اسرائیل سلگ رہاہے

تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)

غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے حامیوں اور بانیوں نے 1948ء میں ناپاک منصوبے کے تحت صیہونی ریاست کے ناپاک وجود کو شاید اس لئے تشکیل دیا تھا کہ مستقبل میں مشرق وسطیٰ میں موجود مسلم عرب ممالک پر اسرائیل کا غاصبانہ تسلط قائم کیا جائے اور خطے میں موجود وسائل پر پورا قبضہ حاصل کر لیا جائے جبکہ مزید توسیع پسندانہ عزائم میں مشرق وسطیٰ کے بعد وسطی ایشیائی ممالک اور پھر اسی طرح پورے ایشیاء پر اسرائیلی غاصبانہ تسلط کو قائم کرنا تھا خواہ وہ کالونی کی صورت میں ہو یا پھر براہ راست ہو، بہرحال غاصب اسرائیل کے سرزمین انبیاء فلسطین پر ناپاک قیام کا مقصد یہی سمجھ میں آتا ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ صیہونی غاصب ریاست اسرائیل نے اپنے ناپاک وجود کے قیام کے روز اول سے ہی نہ صرف پورے فلسطین پر اپنے غاصبانہ تسلط کو قائم کیا بلکہ ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک جن میں شام، لبنان، مصر، اردن سمیت عراق، سوڈان اور دیگر ممالک پر بھی اپنے تسلط کو قائم کرنے کے لئے جنگوں کا آغاز کیا اور آج بھی فلسطین سمیت کئی ایک ممالک ایسے ہیں کہ جن کے ملک کے اہم مقامات کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے اپنے غیر قانونی تسلط میں لیا ہوا ہے، البتہ اسی طرح کچھ ممالک ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے غاصب اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے راستے کا اختیار کرتے ہوئے خود کو صیہونی شکنجے سے آزاد کروا لیا ہے، اس حوالے سے بہترین مثال لبنان کی ہے کہ جہاں اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے برس ہا برس کی جدوجہد کے بعد 2000ء میں پورے لبنان کو صیہونی شکنجے سے اس طرح آزاد کروایا کہ غاصب صیہونی دشمن اپنی تاریخ میں پہلی پرتبہ شدید اور بدترین ذلت اور رسوائی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ پیٹھ دکھا کر فرار ہوا، یہ وہ موقع تھا کہ غاصب اسرائیل کے ناپاک وجود کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ ناقابل تسخیر اسرائیل کو بدترین شکست کا سامنا ہوا تھا اور اسرائیل لبنان پر اپنا قبضہ ختم کرنے کے ساتھ وہاں سے فرار اختیار کر گیا۔

غاصب اسرائیل کو لبنان میں ملنے والی شکست سے قبل کسی بھی جنگ میں شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا لیکن لبنان کی سرزمین پر 2000ء میں غاصب اسرائیل کا سامنا ایک ایسی اسلامی مزاحمتی تحریک سے تھا جس کا نام حزب اللہ ہے اور حزب اللہ نے 1982ء سے ہی اپنے قیام کے روز اول سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے لبنان پر غاصبانہ تسلط کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کیا اور حزب اللہ کے بنیادی مقاصد میں فلسطین سمیت تمام مقبوضہ علاقوں کو جو غاصب اسرائیل کے تسلط میں ہیں کو آزاد کروانا ہے تاہم حزب اللہ عرب دنیا میں ایک ایسی قوت بن کر ابھری کہ جس نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسے غاصب ریاست کو شکست سے دوچار کیا جس کی پشت پناہی عالمی استعمار امریکہ اور یورپی قوتیں کر رہی تھیں۔

اسی طرح تاریخ میں دوسری مرتبہ غاصب اسرائیل کو ذلت و رسوائی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب 2006ء میں ایک فوجی آپریشن کے دوران حزب اللہ کے جوانوں نے دو اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا اور غاصب اسرائیل امریکہ کی ایماء پر طاقت کے نشے میں دھت ہو کر حزب اللہ کے خلاف ایک مرتبہ پھر میدان جنگ میں اتر آیا اور لبنان پر زمینی، فضائی اور سمندری سرحدوں سے بیک وقت حملہ کر دیا، اس جنگ کا آغاز جولائی 2006ء میں غاصب اسرائیلی حملے کی صورت میں شروع ہوا جبکہ اس کے ردعمل میں حزب اللہ نے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے ثابت کردیا کہ غاصب اسرائیل کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا جا سکتا ہے جبکہ اس موقع پر حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے تاریخی خطاب کیا تھا جس میں سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ''دنیا کی کوئی طاقت دونوں اسرائیلی فوجیوں کو ہمارے قبضے سے آزاد نہیں کروا سکتی''۔ اور پھر تاریخ شاہد ہے کہ حزب اللہ کے چند مٹھی بھر جوانوں نے دنیا کے عالمی استعماروں کی پشت پناہی پر ہونیوالے اسرائیلی حملے کا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ اسرائیل کو بدترین اور ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا، اور مجبورا 33روز بعد غاصب اسرائیل اور امریکہ سمیت یورپی ممالک نے حزب اللہ سے جنگ بندی کی اپیلیں کرنا شروع کر دیں اور اس طرح 33روز تک جاری رہنے والی جنگ اسرائیل کی رسوائی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی اور اسرائیلی فوجی حزب اللہ کی قید میں رہے جن کو بعد میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے ایک معاہدے کے تحت آزاد کر دیا گیا۔

