ہمارے نبی کا مقدس خاندان اور معصوم بچپن
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تعلق قریشِ عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھا۔ اس خاندان کی شرافت ، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی۔ یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دینِ حنیف کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھے مگر ان کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہوگیا تھا۔ والدہ کا نام حضرت آمنہ بنت وھب تھا جو قبیلہ بنی زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ یعنی ان کا شجرہ ان کے شوھر عبداللہ بن عبدالمطلب کے ساتھ عبد مناف بن قصی کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا شجرہ نسب حضرت عدنان سے جا ملتا ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام ابن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اور مشہور ترین عربوں میں سے تھے۔ حضرت عدنان کی اولاد کو بنو عدنان کہا جاتا ہے۔ یہ شجرہ یوں ہے۔
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فھر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان
(عربی میں : محمد بن عبدالله بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان )
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد محترم حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب آپ کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ مدت ایک بدوی قبیلہ کے ساتھ بسر کی جیسا عرب کا رواج تھا۔ اس کا مقصد بچوں کو فصیح عربی زبان سکھانا اور کھلی آب و ہوا میں صحت مند طریقے سے پرورش کرنا تھا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت حلیمہ بنت عبداللہ اور حضرت ثویبہ(درست تلفظ: ثُوَیبہ) نے دودھ پلایا۔ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ اور آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات پا گئے۔ اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ کے چچا اور بنو ہاشم کے نۓ سردار حضرت ابو طالب نے سرانجام دیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔[6] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا ہوگا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔ [7]۔[8]۔
Add new comment