قرآن مجید ہمارا رہنماہے

نذرحافی

nazarhaffi@gmail.com

آج ہم جب دنیاکی سائنسی ترقّی اور مادی ایجادات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ انسان ،مادی علوم و فنون کے ذریعے آسمان کی بلندیوں کو مسخّر کرنے کے ساتھ ساتھ زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں بھی اترچکاہے۔آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کے باعث ایک طرف تودنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے اوردوسری طرف سائنسی علوم کے باعث انسان خاک کے بجائے افلاک پر اپنی بستیاں بسانے کی تیاریوں میں ہے۔

اتنی ترقّی اور فلاح و بہبود کے باوجود انسانی زندگی ہمیشہ کی طرح آج بھی مختلف خطرات میں گھری ہوئی ہے اورانسانی آبادی کا ایک بڑا گروہ غربت،بے روزگاری،جارحیّت اور بدبختی میں پِس رہاہے۔ماضی کی طرح آج بھی ایک خطّے کے لوگوں کو دوسرے خطّے کے لوگوں سے خطرہ ہے،آج بھی ایک قوم دوسری قوم کے حقوق پامال کررہی ہے،آج بھی انسان کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگین ہیں اور آج بھی انسان کشی کے لئے ایٹمی اسلحے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔

آج کی اس متمدّن اور مہذّب دنیا کے دامن پرجابجابے گناہ انسانوں کے خون کے دھبّے صرف اس لئے نظر آرہے ہیں کہ مادی ترقی کے نشے میں، انسان اس حقیقت کو فراموش کرچکاہے کہ اس کی خوش بختی اور سعادت کا نسخہ کسی فلاسفر،سائنسدان،سیاستدان یا جرنیل کے پاس نہیں ہے بلکہ انسانی سعادت و خوش بختی کاحقیقی نسخہ اس چھوٹی سی کتاب میں ہے جسے ہم قرآن مجید کے نام سے پہچانتے ہیں ۔اگرچہ یہ کتاب خالق و مخلوق کے درمیان تعلق کی گرہ ہے اور بندوں کو براہِ راست خدا سے ملاتی ہے لیکن اس کے باوجوداس کتاب کو بعض لوگوں نے گھروں کے طاقوں میں اوربعض نے لائبریریوں میں سجا رکھاہے،بعض اسے جیب میں لئے پھرتے ہیں اور بعض اسے حفظ کر کے ثوابِ دارین کے چکّر میں رہتے ہیں۔

اپنے مقام و مرتبے کے اعتبار سے اللہ کی آخری کتا ب اور پیغمبرِاسلام ۖ کی حقّانیّت پر سب سے بڑی دلیل ہونے کے باوجودآج یہ کتاب انسانی برادری کے درمیان بالعموم اورامّت مسلمہ کے درمیان بالخصوص عدمِ توجہ اور عدم دلچسبی کی شکار ہے۔قرآن مجید کی نسبت مسلمانوں کایہ منفی رویّہ نہ صرف اس دنیامیں مسلمانوں کی ذلّت و رسوائی کا باعث ہے بلکہ آخرت میں بھی خدا اور رسولۖ کے غضب کا باعث بنے گا۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشادِپروردگار ہے:

وَقَالَ الرَّسُولُ یَارَبِّ ِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا (٣٠)فرقان

اور اس دن ر سولۖ آواز دے گا کہ پروردگار اس میری قوم نے اس قرآن کو بھی نظر انداز کردیاتھا ۔

خدااور رسولۖ کے غضب سے بچنے کے لئے ،اپنی گفتاروکردار کوالٰہی تعلیمات سے آراستہ کرنے کے لئے اور اپنی زندگی کو قرآنی مفاہیم کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے ہمیں چاہیے کہ ہم انفرادی و اجتماعی طور پر قرآن مجید کی روشنی میںاپنے دل و دماغ کی نگرانی کریں اور سرچشمہِ وحی سے اپنے افکارو افعال کی آبیاری کریں۔

آج ہماری دینی و شرعی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم تعلیم و تحقیق کے ذریعے عوام النّاس اور قرآن مجید کے درمیان حائل پردوں کو چاک کریں اور ان اسباب و عوامل کو ڈھونڈ کر جڑوں سے اکھاڑپھینکیں جوقرآن مجید سے غفلت برتنے کا سبب بنتے ہیں۔

