جہادفی سبیل اللہ کا قرآنی مفہوم

 
 نذرحافی

nazarhaffi@gmail.com

انسان کی ساری زندگی سعی و کوشش سے عبارت ہے۔انسان اپنی ہمّت،حوصلے اور اہداف کے مطابق زندگی کے ہر لمحے میںکسی نہ کسی تگ و دو اورجستجو میں مصروف رہتاہے۔تاریخِ عالم شاھد ہے کہ کامیابی صرف انھی لوگوں کے قدم چومتی ہے،جن کے اہداف عالی ہوں اور ہمت بلند ہو۔اگر انسان ادنیٰ اہداف اور پست ہمت کا مالک ہو تو وہ اپنی ساری زندگی غیبت،حسد،طنز،بخل اورریاء کاری کرتے کرتے ضائع کردیتاہے۔ایسا شخص ممکن ہے بظاہر توبڑی بڑی باتیں اوربلندوبالادعوے کرتاہوا نظر آئے لیکن میدانِ عمل میںاسے دوسروں کی ٹانگ کھینچنے کے سواء کچھ اور سجھائی نہیں دیتا۔ اپنے اہداف کو متعیّن کرنے کے سلسلے میںانسان دنیا کے اس بازار میں قدم قدم پر رہنمائی اور سرپرستی کا محتاج ہے چونکہ اہداف کے تعیّن میں انسان اگر غلطی کر بیٹھے اور اپنے لئے پست اور گھٹیا اہداف معیّن کر لے توپھر وہ جتنی بھی بلندوبالاہمت کا مالک ہو ہمیشہ پستی اور ذلت کی گھاٹیوں میں ہی بھٹکتارہتاہے۔ خدا وندِ عالم نے انسان کو بلند اہداف سے آگاہ کرنے کے لئے اپنی بارگاہ سے انبیاء و مرسلین بھی ارسال کئے اورکتابیں بھی نازل کیں۔انبیاء و مرسلین کے بتائے ہوئے اہداف تک پہنچنے کے لئے سعی و کوشش کرنے کے عمل کو دین اسلام میں جہادکہاجاتاہے۔ جہاد کو انگریزی میںholy warیعنی مقدس جنگ کہا جاتا ہے لیکن عربی زبان میںWar(جنگ) کے لئے لفظ "حرب"استعمال کیا جاتاہے۔جہاد جیسے مقدس فریضے کے لئے دین نے حرب کے لفظ کو پسند نہیں کیا۔انگریزی میں لفظ جہاد کا ہم معنیٰ کلمہStruggleہے۔لیکن انگلش کا یہ لفظ بھی جہادکے مفہوم کو پوری طرح ادا کرنے سے قاصر ہے۔چونکہ Struggleکا معنیٰ کوشش اور جدّوجہد کرنا ہے جبکہ جہاد کا مطلب صرف کوشش اور جدوجہد کرنا نہیں بلکہ الٰہی مقاصد کے حصول کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنا ہے۔ جنگ اور جہاد میں یہ فرق ہے کہ جنگ قومی تعصبات،علاقائی نفرتوں،لسانی جھگڑوں،مادی مفادات اور رنگ و نسل کی بنیاد پر لڑی جاتی ہے جبکہ جہاد،انبیائِ کرام کے بلند و بالا اہداف کودنیا میں پورا کرنے کے لئے صرف اور صرف خوشنودی خدا کے لئے راہِ خدا میں کیا جاتا ہے۔اس لئے جہاد کو صرف جہاد کہنے کے بجائے جہاد فی سبیل اللہ کہا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ لغت میں جہاد سے کیا مراد ہے۔ لغت میں جہاد لغوی طور پر جہاد " جَہد"یا"جُہد"سے ہے جس کے معانی ایسی کوشش کرنے کے ہیں جس کے ساتھ مشقّت بھی شامل ہویعنی جہاد مشقّتوں بھری کوشش کا نام ہے۔ راغب اصفہانی نے مفردات میں لکھا ہے کہ الجھادُاستفراغ الوُسع فی مدافعة ُ العدوِّ دشمن سے بچائو کے لئے اپنی طاقت و قوّت کو انتہا تک پہنچانے کا نام جہاد ہے۔ قرآن مجید میں جہاد قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کلمہ جہاد استعمال ہوا ہے نمونے کے طور پر کچھ آیات ملاحظہ فرمائیں: )١(وَوَصَّیْنَا الِْنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَِنْ جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْم فَلاَتُطِعْہُمَا ِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (٨) (8) اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ نیک برتا ئوکرنے کی نصیحت کی ہے اور بتایا ہے کہ اگر وہ کسی ایسی شے کو میرا شریک بنانے پر مجبور کریں جس کا تمہیں علم نہیں ہے تو خبردار ان کی اطاعت نہ کرنا کہ تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے پھر میں بتائوں گا کہ تم لوگ کیا کررہے تھے ۔