عید میلادالنبی[ص]کا جشن ،بین الاقوامی جشن ہے

 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
 
اللہ تعالٰی ہمارا خالق مالک اور معبود حقیقی ہے، وہی ہمارا رب (پالنے والا‘ پروردگار) ہے۔ اس نے اپنی ذات و صفات اور اپنے اسماء و افعال (ناموں اور کاموں) میں کسی کو کسی طرح شریک نہیں کیا۔ ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ ہم کسی کو کسی طرح بھی اللہ تعالٰی کا شریک یا اس کی مثل نہ ٹھہرائیں کیونکہ کوئی بھی ذاتی اور حقیقی طور پر خود سے کوئی کمال نہیں رکھتا، نہ ہی کوئی خود سے معرض وجود میں آیا بلکہ یہ تمام کائنات جو کچھ اس میں ہے وہ سب اللہ تعالٰی ہی کا (خلق) پیدا کیا ہوا ہے۔ اللہ نے اپنی مخلوق میں انسان کو عزت اور بزرگی عطا کی اور اسے شرف مخلوقات بنایا‘ اسے عقل و شعور عطا کیا۔ انسانوں میں سب ہر لحاظ سے یکسا نہیں، بعض کو بعض پر فضیلت و مرتبت حاصل ہے۔ اندھا اور نابینا اور جاہل اور عالم، سچا اور جھوٹا برابر نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ پاک اور پلید ہرگز برابر نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ مومن اور کافر برابر نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ محققین کے مطابق کائنات میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالٰی کے اسماء و افعال اور صفات و ذات کے مظاہرے کے طور پر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ پاک کے نام زیادہ ہیں تو اس کے مظاہر بھی زیادہ ہیں افعال زیادہ ہے تو اس کے مظاہرہ بھی اس قدر ہیں اللہ کریم کی صفات بہت ہیں تو ان کے مظاہر بھی بہت ہیں مگر اللہ تعالٰی کی ذات ایک واحد (حقیقی) ہے تو اس کا مظہر کامل بھی ایک ہے اور وہ اس کا حبیب مقصود کائنات، جان کائنات (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) ہیں، جن کے لئے خود اللہ کریم کا ارشاد ہے کہ اگر اس ہستی کو نہ بناتا تو میں خود کو بھی ظاہر نہ کرتا اور کچھ بھی نہ بناتا۔ یعنی رسول اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نہ ہوتے تو کچھ بی نہ ہوتا۔ اس ارشاد ربانی سے یہ بات پوری طرح واضح ہوتی ہے کہ تمام کائنات دراصل حضور اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا صدقہ و طفیل ہے۔ خود نبی پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ میں اللہ کے نور سے ہوں اور باقی تمام مخلوق میرے نور سے ہے یعنی اگر اللہ کا نور نہ ہوتا، تو میں نہ ہوتا اور میں نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ ہمارے نبی پاک آپ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی شان خالقیت ہی کی نہیں بلکہ اللہ کی ذات کی بھی سب سے بڑی اور کامل دلیل ہیں اسی لئے قرآن میں انھیں برہان ربی فرمایا گیا ہے۔ اہل علم بخوبی جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دلیل کی عمدگی اور پختگی اور درستی بلاشبہ دعوٰی کی درستی اور پختگی کی ضمانت ہوتی ہے اور دلیل کا نقص دعوٰی کے نقص کو ظاہر و ثابت کرتا ہے یوں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ رسول پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کیا جانے والا ہر کمال دراصل اللہ تعالٰی کے کمالات کی دلیل و برہان ہے تاکہ دیکھنے سننے والے یہ جان لیں کہ جس کی مخلوق اور عبد مقدس کی یہ شان ہے خود اس رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا ہر آنے والا لمحہ گزرے ہوئے لمحے سے بہتر ہو گا‘ اسی طرح اللہ پاک کی شان خالقیت کے صحیح اور کامل رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) ہی ہیں جب کے باقی کسی اور کے لئے یہ وعدہ مرکوز نہیں اور عام مخلوق کے لئے “ہر کمالے راز والے“ کی کہاوت مشہور ہے کہ ہر کمال کو زوال ہے یا ہر صاحب کمال کو زوال ہے اور ہمارے لئے یہ تعلیم ہے کہ ہم زوال نعمت سے بچاؤ اور تحفظ کی دعاء کیا کریں۔