 

 

قرآن سے انسانی غفلت کے اسباب

ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انسان کسی بھی چیز سے خواہ مخواہ غفلت نہیں برتتااور کسی بھی چیز کو بلاوجہ نظراندازنہیں کرتا۔انسان کی غفلت اور بے حسی کے پیچھے بنیادی طورپرمندرجہ زیل تین چیزیں پوشیدہ ہوتی ہیں:

١۔کسی چیز کی اہمیت سے جہالت

٢۔کسی چیزکے بارے میںتعصّب و کینہ

٣۔کسی چیز سے فائدہ اٹھانے کے طریقے سے عدمِ آگاہی

 

قرآن مجید سے غفلت برتنے اور عدمِ استفادہ کرنے کے پیچھے بھی بنیادی طور پر مندرجہ بالا عوامل ہی پوشیدہ ہیں۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو قرآن مجید کی اہمیت اور حقیقت سے جاہل ہونے کی بناء پر قرآن مجید سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے جبکہ کچھ لوگ قرآن مجید کی حقّانیت سے تو آگاہ ہیں لیکن تعصّب کی وجہ سے وہ لوگ قرآن مجید سے ہدایت اور رہنمائی حاصل نہیں کرتے۔یہ دو گروہ تو اپنی جہالت یا تعصب کی وجہ سے بدبختی اور خسارے میں غرق ہیں جبکہ ایک تیسراگروہ جو قرآن مجید کی اہمیت سے بھی آگاہ ہے اور قرآن مجید کے خلاف تعصب اور کینہ بھی نہیں رکھتا وہ صرف اس لئے بدبختی اور ہلاکت کا شکار ہے کہ اسے قرآن مجیدسے رہنمائی لینے کا طریقہ نہیں آتا۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بلاتفریکِ مسلک ،بدقسمتی سے امتِ مسلمہ کی ایک بڑی جماعت صرف اسی وجہ سے ضلالت و گمراہی کی شکار ہے کہ وہ قرآن مجید سے ہدایت و رہنمائی لینے کے آداب سے آگاہ نہیں ہے ۔آئیے قرآن مجید،اہل بیت، مفسّرین اسلام اورمجتھدین کرام کی تعلیمات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید سے ہدایت لینے کے کیاآداب ہیں:

 

 

 

قرآن مجید سے ہدایت و رہنمائی لینے کے آداب

 

١۔انسان عظمتِ قرآن مجید سے حقیقی آگاہی حاصل کرے

انسان جب کسی چیز کی اہمیت اور حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتا تو پھر اسے اہمیت بھی نہیں دیتا۔جس طرح بہت ساری چیزوں کے بارے میں ہم اس غلط فہمی میں مبتلاہوتے ہیں کہ ہمیں ان کے بارے میں سب کچھ پتہ ہے لیکن اگر کہیں پر ان کے بارے میں کوئی پوچھ لے تو اس وقت پتہ چلتا ہے کہ ہمیں اس چیز کے متعلق دویاتین سطروں سے زیادہ کچھ معلوم نہیں اور جو کچھ جانتے ہیں وہ بھی علمی بنیادوں پر نہیں جانتے۔بالکل ایسے ہی ہماری اکثریت بھی قرآن مجید کے بارے میںاس غلط فہمی کی شکار ہے کہ وہ قرآن مجید کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے ،حالانکہ ہماری معلومات کا دائرہ نہایت تنگ اورمحدود ہوتا ہے۔قرآن مجید سے رہنمائی لینے کے آداب میں سے پہلا ادب یہ ہے کہ ہم اپنی معلومات اور مفروضات کی دنیا سے باہر نکل کر قرآن مجید کی ویسی معرفت حاصل کریں جیسی خود خدانے کرائی ہے۔

پہلے مرحلے میں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی معلومات اور نظریات کو ایک طرف رکھتے ہوئے قرآنی آیات اور احادیث اہلبیت کی روشنی میں قرآن مجید کا تعارف حاصل کریں اور قرآن مجید کو ویساہی سمجھیں جیساکہ خدا نے اسے نازل کیا ہے۔

قرآن مجید کا تعارف مختلف قرآنی آیات میں مختلف اندازمیں کرایاگیاہے،ہم یہاں پر مختلف آیات کی روشنی میں قرآن مجید کی حقیقی تصویر

