میڈیا اور نظام تعلیم
تحریر عالم نقوی
'' ہم اپنے تعلیمی نظام میں مطالعہ کے رججان کو داخل کریں ۔ کتاب کو بکثرت اور مسلسل مطالعہ کتاب کو ہم اپنے تعلیمی نظام کا مرکزی حوالہ بنائیں ۔ ایسا نہیں ہوگا تو میڈیا کے عروج کے باوجود ہم بہت جلد مکمل طور پرایک گونگی قوم بن جائیں گے ہمارے پاس سر ہوگا لیکن اس میں دماغ نہیں ہوگا ۔ ہمارے پاس دل ہوگا مگر اس میں دھڑکن نہیں ہوگی ۔
ڈاکٹر عابد حسین ایک ماہر تعلیم اور سوشل سائنٹسٹ ہی نہیں ایک روشن ضمیر صحافی بھی تھے ۔ ان کے نزدیک صحافت کی بنیادی تاریخ لوگوں کو باخبر کرنا ، حقیقت حال سے واقف کرانا اور امیدو یقین کی دولت سے سرشار کروانا ہے بقول عمیرمنظر وہ علم و دانش کی اس روایت کے امین تھے جس کا ایک سرا عام لوگوں سے متعلق تھا ۔ ڈرائنگ روم کی دانشوری اور (فائیو اسٹار ہوٹلوں کے سمیناروں میں ہونے والی) منصوبہ بندی کے بجائے وہ براہ راست عام لوگوں سے نہ صرف تعلق رکھنا چاہتے تھے بلکہ ایک سماجی زندگی کے مبلغ تھے جو ماضی کی عظیم مذہبی اور تہذیبی روایت کی امین بھی ہو انہوں نے ٤٩ـ١٩٤٧کے پر آشوب زمانے میں مسلمانوں کو مایوسی اور بے یقینی کی فضا سے نکال کر آگے بڑھنے اور انسانی خدمت کے عالمگیر فلسفہ سے مربوط کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔
وزیر اعظم من موہن سنگھ نے ٢١ فروری ٢٠١١ء کو تریونیدروم میں ملیالم اخبار '' کرالا موڈی'' کی صد سالہ تقریب میں تقریر کرتے ہوئے صحافت کے تعلق سے بعض اچھی باتیں کہیں ۔ انہوں نے کہا کہ صحافی سماج کے باخبر نگراں ہوتے ہیں اور اگر صحافی اپنے پیشے سے پورا پورا انصاف کریں تو وہ سماج میں ہونے والی مثبت تبدیلیوں کے نقیب بن سکتے ہیں ۔ انہوں نے بالکل درست کہا کہ صحافی سماج کی نبض سے واقف ہوتا ہے وہ حکومت اور انتظامیہ کی غلط کاریوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ سماج میں پائی جانے والی خرابیوں کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے ۔ صحافی کے لئے پوری دیانتداری سے مختلف نقاط نظر اور اختلاف رائے کو انصاف کے ساتھ پیش کرنا ضروری ہے کیونکہ سچائی اوقات متضاد نقاط نظر کے حامل فریقوں کے اختیار کردہ موقف کے درمیان کہیں مخفی ہوتی ہے ۔ وزیر اعظم نے یہ بھی درست کہا کہ یہ ایسا وقت ہے کہ جب میڈیا کی سرگرم مداخلت ہی کی بدولت خفیہ حقائق اور پرانی بدعنوانیوں کے معاملات منظر عام پر آرہے ہیں ۔ البتہ من موہن سنگھ جی نے بالکل خلاف توقع اور پہلی بار اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا کہ آج میڈیا کا ایک حصہ کارپوریٹ سیکٹر سے وابستہ وپیوستہded Ambedہو چکا ہے انہوں نے کہا کہ میڈیا کے ایک بڑے حصہ کو کارپوریٹ ادارے چلا رہے ہیں اور وہی کرپشن کا تحفظ کرتے ہوئے ان شبہات کو تقویت دے رہے ہیں کہ جمہویت کا چوتھا ستون زوال پذیر ہونے لگا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس شعبے میں چاہنے اور نہ چاہنے والے رجحانات کے بارے میں ایک لڑائی چھڑی ہوئی ہے ظاہرہ ہے کہ انہوں نے نیرا راڈیا ٹیپ انکشافات اور اس سے چھڑنے والی کارپوریٹ کلچر کی بحث کے تناظر میں یہ باتیں کہیں ۔ ان کی اس تقریر کی خبر صرف پی ٹی آئی نے جاری کی ۔ نتیجہ میں اردو اخبارات میں بالعموم یہ خبر نہیں شائع ہوئی ۔ ہم نے یہ خبر کلکتہ کے ایک گمنام اردو اخبار ''مشرقی ہند'' کے ١٢ فروری کے شمارے میں پڑھی ۔ کارپوریٹ میڈیا کے تمام بڑے اخباروں یعنی قومی میڈیا نے وزیر اعظم کی اس تقریر کو قابل اشاعت نہیں سمجھا ۔
اکیسویں صدی کا پہلا عشرہ ختم ہو چکا ہے آج بلا شبہ ہم ایک بحرانی دور میں ہیں ۔ صحافت اپنے سماج کا آئینہ ہوتی ہے اس لئے یہ شعبہ بھی اتناہی بحران زدہ ہے جتنا سماج کے دوسرے شعبے آج بحران گزیدہ ہیں ۔
ہم گذشتہ ٣٣ برسوں سے اس پیشہ سے عملاً وابستہ ہیں یعنی ١٩٧٨ء سے تا حال ورکنگ جرنلسٹ کی حیثیت سے کام کررہے ہیں پچھلے ٤ برسوں سے ہمیں ممبئی یونیورسٹی کے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ برائے اردو صحافت کے طلبہ کو پڑھانے کا موقع مل رہا ہے اور ہمیں یہ اعتراف کرتے ہوئے شرم آرہی ہے کہ صورتحال اچھی نہیں ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا کے ظاہری عروج کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ اکیسویں صدی میڈیا کے بظاہر نا قابل تصور عروج کا زمانہ ہے لیکن ساتھ ہی یہ ہماری قوم کے زوال ، ہمارے تعلیمی نظام کی ابتری اور نئی نسلوں کو بے ھس اور گونگا بنا دیئے جانے کا زمانہ بھی ہے ۔ شاہنواز فاروقی روزنامہ ''جسارت'' کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر ہیں وہ عمر میں ہم سے کم لیکن علم میں ہم سے بہت زیادہ ہیں ۔ ہم انہیں اس وقت اپنی زبان کا سب سے بڑا صحافی مانتے ہیں اور گر دنیا کے چند بڑے صحافیوں کی ایک چنندہ فہرست بنائی جائے تو اس میں ان کا نام لازماً شامل ہوگا ۔ ہماری آگے کی تحریر میں ان کے ٤ فروری ٢٠١١ء اور ٢٥ فروری ٢٠١١ء کو شائع کالموں کے حوالے کثرت سے شامل ہیں جس کا دل چاہے انٹر نیٹ پر ان کے مضامین سے مکمل استفادہ کر سکتا ہے ۔
'' صحافت کا لفظ صحیفے سے نکلا ہے اور صحیفے کا تعلق زمین سے زیادہ آسمان سے ہے ۔ اس کے ایک معنی یہ بھی کہ ہماری تہذیب میں صحافت کا تعلق الہام کی روایت سے ہے اس روایت میں '' خبر'' کا مقام اتنا بلند ہے کہ اس کا اعلان ترین سطح کے حوالے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو '' مخبر صادق'' کہا گیا ہے ۔ نبی کا لفظ بناء سے مشتق ہے اور بنا کے معنی خبر کے ہیں بالخصوص وہ خبر جس میں غیب کی باتیں شامل ہوں ۔