ہمارے رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی خلقت تمام جہانوں بلکہ تمام کائنات سے پہلے ہوئی جس کے بارے میں صحیح احادیث مبارکہ کا ذخیرہ ہماری رہنمائی کرتا ہے اور نبی پاک کی ولادت تمام انبیاءکرام کے آخر میں ہوئی ہو وہ خلق کے لحاظ سے اور اول اور بعثت (ظہور) کے لحاظ سے آخر ہیں، رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت محرم یا حرمت والے دیگر مہینوں یا ماہ رمضان میں ہوئی۔ اور نہ ہی مختلف ادیان و اقوام کے نزدیک اہم ہفتے کے دیگر ایام میں ہوئی اس لئے کہ ہمارے نبی پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کو ماہ ایام اور زمان و مکان سے شرف (بزرگی) نہیں ملا بلکہ جس کسی کو جو کوئی شرف اور فضیلت ہے وہ نبی پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہوئی۔ مشہور اسکالر مولانا کاثر نیازی اپنی تحریر میں نبی پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کے بارے میں لکھتے ہیں “اللہ تعالٰی کی طرف سے انسانوں کے لئے نصیحت، ان کے دلوں کے لئے شفاء اور ایمان والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہونے والی مقدس اور متبرک ہستی کو عالم لاہوت سے عالم ناسوت میں شریف آوری کوئی عام یا معمولی واقعہ نہیں بلکہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین اور اہم ترین واقعہ ظہور پذیر ہوا وہ جمیع نوع انسانی کے لئے ایک یادگار دن ہے ۔ ۔ ۔ ۔ بہ نظر غائرد دیکھا جائے تو عیدمیلادالنبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) ہی تمام عیدوں کا مبداء ہے۔ آں حضور کا ظہور پرنور ہوا تو خلق خدا کو خدائے تبارک وتعالٰی کی ہستی کا شعور حاصل ہوا۔ توحید کا ادارک اور وحدانیت کا اقرار احکام خداوندی کی تعلیم عبادات کی تفہیم سب آں حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مقدس کی مرہون منت ہیں۔ رمضان شریف کی فضیلتیں آں حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے ہم پر ظاہر ہوئیں اور انہی فضیلتوں سے متمتع ہونے کے بعد ہم عیدالفطر کی مسرتوں کے مستحق ہوئے اسی طرح آں حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نے ہی ہمیں حج اور قربانی کے طریقے سکھائے جو کی بناء پر ہمیں عیدالاضحٰی کی خوشیاں نصیب ہوئیں‘ پس یوم مبارک عیدین سعیدین کی تقریبات کا مبداء ہے وہ تو کہیں زیادہ مسرت و ابتہاج کا دن ہے اور وہ ہی تو ایسا دن ہے جسے ہم سب سے بڑی عید کا دن کہہ سکتے ہیں“ مولانا کی اس واضح اور بصیرت افروز تحریر میں یہ بھی ہے کہ “پس اگر ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ انعامات خداوندی کے نزول پر شکر واجب ہے تو یقیناً ان نعمتوں کو ہم تک پہچانے والے کی آمد پر بھی شکر لازم ہے بالخصوص اس وجہ سے کہ ان نعمتوں کا پہنچانے والا محض ایک قاصد یا پیام رساں نہیں بلکہ خود بھی مجسم رحمت ہے اور مجسم رحمت ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی نعمت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ لٰہذا اس افضل ترین نوع بشر کے یوم ولادت پر اظہار مسرت کرنا اور آں حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی مدح و توصیف بیان کرنا یقیناً ایک نہایت مستحسن عمل ہے۔“ رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا یوم ولادت “پیر“ ہے اور ماہ ولادت “ربیع الاول“ ہے۔ شمسی و عیسوی تقویم کے حساب سے قطعی و یقینی طور پر کوئی تاریخ اب تک بیان نہیں کی گئی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہجری تقدیم ہی اسلام اور مسلمان میں رائج ہے عہد رسالت میں بھی اسی کو اختیار کیا گیا اور اسے قانونی اور سرکاری طور پر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد خلافت میں نافذالعمل قرار دیا گیا۔ اسلامی ممالک میں ہجری تقویم کے مطابق اسلامی تہوار منائے جاتے ہیں کیونکہ وہ تمام تہوار اسی تقویم سے وابستہ ہیں لیکن ہمارے نبی پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت اس تقویم سے قیام و نفاذ سے پہلے کا واقعہ ہے اور رسول پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) تمام جہانوں کے لئے رسول اور مجسم رحمت بن کر تشریف لائے اس لئے ان کا یوم میلاد ہر تقویم کے مطابق بھی اہم سمجھا جانا چاہئیے اور جس رسول کے بعثت عالم گیر و جہان گیر ہے اس کی آمد کا دن ہر زمان و مکان اور ملک و قوم کے لئے یادگار اور اہم ہے۔ جن ممالک میں ہجری تقویم مروج نہیں حالاں کہ وہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد مقیم ہے وہاں عیدمیلادالنبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی اہمیت اور عظمت مسلملہ ہے اور ان علاقوں میں کوئی ایک متفقہ تاریخ ضرور ایسی ہونی چاہئیے جو طے شدہ اور موجودہ دور تاریخ شمسی و عیسوی تقویم ہی حساب سے ہو سکتی ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام اللہ کے بندے اور رسول ہیں‘ اسلامی تاریخ کے مطابق ان کی ولادت دس محرم یعنی عاشورہ کو ہوئی لیکن دنیا بھر میں 25دسمبر کی تاریخ تحقیق سے ثابت نہ ہونے کے باوجود تمام ملکوں اور قوموں میں رائج ہے اور سبھی جانتے ہیں کہ کرسمس کا تہوار حضرت عیسٰی علیہ السلام کے یوم ولادت کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ جانے کیوں یہ گمان ہوتا ہے کہ نبیوں کے سرادر امام اور انسان کامل رسول پاک (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی تاریخ ولادت شمسی و عیسوی تقویم کے حساب سے طے کئے جانے میں نصارٰی و غیر مسلم ہی رکاوٹ ہیں شاید وہ نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کا کوئی ایسا تہوار بھی ہو جسے دنیا بھر میں ایک ہی تاریخ اور دن میں یادگار بنا کر مسلمان اپنی وحدت اور اجتماعیت کا اظہار کر سکیں، انھیں یہ خدشہ و اندیشہ بھی ہو گا کہ یوں کرسمس کا تہوار اپنی شہرت و حیثیت قائم نہیں رکھ سکے گا۔ امریکا، افریکا اور یورپ وغیرہ میں صنعت کار تاجر اور احکام اپنے ملازمین اور وابستگان کو انعامات و تحائف وغیرہ کرسمس ہی کے موقع پر دیتے ہیں، یوں وہ اپنے مذہب کی تبلیغ بھی کرتے ہیں اور لوگوں کو تالیف قلبی بھی کرتے ہیں اور ان ممالک میں مقیم مقامی و مہاجر مسلمان بھی اسی طرز و طریق کو اپنائے ہوئے ہیں اور ایسے ممالک میں بسنے والے اکثر مسلمانوں کو جہری تقویم کا چند ایام کے سوا نہ علم ہوتا ہے اور نہ انھیں جستجو ہوتی ہے کہ وہ جہری تقویم سے بخوبی آگاہ ہوں۔ بارہ ربیع الاول کو جشن عیدمیلادالنبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) قوی سطح پر صرف اسلامی ممالک میں مقیم یا چند دوسرے ممالک میں منایا جاتا ہے۔ مصر، عراق، ایران، اردن، سوڈان، عرب امارات وغیرہ میں سرکاری طور پر بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے قومی عام تعطیل ہوتی ہے، مگر یورپ امریکا اور افریکا وغیرہ میں وہاں چھوٹی بستیوں میں مقیم اور مختلف ملازمت پیشہ مسلمان جہری تقویم کی ہر سال موسم و ایام میں تبدیلی کے باعث سرکاری مجبوریوں کی وجہ سے نہیں مناتے البتہ جہاں کئی بھی کوشش کی گئی ہے کسی قدر اہتمام ہوا ہے اور مسلم تنظیمیں بساط بھر کوشش کر رہی ہیں جب کہ یہ وہ عظیم اور اسلامی تہوار ہے جسے تمام مسلمانوں کو اپنی اجتماعیت کے ساتھ بھرپور طریقے سے منانا چاہئے اور اس موقع پر دین مصطفٰی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام کو عام کرنا اور پھیلانا چاہئیے۔ اسلامی ممالک میں ربیع الاول کے علاوہ اگر شمسی حساب سے بھی اس دن کو منایا جائے تو دنیا بھر میں وہ دن اہم اور یادگار ہو جائے گا۔ پاکستان میں جو کہ اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے، فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور حکومت میں یوم میلاد کی مختصر سی سرکاری تقریب ہوا کرتی تھی، اس کا بڑے پیمانے پر سرکاری اہتمام “ورزات مذہبی امور“ کے قیام کے بعد ہوا۔ اس سرکاری تقریب کے انعقاد و اہتمام کے لئے ایک قومی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا نام “قومی سیرت کمیٹی“ رکھا گیا، مولانا کوثر نیازی اس کے سربراہ ہوئے کیونکہ وہی اس وزارت کا قلم دان بھی رکھتے تھے۔ حضرت مولانا شار عارف اللہ قادری، خطیب اعظم حضرت مولانا شفیع اوکاڑوی اور احتشام تھانوی بھی اس کمیٹی کے بنیادی ارکان میں شامل تھے۔ عیدمیلادالنبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) منانے کے لئے کمیٹی کا نام “عیدمیلاد کمیٹی“ ہونا چاہئیے تھا، کیونکہ میلاد منایا جاتا ہے اور سیرت اپنائی جاتی ہے لیکن نہیں معلوم کہ اہل علم نے اس نام پر توجہ کیوں نہیں دی ؟ اس سرکاری کمیٹی نے بھی ایسی تحقیق پر توجہ نہیں دی کہ شمس تقویم کو ہی کافی سمجھا گیا لیکن یہ خیال نہیں کیا گیا کہ اس طرح یہ دن صرف اہل ایمان ہی کے لئے یادگار رہے گا اور وہی اس سے واقف رہیں گے۔ یہ گمان ہرگز نہ کیا جائے کہ بارہ ربیع الاول کو عیدمیلادالنبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) منانے کا سلسلہ روکنے یا ختم کرنے کا کوئی وہم یا خیال ہے ایسی سوچ بھی غلط اور ناممکن ہے تجویز صرف یہ ہے کہ جہاں جہاں ہجری تقویم رائج نہیں وہاں ارو ہر جگہ ایک متفقہ تاریخ ایسی بھی ہو جس میں سب شامل و شریک ہو سکیں اور وہ تاریخ فرضی یا مجوزہ نہ ہو بلکہ تحقیق کے مطابق قطعی اور یقینی ہو، اور اس سے آگہی کوئی بہت مشکل نہیں، شبلی نعمانی نے 20اپریل 571ء اور قاضی سلیمان منصور پوری نے 22اپریل 571ء بتائی ہے جب کہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ نے ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی تحقیق کے مطابق 17 اپریل جون 569ء درج کی ہے اس کے علاوہ بعض سیرت نگاروں نے اگست بتایا۔ جامعہ ازہر کے کلیہ اصول کے سربراہ محمد ابراہیم عرجون نے 20 اگست 570ء اور علامہ محمد رضا مصری نے بھی یہی تاریخ لکھیں۔ اعلٰی حضرت مولانا شاہ احمدرضا بریلوی نے ماہ اپریل ہی کی تائید کی ہے، جدید سہولتوں اور آلات کی مدد سے صحیح تاریخ کی تحقیق یقیناً دشوار کام نہیں، اس شعبے میں ماہرین یہ کام سرانجام دینے پر مامور کیے جائیں تو وہ ضرور حقائق واضح کر دیں گے۔ احادیث نبوی سے یہ ثابت ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کا دن (پیر دوشنبہ) ہے اور مستند و معتبر ہستیاں بارہ ربیع الاول پر متفق ہیں کچھ لوگ تاریخ ولادت پر اختلاف کو یوں بھی بڑھاتے ہیں کہ شاید وہ اس بہانے اہل ایمان جشن ولادت منانے سے روک سکیں۔ مگر ایسا ہونا نہ ممکن ہے قرآن و حدیث سے نعمت کے حصول پر اظہار کا حکم اور جواز ثابت ہے اور قرآن میں نبی کریم کی ولادت پر سلام کا واضح بیان ہے۔ نزول مائدہ کے دن کا عید ہونا قرآن سے ثابت ہے پھر جان کائنات کی آمد سے بڑھ کر کیا خوشی اور ان کی ذات سے بڑھ کر کیا نعمت ہو سکتی ہے ؟ حدیث کی مشہور کتاب ترمذی شریف میں پورا باب “عید میلاد النبی“ کے عنوان سے موجود ہے اور اس موضوع پر اکابر اہل علم کا تحقیقی سرمایہ کتابوں میں محفوظ ہے جس کے بعد کسی تردود کی گنجائش نہیں رہتی اور احادیث سے ثابت ہے کہ اپنے حبیب (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا میلاد خود اللہ نے منایا۔ مسلم شریف حدیث کی نہایت اہم کتاب ہے اس میں روایت موجود ہے کہ بارہ ربیع الاول کو جب رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ سے مدینے منورہ پہنچے تو اصحاب نبوی اور اہل مدینہ نے آمد مصطفٰی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا جسن منایا، پر چم لہرائے، یارسول اللہ یارسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے نعرے لگائے اور خوشی میں جلوس نکالا، دف بجا کر بچیوں نے خوشی کے نغمے گائے اسی کی یاد میں ہر سال اہل ایمان آمد رسول کی یاد میں جلوس نکالتے ہیں۔ یہ جلوس اب برطانیہ امریکا اور افریکا کے ملکوں میں بھی نکالا جانے لگا ہے۔ رسول پاک کی والدہ محترمہ سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بیان کے مطابق ولادت رسول کے وقت فرشتوں نے پرچم لہرائے، ستارے مکان ولادت کی چھت پر سمٹ گئے اور فرشتوں اور حوروں نے فضا میں کھڑے ہو کر سلام کی صدائیں بلند کیں۔ فرشتے وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے۔ یوں ثابت ہوا کہ میلادشریف کے موقع پر چراغاں کرنا، پرچم لہرانا اور دورد و سلام کے زم زمے بلند کرنا اللہ تعالٰی کی سنت ہیں اس بیان کے ساتھ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ بعض کتابوں میں یہ درج ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی اس دنیا میں رحلت کی تاریخ بھی بارہ ربیع الاول ہے یوں کچھ لوگ یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تاریخ وفات میں جشن منانا کوئی اچھا کام نہیں ہے۔ یقیناً یہ شرارت بھی غیر مسلموں کی ہے تاکہ مسلمان آپس میں الجھتے رہیں علاوہ ازیں یہود و نصارٰی بھی یہی دیکھتے ہیں کہ عیدمیلادالنبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا جشن مناتے ہوئے مسلمان اپنی ایمانی عقیدت و محبت اور جوش و جذبے کا والہانہ اظہار کرتے ہیں وہ کسی اور تہوار میں دیکھنے سننے میں نہیں آتا وہ کب گوارہ کر سکتے ہیں کہ مسلمان کا ایمان جوش و جذبہ بڑھے اسی لئے وہ اپنے آلہ کار افراد کے ذریعے مسلمانوں میں باہمی اور رنجشوں میں الجھاتے ہیں۔ اس بارے میں مستند اور معتبر کتابوں سے تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی تاریخ بارہ ربیع الاول ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ تاریخ وصال (2) ربیع الاول ہے محقیقین کا کہنا ہے کہ تحریر میں کسی ہندسے کو لکھنے کے بعد اسے باقی الفاظ یا اعداد سے جدا ظاہر کرنے کے لئے علامت کے طور پر ترچھا نشان لگایا جاتا ہے اسے کتابت یا کاتب کی غلطی سے ہندسی شمار کرکے 2 کو 12 پڑھ لیا گیا ورنہ گیارہ ہجری میں بارہ ربیع الاول کی تاریخ پیر کے دن کسی حساب سے بھی نہیں آتی اور احادیث سے ثابت ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا وصال پیر کے دن ہوا۔ علامہ شبلی نعمانی اور سلیمان ندوی نے بھی بہت ذمہ داری کے ساتھ اس تحقیق کو اپنی کتاب “سیرۃ النبی“ میں تحریر کیا۔ جناب اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں‘ اور تاریخ کی تحقیق نہیں ہوئی اور بارھویں (تاریخ) جو مشہور ہے وہ حساب درست نہیں ہوتا کیوں کہ اس سال ذی الحجہ کی نویں (تاریخ) جمعہ کو تھی اور یوم وصال دو شنبہ (پیر) ثابت ہے پس جمعہ کی نویں ذی الحجہ ہو کر بارہ ربیع الاول دو شنبہ کو کسی طرح نہیں ہو سکتی۔ (نشرالطیب، ص302، مطبوعہ انڈیا) وہ مذید لکھتے ہیں : “حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی تاریخ وصال ربیع الاول کی بارہ غلط مشہور ہے۔ نوین تاریخ کو حضور نے حج کیا اور وہ جمعہ کا دن تھا اور اسی سال وصال ہوا، اور دوشنبہ کوئی۔ یہ مقدمات سب متواتر اور قطعی ہیں اب اس کے بعد کوئی حساب ایسا نہیں ہو سکتا جس سے دو شنبہ کو بارہ ربیع الاول ہو، خدا معلوم یہ کہاں سے ہو گیا۔“ (افاضات یومیہ، ص210 حصہ ششم) جناب ابوالکلام سے مقالات “رسول رحمت“ میں بہت وثوق سے لکھا ہے کہ بارہ ربیع الاول 11 ہجری میں تاریخ وصال ہرگز بارہ نہیں۔ البدایہ والنہایہ کو بہت معتبر اور مستند کتاب سمجھا جاتا ہے۔ اس کی جلد دوم صفحہ 340 میں اور طنقات ابن سعد جلد دوم صفحہ 316 میں، علاوہ ازیں سیرۃ حلبیہ، وفاء الوفاء، روض الانف اور تاریخ الاسلام (ذہبی) میں بھی صراحت ہے کہ تاریخ وصال بارہ ربیع الاول نہیں ہے اور تفسیر مظہری جلد دوم کے صفحہ 110 میں بھی ہے کہ دو (2) ربیع الاول تاریخ وصال ہے بارہ نہیں۔ تابعین کے سرگروہ ابن شہات زہری، سلیمان بن طرخان اور سعد بن ابراہیم زہری جیسے افراد نے رسول کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی وصال کی تاریخ دو (2) ربیع الاول بتائی ہے۔ اصحاب نبوی ہی سے تابعین نے علم حاصل کیا اور محفوظ کیا، ان کے بعد کسی غیر ثقہ شخص یا مؤرخ کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اہل علم نے یہ بھی جواب دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے میلاد و وصال کا دن جمعہ ہے مگر شریعت میں تین دن سے زیادہ سوگ وفات کا نہیں ہے اور میلاد آدم کی خوشی میں جمعہ کا دن اہل ایمان کے لئے عید کا دن بتایا گیا، ہر ہفتے میں جمعہ کے دن اہل ایمان میلاد آدم کی خوشی میں عید مناتے ہیں اور کسی کو یہ گمان بھی نہیں گزرتا کہ یہی دن ان کے وصال کا بھی ہے اس لئے اس دن میلاد آدم خوشی منانا اچھا کام نہیں! جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ غیر مسلم اور دشمن عناصر ہرگز نہیں چاہتے کہ مسلمان شان و شوکت سے اپنے پیارے نبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا میلاد منا کر اپنی ایمانی اخوت اور ملی خدمات کو اجاگر کریں اس لئے وہ بے بنیاد اور غیر حقیقی باتیں مسلمانوں کو لڑوانے اور اسلام تہواروں و تقریبات منانے سے روکنے کے لئے پھیلاتے ہیں۔ یہ حیققت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی آمد بلا شبہ اللہ کا احسان عظیم ہے اس احسان پر جس قدر ہدیہ تشکر پیش کیا جائے کم ہے اور کرم کی انتہا ہے کہ جو رحمت عالم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم کرتا ہے اس سے والہانہ محبت کرتا ہے ان کی فرماں برداری اور پیروی کرتا ہے اس کی آمد کی خوشی مناتا ہے وہ نہ صرف دونوں جہان میں فوز فلاح، راحت و رحمت اور خیر و برکت پاتا ہے بلکہ خود کو اپنے محبوب کریم کا مقرب و محبوب بنا لیتا ہے۔ جشن میلاد منانا وہ سعادت ہے جو رضائے رب سے مشرف کرتی ہے، یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے، تاابد جاری رہے گا۔

صدائیں درودوں کی آتی رہیں گے
جنھیں سن کے دل شاد ہوتا رہے گا
خدا ہل ایمان کو آباد رکھے
محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا میلاد ہوتا رہے گا
 بشکریہ نور مدینہ:::::::::::http://www.nooremadinah.net/Urdu/Documents/Aqaid/Meelad/EidEMeeladAlimiT...

Add new comment