توحیداوراستکبار
یہ فرقہ جو ” توحید خالص “ اور ہر طرح کے شرک کی نفی کا دعویٰ کرتا ہے جب کہ عملی میدان میں کفر و شرک کے موجودہ سرپرستوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کئے ہوئے ہے ، دقیق تحلیل و بررسی کے بعد واضح ہوتا ہے کہ یہ فرقہ اپنے تمام مکرو فریب سے بھر پوردعووں کے بر خلاف ، ایک شرط اور آئین کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ، بلکہ ایک قسم کی مادہ گرایی ، ظاہر پرستی(۲) اورظاہرداری کے علاوہ کچھ نہیں ہے، اور لوگوں کو دھوکہ دینے میں تمام دعوے نقش بر آب ہوگئے ۔
اس فرقہ کے سارے اعتقادات بے بنیاد اور احمقانہ ہیں ، قرآن و روایات سے نتیجہ گیری بھی سطحی اور مذاق اڑوانے والی ہے ، مجموعی طور پر وہابی فرقہ ظاہرپرست ، ویرانگر اور فساد بر پا کرنے والا فرقہ ہے ، اس نے عالم اسلام پر بہت برے نتائج چھوڑے ہیں ، اس فرقہ کا مسلمانوں اور مستضعفوں کے لئے بہترین تحفہ ،(۳) مسلمانوں اور موحد افراد کے درمیان تفرقہ وجدائی ، اور کفار و مشرکین کو تقویت دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔
ہمارے عقیدے کے مطابق یہ منحرف اور استعماری فرقہ کہ جو براہ راست انگلینڈ کی وزارت کے حکم کے مطابق محمد بن عبدالوہاب کے ذریعہ ظاہر ہواہے،(۴)
عالمی اور انٹرنیشنل استعمارو استکبار کا مسلمانوں کے خلاف کا میاب ترین حربہ بن چکا ہے ، اور عملی طور پر اس فرقے کی ظاہر پرست تعلیم ، اتحاد مسلمین میں سب سے بڑا مانع ہے اور اس فرقہ کے ذریعہ کس قدر عظیم نقصان ہوا ہے ، کہ جس وقت تمام عالم اسلام اس پرُ آشوب ماحول میں اپنے اتحاد کی شدید ضرورت کو محسوس کررہا ہے ، اس فرقے کے ذریعہ تمام عالم اسلام میں تفرقہ اندازی اور جدائی ہوگئی ہے ، یہ فرقہ جو خود کو توحید کا حامی اور شرک سے مقابلے کا مدعی کہہ رہا ہے ، عملی میدان میں مسلمانوں کا دشمن اور مشرکوں سے دوستی کا دم بھر تا ہوا نظر آیا ، اور انھیں ظاہری اور جھوٹے دعووں کے ذریعہ ایک دوسرے کو جدا کردیا ہے ، تا کہ خونخوار استعمار کو غارت کرنے کا اور زیادہ موقع مل جائے ، اور مسلمانوں کے مال و دولت کو آسانی سے تباہ و بر باد کرسکے ، اور اسلامی ممالک کے بھر پور وسائل کی طرف دست درازی کرسکے ۔
وہابیت کے سلسلے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے ، لیکن ہم اس موقع پر صرف ان کے اہم اور کلی عقائد کی تحقیق اور ان پر تنقید کریں گے ۔
ہماری کوشش یہ ہے کہ ہم عقلی اور نقلی(قرآن وحدیث کی روشنی میں) تحقیق کے ذریعہ اور واضح و روشن دلیلوںکے ساتھ آیات الہٰی اور احادیث معصومین علیہم السلام کہ جو خاندان نبوت واہل بیت عصمت وطہارت اور چراغ ہدایت اور مکتب توحید کے علمبردار ہیں ، کے ذریعہ وہابیوں کے دعووں کو باطل کریں ، اور ان کی تناقض گوئی کو لوگوں پر آشکار کریں ۔
اگر چہ ہماری نظر کے مطابق حق مطلب ادا نہیں ہوپایا ہے اور بہتر تویہ تھا کہ اس فرقے کے تمام کلی اور جزئی عقاید بیان کرکے ان کی تنقید کی جاتی۔(۵)
لیکن جتنی ہم نے کوشش کی ہے ایک عاقل اور منصف انسان کیلئے کافی ہے ، تا کہ حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرسکے اور فرقہ وہابیت کے جھوٹے اور باطل دعووں کی گہرائی تک پہونچ سکے ،ہم نے اس کتاب میں کوشش کی ہے کہ ان کے اصلی منابع کے ذریعہ کہ جن کے مولفین خود وہابیت کے ٹھیکیدار ہیں، ان کے عقائد اور افکار پر تنقید کریں تا کہ پھر ان کیلئے انکار کی گنجائش بھی باقی نہ رہے۔
ہم سعودی عرب کی حکومت کے بارے میں جو وہابیت کا گڑھ ہے کوئی بحث نہیں کریں گے، تا کہ قارئین یہ نہ سوچیں کہ ہم ایک سیاسی ،اجتماعی اورغلط نظام سے مقابلہ کررہے ہیں ، بلکہ ہماری کوشش یہ ہے کہ ہم لوگوں کو بتائیں کہ وہابیت کا طرز تفکر ، ناپائیدار ، استعماری اور منحرف ہے ، اور عقلی لحاظ سے محکوم ہے اور یہ نظریہ خود قارئین کرام پر واضح ہو جائیگا کہ یہ غلط طرزتفکر اورمنحرف مکتب ، میدان عمل میں اور ایک سیاسی اجتماعی نظام کی شکل میں بھی انحراف اور تباہی و بر بادی اور دنیا کے اہم استعمارسے رابطہ اور غلط ارادوں کے علاوہ کچھ نہیں کر پائیگا ۔
وہابیوں کی فکریں جو سعودی حکومت کی شکل میں نمودار ہوتی ہے ، جن کا نتیجہ انحراف اور فساد کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیونکہ ایک غلط فکر کے ذریعہ غلط نتیجہ کے علاوہ اور کیا چیز وجود میں آسکتا ہے ، کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ایک فکری ہدف کہ جو سراپا خطا اور منحرف ہو ، ایک حکومت کی شکل اختیار کرنے کے بعد ، اس کے نتائج اچھے اور صحیح نکلیں ، کیا فکر اور عمل اور فکر و اقعیت میں لاینفک اور ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے والا ارتباط نہیں ہے؟ایک غلط فکر کیسے صحیح نتیجہ دے سکتی ہے ؟! یہ نظر عقلی اور منطقی معیار سے مردود اور باطل ہے ۔
پس اگر اس طرح ہے، تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ ممالک جو وہابیت کا مرکز ہیں اس طرح کی غلط اور منحرف تصمیم گیری کرتے ہیں۔(۶)
مثال کے طور پر کیوں امریکہ کی گود میں جابیٹھتے ہیں اور اس کی طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں ، اور جمہوری اسلامی ایران کے ساتھ کہ جو گہوارہ آزادی و توحیدہے اور شرک و کفر و ظلم وستم اور بت پرستی سے مقابلے کا مرکز ہے اس طرح سے سلوک کریں ، یہ سب کچھ وہابیت کے غلط بنیادی نظریات کا سر چشمہ ہے ، کیونکہ ہمارے عقیدہ کے مطابق فکر و عمل ایک دوسرے سے کبھی جدانہیں ہوسکتے ، عمل انسان کی فکر اور اعتقاد کو ظاہر کر دیتا ہے ، ہر شخص جس طرح سوچتاہے اسی طرح عمل بھی کرتا ہے ، اور عمل اس کے عقیدہ کی عکاسی کرتاہے ۔
وہابیوں کی ان غلط اور تناقض آمیز فیصلے اور ارادوں کی اصل وجہ کو بھی ان کے منحرف عقیدے اور فکر میں تلاش کریں ۔
مجھے امید ہے کہ یہ نا چیز خدمت ، خداوند عالم او ر حضرات معصومین (ع) کی بارگاہ میںمقبول ہو ، اورصاحب عقل اور حقیقت تلاش کرنے والوں کیلئے مفید ثابت ہو ، اور میدان عمل میں تمام مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد اور استعمار کے حربوں کو ناکام ، اوردنیا بھر کے مسلمانوںکے ذہنوں کو روشن کرنے ، اور اسلام کی عظمت اور کامیابی کا باعث بنے ، کہ اس کتاب کے لکھنے کا ہمارا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
خداوند کریم کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ ہمارے عظیم و با شعور قائد و رہبر حضرت امام خمینی ( روحی فداہ ) کو ہمیشہ تندرست اور کامیاب و سرفراز رکھے اوران کو صاحب عزت قرار دے تاکہ اپنے پاک و پاکیزہ اور بیدار و خدابین دل کے ذریعہ دنیا کے تمام مسلمانوں اور مظلوم لوگوںکو حق و انصاف اور آزادی کی طرف دعوت دیں اور ان کو اسلام مبین سے آشنا کرائیں ، اور کفر و شرک سے دور رکھیں اورجابروں ، ظالموں اور بت پرستوں کو ذلیل و رسوا کریں ۔