عنکبوت )٢(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوْا للّٰہَ وَابْتَغُوْآ اِلَیْہِ الْوَسِیْلَةَ وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(٣٥) (35) ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچے کا وسیلہ تلاش کرو اوراس کی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجا ئو )٣( یَاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدْ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ وَمَْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ پیغمبر !کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے کہ ان کا انجام جہنم ہے جو بدترین ٹھکانا ہے )٤(لَا یَسْتَوِیْ الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُوْلِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ۔ فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَةً۔ وَکُلًا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسِنٰی ۔ وَفَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا(٩٥) (95) اندھے بیمار اور معذور افراد کے علاوہ گھر میں بیٹھے رہنے والے صاحبانِ ایمان ہرگز ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو راسِ خدا میں اپنے جان و مال سے جہاد کرنے والے ہیں- اللہ نے اپنے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر امتیاز عنایت کئے ہیں اور ہر ایک سے نیکی کا وعدہ کیا ہے اور مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں کے مقابلہ میں اجرِ عظیم عطا کیا ہے ۔نسائ قرآن مجید میں جہاد کے لئے ہی قتال کی اصطلاح بھی استعمال کی گئی ہے۔جیساکہ ارشادِ پروردگار ہے: )١( یَاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضْ الْمُؤْمِنِینَ عَلَی الْقِتَالِ (65) اے پیغمبر آپ مومنین کو جہاد پر آمادہ کریں ۔ انفال )٢(ِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کََنَّہُمْ بُنیَان مَرْصُوص (٤) بے شک اللہ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف باندھ کر جہاد کرتے ہیں جس طرح سیسہ پلائی ہوئی دیواریں ہوں۔صف )٣( فَقَاتِلُوا َئِمَّةَ الْکُفْرِ ِنَّہُمْ لاََیْمَانَ لَہُمْ لَعَلَّہُمْ یَنتَہُونَ (١٢) کفر کے سربراہوں سے کھل کر جہاد کرو کہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔شاید یہ اسی طرح اپنی حرکتوں سے باز آجائیں ۔ اس سے پہلے کہ ہم قرآن کی روشنی میں انبیائِ کرام کا لائحہ عمل اور جہاد کاہدف معلوم کریں ،امیرالمومنین کی زبانی جہاد کی اہمیت پرایک نگاہ ڈالتے ہیں۔ امیرالمومنین کی زبانی جہاد کی اہمیت: انَّ الجھادَ باب من ابوابُ الجنّةِ فتَحَہ اللہ لِخاصّة اولیائہِ جہاد جنّت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے کہ جسے اللہ اپنے مخصوص دوستوں کے لئے کھولتا ہے۔ چونکہ انبیاء کرام کے لائحہ عمل کوعملی جامہ پہنانے کی سعی و کوشش کا نام جہاد ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہمیںمعلوم ہوکہ انبیاء کرام کے پاس کیا لائحہ عمل تھا اور وہ لوگوں کو کیا دعوت دے رہے تھے۔ قرآن مجید کی روشنی میں انبیاء کرام کے لائحہ عمل کا مطالعہ کرنے کے بعدہم جہاد کے اہداف معلوم کریں گے۔ قرآن مجید کی زبانی انبیائِ کرام کا لائحہ عمل )١(وَمَا َرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُولٍ ِلاَّ نُوحِی ِلَیْہِ َنَّہُ لاَِلَہَ ِلاَّ َنَا فَاعْبُدُونِی (٢٥) (25) اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے لہذا سب لوگ میری ہی عبادت کرو )٢(ِذْ قَالَ لَہُمْ َخُوہُمْ نُوح َلاَتَتَّقُونَ جب ان کے بھائی نوح نے ان سے کہا کہ تم پرہیزگاری کیوں نہیں اختیار کرتے ہو ۔