہے ہوں گے۔

طالبان نے پاکستانی قوم پر جو دوسرا بڑا احسان کیا ہے، وہ یہ ہے کہ انہوں نے انتہائی سادگی کیساتھ اپنے تمام سرپرستوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ طالبان کی جانب سے جن افراد کے نام جاری کئے گئے ہیں کہ وہ ان کی جانب سے حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل میں شریک ہوں گے، ان میں بابائے طالبان حضرت مولانا سمیع الحق صاحب، وکیلِ طالبان جناب سید منور حسن صاحب اور چاچائے طالبان المعروف ''لال مسیتیا'' (خونی مسجد) مولانا عبدالعزیز صاحب بھی شامل ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ جے یو آئی (ف) والوں کو بھی حصہ دیا گیا ہے۔ ان مولویان اور سرپرستان کے ساتھ ساتھ کلین شیو طالبان بھی بے نقاب ہوئے ہیں، جن میں انصاف کا جھنڈا تھامے بے انصافی کا پرچار کرنے والے عمران خان المعروف طالبان خان بھی شامل ہیں لیکن طالبان خان نے اپنے آپ کو کمیٹی سے پیچھے کر لیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ میں بابائے طالبان نہیں، ہم تو ڈرون حملوں کی مخالفت کرتے تھے، طالبان نے سمجھ لیا کہ ہم ان کی حمایت کر رہے ہیں۔

خیر عمران خان نے پارٹی مشاورت سے اپنا دامن تو بچا لیا ہے لیکن باقی بابائے طالبان اب کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ طالبان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے، جنہوں نے سچ بول دیا اور اپنے سرپرستوں کو بے نقاب کر دیا، اب جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ دہشت گردی طالبان نہیں کوئی اور کروا رہا ہے، انہیں بھی یقین ہوگیا ہوگا کہ یہ کارستانیاں صرف طالبان ہی کر رہے تھے اور جو ان کی بڑھ چڑھ کر وکالت کر رہے تھے، انہیں بھی احساس ہوگیا ہوگا کہ وہ غلطی پر تھے۔ اب مذاکرات کامیاب ہوں یا نہ ہوں، عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں، بس یہ چیز واضح ہوگئی ہے کہ دہشت گرد کون ہیں اور دہشتگردوں کے سرپرست کون ہیں، اب سکیورٹی اداروں کو دہشت گردی کے مراکز کا بھی علم ہوگیا ہوگا، اس صورتحال کے بعد اب سکیورٹی اداروں کے لئے یہ بہت آسان ہوگیا ہے کہ لاہور میں دہشت گردی کی واردات کرنے والے دہشت گردوں کو کہاں کہاں سے جا کر تلاش کرنا ہے۔

اس کے لئے میاں نواز شریف نے بہت اعلٰی چال چلی ہے۔ یہ سارا کریڈٹ نواز شریف کو جاتا ہے جنہوں نے امن کو آخری موقع دے کر بدامنی کو گردن سے دبوچ لیا ہے۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایک روشن راہ دکھائی ہے اور نواز شریف کے بچھائے ہوئے جال میں وہ سارے پنچھی آگئے ہیں جنہیں پکڑنا مقصود تھا۔ مذاکرات کامیاب ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں، نواز شریف بھی اس بات کو جانتے ہیں لیکن شطرنج کی اس بساط پر جو چال نواز شریف نے چلی ہے اس پر دنیا انہیں دس بارہ سال بعد داد دے گی، جب انہیں سمجھ آئے گی کہ اسی طرح بھی ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ ۔ ۔؟؟؟ کر رہے ہیں، جس کی استقامت اور مزاحمت نے آج امریکہ اور مغربی ممالک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔

Add new comment