آخر میں ضروری سمجھتا ہوں کہ برادر گرامی آقای حسن دوست ( حفظہ ا لله ) معاونت محترم امور مالی سازمان تبلیغات اسلامی کے لطف و کرم اور برادر محقق حضرت حجة الاسلام والمسلمین جناب آقای تسخیری ( دام عزہ ) معاون محترم امور بین الملل سازمان تبلیغات اسلامی کی عنایتوں اور راہنمائی کاشکر یہ اداکروں کہ جنھوں نے ہمیشہ اس ناچیز موٴلف کو اپنے لطف و کرم کا اہل سمجھا اور میںنہایت اطمینان کے ساتھ اس ناچیز خدمت میں مشغول ہو گیا ،خداوند عالم ان کو مزید توفیقات عنایت فرمائے۔
اسی طرح معاونت فرہنگی سازمان تبلیغات کے ذمہ دار برادران کا بھی بہت شکرگذار ہوں کہ جھنوں نے وقت شناسی ،واقع بینی اور اسلامی تعہد کے ساتھ اس کتاب کو نشر کیا ، اور اپنی پرُ افتخار خدمات میں اس خدمت کا بھی اضافہ کیا ، ان کیلئے بھی خداوندعالم سے طالب ہوں تاکہ اسلام، انقلاب اسلامی اور جمہوری اسلامی ایران کی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
اِنْ اُریدُ الاصْلَاحَ مَا اسْتَطعْتُ وَ مَا تَوفیقی اِلّا بِاللهِ عَلیہِ توکّلتُ وَ اِلیہِ اُنِیبُ…
اقل عباد
ہمایون ہمتی
بحث کے کلّیات اور مقدمات
جیسا کہ ہم نے عرض کیا : ہم اس کتاب میں آئین ”وہابیت“ کے بارے میں بحث و بررسی کریں گے ، اور اس تحقیق میں ( وقت کی کمی کے خاطر ) مختصر طور پر اس فرقہ کی خصوصیات، انحرافات اور نامطلوب نتائج کو بیان کریں گے ، وہابیت کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم ہر قسم کے شرک و بت پرستی کی نفی کرتے ہیں ، اور اسی وجہ سے انبیاء اور اولیاء علیہم السلام کی زیارت ، ان سے توسل ، درخواست مدد ، طلب حاجت اور پیغمبروں کی قبروں کی زیارت نیز خدا کے خاص و پاک وپاکیزہ اور پرہیزگار بندوںکی قبروں کی زیارت کو حرام قرار دے دیا ہے ۔
انشاالله ہم اس کتاب میں مذکورہ مطالب کے جوابات کے ساتھ ان کے بارے میں بحث و بررسی کریں گے، لیکن ہم ابتداء گفتگوہی میں ایک بات کو وضاحت کے ساتھ کہنا چاہتے ہیں کہ وہابیوں کا ”شرک سے مقابلہ“ کانعرہ ، میدان عمل میں مسلمانوں کا قتل عام ، فتنہ و فساد اور تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، یہاں تک کہ یہ بھی دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ یہ فرقہ ظاہرپرست عقائد اور شدت پسند و تفرقہ بازی سے استعمار اور اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھوں اس کا خطرناک حربہ بن چکا ہے ، اور ا ستعمار نے اس فرقے کوسیاسی میدان میں اتحاد بین المسلمین کے راستے میں رکاوٹ کے طور پر استعمال کررہا ہے ۔(۷)
اورہم واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ غلط اور ظاہر پسند تعلیمات کی وجہ سے اس سطحی اورظاہر پسند مقصد کے تحت یہ فرقہ وحدت اسلامی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے اور اسی وجہ سے مسلمانوں کا قتل عام ہوا ،اور مسلمانوںمیں اختلاف اور جدائی کا سبب بناہے ۔
مسلمانوں سے دشمنی اور لڑائی کرنا، ان کو کافر اور مشرک جاننا، مومنین کو اذیت پہونچانا ، ان کے لئے ضرب و شتم و لعن کو جائزقرار دینا ،و ہابیت کی بدترین اور بھیانک تصویروں میں سے ہے، جو ایک فاسد اور تخریب کار فرقہ کہ جس کانعرہ ہی تخریب،تباہی و بربادی ، تفرقہ بازی ، وحشی گری اوربے رحمی ہے مسلمانوں کا قتل عام ، شرک اور بت پرستی سے مقابلہ کا بہانہ، ائمہ اور اولیاء الله کی قبروںکا انہدام(۸) توحید کے نعرے کو عملی جامہ کا بیان، اور شرک کی نفی ، شرک سے مقابلہ کا نعرہ ، وہابیت کے کارناموں میں سے ہے۔
اس فرقے کے ماننے والے خونخوار ، وحشی استعمار، عالمی استکبار اورغنڈاگردی ، غارت گری اور ظلم و ستم کرنے والے سے جنگ و جدال کرنے کے بجائے خود مسلمانوںسے بر سر پیکار ہوگئے ، اور عالمی غارت گروں اور ظالموں کہ جن کا پورا ہم وغم اسلام کے تقدس کو پائمال اور قرآنی تعلیمات کو نابود کرنا ہے ، سے مقابلہ کے بجائے مسلمانوں کے قتل وغارت اور ان سے جنگ و جدال کے لئے کمر ہمت باند ھ لی ، اس طرح کہ مسلمانوں کو کافر کہنا اور ان کو ذلیل سمجھنا اور تمام اسلامی فرقوں کو کافر کہنا اس فرقہ کے راسخ عقیدوں میں سے ہے۔
ان لوگوں نے تاریخ کے بے رحم اور ظالم و جابروںکے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے خود مسلمانوں کے خلاف قیام کردیا ،اور برادر کُشی شروع کردی ، دشمنان خدا سے جنگ کرنے کے بجائے اپنی پوری طاقت کے ساتھ سچے مومنوں اور مسلمانوں سے نبرد آزماں ہوگئے۔(۹)
جبکہ عالمی استعمار بھی یہی سب کچھ چاہتا تھا ،عالمی استعمار کے اہداف و مقاصد، اسلام و قرآن کو نابود کرنا ، اسلام کی آزادی اور تکامل تک پہنچانے والی تعلیمات نیزمشکلات کو حل کرنے والی تعلیمات کو بھی ختم کرنا ، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑ کانا ، اور ان میںاختلاف اور تفرقہ ایجاد کرنا ہے، اور وہابیت استعمار کی اس خواہش کو پورا کرنے کے علاوہ اور کچھ چاہتی ہی نہیں ہے ، آج کل وہابیت دانستہ یا نادانستہ طور پراستعمار کی مدد میں مشغول ہے ،اور اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ استعمار کے نا پاک ارادوں کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، مسلمانوں میں اختلاف اور تفرقہ ایجاد کرنا عالمی استعمار کی پرواز میں اس کو تقویت کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جبکہ مسلمانوں کو متحد ہو کر کفار اور مشرکین اور ستم گروں کا مقابلہ کرنا چاہئے تھا ۔
کیا وہ لوگ مشرک نہیں ہیں جھنوں نے اپنی پوری قوت کو اسلام کے مقاصد کو پورا کرنے میں صرف کرنے کے بجائے اسلام اور قرآن کے دشمنوں سے عقد اخوت پڑھ لیا ہے ، اور ان کو مسلمانوں پر ترجیح دیتے ہیں اور ان سے دوستی کرتے ہیں ۔
لیکن وہ مسلمان جو حاجت مند اور پاک دل ہیں، انھیں لوگوں کے ظلم و ستم سے مجبور ہو کر حضرت رسول اسلام ﷺکی قبر منور پر گریہ و زاری کرتے ہےں،وہ مشرک اور بت پرست ہےں؟ اور تعجب تو اس بات پر ہے کہ پیغمبر اکرم کی قبر مقدس کو ” بڑا بُت “ کہتے ہیں اور سُوپرطاقتوں کے کہ جن کا پیشہ ہی جنایت ہے رسوا کن پرچم کے نیچے جانے میں اپنے لئے افتخار سمجھتے ہیں ، لیکن خدا کے مقرب اور کامل بندوں کی کہ جو غیب کی بھی خبر رکھتے ہیں اور ان کا پاک دل عالم ملکوت سے متصل ہے ، کی در گاہ میں حاجت روائی کیلئے حاضر ہونا ان کے نزدیک شرک اور بت پرستی ہے۔
واقعاً بہت تعجب ہوتا ہے کہ آج کل اسلام خود اپنے ماننے والوںکے در میان اکیلا اور مظلوم ہے ،بداٴ الاسْلامُ غَریباً وَ سَیَعُودُ غَریباً فَطُوبیٰ لِلْغُرَباء !