 

پیش کر رہے ہیںتاکہ ہم قرآن مجید کے اصلی چہرے کو پہچان سکیں اور عظمتِ قرآن سے حقیقی معنوں میں آگاہی حاصل کرسکیں۔

 

عظمتِ قرآن مجید

الف)٭قرآن متّقین کے لئے کتاب ہدایت ہے۔

ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَرَیْبَ فِیہِ ہُدًی لِلْمُتَّقِینَ (٢)بقرہ

یہ صاحبانِ تقوی اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے ۔

سورہ بقرہ کی دوسری آیت میں خدانے قرآن مجید کو متّقین کے لئے کتابِ ہدایت قرار دیا ہے۔اس سے پتہ چلتاہے کہ قرآن مجید سے رہنمائی لینے آداب میں سے پہلا ادب یہ ہے کہ انسان قرآن مجید کو سائنس یاٹیکنالوجی کی کتاب سمجھنے کے بجائے ہدایت کی کتاب سمجھے اوراس بات کو بخوبی جان لے کہ قرآن ،متّقین کے لئے کتابِ ہدایت ہے لہذا وہ قرآن سے ہدایت لینے کے لئے خود بھی تقویٰ اختیار کرے ۔اگر کوئی شخص متّقین کی صف میں شامل ہوئے بغیراپنے آپ کو قرآن مجید کاپیروکار سمجھتا ہے تووہ درحقیقت ایسی خوش فہمی میں مبتلاہے جس کا نتیجہ ہلاکت کے سوا اور کچھ نہیں۔

 

ب)٭قرآن میں مومنین کے لئے شفا اور رحمت ہے۔

وَنُنَزِّلُ مِنْ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَائ وَرَحْمَة لِلْمُؤْمِنِینَ وَلاَیَزِیدُ الظَّالِمِینَ ِلاَّ خَسَارًا (٨٢)بنی اسرائیل

اور ہم قرآن میں وہ سب کچھ نازل کررہے ہیں جو صاحبان ایمان کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالمین کے لئے خسارہ میں اضافہ کے علاوہ کچھ نہ ہوگا۔

خدا نے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٨٢میںقرآن مجید کی عظمت کو مومنین کے کے لئے باعث ِشفا اورظالمین کے لئے خسارے میںاضافے کا باعث کہ کر بیان کیا ہے۔پس ہمیں قرآن مجید کو اس طرح پہچانناچاہیے کہ اگر انسان مومن ہواوروہ قرآن مجید پر عمل کرے تو قرآن مجید میں اس کی تمام روحانی و جسمانی بیماریوںکے لئے شفااوررحمت موجودہے لیکن اگرانسان ظالم ہو تووہ پھر قرآن پر عمل نہ کر کے اپنے خسارے میں اضافہ کرتاہے۔

 

ج)٭قرآن مجید میں ہر شۓ کابیان موجودہے۔

قرآن مجیدچونکہ اللہ کی آخری کتاب ہے لہذایہ اپنے پیغام کے اعتبار سے ،اپنی اطاعت کرنے والوں کے لئے کھلی ہوئی ہدایت،پیکرِ رحمت اور مژدہِ بشارت ہے اور اس میںہر چیزکی وضاحت موجودہے لہذاہمیںچاہیے کہ ہم اسے تمام مسائل میں اپنا رہبرورہنمابنائیں۔ جیساکہ سورہ نحل کی آیت ٨٩ میں ارشاد پروردگار ہے:

وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْئٍ وَہُدًی وَرَحْمَةً وَبُشْرَی لِلْمُسْلِمِینَ (٨٩)

اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گزاروں کے لئے ہدایت ,رحمت اور بشارت ہے ۔

 

د)٭ قرآن مجید کا ثانی نہیں۔

اپنے ذخیرہ الفاظ،مفاہیم و معارف اور احکام و بیان کے لحاظ سے قرآن مجید ایسی جاودانی عظمت کا حامل ہے کہ کوئی بھی دوسری کتاب کسی بھی جہت سے قرآن مجید کی

ثانی نہیں کہلا سکتی اورنہ ہی کوئی یونیورسٹی یا تھنک ٹینک قیامت تک اس طرح کی کوئی کتاب منظرِعام پرلاسکتاہے۔