دوسرا اہم موقع اسرائیل کی بدترین شکست کا اس وقت سامنے آیا جب غاصب اسرائیل نے فلسطینی علاقے غزہ پر حملہ کیا اور 2008ء میں بائیس دن تک لڑی جانے والی جنگ میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے ہاتھوں شکست اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ مختصر تاریخ میں کئی ایک ایسے مواقع آئے ہیں کہ جب مختلف اوقات میں حزب اللہ، جہاد اسلامی اور حماس سمیت دیگر اسلامی مزاحمتی گروہوں کے ساتھ ہونے والے معرکوں میں ہمیشہ غاصب اسرائیل رسوائی کا سامنا کرتا رہا ہے، اور اب صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل اور اسرائیلی افواج حزب اللہ کے نام سے بھی کانپتی ہیں اور اس قابل نہیں رہی ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں کسی عرب خطے پر حملہ کر سکیں کیونکہ اسرائیلی افواج اور حکومت اس وقت حزب اللہ کے وجود کے باعث شدید خوف اور لرزہ انگیز صورتحال میں ہے، جس کی ایک واضح مثال یہ بھی ہے کہ حزب اللہ دن بدن جدید ٹیکنالوجی کے حصول میں کامیاب ہو رہی ہے اور حال ہی میں حزب اللہ نے ایک ڈرون طیارہ جسے حزب اللہ نے ''ایوب'' کا نام دیا تھا کو غاصب اسرائیلی حدود میں بھیجا اور یہ ڈرون طیارہ چار گھنٹے تک اسرائیلی حدود میں پرواز کرتا رہا اور اسرائیل کے اہم مقامات بشمول ایٹمی پلانٹ تک کی تصاویر مرکز کو بھیجتا رہا یہاں تک کہ حزب اللہ نے اپنے منصوبے کے تحت اس ڈرون طیارے کو بالآخر اسرائیلی جنگی جہازوں کا لقمہ بنایا تا کہ پوری دنیا میں یہ خبر پھیل سکے کہ اسرائیلی حدود میں ایک ڈرون طیارہ مار گرایا گیا ہے، اس کے علاوہ بھی حزب اللہ کے پاس ایسے میزائل اور ہتھیار موجود ہیں جس کے بارے میں خود اسرائیلی ذرائع بلاغ اور اسرائیلی فوجی ذرائع کہتے ہیں کہ ان میزائلوں کو اسرائیلی ریڈار سسٹم دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

گذشتہ دنوں اسرائیلی نیول فورسز کے ایک اہم ترین ذمہ دار نے ذرائع کو بتایا کہ اسرائیلی نیول فورس میں حزب اللہ کے عنوان سے شدید لرزہ اور خوف پایا جاتا ہے کیونکہ اسرائیلی نیوی یہ بات جانتی ہے کہ حزب اللہ کے پاس ایسے ہتھیار اور ایسی صلاحیت موجود ہے کہ وہ جب چاہے اسرائیلی پورٹس کو نشانہ بنا کر ہالٹ میں تبدیل کر سکتی ہے، اسرائیلی روزنامے میں شائع ہونے والی خبر میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی نیول آفیسر نے کہا ہے کہ حزب اللہ پہلے سے زیادہ طاقتور بن چکی ہے اور اسرائیلی ہتھیار اور افواج اس قابل نہیں ہیں کہ حزب اللہ کا مقابلہ کر سکیں، اسرائیلی افسر کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل نے لبنان پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو حزب اللہ یقینا اسرائیل کے اہم مقامات کو نشانہ بنائے گی کیونکہ حزب اللہ کے پاس جدید گائیڈڈ میزائل موجود ہیں جوکہ اسرائیلی سکیورٹی سسٹم میں نہیں دیکھے جا سکتے اور اسرائیل کے پاس ان جدید میزائیلوں کو ناکارہ بنانے یا حملے کی صورت میں دیکھنے کی بھی صلاحیت موجود نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات میں اسرائیلی افواج میں حزب اللہ کے عنوان سے شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

اسرائیل میں شائع ہونے والے ایک ہفت روزہ مجلے میں رپورٹ پیش کی گئی ہے جس میں امریکی خفیہ اداروں کی اطلاعات کے حوالے سے رپورٹ کاپی کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ حزب اللہ کے پاس بارہ سے زائد فضائی اینٹی شپ گائیڈڈ سسٹم موجود ہیں جو غاصب اسرائیل کے کسی بھی حملے کی صورت میں جوابی کاروائی میں اسرائیلی فضائیہ کو شدید نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت نے اسرائیل جیسی خون خوار ریاست کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے اور اسرائیلی افواج پر شدید لرزہ طاری ہو چکا ہے جو دراصل اسلامی مزاحمتی تحریکوں کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

Add new comment