جی ہاں انھوں نے امام علی علیہ السلام کی فرمان کے مطابق اسلام کا لباس الٹا اوڑھ لیا ہے اور اسلامی اہداف کو ذرہ برابر بھی نہیں سمجھے ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مسلمان ،کفار اور مشرکین کی آغوش میں بیٹھ کر توحید کا دم بھرے ، اور ان ظالموں اور ستمگروں کے ساتھ دوستی اور محبت برقرار رکھیں کہ جو توحید کو مٹا ناچاہتے ہیں ، نیز یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف کام کرے ، اور ان کو کافر اور مشرک بتائے اور اس کے بعد توحید ( عبادت در توحید) کا دعویٰ کرے ، ان کی عبادت کی عجیب شکلیں ہیں کہ جن سے عالمی سیاست دانوں کی گندی بو آتی ہے ، اور کیا ان لوگوں کے سامنے تواضع اور انکساری کرنا شرک نہیں ہے ؟ کیا صرف حضرت رسول اسلام ، سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آستانہ مقدس میں اپنی حاجات کو پیش کرناشرک ہے۔
کیا ذلت اور رسوائی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا توحید کے منافی نہیں ہے؟ کیا ائمہ معصومین (ع) کی زیارت کیلئے جانا اور اپنی حاجات پیش کرنا ، اور ان کے پاک و پاکیزہ نفوس کے ذریعہ الہام لینا ،توحید سے سازگاری نہیں رکھتا ؟! یہ ہیں عبادت میں توحید کے معنی! ظالموں اور کفر کے حامیوں سے دوستی ، کیا مسئلہ توحید کو نقصان نہیں پہونچاتی،اور خدا کے ان صالح بندوں سے جو فیض میں واسطہ ہیں اور اسما ء و صفات پروردگار کے مظہر کامل ہیں، ان سے توسل، مکتب توحید کو ضرر پہونچاتا ہے۔(۱۰)
واقعاً انسان کو تکلیف ہوتی ہے اور حضرت امام علی کے فرمان کے مطابق ”وَ اللّٰہ یُمیتُ القلبَ“ اس موقع پر ہر مومن اور متقی انسان کا خون کھول جاتا ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ وہابیوں کے عقاید ان کی بے بنیادی اور انحرافی عقیدت کے بارے میں اس کتاب کے آئندہ صفحات پر بیان ہونگے ، لیکن ہم یہاں پر چند نکات کو مقدمہ کے طور پر بیان کرتے ہیں تا کہ بحث کا زمینہ ہموار ہوجائے اور قارئین کرام کے ذہن و فکر میں وسعت پیدا ہوجائے تا کہ آئندہ ہماری باتوں کو دقت کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں ۔
عالمی استعمار اور فرقہ بندی
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ استعمار اور استکبار اپنی فاسد حکومت قائم کرنے کیلئے راستہ ہموار کررہا ہے ، اس کا ہمیشہ سے یہی نعرہ رہا ہے ” لڑاوٴ اور حکومت کرو“ عالم اسلام میں ایک دوسرے کے خلاف تکفیر و تفسیق(دوسرے کو کافر اور فاسق کہنا) کے فتوی کی فضا ایجاد کرنا اس کے اہم مقاصد میں سے ہے۔پس فرقے سازی اور مذہب تراشی کی بہت بڑی وجہ استعمار ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تکفیر دوسرے فرقوں کے خلاف بدبینی،تہمت اور اسلامی شخصیتوں کے خلاف جھوٹ کی نسبت جیسی نحس فضا کو ایجاد کرنا ، اگر ہم دیکھیں تو استعمار کا سب سے اہم ہتھکنڈا، مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے یہی تفرقہ اندازی ، فرقہ بندی، پیامبر تراشی ہے اورہماری یہ بات بالکل حقیقت ہے اس میں کوئی بھی مبالغہ نہیں ہے۔(۱۱)
اس بات کو واضح کرنے کیلئے ہم پہلے چند مطالب کو بعنوان مقدمہ بیان کریں گے اور اس کے بعد اپنی اصلِ بحث کا آغاز کریں گے ، تا کہ معلوم ہوجائے کہ استعمار نے ایسے اقدامات کیوں کئیے ، اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں اور کن مکاّریوں کے ساتھ ان اہداف تک پہنچنا چاہتا ہے۔
استعمار کے اہداف اور اس میں روکاٹیں
استعماری طاقتیںدوسرے ممالک پر اپنی حاکمیت قائم کرنے کیلئے خصوصاً ضعیف اور کمزور ممالک پر ، اور ان کی مادی او معنوی دولت کو غارت کرنے کیلئے کچھ موانع سے ہمکنار ہوتی ہیں ، اور کسی بھی ملک میں آسانی سے داخل نہیں ہوئی اور نہ کبھی ان کا کوئی استقبال ہوا ہے ، خصوصاً ان کو آتے وقت بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،(۱۲)
لوگوں کا متحرک اور استعمار کے مقابلہ کیلئے قیام کرنے کے ، بہت سے عوامل اور اسباب ہیں مثلاً قومی ، لسانی، ثقافتی اورمذہبی،ان میں سے بعض اسباب صرف تھوڑی مدت کیلئے کارگر اور مؤثر ہوتے ہیں تا کہ ایک مخصوص زمانہ میں استعمار کامقابلہ کما حقہ کرسکیں لیکن اس کے بعد آہستہ آہستہ وہ کم رنگ ہوجاتی ہیں ، اور اپنا کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں ، لیکن ان سب رکاٹوں میں اگر کوئی رکاوٹ محکم بند کی طرح استعمار کے مقاصد کا مقابلہ کرسکی تو وہ ہے” قدرت دین“ اور لوگوں میں مذہب کا نفوذ ، اور دین بھی دین اسلام ، یہ وہ چیز ہے کہ جس کا استعمار نے ہمیشہ اعتراف کیا ہے ۔ مثلاً قدیمی استعمار کا نمایندہ ” انگلینڈ کی پارلیمینٹ “ میںقرآن کو ہاتھ میں لیکر کہتا ہے :
”یورپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب تک مسلمانوں کے پاس یہ راہنما کتاب موجود ہے اور مسلمان اس پر عمل کرتے رہیں گے، تب تک ہماری استعماری سیاست ان کی سرزمینوں پر قائم نہیں ہو سکتی “ (۱۳)
اور آج جبکہ اسلامی نسیم سحر شروح ہو چکی ہے اور تحریک کنندہ جھونکوں کے ساتھ صبح پیروزی کی خبردے رہی ہے سارے وحشی استعمار اور ظالم و جابر متفق ہو کر یہ کہہ رہے ہیں : ” ہمارے منافع کیلئے سب سے بڑا خطرہ اور رکاوٹ ”اسلام“ ہے کیونکہ دین اسلام کچھ ایسی ہی خاصیتوں کا حامل ہے کہ جو اکیلے ہی استعمار کے اہداف میں ایک اہم مانع ہے ، جبکہ دوسرے مذاہب میں یہ خاصیت نہیں ہے ان میں سے چند چیزوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کا اثر
اسلام کی حیات بخش تعلیمات اور اس کے عبادی و سیاسی احکامات ہمیشہ شیاطین اور استعمار کے لئے خطرہ تھا کہ جو اِن کے ناپاک ارادوں کیلئے سرزنش تھا ، کیونکہ اسلام نے ہر قسم کے استعمار ، استثمار(دوسرے کی محنت سے خود فائدہ اٹھائے والا ) اور بد معاشی ، غنڈا گردی کی مذمت کی ہے اور اس کو قبول نہیں کیا ہے ، اور مسلمانوں کو ظلم اور ظالم کے خلاف تحریک کیا ہے، روئے زمین پر عدالت اجتماعی قائم کرنے کیلئے اور لوگوں کو استعمار کے قید و بند سے آزاد کرانے کیلئے، نیز فتنہ اور فتنہ گروں کے خاتمہ کے لئے ، اسلام اپنے ماننے والوں کو ہر موقع پر مقابلے کی دعوت دیتا ہے ، البتہ یہ آزادی کا نعر ہ صرف مسلمانوں کی آزادی کیلئے نہیں ہے بلکہ دنیا بھرکے تمام محروم اورمظلوم لوگوں کیلئے ہے ۔(۱۴)
اور اسی وجہ سے ہر ایک کا فریضہ بنتا ہے کہ ساری آزادی بخش تحریکوں کی ہر ممکن مدد کریں۔
مَنْ اَصْبَحَ وَ لَا یَہتَمَّ بَاُمورِالمُسْلِمِین فَلَیْسَ بِمُِسْلِمٍ “۔
جو شخص صبح اٹھ کر دوسرے مسلمانوں کے بارے میں نہ سوچے وہ مسلمان نہیں ہے۔