 

اس دعوے کو قرآن مجید نے سورہ اسراء کی آیت٨٨ میں اس طرح سے بیان کیا ہے:

قُلْ لَئِنْ اجْتَمَعَتْ الِْنسُ وَالْجِنُّ عَلَی َنْ یَْتُوا بِمِثْلِ ہَذَا الْقُرْآنِ لاَیَْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیرًا

آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کی مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں (٨٨)

چنانچہ ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن مجید کادوسری کتابوں کی طرح،امتحانات کی خاطر یا وقت گزاری کے لئے اسے نہ پڑھیں بلکہ قرآن مجید کو اللہ کی لاثانی کتاب سمجھتے ہوئے اس سے راہنمائی اور ہدایت لینے کی خاطراس کا مطالعہ کریں۔

 

٢۔انسان اپنی جہالت کا اعتراف کرے۔

عظمتِ قرآن مجید کو اپنے دل و دماغ میں راسخ کرنے کے بعدآداب قرآن مجید میں سے دوسرا اہم ادب یہ ہے کہ انسان قرآن مجید کے مقابلے میں اپنی جہالت کااعتراف کرے اور اس بات کو تسلیم کرے کہ وہ دنیاوی سعادت اور اخروی نجات کے لئے اپنی زندگی کے قدم قدم پر قرآنی ہدایت کا محتاج ہے۔انسان جب تک اپنے آپ کو قرآنی ہدایت کا محتاج نہ مانے وہ اس وقت تک اس بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح ہے جو لق و دق صحرامیںخاک چھانتا پھررہاہو لیکن کسی رہنماسے رہنمائی لینے پر آمادہ نہ ہو۔

انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے سفر میںحالات و واقعات کی پگڈنڈیوں کو اپنی ضداورہٹ دھرمی کے ساتھ طے کرنے کے بجائے،قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں طے کرے۔جیساکہ ارشاد پروردگار ہے کہ قرآن مجید وہ محکم کتاب ہے جو انسان کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتی ہے۔

جیساکہ ارشادِ پروردگار ہے:

ِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ یَہْدِی لِلَّتِی ہِیَ َقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِینَ الَّذِینَ یَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ َنَّ لَہُمْ َجْرًا کَبِیرًا

بیشک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے ۔(سورہ اسراء ٩)

 

٣۔مفاہیمِ قرآن کوصاحبانِ ذکر اور راسخون فی العلم کے ذریعے سمجھاجائے

قرآن سے رہنمائی لینے کے آداب میں سے تیسرااور اہم ادب یہ ہے کہ انسان جس وقت خلوص نیت کے ساتھ قرآنی عظمت کو اپنے اوپر طاری کئے ہوئے اور اپنی جہالت و نادانی کااعتراف کرکے قرآن مجید کا مطالعہ شروع کرے تو پھر مفاہیم قرآنی کو اپنی فہم و فراست اور سوجھ بوجھ کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش نہ کرئے بلکہ انسان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید ایسا ہادی ہے جو رسولۖ اور آلِ رسولۖ کی زبان سے ہدایت کرتاہے۔قرآنی آیات کی جو تاویل و تفسیر معصومین نے بیان کی ہے اسی کے مطابق ہی قرآن مجید کو پڑھنا اور سمجھنا ہدایت کا باعث ہے ورنہ انسان تفسیربالرّائے کا مرتکب ہوکر ہلاکت کے منہ میں جا گرتاہے۔جیساکہ سورہ نحل کی آیت٤٣ میں ارشادپروردگار ہے:

فَاسَْلُوا َہْلَ الذِّکْرِ ِنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ (٤٣)

اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہلِ ذکرسے دریافت کرو۔

اسی طر ح سورہ آلِ عمران کی آیت ٧٨ میں ارشاد پروردگار ہے کہ

 

"وَمَا یَعْلَمُ تَْوِیلَہُ ِلاَّ اﷲُ وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْم"

اس کی تاویل کا حکم صرف خدا کو ہے اور انہیں ہے جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں -

احادیث ِ معصومین کی روشنی میں"اہلِ ذکر"اور"راسخون فی العلم "سے مراداہلِ بیت پیغمبرۖ ہیں۔

 