شعرائ١٠٧ )٣(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ ُمَّةٍ رَسُولاً َنْ اُعْبُدُوا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوت (36) اوریقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔ نحل )١( ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الُْمِّیِّینَ رَسُولًا مِنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ (٢) وَآخَرِینَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ (٣) اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو ان ہی میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ,ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگرچہ یہ لوگ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے ۔ )٢(لَقَدْ َرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وََنْزَلْنَا مَعَہُمْ الْکِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔حدید٢٥ )٣(کَانَ النَّاسُ ُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اﷲُ النَّبِیِّینَ مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ وََنزَلَ مَعَہُمْ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیمَا اخْتَلَفُوا فِیہِ سارے انسان ایک قوم تھے . پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں۔بقرہ٢١٣ مندرجہ بالا آیات سے پتہ چلتا ہے کہ انبیائِ کرام کی تبلیغ اورمنصوبے کے ٩محور تھے۔ ا۔توحید ٢۔تقویٰ ٣۔طاغوت سے بیزاری ٤۔قیامِ عدل ٥۔بشارت ٦۔نذارت ٧۔تلاوتِ آیات ٨۔تذکیہ ٩۔تعلیمِ کتاب و حکمت انبیائِ کرام کے پاس انسانی فلاح و بہبود کا جولائحہ عمل تھااس کے مطابق انسانوں کو سب سے پہلے خدا کی وحدانیت سے آگاہ کرنا تھاپھر انھیںوحدہ لاشریک کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق کتاب و حکمت کی تعلیم دے کر ان کاتذکیہ نفس کر کے انھیں متّقی بنانا تھاتاکہ معاشرے میںعدل قائم ہواور پھرمتقی اور صالح معاشرے کوبشارت و نذارت کے ذریعے فسق و فجور کے علمبرداروں(طاغوت)کے خلاف جہاد کے لئے آمادہ کرنا تھا۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے جہاد کے کیا اہداف بیان کئے ہیں! قرآن مجید میں جہاد کے اہداف ١٭دشمنانِ خدا کو ڈرانا )(وََعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُونَ بِہِ عَدُوَّ اﷲِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِینَ مِنْ دُونِہِمْ لاَتَعْلَمُونَہُمْ اﷲُ یَعْلَمُہُمْ اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن -اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نہیں جانتے ہو اور اللہ جانتا ہے سب کو خوفزدہ کردو ۔ ٢٭عبادت گاہوں اور مساجد کی حفاظت )(الَّذِینَ ُخْرِجُوا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ ِلاَّ َنْ یَقُولُوا رَبُّنَا اﷲُ وَلَوْلاَدَفْعُ اﷲِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَع وَصَلَوَات وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیہَا اسْمُ اﷲِ کَثِیرًا وَلَیَنصُرَنَّ اﷲُ مَنْ یَنصُرُہُ ِنَّ اﷲَ لَقَوِیّ عَزِیز (٤٠) یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے بلا کسی حق کے نکال دیئے گئے ہیں علاوہ اس کے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور اگر خدا بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ نہ روکتا ہوتا تو تمام گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے اور مجوسیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منہدم کردی جاتیں اور اللہ اپنے مددگاروں کی یقینا مدد کرے گا کہ وہ یقینا صاحبِ قوت بھی ہے اور صاحبِ عزت بھی ہے ۔حج٤٠ ٣٭۔