وَ مَن سَمِعَ رَجُلاً یُنادِی یَا لَلْمُسْلِمِیْنَ فَلَمْ یُجَبْہُ فَلَیسَ بِمُسْلِمٍ۔(۱۵)
جو شخص کسی کو مدد کے لئے پکارے اور وہ جواب نہ دے تو وہ مسلمان نہیں ہے ۔
اسلام، مسلمانوں کو کفار سے ہر قسم کی دوستی سے منع کرتا ہے (۱۶)اور ان کے پاس آمد ورفت ، انکی رہبری کو قبول کرنے (۱۷) اور ان سے مشورہ کرنے سے روکتاہے ، اور کلمہ توحید کے سایہ میں اپنے ماننے والوں کے چاہے جس قوم و قبیلہ سے بھی ہوں ، ہر طرح کی امتیاز بندی کو ختم کرکے ، اتحاد کی دعوت دیتاہے ، اور اس زمین پر حکومت الہٰی چاہتا ہے (۱۸) یا ایسی جس میں لوگ ایک دوسرے سے مل کررہیں(۱۹)۔(۲۰)
جیسے محکم رشتہ سے منسلک ہوں اور ایک جسم کے اعضاء کی مانند اگر ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو دوسرے اعضاء بھی پریشان ہو جاتے ، ہیں ( ۲۱)
اور آیہٴ کریمہ کے مطابق : ” مُحمدٌرَسوُلُ اللهِ وَالَذِیْنَ مَعَہُ اَشِدَّاءُ عَلی الکُفَّارِ رُحْمَاءُ بَیْنَہُمْ “ (۲۲)
” مسلمان آپس میں رحم دل اور کفار کے مقابلے میں سخت ہیں ، اسلام اپنے ماننے والوں کی ایسی متحد اور مستحکم بنیان مرصوص ( سیسا پلائی ہوئی دیوار ) ہیں کہ دشمنوں کو پریشان کردیتے ہیں“ (۲۳)
یہ سب تعلیمات اسلامی مسلمانوں کیلئے ہمیشہ باعث تقویت اور ستمگروں اور مستکبروں کے خلاف الہام کا باعث بنا ، اسلام نے انھیں تعلیمات کے ذریعہ صدر اسلام کے مسلمانوں میں ، ظلم کے مقابلے میں تحریک ، اور انقلاب ایجاد کیا ہے ۔
اور اگر آخری صدی کے انقلابات کو ملاحظہ کریں تو ہمیں اسلام کی حیات بخش تعلیمات کا صحیح اندازہ ہو جاے گا ، کہ کس طرح ظلم و ستم کے خلاف اپنی آواز بلند کی ہے ۔
جسے دوست اور دشمن سب کہتے ہیں کہ الجزائر میں انقلاب کی وجہ اسلام ہے کہ جس کی وجہ سے فرانس کو نکال باہر کیا ۔” گولیٹ “ اور ” فرانسیس جانسون “ دو مشہور و معروف رائٹر اس سلسلہ میں لکھتے ہیں :
”یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اہل الجزائر کو آزادی کا سبق اسلام نے سکھا یا ہے ، الجزائر والوں نے بہت پہلے سے استعمار کے ظلم و تشدد کو برداشت کیا ہے ، فرانسویوں کا اصل مقصد اسلام کو مٹانا تھا، اہل الجزائر نے جب یہ سمجھ لیا کہ اسلام ہی ان کیلئے راہ نجات ہے ، توسب لوگ اسلام کے دامن میں آگئے تا کہ ان کو آزدی مل سکے“ ( ۲۴)
اسی طرح کا اسلامی انقلاب عالم ربّانی، فقیہ عارف ومجاہد حضرت امام خمینی (رح) کی رہبری میں ایران میں آیا ، اور اسلامی حکومت تشکیل پائی ،یہ انقلاب، اسلام کے نام پر اور اس کی حیات بخش تعلیمات کے ذریعہ آغاز ہوا اور الحمد للہ کامیابی حاصل ہوئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس قوم میں بھی یہ تعلیمات پائی جائیں اور اس پر عمل بھی ہو بغیر کسی شک کے وہ قوم خود اپنے قسمت پر حاکم ہوگی ، اور استعمار ایسی امت پر مسلط ہونے کی امید بھی نہیں کرسکتا۔( ۲۵)
استعمار کی ترکیبیں
جب استعمار نے اپنے سامنے اس بڑی رکاوٹ اورمضبوط قلعہ کو دیکھا تو ان سے مقابلے کیلئے مختلف راستے تلاش کرنے شروع کردئے اور اپنی پوری طاقت کو ان رکاوٹوں کی نابودی کیلئے صرف کردی ، اور مختلف طریقوں سے یہ کام انجام دیا، (۲۶) ہم یہاںپراس کی فہرست بیان کرتے ہیں :
ا)۔ بلا واسطہ مقابلہ
الف: فوجی مقابلہ اسلامی ممالک پر فوجی قبضہ کرنا جیسے : عراق ، افغانستان ، ایران ، الجزائر وغیرہ پر ۔
ب: اسلامی تعلیمات پر مختلف طریقوں سے حملہ آور ہونا مثلاً اسلامی تعلیمات میں ردو بدل اور اسلامی احکام کو برعکس پیش کرنا ، اور اسلام اور اس کی مقدس چیزوں پر تہمتیں لگانا۔
۲)۔ بالواسطہ مقابلہ
الف: مسلمانوں کے درمیان فحشاء و منکر اور غلط چیزوں کا رائج کرنا تا کہ مسلمانوں کودین اسلام سے بے توجہ کردیں ۔
ب: مسلمانوں میں قومی اور قبائل احساسات کو بھڑکا کر ان میں اختلاف ایجاد کرکے الگ الگ گروہ میں باٹنا ۔
ج: مسلمانوں میں ایک دوسرے کے خلاف تہمتیں، تکفیر اور دوسری برائیوں کو ہوادے کر اس میں اختلاف اور تفرقہ ایجاد کرنا۔
یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ مطالب کی توضیح اور وضاحت کرنے کیلئے ایک بڑا وقت در کار ہے جس سے ہم قاصر ہیں اور ہم اپنی بحث کی مناسبت سے صرف ” فرقہ سازی اور مذہب تراشی “سے بحث کریں گے ، اور اس بحث اپنی اصل بحث (فرقہ وہابیت )کا مقدمہ قرار دیں گے تا کہ قارئین کرام پوری بصیرت کے ساتھ آئندہ کی بحث میں داخل ہو سکیں ۔
استعماراور فرقہ بندی
استعمار کا سب سے اہم قدم ، مسلمانوں کے اتحاد عظمت اور ہیبت کو ختم کرنے اور اختلاف و تفرقہ ایجاد کرنے کیلئے (اٹھایا ہے اور اٹھاتاآرہا ہے ) یہی فرقہ سازی ،مذہب تراشی اور جھوٹے اور استعمار ی دین بنانا ہے ،تا کہ حقیقی اسلام کو نابود کرنے کے ساتھ اپنے اصلی ہدف (مسلمانوں کو متفرق کرنا)کوبھی عملی جامہ پہناسکے،انگلیڈ کا بوڑھا استعمار اپنے جاسوسوں کو اس طرح ہدایت کرتا ہے کہ جو مسلمانوں کے علاقے میں مشغول تھے :
”اسلامی علاقوں میں من گھڑت اور جعلی مذاہب کے عقائد کی تبلیغ پوری آب وتاب کے ساتھ اور با قاعدہ طور پر اس طرح ہونی چاہئیے کہ لوگ ہمارے افکار اور نظریات کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیں، ان جعلی مذاہب کی تبلیغ و ترویج صرف شیعہ مراکزمیں محدود نہیںہونی چاہیئے بلکہ اہل سنت کے مذاہب اربعہ میں بھی اس طرح کے جعلی مذاہب ہونے چاہئیے اور ان فرقوں کے درمیان شدید اختلافات اور جھگڑے ہونے چاہیئے، اس حد تک کہ ہر مسلمان اپنے کو واقعی مسلمان اور دوسرے کو مرتد ، کافر اور واجب القتل سمجھنے لگےں۔ “(۲۷)
جاسوسوں نے یہ ہدایت حاصل کرنے کے بعد ، دقیق مطالعہ اور موقع شناسی کی اجتماعی اور سیاسی اورافراط وتفریط جیسے تمایلات کو دیکھکر فرقہ سازی شروع کردی،تا کہ اپنے بڑوں کے اہداف کو پا یہ تکمیل تک پہونچاسکیں ۔
اوریہ بات واضح و روشن ہے کہ انگریزوں نے مستقیماً اور بلاواسطہ یہ کام نہیں کیا ہے بلکہ اس ہدف کو پورا کرنے کے لئے ایسے لوگوںکو تلاش کیا ہے کہ جو ایمانِ مستحکم نہ رکھتے ہو ںاور اس میں مختلف رجحان پائے جاتے ہوں ، تا کہ انگریزاس کی مادی اور معنوی حمایت کرکے اس کو فرقہ سازی پر مجبور کردے،مثال کے طور پر دو فرقوں سے ہم زیادہ بحث کریں گے ، جو ہماری کتاب کے لئے مناسب ہیں ۔
فرقہٴ شیخیہ کی پیدایش
جس وقت عراق، حوزہ ہای علمیہ کا مرکز تھا ، استعمار اپنے برے اہداف کو تکمیل کرنے کیلئے فرقہ سازی کیلئے مصم ہوجاتا ہے ۔