٤۔انسان ظلمت سے نورکی طرف سفر کرے۔

قرآن مجید سے رہنمائی لینے کا چوتھاادب یہ ہے کہ انسان قرآن مجید سے صرف معلومات اکٹھی نہ کرے بلکہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں سیرت معصومین پر چلے اور ظلمت سے نور کی طرف عملی سفر کرے ۔جیساکہ سورہ حدید کی آیت ٩ میں ارشاد پروردگارہے:

ہُوَ الَّذِی یُنَزِّلُ عَلَی عَبْدِہِ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ لِیُخْرِجَکُمْ مِنْ الظُّلُمَاتِ ِلَی النُّورِ وَِنَّ اﷲَ بِکُمْ لَرَئُوف رَحِیم (٩

وہی وہ ہے جو اپنے بندے پر کھلی ہوئی نشانیاں نازل کرتا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نور کی طرف نکال کرلے آئے اور اللہ تمہارے حال پر یقینا مہربان و رحم کرنے والا ہے۔

اسی طرح سورہ اطلاق کی آیت ١١ میں بھی تلاوتِ قرآن کا مقصداعمالِ صالح کے ساتھ ظلمت سے نورکی طرف سفر کرنا بتایاگیاہے۔

آیت اوراس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

یَتْلُو عَلَیْکُمْ آیَاتِ اﷲِ مُبَیِّنَاتٍ لِیُخْرِجَ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْ الظُّلُمَاتِ ِلَی النُّور

وہ رسول جو اللہ کی واضح آیات کی تلاوت کرتا ہے کہ ایمان اور نیک عمل کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئے ۔

 

٥۔تلاوتِ قرآن کے لئے مناسب جگہ اور وقت کا اہتمام

قرآن مجید سے رہنمائی لینے کے لئے ضروری ہے کہ انسان توجہ اور یکسوئی کے ساتھ قرآن مجید کا ایسی جگہ پر اور ایسے وقت میں مطالعہ کرے کہ تلاوتِ قرآن کا اثرزیادہ سے زیادہ مرتّب ہو،مثلاً تلاوت کے لئے سب سے مناسب مقام انسان کا اپنا گھرہے،جہاں تلاوت کرنے سے اس کے اپنے اہل و عیال اوربیوی بچے بھی قرآن مجید سے مانوس ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ انسان کا گھر اور خاندان بھی شر اور آفات سے محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ نورِ وحی سے مزیّن ہوتاہے۔

اس کے علاوہ مساجداور مقاماتِ مقدسہ میں قرآن مجید کی تلاوت سے ،انسان کے دل و دماغ پرقرآنی پندونصائح کا گہرااثرہوتاہے اوراسی طرح مناسب اوقات میں کی گئی تلاوت ،انسان کی شخصیت سازی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔چنانچہ تلاوتِ قرآن کے اوقات کے بارے میں سورہ اعراف کی آیت٢٠٤تا ٢٠٦میں ارشادِپروردگارہے:

وَِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَہُ وََنصِتُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ (٢٠٤)

وَاذْکُرْ رَبَّکَ فِی نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَخِیفَةً وَدُونَ الْجَہْرِ مِنْ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلاَتَکُنْ مِنْ الْغَافِلِین

َ (٢٠٥) ِنَّ الَّذِینَ عِنْدَ رَبِّکَ لاَیَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِہِ وَیُسَبِّحُونَہُ وَلَہُ یَسْجُدُونَ (٢٠٦)

اور جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو خاموش ہوکر غور سے سنو کہ شاید تم پر رحمت نازل ہوجائے

اور خدا کو اپنے دل ہی دل میں تضرع اور خوف کے ساتھ یاد کرو اور قول کے اعتبار سے بھی اسے کم بلند آواز سے صبح و شام یاد کرو اور خبردار غافلوں میں نہ ہوجا

اسی طرح سورہ انسان کی آیت ٢٥ و ٢٦میں ارشادپروردگارہے:

 

وَاذْکُرْ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَةً وََصِیلًا (٢٥)

وَمِنْ اللَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہُ وَسَبِّحْہُ لَیْلًا طَوِیلًا (٢٦)