فساد کا خاتمہ )(فَہَزَمُوہُمْ بِِذْنِ اﷲِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاہُ اﷲُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَہُ مِمَّا یَشَائُ وَلَوْلاَدَفْعُ اﷲِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتْ الَْرْضُ وَلَکِنَّ اﷲَ ذُو فَضْلٍ عَلَی الْعَالَمِینَ (٢٥١) نتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں نے جالوت کے لشکر کو خدا کے حکم سے شکست دے دی اور دائودنے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے انہیں ملک اور حکمت عطاکردی اور اپنے علم سے جس قدر چاہا دے دیا اور اگر اسی طرح خدا بعض کو بعض سے نہ روکتا رہتا تو ساری زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن خدا عالمین پر بڑا فضل کرنے والا ہے ۔بقرہ٢٥١ ٤٭دشمنان خدا کی ذلت )( قَاتِلُوہُمْ یُعَذِّبْہُمْ اﷲُ بَِیْدِیکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْہِمْ وَیَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ ان سے جنگ کرو اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سے سزا دے گا اور رسوا کرے گا اور تمہیں ان پر فتح عطا کرے گا اور صاحب ایمان قوم کے دلوں کو ٹھنڈا کردے گا ۔توبہ١٤ ٥٭۔الٰہی دین کا اجرائ )٥( وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَتَکُونَ فِتْنَة وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ فَِنْ انتَہَوْا فَِنَّ اﷲَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیر (٣٩) ترجمہ:اور تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے اور سارا دین صرف اللہ کے لئے رہ جائے پھر اگر یہ لوگ باز آجائیں تو اللہ ان کے اعمال کا خوب دیکھنے والا ہے مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں جہاد کے مندرجہ زیل اھداف سامنے آتے ہیں: ١۔دشمنانِ خدا کو ڈرانا ٢۔عبادت گاہوں اور مساجد کی حفاظت ٣۔فساد کا خاتمہ ٤۔دشمنان خدا کی ذلت ٥۔الٰہی دین کا اجرائ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ وہ کونسی مشکلات اور رکاوٹیں ہیں جو انسان کو انبیاء کے راستے پر چلنے سے روکتی ہیں اور جہاد کو عملاً نافذ نہیں ہونے دیتیں: قرآن مجید کی روشنی میں جہاد کے راستے کی رکاوٹیں: قُلْ ِنْ کَانَ آبَاؤُکُمْ وََبْنَاؤُکُمْ وَِخْوَانُکُمْ وََزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وََمْوَال اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَة تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا َحَبَّ ِلَیْکُمْ مِنْ اﷲِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَْتِیَ اﷲُ بَِمْرِہِ وَاﷲُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ (٢٤) پیغمبرآپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ دادا اولاد برادران ,ازواج ,عشیرہ و قبیلہ اور وہ اموال جنہیں تم نے جمع کیا ہے اور وہ تجارت جس کے خسارہ کی طرف سے فکرمند رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں پسند کرتے ہو تمہاری نگاہ میں اللہ اس کے رسول اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو وقت کا انتظار کرو یہاں تک کہ امر الہی آجائے اور اللہ فاسق قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے ۔توبہ٢٤ مندرجہ بالا آیت سے پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی چیز کی محبّت اگر خدا اور رسولۖ کی محبّت سے زیادہ ہو جائے تو انسان کے لئے ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے اور انسان کو راہِ خدا میں جدوجہد کرنے سے روکنے لگتی ہے۔پس انسان کو ہر چیز سے زیادہ خدا اور رسول سے محبّت ہونی چاہیے تا کہ ضرورت پیش آنے پروہ ہر چیز کو راہِ خدا میں قربان کرسکے۔ اب آئیے جہاد کی اقسام پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔جہاد کی بنیادی طورپر دو قسمیں ہیں۔ ١۔دفاعی جہاد ٢۔ابتدائی جہاد ١۔