دو کٹّر مخالف گروہ تشکیل پاتے ہیں ایک عراق میںکٹّر شیعہ اور دوسرا سعودی عرب میں کٹّر سنی،چنانچہ عراق کےکٹّرشیعہ کا نام ” شیخیہ “ پڑا ، جس کا بانی ”شیخ احمد احسایی “ اور اس کا شاگرد ” سید کاظم رشتی “ تھا ۔
اس فرقہ نے ائمہ علیہم السلام کے مقام و عظمت کو اس قدر بڑھا یا اس قدر بڑھایا کہ خدائی حد تک پہونچا دیا،اور اس طرح کے بہت سے مسائل میں بہت زیادہ غلوسے کام لیا۔
اس فرقہ نےکٹّروہابیت کے ذریعہ شیعوں کے خلاف تہمتیں اور انکے کفر کے فتووں کاراستہ ہموار کیا اور اس کے ساتھ ساتھ ، خشک اور دل خراش طریقوںاسلامی کتب کے دفاع اور علم منطق اور فلسفہ سے جنگ کی غرض سے بہت سے بڑے بڑے شیعہ عالموں کو مانند: ملاصدرّا (رح)، اور ملامحسن فیض کاشانی (رح) جیسی بزرگ شیخصیتوں کو کافر کہناشروع کر دیا،(۲۸)
شیخ احمد احسایی نے منطق اور فلسفہ نہیںپڑھا تھا لیکن پھر بھی فلسفہ اور عرفان اسلامی میں آگاہ ہونا چاہا ،بغیر کسی استاد کے خود شخصی مطالعہ کرنا شروع کردیا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ ہی حکمت اور فلسفہ کو لمس کرسکا اور نہ ہی عرفان کی بوسونگھ سکا ، لیکن پھر بھی اپنے کو اس فن کا مجتہد گمان کرنے لگا ، اور کچھ عقائد کی بناگذاری کی ، اور بڑے بڑے اسلامی فلسفی حضرات کو جیسے ملاصدرا شیرازی اور اسلامی عرفاء جیسے محی الدین عربی یہاں تک کہ تفسیر وحدیث کے بڑے علماء مثل ملامحسن فیض کاشانی کو اپنے کتاب میں نازیبا کہا اور جھوٹی تہمتیں لگائیں ۔
محی الدین عربی کو مُحْبَتُ الدِّیْن ( دین کو نابود کرنے والا ) اور ان کی کتاب فتوحات کوحتوفات(موت و مرگ ) کہا ، اور خود ان کو کافرو ملحد کہا ، ان کی عبادت کو مزخرفات ( بکو اس )کہا ، اور فیض کو ضلالت و گمراہی کہا اور ” ملا محسن “ کہنے کے بجائے ” ملامسنی “ کہا ، اور ان کو اہل بیت علیہم السلام جو ” اَذْہَبَ اللّٰہ عَنہُمُ الرَّجسَ وَ طَہَّرَ ہُمْ تَطْہِیْراً“ہیں ،کا مخالف تصور کیا، اور خود اپنے کو اہل کشف و شہود ، اور راہ اہل بیت علیہم السلام کا موافق جانا، اور ظاہر ہے ان غلط اور نازیبا تہمتوں کو دیکھکر ہر صاحب عقل انسان اور صاحب علوم الہٰی سمجھ جاتاہے کہ وہ کچھ بھی نہیں سمجھا ہے،(۲۹)
در حالیکہ اس فرقہ کی کار کردگی عراق میں تھی ، اور اس وقت عراق حکومت عثمانی کا جز مانا جاتا تھا ، اور حکومت عثمانی خود ایک متعصب سنی حکومت تھی ، لیکن پھر بھی علماء شیعہ کو کہ ان پر حکومت سختی کرتی تھی ، شیخیہ میںشامل نہیں کیا بلکہ ان کو بھی آزادی دے دی ، کیونکہ استعمار کی نگاہ میں امت اسلامی میں تفرقہ اور مرکز مقاومت کو در ہم وبر ہم کرنا اہم ہے ، چاہے وہ کسی بھی طرف یا کسی بھی ذریعہ سے ہو۔(۳۰)
وہابی فرقہ کی ایجاد
دوسری طرف استعمار نے کٹّرسنی گروہ ایجاد کیا کہ جس کا نام وہابیت پڑا ، انگلینڈ کے جاسوسوں نے محمد ابن عبدالوہاب میں جاہ طلبی ، اخلاقی کمزوریاں اور افراطی افکار کو دیکھا تو اس کو فرقہ بنانے کیلئے مناسب پایا ۔ اسی وجہ سے ہر موقع پر اس کی ہمراہی کرتے رہے ، اور اس نے موقع غنیمت دیکھکرنئے مذہب کا ا علان کردیا ، اور پھر انگلینڈ کے فرمان کے مطابق اس کے ایک نوکر خاص یعنی سعودبن عبدالعزیز سے ملحق ہوگئے ، اور اپنی تمام کوشش صرف کردی یہاں تک کہ اس نے اپنے مرید پیدا کرلئیے ، اور اپنے وظیفہ پر عمل کرتے ہوئے شیعہ حاجیوں کو قتل کیا ، بلکہ ہر اس شخص کو قتل و غارت کرنے لگے جو اس کے نئے دین کو قبول نہ کرے ، چاہے وہ ” شیعہ ہو یا سنی “ اور جو شخص حضرت رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی زیارت کا قائل ہو اس کو کافر اورمشرک کہتے اور اس کے ساتھ وہی کفار و مشرک جیسا سلوک کرتے تھے ، آخر کار وہابیت نے ” شیخ احمد احسایی“ کی لکھی ہوئی کتاب ” شرح الزیارة “ جس میں ائمہ علیہم السلام کے بارے میںغلو اور خلفاء ثلاثہ پر لعنت کے جائز ہونے کے بارے میں(تفصیل سے) لکھا تھا ، کی وجہ سے شیعوں کے قتل کے فتوے صادر کردئے ، اور چونکہ عراق ، حکومت عثمانی کا ایک حصہ تھا ، سعودی عرب سے آزادانہ طور سے عراق کی زیارت گا ہوں پر حملہ آور ہوگئے ،اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے روضوں کو تباہ و بر باد کردیا اور شیعوں کو قتل کرنا شروع کردیا ، نیز علماء شیعہ میں سے جس کو بھی فرقہ شیخیہ کا مخالف پایا اس کوقتل کرڈالا ۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ اس قتل و غارت میںسید کاظم رشتی کہ جو کتاب شرح الزیاة کا مروج اور شیخ احمد احسایی کا شاگرد اور نایب تھا ، کے گھر کو کچھ نقصان نہیں پہونچا بلکہ اس کا گھر جائے امن قرار پایا ․!
فرقہ وہابیت ، مسلمانوں میں تفرقہ ایجاد کرنے ، دوسرے اسلامی فرقوں کو کافر کہنے ، اسلامی تعلیمات کو نابود کرنے ، اور ظالموں اور استعمار گروں سے دوستی میں خلاصہ ہوتا ہے ، (۳۱) سعودی عرب جو اس فرقہ کا مرکز ہے ، سے ” شرک“ اور ” کفر “ کے فتویٰ آسانی کے ساتھ صادر ہوتے ہیں ، اور انسان وہاں حج کے موقع پرامر بالمعروف کمیٹی کے ذریعہ ، مشرک ، کافر جیسے الفاظ کو زیادہ سنتا ہے ، اور اس وقت اس فرقہ کی سرگرمیاں زیادہ بڑھ گئی ہیں ہر روز ایک مقالہ یا کتاب اسلامی مقدسات کے خلاف لکھی جاتی ہے اور تیل کی درآمدسے ایک بہت بڑی تعداد میں چھپتی ہےں ، تا کہ اپنے مالکوں کی خواہشات (مسلمانوں کے اتحاد میں رکاوٹ ڈالنا اور ان میں ایک دوسرے کے خلاف کفر اور فسق و فجور کی نسبت دینے کی فضا قائم کرنا ہے )کو پورا کرسکےں۔(۳۲)
فرقہ وہابیت اور فرقہ شیخیہ کے غلط نظریات کی بنا پر فتنہ و فساد اور خونریزی ہوئی ، اور مسلمان مارے گئے ،محمد ابن عبد الوہاب نے ابن تیمیہ کے طرز فکر کو عملی بنایا جو خود ( ابن تیمیہ ) ابن تُومرْتْ کی طرح شہرت اور مقام چاہتا تھا ،ابن تو مرت نے شمالی افریقہ ، اسپین ، الجزائر ، مراکش اورتونس کے بعض حصوں میں مہدویت کا دعویٰ کرکے دو سو سال تک اپنی حکومت باقی رکھی ، اس کو ” مہدی الموحدین “ کہتے تھے محمد ابن عبد الوہاب نے محمد سعود کو اپنا ہم خیال بنایا اور اس کے ساتھ مل کر کام شروع کردیا ،انکے ہاتھوں میں ننگی تلواریں ہوتی تھی جدھر سے بھی گذر ہوتا تھا قتل غارت اور خونریزی ہوتی تھی ، دوسرے تمام مسلمانوں کوکافر کہتے تھے ، اور جو شخص ان کے حکم و اطاعت سے روگردانی کرتا تھا ان کو قتل کردیتے تھے واقعاً وہابیت کے فتنہ و فساد عجیب و غریب ہے جس کا خسارہ عالم اسلام ابھی تک برداشت کررہاہے ۔(۳۳)
ہم انشاء الله تعالیٰ اسی کتاب میں فرقہ وہابیت کے اصول عقائدکی بحث وبررسی کرنے کے بعد ان کا مدلل اور مفصل جواب دیں گے، لیکن ان کے عقائد کو بیان کرنے سے پہلے اس فرقہ کے موسس محمد ابن عبدالوہاب کی زندگی کے حالات بیان کرتے ہیں ۔
