کتب اربعہ قدیم و جدید

ہم شیعوں کے نزدیک قرآن کے علاوہ کوئی کتاب نہیں جو سو فیصد صحیح ہو۔ احادیث کے اندر بہت جعل سازیاں ہوئی ہیں اور ان کو باقاعدہ پرکھنا شرط ہے، اور علماء نے علم درایت و رجال بھی حدیث کو صحیح سمجھنے کے لئے وضع کئے ہیں۔ البتہ ہماری کچھ کتابیں معتبر ہیں، لیکن اس سے مراد نہیں کہ وہ سب صحیح ہیں بلکہ ان کے مؤلفین نے بہت محنت سے ان روایات کو جمع کیا ہے۔ ہمارے ہاں چار کتابیں مستند ہیں جو بہت اوائل میں لکھی گئی ہیں جن کو کتب اربعہ کہا جاتا ہے؛

 1۔ کتاب "الکافی" ۔۔۔۔ شیخ کلینی نے لکھی

2۔ "من لا یحضرہ الفقیہ"۔۔۔۔۔ شیخ صدوق نے لکھی

3۔ تہذیب الاحکام

4۔ الاستبصار۔۔۔۔ یہ دونوں کتب شیخ طوسی نے لکھی۔

 اسی طرح انہی کتب اربعہ اور دیگر کتب کو سامنے رکھتے ہوئے بعد میں مزید چار کتابیں تالیف ہوئیں جن کو "کتب اربعہ جدید" کہا جاتا ہے؛

1۔ کتاب "الوافی" جو ملاّ محسن فیض کاشانی نے لکھی

2۔ وسائل الشیعہ۔۔۔۔ شیخ حرّ عاملی نے لکھی

3۔ بحارالانوار ۔۔۔۔۔ علامہ مجلسی نے لکھی

4۔ مستدرک الوسائل ۔۔۔۔ محدّث نوری نے لکھی۔

 علم الرّجال سے مدد لیتے ہوئے اہل سنّت نے صحیح، حسن، و ضعیف وغیرہ کی جمع بندی تو ضرور کی ہے لیکن فرق علم الرّجال میں ہی آتا ہے۔ جن راویوں کو اہل سنّت کے ہاں ثقہ کہا جاتا ہے وہ مختلف وجوہات کی وجہ سے اہل تشیع کے ہاں ضعیف ہیں اور جو ہمارے ہاں ثقہ ہیں ان میں سے بہت سوں کو اہل سنّت رد کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی شیعہ سنّی احادیث میں مشترکات بھی بہت ہیں، ہماری نگاہ سے جعفر شاہ پھلواروی کی ایک کتاب بنام "مجمع البحرین" گزری ہے جس میں انہوں نے شیعہ سنّی منابع میں مشترک احادیث کو جمع کیا ہے۔

 اسی حوالے سے دوسری بات، اگر ہم احادیث کی جمع بندی بھی کر دیں تو اس کے باوجود بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جن احادیث کے راوی ثقہ ہیں وہ حدیث صحیح ہوگی، ممکن ہے کہ اس حدیث کو بھی جعل کیا گيا ہو۔۔ اس صورتحال میں شیعہ علمائے درایت نے قرآن کو بہت اہمیت دی ہے کیونکہ ہمارے ہاں واضح احادیث ہیں کہ جو روایت ظاہر قرآن سے متصادم ہو وہ مردود ہے۔ قرآن، سنّت قطعیہ اور عقل سلیم وہ اسٹینڈرڈ ہیں جن کو علم الرّجال کے ساتھ ساتھ استعمال کرنا چاھئے۔

 سنّت قطعیہ سے مراد وہ احادیث ہیں جو متواتر ہوں اور جن میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہو، یعنی جن کا رسول اللہ(ص) کا قول ہونا یقینی ہو۔

 ایک بات واضح رہے "ان کتب میں صحیح اور ضعیف کا فیصلہ ہر مجتہد اپنے منہج کے مطابق کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے تو ممکن ہے کہ ایک حدیث ایک مجتہد کی نگاہ میں صحیح ہو اور دوسرا مجتہد کسی سبب اس کو ضعیف کہے۔ لہذا ہمارے ہاں ایک عالم اپنی تحقیق پیش ضرور کرتا ہے لیکن اس کو حتمی نہیں سمجھا جاتا۔"

Add new comment