دفاعی جہاد دنیا میں کسی بھی مقام پر دفاع کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔حتّیٰ کہ کسی جانورپر بھی اگر حملہ ہو جائے تو وہ اپنے دفاع کیلئے ہاتھ پائوں مارتا ہے۔گویادفاع کرناہرجاندار کی فطرت میں شامل ہے۔اسلام نے بھی انسان کے اس فطری تقاضے کے پیشِ نظرمسلمانوں کو دفاع کی ترغیب دی ہے۔ دفاعی جہاد اس وقت مسلمانوں پر واجب ہو جاتا ہے جب کوئی بیرونی طاقت ،اسلامی ریاست پر حملہ آور ہوجائے،مسلمانوں کی املاک پر قبضہ کرنا چاہے ،ان کی ناموس کو پامال کرنا چاہے یا انھیں اپنا غلام بناناچاہے۔ دفاعی جہاد کا ہدف اسلامی ریاست کی جغرافیائی و نظریاتی حدود کا تحفظ اور مسلمانوں کی جان و مال نیز عزّت و ناموس کی حفاظت کرنا ہے۔ دفاعی جہاد کے بارے میں سورہ حج کی آیت ٣٩ تا ٤٠میں ارشاد پروردگار ہے: ُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بَِنَّہُمْ ظُلِمُوا وَِنَّ اﷲَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیر (٣٩) الَّذِینَ ُخْرِجُوا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ ِلاَّ َنْ یَقُولُوا رَبُّنَا اﷲُ وَلَوْلاَدَفْعُ اﷲِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَع وَصَلَوَات وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیہَا اسْمُ اﷲِ کَثِیرًا وَلَیَنصُرَنَّ اﷲُ مَنْ یَنصُرُہُ ِنَّ اﷲَ لَقَوِیّ عَزِیز (٤٠) جن لوگوں سے مسلسل جنگ کی جارہی ہے انہیں ان کی مظلومیت کی بناء پر جہاد کی اجازت دے دی گئی ہے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھنے والا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے بلا کسی حق کے نکال دیئے گئے ہیں علاوہ اس کے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور اگر خدا بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ نہ روکتا ہوتا تو تمام گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے اور مجوسیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منہدم کردی جاتیں اور اللہ اپنے مددگاروں کی یقینا مدد کرے گا کہ وہ یقینا صاحبِ قوت بھی ہے اور صاحبِ عزت بھی ہے ۔ علمائِ اسلام نے دفاعی جہاد کی مندرجہ زیل اقسام بیان کی ہیں : ١۔اپنی زندگی یا دوسروں کی جانوںکا دفاع کرنا ٢۔اپنے مال یا دوسروں کے مال کی حفاظت کرنا ٣۔اپنی اور دوسروں کی آزادی اور حرّیت کا دفاع کرنا ٤۔اپنی اور دوسروں کی عزّت و ناموس کا دفاع کرنا جو شخص بھی دفاعی جہاد میں کام آجائے اسے دینی اصطلاح میں شہید کہا جاتا ہے۔دفاعی جہاد کے بارے میں کچھ احادیث ملاحظہ فرمائیں: امام صادق نے فرمایا ہے: مَن قُتِلَ دُونَ عِیالِہِ فھو شھید: جواپنے خاندان کے دفاع میں مارا گیا وہ شہید ہے ١ امام باقر سے روایت ہے کہ مَن قُتِلَ دُونَ مالہُ فھو شھید: جواپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔ ٢ رسولِ اکرم ۖ کا رشادِ مبارک ہے: یبغض اللہ تبارک و تعالیٰ رجلاً یدخلُ علیہ فی بیتہ فلا یقاتل اللہ دشمن رکھتا ہے ایسے شخص کو کہ جس کے گھر میں کوئی شخص داخل ہو کر اس کی عزّت پامال کرے اور یہ اسے قتل نہ کرے۔ ٣ اب آئیے جہاد کی دوسری قسم یعنی جہاد ابتدائی کا مطالعہ کرتے ہیں: جہادِ ابتدائی: جہادِ ابتدائی یہ ہے کہ مسلمان غیر مسلموں سے جنگ کاآغاز کریں البتّہ جہاد ابتدائی کے بارے میںاکثرشیعہ علماء کا نظریہ یہ ہے کہ جہاد ابتدائی صرف اور صرف معصوم امام کے حکم سے واجب ہو تاہے۔تاہم صاحبِ جواھر کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر علماء کا اجماع خلاف نہ ہو توہم کہ سکتے ہیں کہ نائب امام ہونے کے ناطے فقیہ بھی جہادِ ابتدائی کا حکم دے سکتا ہے۔ البتہ یہ ذہن میں رہے کہ اسلام مالِ غنیمت یا جاہ طلبی اور رعب و دبدبے کے لئے جنگ کی اجازت نہیں دیتا۔