اس کے بعد اصل موضوع شروع کریں گے اس فرقہ کے موٴسس کی حالات بیان کرنے سے پہلے ان چند لوگوں کی زندگی پر بھی اشارہ کریں گے جن کی طرز فکر پر یہ فرقہ ایجاد ہوا ہے، لہٰذا سب سے پہلے محمد ابن عبد الوہاب کے فکری اساتید پر ایک نظر ڈالیں گے اور پھر خود محمد ابن عبد الوہاب کی حالات زندگی پر بحث کریں گے۔
فرقہ وہابیت کا فکری سرچشمہ
ہم نے وعدہ کیا ہے کہ ہم پہلے ان لوگوں کی زندگی پر ایک نظر ڈالیں گے جو فکری اعتبار سے اس فرقہ کے بانی ہیں، لہٰذا اس سلسلہ میں چند لوگوں کا ذکر کیا جاتا ہے تا کہ معلوم ہوجائے کہ فرقہ وہابیت کی اصل ابتداکہاں اور کن لوگوں کے ذریعہ ہوئی ہے ؟ اور کس طرح پھیلا ہے ، اور کیسے کیسے برے کارنامے انجام دیتے ہیں ؟ اور آج کل اس کی موجودہ حالت کیا ہے ، ابن تیمیہ سے شروع کرتے ہیں ، جومحمد ابن عبد الوہاب کا فکری استاد ہے ۔
(۱)۔ ہم یہاں پر یہ عرض کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب سازمان تبلیغات اسلامی (بین الاقوامی روابط) کی فرمایش پر لکھی گئی ہے او رجیسا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ہماری یہ کتاب مذکورہ سازمان کی طرف سے دنیا کی ۶/مشہور زبانوں میں ترجمہ ہوگی ۔
سازمان تبلیغات اسلامی بخش معاونت فرہنگی نے بھی اپنی تمام تر بلند ہمتی ، واقع بینی اور علم ودانش کی بناپر اجتماعی حادثات کے پیش نظر ”فرق ومذاہب“ کے سلسلے میں تحقیقات کا احساس کیا او راس سلسلہ میں کتابوں کے نشر کا سلسلہ شروع کیا ،ہم جس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم نے اس فارسی کتاب میں کچھ مزید چیزوں کا اضافہ کیا ہے کہ جس کی بناپر کتاب کا ترجمہ ممتاز او راپنی خصوصیات کا حامل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے پڑھے لکھے اسلامی معاشرے اور فارسی زبان مسلمانوں کی ضرورت اس چیز کا تقاضا کرتی تھی۔
ہم نے اس سے پہلے وہابیت کی ردّ میں ”نقد وبررسی آئین وہابیت“ نامی کتاب لکھی ہے کہ جس میں صرف وہابیت کے کلی (خاص خاص)چیزوں کے بارے میں بحث کی تھی لیکن ہم نے اس کتاب میں کلیات کے فرقہ وہابیت جو ابن تیمیہ اور ابن قیّم جوزی جیسے افراد کی طرز فکر پر ، محمد ابن عبد الوہاب کے ذریعہ وجود میں آیا ، یہ منحرف اور پست فرقہ ، اسلامی بلند مرتبہ تعلیمات کی حیات بخش روح سے دور ہے،ابتداء سے آج تک اس فرقے نے عالم اسلام اور مسلمانوں کے در میان تفرقہ اندازی ، تباہی، تخریب کاری اور فتنہ و فساد کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ علاوہ ان مسائل کو بھی بیان کیا ہے جن کا اُس کتاب میں بیان کرنے کی گنجائش نہ تھی، اور ہم امید کرتے ہیں کہ خداوندعالم ہمیں اس سلسلہ میں مزید توفیق دے تاکہ ہم اس خطرناک فرقہ کے بارے میں مزید تحقیقات انجام دے سکیں․
اور جب بھی وہابیوں کی طرف سے نئے مسائل رونما ہوتے ہیں اس وقت اس منحرف فرقے کی بے ہودہ باتوں کے جواب اور ردّ لکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور اسی وجہ سے دلسوز محقق اور دانشور حضرات اس خطرناک اور ذلیل فرقہ سے اعتقادی اورفکری مقابلے کے لئے نکل پڑتے ہیں اور ”قلم کی رسالت “کو اچھی طرح ادا کرتے ہیں ، اور انشاء اللہ ایسا ہوتا رہے گا۔
(۲)۔ وہابیت کی ”مادہ گرائی“ اور ”جسم انگاری“ اور وہابیت کی ظاہر پرستی اور کھوکھلہ پن اور اسی طرح ان کی ”انحصار طلبی“ یعنی وہ فقط خود کو سچّا مسلمان! کہتے ہیں اور دوسرے تمام مسلمانوں کو کافر، مشرک، توحیدکے مخالف اور بت پرست کہتے ہیں ، او ر ”انحصار طلبی اعتقادی“ کی بدترین قسم اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ واختلاف کے سبب بنتے ہیں ،ہم انشاء اللہ اس سلسلہ میں اسی کتاب میں استدلالی اور تفصیلی بحث کریں گے۔
(۳)۔ جہان اسلام کے لئے ان کا سب سے تازہ تحفہ ، یہ ہے کہ خانہ کعبہ کے نزدیک سیکڑوں بے گناہ حاجیوں کا قتل عام کرنا جس کی وجہ سے خانہ کعبہ کی عظمت پامال ہوگئی ،او ر دنیا لرز کر رہ گئی اور انسان کے سوئے ہوئے ضمیروں کو جھنجھوڑ ڈالا،اور خواب غفلت میں پڑے مسلمانوں کو اس ”صدی کی سب سے بڑی خونریزی“ اور ”تاریخ اسلام کی بے نظیر درندگی“ پر صدائے احتجاج بلند کرنے پر مجبور کردیا ، البتہ یہ سب کچھ آل سعود کے نوکروں کے ذریعہ خوںریزی کی ابتدا ہے ،اور وہ دن دور نہیں کہ جب خدائے قہار ،ملحدوں کے اس نحس سلسلہ سے بدلہ لے گا، اوراپنے دردناک عذاب میں مبتلا کریگا،انشاء اللہ ۔
(۴)۔ہم خدا وندعالم کے فضل وکرم سے وہابیت کی پیدائش کے سلسلہ میں انگلینڈ کے قدیم استعمار کی کوشش کو اس کتاب کے ایک الگ فصل (وہابیت کی پیدائش ) میں تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔
(۵)۔ اسی وجہ سے ہم اپنی دوسری کتاب جس کو ابھی لکھ رہے ہیں ، اور خدا وندعالم کی بارگاہ سے امید کرتے ہیں کہ جلدازجلد پوری ہوکر منظر عام پر آسکے ، اس کتاب میں وہابیت کی جزئیات ، انحرافات اور شبہات کو تفصیلی طور پربیان کریں گے ، تاکہ اس ناپاک ونحس فرقہ کی جڑیں اکھڑ جائیں اورہمارے پڑھے لکھے جوان اور نئی نسل ، ان منحرف افکار کی عوامانہ مقدس مآبی کے جال سے دور رہیں ، معلوم ہونا چاہئے کہ جس ملت کے پاس بڑے بڑے فلاسفہ مانند: ملّا صدرا (رح) ،ابوعلی سینا (رح) ، حکیم سبزواری (رح) ، علامہ طباطبائی (رح) او رامام خمینی (رح)جیسی ہستیاں موجود ہوں او ران اسلامی فیلسوف کی لطیف وظریف نظریات حوزات علمیہ میں تدریس ہوتے ہوں، ہماری اس ملت کو اسلامی معلومات حاصل کرنے کے لئے ، ابن تیمیہ اور محمد ابن عبد الوہاب جیسے متعصب اور ظاہر پرست نیز گھٹیا فکر رکھنے والوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے ․
(۶)۔نہ صرف یہ کہ ان کے سیاسی اعمال غلط ہوتے ہیں ، بلکہ ظالم وخونخوار امریکہ کی غلامی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور نہایت بے شرمی اور بربریت کے ساتھ خدا کے مہمانوں کا خانہ کعبہ کے نزدیک خون بہاتے ہیں ، یہاں تک کہ انقلاب او رجنگ تحمیلی کے معلولین (اپاہج) لوگوں پر بھی رحم نہیں کرتے اور اس سلسلہ میں نامعقول بہانے بناتے ہیں اور ان کا یہ بہانہ گناہ سے بھی بدتر ہے یعنی ان کا یہ بہانہ خوں ریزی اورقتل وغارت سے بھی زیادہ شرمناک ہے ۔خدا تجھے تیرے اولیا ء کرام (ع) کی قسم ! آل سعود سے اس خون ناحق کا بدلہ جلداز جلد لے کران کو اپنے اعمال کی سزا تک پہنچادے۔” اِنّ ربَّکَ لَبالمِرصَاد“․
