قرآنی ثقافت میں عورت
قرآنی ثقافت میں عورت
نذر حافی
انسانی معاشرہ اپنے ابتدائی ایّام سے ہی جہاں پر خوف وخطرے، جنگ و جدال اور ماردھاڑ کے ساتھ نبرد ازما رہا وہیں پر انسان کے دل و دماغ میں میں ایک پرامن اور فلاحی معاشرے کی تشکیل کا خواب بھی وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتارہا۔ کسی نے اس خواب کا نام مدینۃ الفاضلہ رکھا اور کسی نے اسے بہشتِ ارضی کا نام دیا لیکن اس کے باوجود یہ خواب ازل سے خواب ہی ہے اور تاریخ کے کسی بھی موڑ پر انسان اپنے اس خواب کی تعبیر نہیں پاسکا۔ فطری طور پر انسان جہالت،پسماندگی،غربت،افلاس،کرپشن،خوف،جنگ اور مار دھاڑ کو پسند نہیں کرتالیکن اس کے باوجود وہ اپنی پوری تاریخ میں انہی ناپسندیدہ عناصر کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور رہاہے۔ برس ہا برس کی محنت اور جدوجہد کے باوجود آج کا انسان بھی قدیم زمانے کے انسان کی طرح معاشرتی عدمِ مساوات، غربت،جہالت اور پسماندگی کا شکار ہے۔اگر ہم تاریخ بشریت کو خاتونِ دوعالم حضرت فاطمہ کے نعلینِ مبارک کی نوک ِ مقدس پر رکھ کر تقسیم کریں تو ہم دیکھیں گئے کہ موجودہ دور کی طرح خاتونِ قیامت کی ولادت باسعادت سے پہلے بھی عورت انسانی معاشرے کی ایک مسترد شدہ اکائی تھی اور شاید سابقہ اقوام کی پسماندگی اور جہالت کا ایک بڑاسبب "عورتوں کو سماجی اعتبار سےنظر انداز کرنا "ہی تھا۔ناسمجھ،ضدی اور ہٹ دھرم افراد، ان پڑھ ماوں سے ہی جنم لیتے اور جاہل عورتوں کی آغوش میں ہی تربیت پاتے ہیں۔چنانچہ دین اسلام نے دیگر تمام ادیان کے مقابلے میں سب سے زیادہ عورتوں کے حقوق اور خواتین کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی ہے۔ [1] تاریخی کتابوں سےپتہ چلتا ہے کہ مصر میں ورودِ اسلام سے پہلے تک یہ رسم موجود تھی کہ ہر سال اہلیانِ مصر ،دریائےمصر کے پانی میں اضافے کی نیت سے ایک لڑکی کو دریائے مصر میں قربانی کے طور پر پھینکا کرتے تھے۔[2] زمانہ جاہلیت کی ادبی کتابوں کی شعرو شاعری اور نثر نگاری اس بات پر شاہد ہے کہ اس زمانے کہ لوگ عورت کے لیے کسی قسم کے تقدس ،عفت اور پاکدامنی کے قائل نہیں تھے۔[3]اسی طرح بیٹی کی ولادت کو منحوس جاننا،بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا،بیوہ سے شادی کو معیوب سمجھنا وغیرہ وغیرہ یہ سب ظہور اسلام سے پہلے کی خرافات و مکروہات ہیں۔[4]اس حقیقت کی طرف قرآن مجید نے کچھ یوں اشارہ کیاہے: وَ إِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثىَ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَ هُوَ كَظِيمٌ(58) يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَ يُمْسِكُهُ عَلىَ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فىِ الترَُّابِ أَلَا سَاءَ مَا يحَْكُمُونَ اور جب خود ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے قوم سے منہ حُھپاتا ہے کہ بہت بری خبر سنائی گئی ہے۔[شرم کے مارے وہ سوچتاہے کہ] اب اس لڑکی کو ذلّت سمیت زندہ رکھے یا خاک میں دفن دے یقینا یہ لوگ بہت برا فیصلہ کررہے ہیں۔[5] دین اسلام میں عورت کی اہمیّت دین اسلام نے خواتین کے اجتماعی احساسات ،موروثی جذبات،خاندانی اوصاف ،فطری خواہشات،جنسی میلان،فکری استعداد اور دینی جذبات کے حوالے انہیں ان کا حقیقی مقام دلوایا۔یہاں تک کے قرآن مجید کا تیسرا سورہ "النساء " یعنی "خواتین "کے نام سے ہے اور خداوندعالم نے قرآن مجید کی دیگر سورتوں میں متعدد مقامات پر خواتین کی عظمت اور حقوق کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ عورت اور سیرت النبی ﷺ جس معاشرے میں لوگ بیوہ سے شادی کرنے کو شرم کا باعث سمجھتے تھے،پیغمبر اسلامﷺنے بیواوں سے شادیاں کیں اور اسی دور میں جب خاتون کو پست ترین مخلوق سمجھا جاتا تھا،پیغمبر اسلام ﷺنے اسی معاشرے اور اسی دور میں "بتولؑ"جیسی معصومہ کی پرورش اور تربیت کی۔