حتّٰی کہ اگر ایک مسلمان گروہ دوسرے مسلمان گروہ پر حملہ کر کے اسے وقتی طورپر دبالے اور ان دونوں میںصلح نہ ہو تواسلام زیادتی کرنے والے( حملہ آور) کے خلاف نبردازمائی کاحکم دیتا ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد مبارک ہے: وَِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فََصْلِحُوا بَیْنَہُمَا فَِنْ بَغَتْ ِحْدَاہُمَا عَلَی الُْخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّی تَفِیئَ ِلَی َمْرِ اﷲِ فَِنْ فَائَتْ فََصْلِحُوا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وََقْسِطُوا ِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ ۔ اور اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کریں تو تم سب ان کے درمیان صلح کرا ئو،اس کے بعد اگر ایک دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ہے یہاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آجائے پھر اگر پلٹ آئے تو عدل کے ساتھ اصلاح کردو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے (حجرات٩) اب آئیے جزئی طور پر جہاد کی اقسام پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں! جزئی طور پر جہاد کی چھ قسمیں ہیں۔ ١۔جہاد بالنّفس ٢۔جہادبالقلب ٣۔جہاد بالمال ٤۔جہاد بالسیف ٥۔جہادبالقلم ٦۔جہاد بالسان ١۔جہاد بالنّفس جہاد بالنّفس یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنی تربیت اور خود سازی کرے۔دراصل خود سازی دیگرہر طرح کے جہاد کے لئے مقدمہ ہے۔اگر کسی نے اپنی تربیت اور خود سازی پر توجہ نہ کی ہو تو وہ جہاد کے نام پر ڈھونگ تو رچاسکتاہے لیکن الٰہی و اسلامی جہاد کا فریضہ ادا نہیں کرسکتا۔یہی وجہ ہے کہ احادیث میں جہاد بالنفس کو جہادِ اکبر بھی کہا گیا ہے۔ ٢۔جہادبالقلب جہادبالقلب یہ ہے کہ اگر انسان کسی برائی کے خلاف سرِعام جدّوجہد نہیں کرسکتا تو دل میں ہی اس سے کراہت محسوس کرئے۔ ٣۔جہاد بالمال جہاد بالمال یہ ہے کہ انسان راہِ خدا میں اپنا مال قربان کرے۔ ٤۔جہاد بالسیف جہاد بالسیف یہ ہے کہ انسان بعائیوں کو کچلنے کے لئے میدان عمل میں اتر آئے اور تلوار کے ساتھ ظلم و بربریت کے ایوانوں پر ٹوٹ پڑے۔ ٥۔جہاد بالقلم جہاد بالقلم یہ ہے کہ انسان قلم کے ذریعے شیاطین کے خلاف نبردازمائی کرے اور دین حق کا پرچار کرے۔ ٦۔جہاد بالسان جہاد بالسان یہ ہے کہ انسان ببانگِ دہل باطل کو بے نقاب کرے اور عوام النّاس تک پیغامِ حق پہنچائے۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ جہاد اورمجاہدین راہِ خداکی کامیابی کا دارومدار کن اسباب اور عوامل پر ہے۔ قرآن مجیدکی روشنی میںجہاد فی سبیل اللہ کی کامیابی کے عوامل : قرآن مجید کی روشنی میں جہاد کی کامیابی کے تین طرح کے عوامل ہیں۔ ١۔مادی عوامل ٢۔معنوی عوامل ٣۔الٰہی امداد ١۔مادی عوامل قرآن مجیدنے مجاہدین کو مادی حوالے سے جنگی سازوسامان تیار رکھنے کا حکم دیا ہے۔جیساکہ سورہ انفال کی آیت٦٠ میں ارشاد پروردگار ہے: وََعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو ۔ جہاد کے لئے مادی اسباب کی فراہمی چونکہ مالی کمک اور اجتماعی تعاون کے بغیر ممکن نہیں چنانچہ مادی اسباب مہیّا کرنے کے لئے بھی قرآن مجید نے کئی مقامات پرلوگوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے۔نمونے کے طور پر چند آیات ملاحظہ فرمائیں۔ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَیْئٍ فِی سَبِیلِ اﷲِ یُوَفَّ ِلَیْکُمْ وََنْتُمْ لاَتُظْلَمُونَ اور جو کچھ بھی راہ خدا میں خرچ کرو گے سب پورا پورا ملے گا اور تم پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا ۔انفال٦٠ قرآن مجیدنے جہاد کی کامیابی کے لئے مندرجہ زیل معنوی عوال بیان کئے ہیں۔ قرآن مجید کی روشنی میں جہاد کی کامیابی کے معنوی عوامل: ١۔