قرآن مجید مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ لگی لپٹی بات نہ کہو اور سچائی سے دامن نہ بچائو اس لئے کہ تم جو کچھ کہتے ہو اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ کو اس کی پوری خبر ہے ۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک قول مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ '' جابر و ظالم سلطان کے سامنے کلمۂ حق سب سے بڑا جہاد ہے ۔ لہٰذا اس تناظر میں دیکھا جائے تو کم از کم مسلم ماشرے میں تو صحافت ایک خالص اخلاقی جدو جہد کا نام ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں صداقت اور اس کا ابلاغ (باترسیل یا سچائی کا کمیونی کیشن ) کوئی سیاسی تصور نہیں بلکہ صداقت زندگی کے ہم معنی ہے یعنی صداقت کا ابلاغ زندگی کا ابلاغ ہے اور صداقت کا تحفظ زندگی کا تحفظ ہے لہٰذا کم از کم ہمیں اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوتی جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جب صداقت مسخ ہوتی ہیتو زندگی مسخ ہو جاتی ہے صداقت حسن سے محروم ہوتی ہے تو زندگی جمال سے عاری ہو جاتی ہے اور انسان کا اپنے خالق و مالک سے تعلق مجروح ہو جاتا ہے فی زمانہ سماجی ،اخلاقی ، سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ سے دنیا صحافت کے اس بالا تر تصور سے عاری ہو چکی ہے تاہم ایسا نہیں کہ دنیا میں صحافت کی ضرورت اور اہمیت کا شعور نہیں ہے ۔ مورخ ایچ جی ویلز نے ایک جگہ لکھا ہے کہ '' سلطنت روکا زوال اس لئے بھی ہوا کہ اس زمانے میں صحافت کا ادارہ موجود نہیں تھا ۔ چنانچہ حکمرانوں کی جانب سے جو احکامات جاری ہوتے تھے انہیں سلطنت کے دور دراز علاقوں تک پہونچنے میں کئی کئی سال لگ جاتے تھے اس کی وجہ سے سلطنت کے بڑے حصہ میں بد نظمی عام ہو گئی اور سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا ۔ '' یہ بیان اگر چہ نہایت درجہ کی سادہ بیانی اور گہرے و پیچیدہ معاملات کو ہلکا کر کے پیش کرنے کی کوشش پر مشتمل ہے لیکن ہم نے صرف اس لئے نقل کیا ہے کہ خبر '' صحافت'' ابلاغ اورذرائع ابلاغ یعنی میڈیا کی اہمیت کے تصور کا فہم حاصل ہو سکے ۔ ایک بڑے قومی لیڈر نے کہا تھا کہ صحافت اور قوم کے عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے لیکن ہوا یہ کہ ہماری قوم صحافت کے عروج کا ساتھ نہیں دے سکی ۔ '' مذکورہ قومی لیڈر نے ١٣ مارچ١٩٤٧ء کو ممبئی میں ملک کے صحافیوں کے ایک نمائندہ وفد سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ '' آپ کے پاس بڑی طاقت ہے آپ اس طاقت کو امانت سمجھتے اور یاد رکھئے کہ آپ ترقی وبہبود کے راستے پر اپنی قوم کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔ '' بلا شبہ کل یعنی کم ازم کم آزادیٔ وطن سے قبل اور اس کے کچھ بعد تک صحافت کا نصب العین یہی رہا لیکن چند سال بعد سے بالعموم اور ١٩٩٠ء کے بعد سے بالخصوص صحافت سامراجی سرمایہ داریت سے وابستہ و پیوستہ Embeddedہوتی چلی گئی اور آج قومی و بین الاقوامی صحافت بس اتنی ہی آزاد جتنی کہ سرمایہ دارانہ سامراجیت اجازت دیتی ہے ۔ آپ حیرت نہ کریں ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ صرف امریکہ ہی نہیں اسرائیل تک کے سفارت خانے و قونصل خانے کی طرف سے مداخلت اور دبائو بنانے کی کوشش ہو نے لگی ہے اس بحران کا سبب یہ ہے کہ میڈیا نے بغیر لڑے ہتھار ڈال دیئے ہیں ۔ اردو صحافت تو بالخصوص تلبیس حق و باطل کا بد ترین ملغوبہ ہے ۔ ایک صفحہ پر تو دین کی باتیں ہوتی ہیں تو اسی کی پشت پر نام نہاد ادب ، ثقافت، کلچر اور عوامی دلچسپی کے نام پر وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کا تعلق سیدھا ان تشیع الفاحشتہ اور لھوالحدیث یعنی بے حیائی پھیلانے اورا للہ جل شانہ سے غافل بنا دینے والی باتوں سے ہوتا ہے بالفرض اس پہلو کو نظر انداز بھی کردیں (اگرچہ یہ بڑی جسارت کی بات ہے اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے) اور ظلم نا انصافی اور بد عنوانی کے خلاف جدو جہد تک اپنی بات کو محدود رکھیں تو بھی تہلکہ اور انڈین ایکسپریس جیسے میڈیا کے کتنے نمائندوں کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ ہماری انگلیوں کے پور زیادہ ہیں اور نام کم! ہم نے کسی اردو اخبار یا جریدے کا نام جان بوجھ کر نہیں لیا کہ پوری احتیاط کے باوجود بھی ہم جانبداری اور پچداری کے الزام سے شاید خود کو محفوظ رکھ پائیں ۔ ٹی وی ، فلمیں اور انٹر نیٹ بھی اسی میڈیا کا حصہ ہیں لیکن ان کا حال تو پرنٹ میڈیا سے زیادہ خراب ہے ۔ بے لگام آزادی نے حالات کو مزید بگاڑ رکھا ہے ۔ موجودہ فلموں اور ٹی وی سیریلوں کا حقیقی ہندوستانی سماج سے کوئی بھی واسطہ نہیں وہ یاتو اپرمڈل کلاس کے مغرب زدہ کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں یا اپر کلاس کی ہوس اور اسراف کے نمونے دکھاتے ہیں یا گلو بلائزیشن کے مارے مڈل کلاس اور لووور مڈل کلاس کی سماجی غلاظتوں اور ذہنی افلاس کو درشاتے ہیں یا پھر انڈر ورلڈ اور مافیا کو گلو ریفائی کرتے ہیں یہ فلمیں اور سیریل اعلا سطحی سیاسی بدعنوانیوں ، سرکاری اہل خاروں کی غلط کاریوں اور سیکوریٹی فورسز کے مظالم کو صرف اس لئے پیش کرتے ہیں کہ دیکھنے والوں کے دل بھڑاس نکل جائے انکی کیتھارسس ہو جائے تاکہ نظام کی تبدیلی اور انقلاب کے راستے کھلنے سے پہلے ہی بند ہو جائیں ۔ (بقیہ صفحہ ٣ پر )
تہلکہ ٢٨ فروری ٢٠١١ء میں کالم نگار پریہ نے صحیح تجزیہ کیا ہے کہ یہ پوری فلم صنعت جو ہالی ووڈ کی طرح خود کو بالی ووڈ کہلانے میں کوئی شرم نہیں محسوس کرتی ۔پوری طرح ہندوستانی سماج سے کٹا ہوا ادیوگ ہے اس دور کی زیادہ تر فلموں میں نظر آنے والا سماج یا تو امریکہ اور یورپ کے عیش اور اسراف کے خواب دیکھنے اور ان کی بھونڈی نقالی کرنے والا اپر کلاس سماج ہے یا پھر فحش گالیوں اور گھنائو نے جرائم کے دلدل میں پھنسا ہوا ایک مخصوص طبقہ جس کی دیرانی ہی نرالی ہے ۔ فلموں اور سیریلوں میں اس طبقہ کی گلوری فیکشن کی حد تک کی جانے والی شرمناک منظر کشی پر نام نہاد ، حقیقت نگاری کا لیبل لگا کر یعنی سماج کی برہنہ سچائیوں کی اس سے برہنہ منظر نگاری پر فخر کیا جاتا ہے نتیجہ یہ ہے کہ آج جب آزادیٔ نسواں Women's Libکے ناقابل تصور مظاہر نگاری کا زمانہ ہے عورت ہی کی سب سے زیادہ درگت ہو رہی ہے آج میڈیا میں خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک عورت ہی ہمیشہ سے زیادہ ذلیل، حقیر اور لائق نفریں ہے ۔ فلم ادب اور آرٹ یں اس کی حٰثیت ایک جسم اور قابل تصرف چیز Comodityسے زیادہ اور کچھ نہیں ہے ۔ پریہ درشن کے لفظوں میں ..... آج( فلموں اور ٹی وی سیریلوں میں ی عجیب ساد تضاد (دکھائی دیتا ) ہے کہ جس دور میں عورت سب سے زیادہ آزاد ہوئی ہے اسی دور میں اسے سب سے زیادہ '' جسم'' میں بدلا جارہا ہے (میڈیا) میں بھی اور سماج میں بھی ۔ کاروباری فلموں میں ی کام منی کی بدنامی اور شیلا کی جوانی کے بہانے ہوتا ہے اور نام نہاد آرٹ فلموں میں گندی گالیوں کے کھلے عام استعمال کرے ذریعے ۔
امریکی یونیورسٹی کہنے والی جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ مہذب لوگ اس کا ایم ایم ایس بنا کر تقسیم کرتے ہیں جیسے سارا کھیل اس بات کا ہو کہ یہ .....عورت قابو میں رہے ۔ ''
آج صحافت کا عروج خواہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک قوم کا اخلاقی زوال بن کر رہ گیا ہے لیکن بقول شاہنواز فاروقی ، '' ابھی یہ صورت حال صرف تشویشناک ہے لیکن جب ( الیکٹرانک میڈیا) کا عروج اس سطحیت کو قوم کا ذوق بنا دے گا تو ( الکٹرانک میڈیا ) کا عروج قومی شعور کے خلاف ایک کھلی سازش بن جائے گا ۔ اس لئے کہ قوم کیا فرد کے ذوق کو بدلنا بھی کوئی آسان نہ ہوگا ۔ ذوق برسوں میں بگڑ جاتا ہے اور کئی نسلوں کی قربانی کے بعد صحت کی طرف لوٹتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو ذوق کی بحالی میں صدیاں لگ جاتی ہیں ۔ آج پیس ٹی وی ، کیو ٹی وی ، اور مصالحہ ٹی وی سے لے کر کسی بھی تفریحی چینل تک عام پروگراموں کے سٹس Setsبھی پر تعیش زندگی کا اشتہار بنے نظر آتے ہیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ فحش کا تعلق عورت کے مخصوص لباس تراش خراش یا کم لباسی سے تھا لیکن نئی فلمیں نئے ٹی وی سیریل تو موضوعات میں بھی فحش کو گھسیٹ لائے ہیں ۔ اب طوائفوں ، کوٹھوں ، ہم جنسوں Gays & Lesbianکی زندگی پر فلم ، ڈرامے اور سیریل بن رہے ہیں اور کہا یہ جارہا ہے کہ آخر یہ بھی تو معاشرہ کا مسئلہ ہے جبکہ یہ سماج کی استثنائی مثالوں کو عمومی بنانے Generalizeکرنے کی کوشش ہے تاکہ فحش اور گناہ کے ساتھ جوStigmaبھی ہے وہ بھی ختم ہو جائے یہی فی الواقع ثقافتی دہشت گردی ہے آج میڈیا کا عروج قوم کا اخلاقی زول بن چکا ہے ۔ میڈیا کا یہ بحران تعلیمی نظام کی ابتری کا نتیجہ ہے کہ ادب ، آرٹ اور اقتصادیات کی طرح اسے بھی اخلاقی اقدار سے بے نیاز بنا دیا گیا ہے ۔