(۷)۔ قارئین محترم ! آپ حضرات جانتے ہیں کہ ۸سالہ ایران عراق جنگ میں سعودی عرب نے صدام کی پھر پور مدد کی ہے ، چاہے وہ مالی مدد ہو یا سیاسی اور فوجی مدد ہو ، اور یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ سب سے بڑے مالک امریکہ کے اس طرح کے نوکر ہیں جو بغیر اس کی اجازت کے ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے ، جو کچھ ” استاد ازل“ کہتا ہے یہ اسی کو انجام دیتے ہیں ، جیسا کہ مکہ کے خونین سانحہ میں سیکٹروں حجاج کا قتل عام ہوا ہے ، اور جیسے جیسے وقت گذر تا ہے ان جنایتوں کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہونا دنیا والوں پر روشن ہوتا جاتا ہے ، ظالم اور ان کے ساتھی ذلیل اور رسوا ہوتے جاتے ہیں :
”لہم خزی فی الدنیا و فی الآخرة عذاب شدید “
یہ خدا کا وعدہ ہے اور خدا کا وعدہ ہر گز خلاف نہیں ہوسکتا ․
(۸)۔ نجف اور کربلا کے مومنین کا قتل اور روضہ مبارک امیرالمومنین اور امام حسین علیہم السلام کے زائروں کے قتل اور قبرستان بقیع میں ائمہ معصومین (ع) کی قبروں کا انہدام نیز مکہ معظمہ میں حجاج کرام کا قتل کرنا، نیز دوسرے دیگر ملحدوں اور مشرکین ِخاندان آل سعود کی شرمناک جنایتوں کو ان مشرک ، ملحد اور بت پرست خاندان آل سعود جو خود کو توحید او رخداپرستی کا مدعی مانتا ہے ، کی دیگر شرم ناک جنایتوں کو کتاب کے آئندہ صفحات میں تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے ، انشاء الله۔
(۹)۔ قارئین کرام کے لئے قابل توجہ ہے کہ وہابیت اور آل سعود کے پروگراموں میں سے ایک پروگرام یہ بھی ہے کہ تمام دنیا اور اسلامی ممالک کے خائن اور ایجنٹ مولفین کے قلم کو لاکھوںڈالروں کے بدلے خرید کران سے اسلامی انقلاب ایران ، شیعوں اور ان کی مقدسات کے خلاف کتابیں اور رسالے لکھوائے ، اور ان کی ڈیوٹی لگائی،کہ انقلاب اسلامی ایران اور پاک و پاکیزہ شیعہ مذہب پر ایک فرہنگی ، فکری حملہ کریں ، یہاں تک کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیہا کے بارے میں ۷ا کتابیں ان کی ضد میںچھاپی گئی ہیں ، اور حضرت امام خمینی ۻ کے خلاف لا تعداد کتابیں ہیں جن میں ان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ، اسی طرح اسلامی انقلاب ایران کے خلاف بھی بہت سی کتابیںچھپی ہیں ․
بے شرمی ، عداوت اور کینہ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ امام خمینی ۻ کی تقریر کا ایک جملہ کو لے کر اس اپنی مرضی کے مطابق تاویل کرتے ہیں اور اس کے خلاف تبلیغات کرتے ہیں․
(۱۰)۔یہاں پہونچنے کے بعد انسان شیراز ی مشہور عارف کے اس شعر کو یاد کرتا ہے : ما در پیالہ عکس رخ یاردیدہ ایم ۔ای بی خبر زلذت شرب مدام ما
” ہم نے اپنے محبوب کے عکس کی جھلک کاسہٴ ( عشق ) میں دیکھی ہے تمھیں کیا خبر ہم ہمیشہ کس چیز کا جام لیتے ہیں “ ۔
یہ نا فہم، حضرات معصومین علیہم السلام اور اولیاء الہٰی کے پاک و صالح بندوں کی زیارت کو ان کی پوجا سمجھتے ہیں اور ان کے زائرین کو ان کا عبادت گذار مانتے ہیں ، ان کو نہیں معلوم کہ ہم ان کا احترام و اکرام ان کی عبودیت اور بندگی کی وجہ سے کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے خداوندعالم کی اس طرح عبادت اور بندگی کی کہ خداوند عالم سے ان کا محکم و مضبوط رابطہ ہوگیا ، ورنہ خود ان کا کوئی مقام نہیں ہے ، ان کا احترام فقط خدا کی وجہ سے ہے ، یہی وجہ ہے کہ کوئی زائر کسی فاسق و فاجر کی قبر پر نہیں جاتا ، بلکہ اس با عظمت شخص کی قبر پر جاتا ہے کہ جس نے اپنی عمر خانہ کعبہ کے طواف میںگذاردی ہو ، شاعر کہتا ہے :
سالہا عشاق خاکم را زیارنگہ کنند
چونکہ من روزی طواف کوی جانان کردہ ام
”سالہا سال سے میری قبر زیارت گاہ بنی ہوئی ہے ، کیونکہ میں نے خانہ کعبہ کا طواف کیا ہے“ ․
۱۱۔استعمار ہر روز اپنے مختلف چالوں کے ذریعہ اپنے ناپاک اور نحس مقاصد تک پہونچناچاہتا ہے ، غریب اور کمزور ممالک میں اپنے کلچر کو جاری کرنا استعمار کی ایک نئی چال ہے تاکہ ان ممالک کو تباہ و برباد کرسکے، سارے افکار کو ختم کرکے ان کی جگہ غلط اور برے افکار کو لوگوں کے ذہن میں ڈالنا ، اخلاقی مفاسد کو رواج دینا ، سیکس کی طرف لوگوں کا جذب کرنا ،جاسوسی اڈّے بنانا،نیز ہزاروں مختلف طریقوں اور چالوں سے استعمار اپنے شیطانی مقاصد کو پورا کرنا چاہتا ہے مثلاً سیکڑوں بکے ہوئے رائٹروں کو نوکری دینا ، لوگوں کے ذہنوں کو خریدنا،اور لوگوں کی صحیح و سالم صلاحیتوں کو ناکارہ بنانا ، چونکہ اپنے ناپاک مقاصد کے سامنے اسلامی طاقت کو ایک رکاوٹ کی طرح دیکھتاہے اسی وجہ سے ”حقیقی اسلام “ کو بدل کرایک ” نقلی اسلام “ ایجاد کرنے کی فکر میں لگا ہوا ہے تا کہ حقیقی اسلام کی اہمیت اور خاصیت کو ختم کرکے اس سے مقابلہ کیا جائے ، اسی چیزکے مد نظر اسلامی ممالک میں جعلی مذہبی فرقے ایجاد کررہے ہیں تا کہ حقیقی اور انقلابی اسلام کو پھیلنے سے روک سکیں ․
(۱۲)۔ اس سلسلے میںمزید معلومات کیلئے ” آلبر ممی “ کی کتاب “ چہرہ استعمار گر چہرہ استعمارزدہ جس کا ترجمہ ہما ناطق نے کیا ہے ،اور ” فرانتش فانون “کی تمام کتابوں کا مطالعہ کریں ․
(۱۳)۔ اس موقع پر بزرگ شاعراور فلسفی علامہ اقبال لاہوری نے قرآن کی اہمیت اور اس کی انقلابی فکر کے بارے میں بہت جامع اور دقیق اشعار کہے ہیں :
نقش قرآن چون در این عالم نشست
نقشہ ھای کاھن و پاپا شکست
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
این کتابی نیست چیزی دیگر است
چونکہ در جان رفت جان دیگر شود
جان چو دیگر شد جہان دیگر شود
”اگر قرآن کی تعلیمات پر انسان عمل کرے تو اس میں انقلاب آجاتا ہے اور جب انسان انقلابی ہوجاتا ہے تو وہ دنیا میں بھی انقلاب لاسکتا ہے“
” میں اپنے دل کی بات کو واضح طور پر کہناچاہتا ہوں کہ قرآن ایک کتاب نہیں بلکہ کوئی اہم چیزہے “
”اگر یہ قرآن انسان کی روح میں بس جا ئے تو روح انسان منقلب ہو جاتی ہے اور جب روح منقلب ہو جاتی ہے تو دنیا میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے “
(۱۴)۔ قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ انقلاب اسلامی ایران کے آغاز کے وقت دنیا بھرکی سوپر طاقتیں ، بلیک ہاوس ( وہایٹ ہاوس ) کے حکمر اں نیز فلسطین کے غاصبین ، سب کا یہی نعرہ تھا کہ ہم کمیونیزم کے خطر ے کو اسلامی خطرے کے مقابلہ میں خطرہ نہیں سمجھتے ہیں ،آپ اس بات سے اندازہ لکا سکتے ہیں کہ اسلام سے ان کی دشمنی کس قدرزیادہ ہے ۔
(۱۵)۔ اصول کافی ج ۲ ص ۶۴ا” باب الاہتمام با مور المسلمین “
(۱۶)۔ سورہ ممتحنہ آیت ا ول
(۱۷)۔ سورہ نساء آیت ا۴ا
(۱۸)۔ سورہ آل عمران آیت ۸ا
(۱۹)۔ سورہ آل عمران آیت ۰۳ا