دشمن کے مقابلے میں صبرواستقامت ٢۔یادِخدا ٣۔خدا اور رسول کی اطاعت ٤۔باہمی اتحاد سورہ انفال کی آیت٤٥ اور ٤٦ میں مندرجہ بالا چاروں امور بیان کئے گئے ہیں۔آیات٤٥ و ٤٦ ملاحظہ فرمائیں۔ یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا لَقِیتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْکُرُوا اﷲَ کَثِیرًا لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ (٤٤) وََطِیعُوا اﷲَ وَرَسُولَہُ وَلاَتَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْہَبَ رِیحُکُمْ وَاصْبِرُوا ِنَّ اﷲَ مَعَ الصَّابِرِینَ ۔ (45) ایمان والو جب کسی گروہ سے مقابلہ کرو تو ثبات ہقدم سے کام لو اور اللہ کو بہت یاد کرو کہ شاید اسی طرح کامیابی حاصل کرلو (46) اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑ جا اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے اور صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے جہادکی کامیابی کے عوامل میں سے تیسرا عامل خدا کی طرف سے الٰہی امداد ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے مجاہدین کی الٰہی امداد کو کس طرح بیان کیا ہے۔ قرآن مجید کی روشنی میں مجاہدین کی الٰہی امداد ٭خدا کی طرف سے مدد کا وعدہ خدا نے دنیا اور آخرت میں صاحبان ایمان کی مدد کرنے کا قرآن مجید میں وعدہ کیا ہے۔ملاحظہ فرمائیںسورہ مومن آیت ٥١۔ ِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الَْشْہَادُ (51) بیشک ہم اپنے رسول اور ایمان لانے والوں کی زندگانی دنیا میں بھی مدد کرتے ہیں اور اس دن بھی مدد کریں گے جب سارے گواہ اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ اسی طرح سورہ انفال کی آیت ١٠ میں ارشاد پروردگارہے: وَمَا جَعَلَہُ اﷲُ ِلاَّ بُشْرَی وَلِتَطْمَئِنَّ بِہِ قُلُوبُکُمْ وَمَا النَّصْرُ ِلاَّ مِنْ عِنْدِ اﷲِ ِنَّ اﷲَ عَزِیز حَکِیم (١٠) (10) اور اسے ہم نے صرف ایک بشارت قرار دیا تاکہ تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے -اللہ ہی صاحب عزت اور صاحب حکمت ہے ٭حضرت نوح کی مدد۔ وَنُوحًا ِذْ نَادَی مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ فَنَجَّیْنَاہُ وََہْلَہُ مِنْ الْکَرْبِ الْعَظِیمِ (٧٦) وَنَصَرْنَاہُ مِنْ الْقَوْمِ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا ِنَّہُمْ کَانُوا قَوْمَ سَوْئٍ فََغْرَقْنَاہُمْ َجْمَعِین (76) اور نوح کو یاد کرو کہ جب انہوں نے پہلے ہی ہم کو آواز دی اور ہم نے ان کی گزارش قبول کرلی اور انہیں اور ان کے اہل کو بہت بڑے کرب سے نجات دلادی (77) اور ان لوگوں کے مقابلہ میں ان کی مدد کی جو ہماری آیتوں کی تکذیب کیا کرتے تھے کہ یہ لوگ بہت بری قوم تھے تو ہم نے ان سب کو غرق کردیا (٧٧) انبیائ ٭حضرت موسیٰ و ہارون کی مدد وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَی مُوسَی وَہَارُونَ (١١٤) وَنَجَّیْنَاہُمَا وَقَوْمَہُمَا مِنْ الْکَرْبِ الْعَظِیمِ (١١٥) وَنَصَرْنَاہُمْ فَکَانُوا ہُمْ الْغَالِبِینَ (١١٦) صافات۔ ٭حضوراکرمۖ کی مدد و نصرت قرآن مجید میں حضوراکرمۖ کی مدد و نصرت کے بارے میںکئی مقامات پر گفتگو کی گئی ہے نمونے کے طور پر چند آیات ملاحظہ فرمائیں۔ وَِنْ یُرِیدُوا َنْ یَخْدَعُوکَ فَِنَّ حَسْبَکَ اﷲُ ہُوَ الَّذِی َیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ (62) اور اگر یہ آپ کو دھوکہ دینا چاہیں گے تو خدا آپ کے لئے کافی ہے -اس نے آپ کی تائید ,اپنی نصرت اور صاحبان ایمان کے ذریعہ کی ہے۔