[6] اسی معاشرے میں جہاں عورت کو مال مویشیوں کی طرح ملکیت سمجھا جاتا تھا،دین اسلام نے وہیں پر عورت کی آغوش کودنیا کی پہلی درس گاہ قرار دیا،وہیں پر جہاں عورت کو انسان نہیں سمجھا جاتا تھا،پیغمبر اسلام ﷺ نے جنت کو ماں کے قدموں تلے قرار دیا،وہیں پر جہاں پر لوگ بیٹی کو باعثِ ننگ و عار سمجھتے تھے پیغمبر اسلامﷺاپنی بیٹی کے احترام میں کھڑے ہو کر استقبال کیا کرتے تھے اوروہیں پر جہاں لوگ بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے،دین اسلام نے عورت کو میراث میں وارث قرار دیا۔ عورت کومیراث میں حصہ دار ٹھہرایا اس ضمن میں قرآن مجید میں یوں ارشاد پروردگارہے: لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَ الْأَقْرَبُونَ وَ لِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَ الْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثرَُ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا مردوں کے لئے ان کے والدین اور اقربا کے ترکہ میں ایک حصہّ ہے اور عورتوں کے لئے بھی ان کے والدین اور اقربا کے ترکہ میں سے ایک حصہّ ہے وہ مال بہت ہو یا تھوڑا یہ حصہّ بطور فریضہ ہے۔[7] عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا اس ضمن میں ایک مقام پر اس طرح سے ارشاد ہوا ہے: يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا يحَِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاءَ كَرْهًا وَ لَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَا ءَاتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَ عَاشرُِوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسىَ أَن تَكْرَهُواْ شَيًْا وَ يجَْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيرًْا كَثِيرًا اے ایمان والو تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جبرا عورتوں کے وارث بن جاؤ اور خبردار انہیں منع بھی نہ کرو کہ جو کچھ ان کو دے دیا ہے اس کا کچھ حصہّ لے لو مگر یہ کہ واضح طور پر بدکاری کریں اور ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرو اب اگر تم انہیں ناپسند بھی کرتے ہو تو ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور خدا اسی میں خیر کثیر قرار دے دے۔[8] عورت کا اعتماد بحال کیا وہ معاشرہ جہاں پر عورت کو ہمراز بنانے کو عیب سمجھا جاتا تھاوہیں پر پیغمبر اسلام ﷺ کی خفیہ تبلیغ کے دوران بھی خواتین کو خواتین کو نظر انداز نہیں کیا اور انہیں مخفی طور پر دین اسلام کی دعوت اور انہیں اپنا ہمراز بنایا۔[9] جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بیعت عقبہ ثانی کے موقع پر دو عورتوں نے حضورﷺکی بیعت کی جن میں سے ایک نسیبہ دختر کعب تھیں اور دوسری اسماء دختر عمرو بن عدی تھی۔فتح مکہ کے موقع پر مردوں کی طرح عورتوں سے بھی بیعت لی گئی جسے"بیعت النساء "کہا جاتا ہے۔اس بارے میں قرآن مجید کی آیت ملاحظہ فرمائیں: يَأَيهَُّا النَّبىُِّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلىَ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيًْا وَ لَا يَسْرِقْنَ وَ لَا يَزْنِينَ وَ لَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَ لَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْترَِينَهُ بَينَْ أَيْدِيهِنَّ وَ أَرْجُلِهِنَّ وَ لَا يَعْصِينَكَ فىِ مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَ اسْتَغْفِرْ لهَُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ پیغمبر اگر ایمان لانے والی عورتیں آپ کے پاس اس امر پر بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ کسی کو خدا کا شریک نہیں بنائیں گی اور چوری نہیں