اور صبح و شام اپنے پروردگار کاذکرتے رہیں

اور رات کے ایک حصہ میں اس کا سجدہ کریں اور بڑی رات تک اس کی تسبیح کرتے رہیں ۔

یادرہے کہ روایات معصومین کی روشنی میں ذکرسے مراد قرآن مجید ہی ہے۔تلاوتِ قرآن کیلئے آیات و روایات میں صبح و شام کے علاوہ رات کے پچھلے پہر کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔

 

٦۔جن مقامات پرتلاوت سے منع کیا گیا ہے ان کو پہچاناجائے۔

قرآن مجید سے رہنمائی لینے کے لئے جس طرح مناسب اوقات اورمقامات کوپہچانناضروری ہے اسی طرح تلاوتِ قرآن کے لئے نامناسب اوقات و مقامات کو پہچاننابھی ضروری ہے۔

اس سلسلے میںحضرت امام صادق نے امام علی سے یہ روایت نقل کی ہے:

سبعة لایقروونَ القرآن :الرّاکع ُو الساجدُوفی الکنیف و فی الحمّام والجنبُ والنّفساء والحائضُ

سات گروہ قرآن مجید کی تلاوت نہ کریں،رکوع اور سجدہ میں،رفع حاجت(لیٹرین)کے مقام پر،غسل خانے میں،مجنب،حالتِ نفاس میں،حائض۔

یادرہے کہ آغاناصرمکارم شیرازی کے فتویٰ کے مطابق قرآن مجید کے واجب سجدوں والی سورتوں(سجدہ،فصّلت،نجم،علق)کی آیاتِ سجدہ کی تلاوت کرنا مجنب وغیرہ پر حرام ہے جبکہ امام خمینی نے ان سورتوں کے ایک لفظ کی تلاوت کو بھی حرام قرار دیاہے۔اسی طرح ان سورتوں کے علاوہ باقی قرآن مجید کی سات سے زائد آیات کا پڑھنا مکروہ قرار دیا گیا ہے۔

البتّہ تلاوتِ قرآن کے علاوہ ذکرِخدا کرنے اور تسبیح کرنے کو ہرحال میں مستحب قراردیاگیاہے۔

اسی طرح جنسی مباشرت کے وقت بھی تلاوتِ قرآن کو ممنوع جبکہ مناجات و اذکاروتسبیح کو مستحب قراردیاگیاہے۔

اس سلسلے میںپیغامبراسلام ۖ کی ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں:

یاعلیُ من کانَ جنبُ فی الفراشِ مع اِمرائتہِ فلایقرئِ القرآن فانی اخشیٰ ان تنزّلَ علیھمانارمن السّمائِ فتُحرقھما۔

یاعلی ! جوشخص مجنب بھی اپنے بسترپراپنی بیوی کے ہمراہ ہو وہ ہرگزقرآن کی تلاوت نہ کرے چونکہ میں اس سے ڈرتا ہونکہ ان دونوں پر آسمان سے آگ گر کر انھیں راکھ کردے گی۔

اس روایت سے معلوم ہوتاہے کہ جہاں پر تلاوتِ قرآن،قرآن مجید کی اہانت کا باعث بنتی ہو وہاں پر تلاوت نہ کی جائے۔جبکہ اگر توہین کاباعث نہ ہوتوبسترپرلیٹے ہوئے تلاوت کرنے میں کوئی حرج نہیں،جیساکہ سورہ آل عمران کی آیت ١٩١ میں ارشاد پروردگار ہے:

الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اﷲَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَی جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالَْرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (١٩١)

جو لوگ اٹھتے, بیٹھتے, لیٹتے خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غوروفکر کرتے ہیںکہ خدایا تو نے یہ سب بے کارپیدانہیں کیا ہے- تو پاک و بے نیاز ہے ہمیں عذاب جہنم سے محفوظ فرما۔

٧۔تلاوتِ قرآن کے وقت عام اور خاص شرائط کا خیال رکھاجائے۔

قرآن مجید سے رہنمائی کے لئے ضروری ہے کہ انسان تلاوت کی عام و خاص شرائط کا خیال رکھے،عام شرائط وہ ہیں کہ جو تمام حالات میں تمام انسانوں کے لئے ضروری ہیں۔مثلاًخواہ کوئی بیمار ہویاتندرست،نابیناہویا بینا،تاجر ہویا صحافی،ادیب ہویاخطیب،مجتہد ہویاجاہل سب کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے طہارت سے ہوں،باوضو ہوں،قبلہ رخ بیٹھیں،مسواک کریں اور خوشبولگائیں،عبارت کودیکھ کرٹھہرٹھہرکراور سمجھ سمجھ کرپڑھیں۔پس اگر کوئی خود سے ترجمہ نہیں کرسکتا تو اسے چاہیے کہ کسی ایسے شخص کے پاس بیٹھ کر قرآن پڑھے جسے ترجمہ کرنا آتاہے یا ترجمہ شدہ قرآن مجید سے آیات کو ترجمے کے ساتھ ساتھ پڑھے،اسی طرح