انفال٦٢ اسی طرح سورہ انفال کی آیت ٩ میں ارشاد پرور دگار ہے: ِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ َنِّی مُمِدُّکُمْ بَِلْفٍ مِنْ الْمَلاَئِکَةِ مُرْدِفِینَ (٩) (9) جب تم پروردگار سے فریاد کررہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد سن لی کہ میں ایک ہزار ملائکہ سے تمہاری مدد کررہا ہوں جو برابر ایک کے پیچھے ایک آرہے ہیں ۔ حضوراکرم ۖکی مدد و نصرت کے بارے میں سورہ فتح کی آیات ١ تا ٣ ملاحظہ فرمائیں۔ ِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا (١) لِیَغْفِرَ لَکَ اﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تََخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا (٢) وَیَنْصُرَکَ اﷲُ نَصْرًا عَزِیزًا (٣) (1) بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہوئی فتح عطا کی ہے (2) تاکہ خدا آپ کے اگلے پچھلے تمام الزامات کو ختم کردے اور آپ پر اپنی نعمت کو تمام کردے اور آپ کو سیدھے راستہ کی ہدایت د ے د ے (3) اور زبردست طریقہ سے آپ کی مدد کرے اب آئیے دیکھتے ہیں کہ فریضہ جہاد ترک کرنے والوں کے بارے میں قرآن مجید نے کیا فرمایاہے: جہاد ترک کرنے کا نتیجہ قرآن کی روشنی میں: ١۔جہاد ترک کرنے والے فاسق ہیں ٢۔انھیں ہدایت نصیب نہیں ہوتی مندرجہ بالا دونوں نقاط اس آیت سے اخذ کئے گئے ہیں۔ قُلْ ِنْ کَانَ آبَاؤُکُمْ وََبْنَاؤُکُمْ وَِخْوَانُکُمْ وََزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وََمْوَال اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَة تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا َحَبَّ ِلَیْکُمْ مِنْ اﷲِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَْتِیَ اﷲُ بَِمْرِہِ وَاﷲُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ (٢٤) پیغمبرآپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ دادا اولاد برادران ,ازواج ,عشیرہ و قبیلہ اور وہ اموال جنہیں تم نے جمع کیا ہے اور وہ تجارت جس کے خسارہ کی طرف سے فکرمند رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں پسند کرتے ہو تمہاری نگاہ میں اللہ اس کے رسول اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو وقت کا انتظار کرو یہاں تک کہ امر الہی آجائے اور اللہ فاسق قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے ۔توبہ٢٤ اسی طرح سورہ توبہ کی مندرجہ زیل آیات بھی ملاحظہ فرمائیں: یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا مَا لَکُمْ ِذَا قِیلَ لَکُمْ انفِرُوا فِی سَبِیلِ اﷲِ اثَّاقَلْتُمْ ِلَی الَْرْضِ َرَضِیتُمْ بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا مِنْ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ ِلاَّ قَلِیل (٣٨) ِلاَّ تَنفِرُوا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا َلِیمًا وَیَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَلاَتَضُرُّوہُ شَیْئًا وَاﷲُ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیر (٣٩) (38) ایمان والو تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ راہ خدا میں جہاد کے لئے نکلو تو تم زمین سے چپک کر رہ گئے کیا تم آخرت کے بدلے زندگانی دنیا سے راضی ہوگئے ہو تو یاد رکھو کہ آخرت میں اس متاع زندگانی دنیا کی حقیقت بہت قلیل ہے ۔ (39) اگر تم راہ خدا میں نہ نکلو گے تو خدا تمہیں دردناک عذا میں مبتلا کرے گا اور تمہارے بدلے دوسری قوم کو لے آئے گا اور تم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ہو کہ وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے ۔ مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں جہاد ترک کرنے کے نتائج کچھ اس طرح دکھائی دیتے ہیں۔ ١۔ترکِ جہاد اس مادی دنیا کو سب کچھ سمجھ لینے کا نتیجہ ہے۔٢۔ترک جہاد کی سزا دردناک عذاب ہے۔

Add new comment