کریں گی - زنا نہیں کریں گی - اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھ پاؤں کے سامنے سے کوئی بہتان (لڑکا) لے کر نہیں آئیں گی اور کسی نیکی میں آپ کی مخالفت نہیں کریں گی تو آپ ان سے بیعت کا معاملہ کرلیں اور ان کے حق میں استغفار کریں کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔[10] اخروی اجر میں بھی عورتوں کا حصہ قراردیا دین اسلام نے دنیا کی طرح آخرت میں بھی عورتوں کو اجر اخروی کا وارث قرار دیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں قرآنی آیت۔ إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَ الْمُصَّدِّقَاتِ وَ أَقْرَضُواْ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ بیشک خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور جنہوں نے راسِ خدا میں اخلاص کے ساتھ مال خرچ کیا ہے ان کا اجر دوگنا کردیا جائے گا اور ان کے لئے بڑا باعزّت اجر ہے۔[11] اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد پروردگار ہے: يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى نُورُهُم بَينَْ أَيْدِيهِمْ وَ بِأَيْمَانِهِم بُشْرَئكُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تجَْرِى مِن تحَْتهَِا الْأَنهَْارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَالِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ(12) اس دن تم باایمان مرد اور باایمان عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور هایمان ان کے آگے آگے اور داہنی طرف چل رہا ہے اور ان سے کہا جارہا ہے کہ آج تمہاری بشارت کا سامان وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور تم ہمیشہ ان ہی میں رہنے والے ہو اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔[12] سورہ احزاب میں اس حقیقت کو کچھ اس طرح بیان کیاگیاہے: إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَ الْمُسْلِمَتِ وَ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَتِ وَ الْقَنِتِينَ وَ الْقَنِتَتِ وَ الصَّدِقِينَ وَ الصَّدِقَتِ وَ الصَّبرِِينَ وَ الصَّبرَِاتِ وَ الْخَشِعِينَ وَ الْخَشِعَتِ وَ الْمُتَصَدِّقِينَ وَ الْمُتَصَدِّقَتِ وَ الصَّئمِينَ وَ الصَّئمَتِ وَ الحَْفِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَ الْحَفِظَتِ وَ الذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَ الذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لهَُم مَّغْفِرَةً وَ أَجْرًا عَظِيمًا بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صابر مرد اور صابر عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی عفّت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور خدا کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں.اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظیم اجر مہّیاکررکھا ہے۔[13] امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بھی عورتوں کو شریک قرار دیا قرآن مجید نےامر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بھی عورتوں کو شریک قرار دیا ہے۔ نمونے کے طور پر یہ آیت ملاحظہ فرمائیں: وَ الْمُؤْمِنُونَ وَ الْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَ يُقِيمُونَ الصَّلَوةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَ يُطِيعُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ أُوْلَئكَ سَيرَْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ(71) اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اوربرائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔[14] ماں کےخصوصی احترام کا حکم اسی طرح احترام والدین کا حکم دیتے ہوئے خداوندِ عالم نےنہ صرف یہ کہ ماں کو باپ کے برابر قرار دیا ہے بلکہ ماں کے ایثار کو خصوصیت کے ساتھ سراہا بھی ہے۔ * وَ قَضىَ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُواْ إِلَّا إِيَّاهُ وَ بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَنًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبرََ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لهَُّمَا أُفٍّ وَ لَا تَنهَْرْهُمَا وَ قُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا۔ وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانىِ صَغِيرًا۔ اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس ہوں اور بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا۔ ۔ اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور دعا کرو: پروردگارا! ان پر رحم فرماجس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں(شفقت سے) پالا تھا۔[15] اسی طرح ایک اور مقام پر ارشادِ پروردگارہے: وَ وَصَّيْنَا الْانسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَ وَضَعَتْهُ كُرْهًا وَ حَمْلُهُ وَ فِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شهَْرًا حَتىَّ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَ بَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنىِ أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتىِ أَنْعَمْتَ عَلىََّ وَ عَلىَ وَالِدَىَّ وَ أَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَئهُ وَ أَصْلِحْ لىِ فىِ ذُرِّيَّتىِ إِنىِّ تُبْتُ إِلَيْكَ وَ إِنىِّ مِنَ الْمُسْلِمِينَ۔ اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ پر احسان کرنے کا حکم دیا، اس کی ماں نے تکلیف سہ کر اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور تکلیف اٹھا کر اسے جنا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگ جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ رشد کامل کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو کہنے لگا: پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جس سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا اور یہ کہ میں ایسا نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے اور میری اولاد کو میرے لیے صالح بنا دے، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں۔[16] عورت معاشرے کا اہم ترین جزو ہی نہیں بلکہ روحِ رواں بھی ہے،کائنات کی زیبائی ،اولاد کی تربیت، زندگی کا حسن ایک بااخلاق ،عفیف اور پاکدامن عورت سے ہی قائم ہے۔ ایک شخص نے پیامبر اسلام ﷺسے پوچھا میں کس سے نیکی کروں ؟آپؐ نے فرمایا ماں سے،اس نے دوبارہ پوچھا آپ نے پھر وہی جواب دیا،اس نے تیسری مرتبہ پوچھاآپ نے پھر وہی جواب دیا،حتّیٰ کہ اس نے چوتھی مرتبہ پوچھا آپ نے فرمایا باپ کے ساتھ۔[17] حضرت امام خمینی کی نگاہ میں عورت کا مقام حضرت امام خمینی فرماتے ہیں کہ دنیا میں خواتین کا اثر خاص خوبیوں کا حامل ہے۔کسی بھی معاشرے کی تعمیر و تحریب اس معاشرے کی خواتین کی تعمیر و تخریب سے ہی جنم لیتی ہے۔ عورت واحد عنصر ہے جواپنے دامن سے ایسے افراد معاشرے کے سپرد کر سکتی ہے کہ جن کی برکات سے ایک معاشرہ نہیں بلکہ کئی معاشرے عزت و استقامت اور اعلیٰ انسانی اقدار میں ڈھل سکتے ہیں اور عورتوں کے باعث ہی اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے۔[18] اسی طرح ایک اور مقام پرآپ فرماتے ہیں کہ معاشر ے کی تربیت عورت کرتی ہے۔عورت کی گود سے ہی انسان جنم لیتے ہیں۔عورت اور مرد دونوں کے صحیح و صالح ہونے کا پہلا مرحلہ عورت ہی کی گود ہے۔عورت انسانوں کی تربیت کرتی ہے۔ممالک کی خوش بختی اور بد بختی عورتوں کے وجود پر ہی منحصر ہے۔ عورت ہی انسانوں کی تربیت کرتی ہے اور صحیح تربیت کر کے ممالک کو آباد کرتی ہے۔تمام خوش بختیوں کا سرچشمہ عورت کی گود ہی ہے۔[19] رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی نگاہ میں عورت کا مرتبہ رہبرِ معظم سید علی خامنہ ای نے عورت کے مقام و مرتبے کے حوالے سے فرمایاہے کہ اسلامی نکتہ نظر سے بعنوان انسان کمال کے تمام مراحل عورت کو طے کرنے چاہیے۔عورت بھی مرد کی طرح ایک دانشمند ،موجداورفلسفی بن کر سیاسی ،دفتری اور حکومتی کاموں میں معاشرے کی خدمت کر سکتی ہے۔[20] رہبر معظم نے ایک اور مقام پرعورت کے بارے میں الحادی اور مشرک قوتوں کے افکار کا اسلامی افکار سے فرق کچھ اس طرح بیان کیاہے کہ الحادی طاقتیں عورت سے اس کے بنیادی اوصاف جیسے حجاب،عفّت اور پاکدامنی کو چھیننے پر تلی ہوئی ہیں جبکہ اسلام عورت کو اس کی تمام تر صفات کے ساتھ معاشرے میں ممتاز اور سربلند دیکھناچاہتاہے۔ آپ نے فرمایاہے کہ "یہ اسلامی نگاہ ہے کہ عورت کہ تمام احساسات اور خوابوں کو زنانہ خصوصیات کے ساتھ ہی محفوظ کیا گیا ہے۔اس پر کسی قسم کا دباو نہیں ڈالا گیا۔ عورت کے تمام احساسات اور فطرت کا محور "عورت ہونا ہی" ہے۔اسلام نے جیسے عورت کے عورت ہونےکی حفاظت کی ہے اسی طرح علم،معنویت ،پرہیزگاری اور سیاسی میدان کے دروازےبھی اس کے لیےکھولے ہوئے ہیں اور اسے بھی حصول علم کی رغبت دلائی ہے۔[21] ہمارا موجودہ معاشرہ اور عورت کی تعلیم و تربیت اتنی اہمیت کے باوجود ہمارے ہاں موجودہ دور میں زمانہ جاہلیت کی طرح خواتین کی تعلیم و تربیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی۔اس عدم توجہ کا نتیجہ افلاس،پسماندگی،جہالت اور دہشت گردی کی صورت میں آج ہمارے سامنے موجود ہے۔ظاہر ہےجہاں پر عورت کو پسماندہ رکھا جائے اور اس کی تعلیم و تربیت پر قابل ذکر توجہ نہ دی جائے وہاں پر اچھی ،پروقار اور باشعور نسل جنم نہیں لے سکتی۔ ان پڑھ اور غیر تعلیم یافتہ ماوں کی گودوں میں دہشت گرد اور سماج دشمن افراد ہی پروان چڑھا کرتے ہیں۔چنانچہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں قرآن و سنّت کی تعلیمات کے مطابق خواتین کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی جائے۔ یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اپنےدینی جذبے اور مستحکم ایمان و عقیدے کے باعث ہمارے ہاں کے والدین اپنی بچیوں کو تعلیم و تربیت کے لیے اچھے اداروں میں بھیجنا چاہتے ہیں لیکن پورے ملک کے طول و عرض میں اس طرح کے ایک ملّی ادارے کا شدید فقدان ہے کہ جہاں پر قرآنی و الٰہی ماحول میں بچیوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں خواتین کے لیے کسی معیاری یونیورسٹی کا نہ ہونا یقیناًًافسوس کا باعث ہے لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ دینی حلقوں کی طرف سے بھی اس ضمن میں کوئی خاص پیشرفت دیکھنے میں نہیں آرہی ۔عام طور پرزیادہ سے زیادہ بچیوں کے لیے چھوٹا موٹا دینی مدرسہ بنانے پر ہی اکتفا کر لیا جاتا ہے یا پھر ہاسٹل وغیرہ بنا لینے کو کافی سمجھا جاتا ہے۔ بچیوں کو تعلیم دلانے کا رجحان ایک تو ویسے ہی کم ہے ،والدین جس طرح بچوں کی تعلیم کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں اس طرح بچیوں کے بارے میں حسّاس نہیں ہوتے۔جس کی وجہ سے بہت ساری بچیاں یاتو سکولوں میں داخل ہی نہیں کرائی جاتیں اور اگر داخل ہوبھی جائیں تو جلد یا بدیر تعلیم نامکمل چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں۔بہت سارے علاقوں میں اگر بچیاں میٹرک کر بھی لیں تو اس کے بعد دینی ماحول ناں ہونے کے باعث مجبور ہوکر انہیں تعلیم ترک کرنا پڑتی ہے۔ معاشرتی بے حسی اور بے توجہی کے باعث اس مسئلے کو زیادہ اہم نہیں سمجھا جارہااور اس سلسلے میں کو ئی پیشرفت دیکھنے میں نہیں آرہی۔ نتیجہ پاکستان جیسے اسلامی اور نظریاتی ملک میں قرآن و سنّت کے سائے میں خواتین کی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام نہ ہونا انتہائی افسوسناک امرہے۔اگرچہ کچھ ادارے اس حوالے سے سرگرم نظر آتے ہیں لیکن ان کا دائرہ کار یاتو انتہائی محدود ہے اور یاپھر زیادہ تسّلی بخش نہیں ہے۔خصوصا میٹرک کے بعد والدین کو بچیوں کی تعلیم کے حوالے سخت مشکلات اور پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑتاہے۔یوں تو ہمارے اکثر سرکاری تعلیمی اداروں میں مناسب رہنمائی،دینی ماحول اور الٰہی افکار کا سایہ خال خال ہی نظر آتاہے اور اربابِ اقتدار کو اس سلسلے میں کوئی خاص دلچسبی بھی نہیں ہے ۔لیکن ایسے میں اپنی نوجوان نسل خصوصاً طالبات کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑدینا یقیناً بہت بڑی غلطی ہے۔ہمیں چاہیے کہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے غفلت نہ برتیں اوراس ضمن میں ہر ممکنہ تگ و دو کریں۔ آج پاکستان میں خواتین کی تعلیم و تربیّت کی جتنی شدید ضرورت ہے ،تعلیمی و تربیتی اداروں کی اتنی ہی شدید کمی بھی ہے۔ایسا ماحول اور ایسے تعلیمی ادارے جن میں بچوں کا ایمان بھی محفوظ نہ رہ سکتاہو وہاں پر بچیوں کو کس امید پر داخل کرایاجائے۔ آج پاکستان میں عوامی سطح پر خواتین کی دینی و دنیاوی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک ایسی مستقل یونیورسٹی کا خلاء واضح طور پر موجود ہے جس کی شاخیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہوں اور اس یونیورسٹی تک خواتین کی رسائی بھی آسان ہو اور والدین اور دینی حلقے بھی اس کے ماحول اور تربیّت کے حوالے سے مطمئن ہوں۔۔۔ اگر پاکستانی معاشرے میں خواتین کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے خواتین کوان کا حقیقی مقام عطا کیا جائے اور ان کے لیے بہترین تعلیمی اداروں خصوصاًدینی تعلیم وتربیّت کا اہتمام کیا جائے تو ملت پاکستان کے مسائل کافی حد تک کم ہو سکتے ہیں اور پاکستان میں ایک حقیقی اسلامی معاشرے کی تشکیل کے خواب کو پورا کرنے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔ آج ضرورت ہے عورت کو استعماری سازشوں کا شکار ہونے سے بچایاجائے اور عورت کو یہ باور کرایاجائے کہ وہ شیطانی افکار کے مطابق "صرف جنسی حیوان " نہیں ہے بلکہ ماں بہن ،بیٹی اور بیوی جیسے حسین رشتوں کے ا متزاج کا باعث ہے۔ چنانچہ گھٹیالٹریچر،لچرفلموں اور ڈراموں میں عورت کو،محبوبہ، مظلومہ اور مجبور بناکر پیش کرنے کے بجائے ،اس کی حقیقی تصویر پیش کی جائے اور اسے قوم کی عزّت ہونے کے ناطے اس کا حقیقی کردار ادا کرنے کی ترغیب دی جائے تاکہ وہ معاشرے میں مفید اور موثر کردار ادا کرسکے۔ ملکی ترقی اور قومی خوشحالی کے لئے والدین اورارباب حل و عقد کو اپنی دیگر ترجیحات میں خواتین کی تعلیم وتربیّت کو بھی شامل کرنا ہو گا۔خواتین کی تعلیم و تربیت کے بغیر ملکی و ملی تعمیر و ترقی کے سارے منصوبے پانی کی موجوں پر نقشے بنانے کے مترادف ہیں۔ ۔استفادہ سید محمد حسین طباطبائی،تفسیرالمیزان،ج۲ص۲۶۷[1] ۔استفاہ از صبح الاعشی ج۳ ص ۲۹۱[2] ویل دورانت،تاریخ تمدن ج ۴عصر ایمان ترجمہ ابوطالب صارمی ص ۲۰۲[3] استفادہ ازشیخ عباس قمی، سفینۃ البحار،ج ۱ ص ۱۹۷[4] [5] ۔ نحل ۵۸،۵۹ دکتر عباس زریاب،سیرہ رسول اللہ ص ۱۷۸و۱۷۹[6] ۔سورہ نساء آیت ۷[7] ۔سورہ نساء ۱۹[8] استفادہ از تاریخ اسلام،مہدی پیشوائی[9] [10] ۔ممتحنہ ۱۲ ۔الحدید ۱۸[11] ۔حدید ۱۲[12] ۔احزاب ۳۵[13] ۔توبہ ۷۱[14] ۔ اسراء ۲۳،۲۴۔[15] ۔احقاف ۱۵۱[16] ۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۵ ص ۲۰۷[17] {سیمای زن در کلام امام خمینیص ۱۷۱}[18] {ایضاً ص ۱۷۱}[19] آئینہ زن۔دفتر مطالعات و تحقیقات زن۔{ص ۱۷۷}[20] {ص ایضاً ۱۷}[21]
Add new comment