اگر کوئی نابینایاان پڑھ ہے اور قرآن مجید کو اصلاً پڑھ نہیں سکتا تو اسے چاہیے کہ کسی پڑھے لکھے شخص سے قرآن کی تلاوت و ترجمہ سنے اور حفظ کرنے کی کوشش کرے۔چونکہ جو شخص آیات کا ترجمہ نہیں سمجھتا وہ درحقیقت"فَاقْرَئُوا مَا تَیَسَّرَ مِنْ الْقُرْآنِ"کا حق ادا نہیں کرتا۔ چونکہ نزولِ قرآن کے وقت اس آیہ کے مخاطبین کی زبان عربی تھی اور وہ قرآن کو عربی میں نازل ہونے کی وجہ سے اچھی طرح سمجھتے تھے۔بعض روایات میں بغیرترجمے کے قرآن مجید پڑھنے کا اجروثواب بھی اس لئے بیان کیا گیا ہے تاکہ انسان آہستہ آہستہ قرآن فہمی کا ذوق پیداکرے۔

چنانچہ ضروری ہے کہ جن کلمات و اصطلاحات کو انسان نہ سمجھ سکے ان کے بارے میں علماء دین اور کتب تفاسیر کی طرف رجوع کرے۔

روایات میں آیا ہے کہ "لیسَ شیء اشدُّ علی الشیطانِ من القراء َئة فی المصحفِ نظراً"

شیطان کے لئے اس سے زیادہ سخت چیز اور کوئی نہیں ہے کہ قرآن مجید کو دیکھ کر پڑھاجائے۔

اس کے علاوہ عمومی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ انسان تلاوتِ قرآن سے پہلے اور اختتام کے وقت معصومین سے مروی دعائیں بھی پڑھے اور تلاوت قرآن کے وقت شیطان کے شر سے خدا کی پناہ مانگے ۔جیساکہ سورہ نحل کی آیت ٩٨میں ارشاد پروردگار ہے:

فَِذَا قَرَْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاﷲِ مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ (٩٨)

جب آپ قرآن پڑھیں تو شیطان رجیم کے مقابلہ کے لئے اللہ سے پناہ طلب کریں ۔

اس کے علاوہ اللہ کے نام سے تلاوت شروع کی جائے یعنی بسم اللہ الرّحمن الرحیم کے ساتھ۔

یہ تو تھیں عمومی شرائط جن کی پابندی کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ خصوصی شرائط کی پابندی بھی ضروری ہے تاکہ انسان حقیقی معنوں میں قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کرپائے۔قرآن مجیدسے رہنمائی لینے کے لئے مندرجہ زیل خصوصی شرائط کا پابند ہونا نہایت ضروری ہے:

١۔تلاوت قرآن کے وقت عمومی شرائط کی انجام دہی کے دوران ریاکاری سے اجتناب کیا جائے۔چونکہ روایات میں آیا ہے کہ "بہت سارے لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور قرآن ان پر لعنت کرتاہے"

٢۔ مخارجِ حروف اور خوش الحانی کا اہتمام کیا جائے۔

٣۔علومِ قرآن و احادیث کو حتّی المقدور سیکھاجائے۔

٤۔ہرروزجو تلاوت کی جائے اس پر عمل کرنے کی تمرین اورمشق بھی کی جائے اور اس طرح اپنے آپ کو قرآن مجید پرعمل کرنے کا پابند بنایاجائے۔

٥۔قرآن مجید کی تلاوت ہرروزتسلسل اور نظم و ضبط کے ساتھ کی جائے اور مہینے میں ایک مرتبہ یاسال میںایک مرتبہ قرآن مجید کادورہ مکمل کیا جائے۔

 

Add new comment