(۲۰)۔ ہر طرح کی قبیلہ پرستی کو ختم کرکے آج اسلام نے افریقہ اور امریکہ کے کالوں کے دل میں جگہ بنالی ہے ، اور اپنی طرف جذب کرلیا ہے اگر اسلام کی نظر میں کسی چیز کی اہمیت ہے تو وہ اطاعت خدا ، عبادت اور تقوی الہٰی ہے ، نہ کہ حسب و نسب ، قوم قبیلہ اور جغرافیائی رہن سہن اور نہ ہی دوسری جاہلانہ چیزیںاسلام کے نزدیک کوئی اہمیت رکھتی ، اور اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں : دین اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے ، اور تمام دنیا بھر کے انسانوں کیلئے ہرہر قدم پر پیغام لئے ہوئے ہے ، اور اسلام کی ہمیشگی بقاء کا راز یہی عالمی اور جہانی ہونا ہے ۔
(۲۲)۔ اصول کافی ، ج ۲ ص ۶۶ا” باب اخوة المومنین بعضہم لبعض “
(۲۱)۔ سورہ فتح آیت ۲۹
(۲۲)۔ سورہ صف آیت ۴
(۲۳)۔ دو مذہب ص ۶۴ ، ڈاکٹر مصطفی خالد ، نقل از ” التبشیر والاستعمار فی البلاد العربیہ “ اور اس سلسلے میں اسلام کی بنیادی عجیب و غریب معلومات کیلئے جناب حسن صدر کی کتاب ” الجزائر و مردان مجاہد “ کم نظیر انقلابی مولف” فرانتش فانون“کی کتابوں کا مطالعہ کریں ۔
(۲۴)۔ الجزائر کے مسلمانوں کی کامیابی کے علاوہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کا میابی اور استعمار کو نکالنے میں بھی ، اسلام کے زندگی ساز احکامات پر اعتقاد اور عمل ، مسلمانوں کی کامیابی کا سبب ہے اس طرح ایران میں بھی جس وقت حقیقی اسلام ( نہ کہ بناوٹی اسلام کہ جو روح اور معنویت سے خالی ہو) لوگوں کے دل میں اپنی جگہ بنالیتاہے دیندار اور شجاع مسلمان بیدار ہوجاتے ہیں ، اور اپنے بت شکن رہبر ( حضرت امام خمینی ۻ) کی اطاعت کرتے ہیں اور ان کی راہنمائیوں کی وجہ سے اپنے زمانے کے طاغوت پر کامیابی حاصل کر لیتے ہیں ، اور اسی طرح لبنان افغانستان ، مصر اور دوسرے ممالک میں بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوئے ہیں، جس وقت مسلمانوں نے دین اسلام کی طرف توجہ کی اور اس کے انقلابی احکامات سے الہام لیا تب ہی ان کو عزت ، شرف اور سرفرازی نصیب ہوئی ہے او راستکبار جہانی کی کمر توڑ ڈالی او راس کو ذلیل وخوار کرڈالا ہے ۔
(۲۵)۔ استعمار کے ظلم و تشدد سے مزید آگاہی کیلئے کتاب ” گفتاری در باب استعمار ” تالیف شاعر و مؤلف مبارز افریقی ” امڈ پیزر “سے کچھ اقتباسات نقل کرتے ہیں تا کہ صاحب تمدن استعمارگروں ! کی خبیث اور گندی حرکتوں سے پردہ فاش ہو سکے ! وہ اپنی کتاب میں اس طرح لکھتا ہے : ”استعمار گر ، اور استعمار شدہ میں بیگاری ( بغیر پیسہ کے مزدور ی) خوف و وحشت ، پولیس ، ٹیکس ، چوری ، اہل خانہ کو بے آبرو کرنا ، دوسرے کلچر کو زبردستی رواج دینا ، ذلت اور بدگمانی ، اپنا مفاد ، فتنہ وفساد اوربد مزگی ایجاد کرنا ، بے وقوفوں کو انتخاب کرنے اور فاسد لوگوں کے جمع ہونے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ․انسانی تعلقات اور روابط کچھ نہیں صرف ڈکٹیٹر شپ ہے :
یہاں تک کہ ہر قدم پر ان کی اطاعت کرتے رہو ،ورنہ سخت سے سخت سزا جھیلنے کے لئے تیار ہو جاؤ ، کیونکہ ہرشخص ان کی نظر میں ایک مشین جیسی حیثیت رکھتا ہے ،استعمار انسان کی اہمیت کو پامال کرتاہے ، اور مجھ سے ترقی کی باتیں کرتا ہے ، تاسیسات ،بیماریوں پر کنٹرول اور اعلی زندگی کی گفتگو کرتا ہے ، اور میں لوگوں کی تاراج ہونے کا ذکر کرتا ہوں، میں اس کلچر کی گفتگو کرتا ہوں جو اجاڑدی گئیں میں ان انجمنوں کا ذکر کرتاہو ںجو ختم کردی گئیں ،میں ان زمینوں کا ذکر کرتا ہوں جو غصب کرلی گئیں ، میں ان مذہب و ملت کا ذکر کرتا ہوں جو نیست و نابود کردئے گئے ، میںان تمام بہترین امکانات کا ذکر کرتاہوں جو ختم کردئے گئے ، استعمار اپنی بہت سی کارکرد گی کو میرے سامنے رکھتے ہیں ،جیسے سڑکیں بنوانا، ریلوے لائن بچھواناوغیرہ وغیرہ۔
میں ان ہزاروں لوگوں کے بارے میں کہتا ہوں کہ جو ” کنگو“ میں ماردئے گئے، میں ان کے بارے میں کہتا ہوں کہ جو ابھی تک ” ابیجان“ میں قید ہیں ، میں ان کروڑوں لوگوں کی بات کرتاہوں کہ جن کو ایمان، زمین،رسم و رواج اور زندگی سے کلی طور پر محروم کردیا گیاہے۔
میں ان کروڑوں لوگوںکی بات کرتاہوں کہ جن میں خوف و وہشت ذلت و خواری ، ناامیدی اور غلامی کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا ہے ، مجھ سے تمدن کی باتیں کرتے ہیں میں ان لوگوں کی باتیں کرتا ہون کہ جن کو غریب اور فقیر مزدور طبقہ میں تبدیل کردیا گیا ، اور آج بھی ان کو بے وقوف بنایا جارہا ہے “
قارئین کرام : یہ تھے ایک افریقی شاعر اور لائیٹر کی دردناک فریاد ، اور آتشی جملے ، جو تمدن جدید !! کے ظلم و تشد د کو بیان کرتے ہیں اور یہ وہی قدیم زمانے کی جاہلیت اور بربریت ہے جو اپنا چہرہ بدل کر لوگوں کو دھوکہ میں ڈالے ہوئے وہی سب کارنامے انجام دے رہی ہے ۔
افریقی مصنف ان باتوں کو بیان کرتے ہیں اور عدالت میں کھڑا کرتے ہیں اور صرف یہ تو استعمار کے ظلم وتشدد کا ایک نمونہ اس کتاب سے پیش کیا ہے خود کتاب میں بہت سے دردناک واقعہ بیان کے گئے ہیں ۔
(۲۶)۔ خاطرات ہمفرے بند ۶ ص ۸۰ ،اور اسی کتاب کا ترجمہ بنام ”وہابیت ایدہ استعمار “ کے نام سے فارسی (اور اردو)میں بھی ہوا ہے کہ جو انگلینڈ کے مشہور جاسوس ہمفرے کی خاطرات ہیں ، ہم قارئین کرام کو اس کتاب کے دقیق مطالعہ کی پیش کش کرتے ہیں ، اگر چہ بہت سی جگہ ترجمہ نارسا ہے اور ضروری تھا کہ بعض جگہ حاشیہ اور توضیح کا سہارہ لیا جاتا ، امید ہے کہ مترجم صاحب اس طرف توجہ کریں تا کہ دوسرے ایڈیشن میں یہ خامیاں نہ رہیں ․
(۲۷)۔ قصص العلماء ص ۵۲ تا۵۳ ․
(۲۸)۔ امام شناسی ، تالیف سید محمد حسین تہرانی ج ۵ ص ۸۴․
(۲۹)۔ شیخ احمد احسایی اور سید کاظم رشتی کی زندگی کے حالات ہم نے اپنی کتاب ” نقد و تحلیل پیرامون بابیگری او ربہائی گری“ جو فرقہ وہابیت کی رد ہے،اس میں تحریر کئے ہیں قارئین کرام اس کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں البتہ ضروری ہے کہ ایسے منحرف افکار کے حامل اشخاص کے حالات زندگی کے بارے میں مستقل کتاب لکھی جائے ۔
(۳۰)۔ یہ بات صرف الزام نہیں ہے بلکہ کتاب کے آیندہ صفحات میں ہم دلیل کے ساتھ واضح طور پر بیان کریں گے کہ وہابیت انگلینڈ کے انگر یزوں کی ایجاد ہے ، اور اس وقت بھی امریکہ جیسے خونخوار کی حمایت میں ہے، اور جیسا کہ خاندان سعود کی خیانت اور ظلم و تشدد نے سب پر واضح کردیا ہے ،ہمیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
(۳۱)۔ اس سلسلے میں ماہنامہ ” حوزہ “ نمبر ۶ا شہریور ۳۶۰ا سے کافی تغیرات کے ساتھ استفادہ کیا ہے ۔
(۳۲)۔ امام شناسی ج ۵ ص ۸۳ا
Add new comment