ممبئی یونیورسٹی میں چار سال سے صحافت کے پی جی ڈپلوما کورس کے اسٹوڈنٹس کو پڑھانے کے دوران ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ہمارے بی اے ، بی ایڈ حتی کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کئے ہوئے یا پی ایچ ڈی کے لئے رجسٹریشن کرائے ہوئے بعض طلباء تک اپنی مادری زبان میں بھی ١٥ سطور کا ایک ہم آہنگ ،مربوط اور با معنی پیراگراف نہیں لکھ سکتے املا کی غلطیاں ، جملوں میں باہم بے ربطی ، واحد، جمع اور تذکیر و تانیث کی غلطیاں یہ سب اس ایک پیراگراف میں بیک وقت موجود ہوتی ہیں شاہنواز فاروقی ہی کے لفظوں میں '' بولنے کی زبان بولنے ہی سے آتی ہے ۔ پڑھنے کی زبان پڑھنے سے اور لکھنے کی لکھنے سے آتی ہے لیکن مسئلہ کا حل اصلی جو شاہنواز فاروقی نے اپنے ٢٥ فروری والے کالم میں بیان کیا ہے ہم بھی اس سے پوری طرح متفق ہیں کہ '' ہم اپنے تعلیمی نظام میں مطالعہ کے رججان کو داخل کریں ۔ کتاب کو اور بکثرت اور مسلسل مطالعہ کتاب کو ہم اپنے تعلیمی نظام کا مرکزی حوالہ بنائیں ۔ ایسا نہیں ہوگا تو میڈیا کے عروج کے باوجود ہم بہت جلد مکمل طور پرا یک گونگی قوم بن جائیں گے ہمارے پاس سر ہوگا لیکن اس میں دماغ نہیں ہوگا ۔ ہمارے پاس دل ہوگا مگر اس میں دھڑکن نہیں ہوگی ۔
تہلکہ ٢٨ فروری ٢٠١١ء میں کالم نگار پریہ نے صحیح تجزیہ کیا ہے کہ یہ پوری فلم صنعت جو ہالی ووڈ کی طرح خود کو بالی ووڈ کہلانے میں کوئی شرم نہیں محسوس کرتی ۔پوری طرح ہندوستانی سماج سے کٹا ہوا ادیوگ ہے اس دور کی زیادہ تر فلموں میں نظر آنے والا سماج یا تو امریکہ اور یورپ کے عیش اور اسراف کے خواب دیکھنے اور ان کی بھونڈی نقالی کرنے والا اپر کلاس سماج ہے یا پھر فحش گالیوں اور گھنائو نے جرائم کے دلدل میں پھنسا ہوا ایک مخصوص طبقہ جس کی دیرانی ہی نرالی ہے ۔ فلموں اور سیریلوں میں اس طبقہ کی گلوری فیکشن کی حد تک کی جانے والی شرمناک منظر کشی پر نام نہاد ، حقیقت نگاری کا لیبل لگا کر یعنی سماج کی برہنہ سچائیوں کی اس سے برہنہ منظر نگاری پر فخر کیا جاتا ہے نتیجہ یہ ہے کہ آج جب آزادیٔ نسواں Women's Libکے ناقابل تصور مظاہر نگاری کا زمانہ ہے عورت ہی کی سب سے زیادہ درگت ہو رہی ہے آج میڈیا میں خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک عورت ہی ہمیشہ سے زیادہ ذلیل، حقیر اور لائق نفریں ہے ۔ فلم ادب اور آرٹ یں اس کی حٰثیت ایک جسم اور قابل تصرف چیز Comodityسے زیادہ اور کچھ نہیں ہے ۔ پریہ درشن کے لفظوں میں ..... آج( فلموں اور ٹی وی سیریلوں میں ی عجیب ساد تضاد (دکھائی دیتا ) ہے کہ جس دور میں عورت سب سے زیادہ آزاد ہوئی ہے اسی دور میں اسے سب سے زیادہ '' جسم'' میں بدلا جارہا ہے (میڈیا) میں بھی اور سماج میں بھی ۔ کاروباری فلموں میں ی کام منی کی بدنامی اور شیلا کی جوانی کے بہانے ہوتا ہے اور نام نہاد آرٹ فلموں میں گندی گالیوں کے کھلے عام استعمال کرے ذریعے ۔
امریکی یونیورسٹی کہنے والی جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ مہذب لوگ اس کا ایم ایم ایس بنا کر تقسیم کرتے ہیں جیسے سارا کھیل اس بات کا ہو کہ یہ .....عورت قابو میں رہے ۔ ''
آج صحافت کا عروج خواہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک قوم کا اخلاقی زوال بن کر رہ گیا ہے لیکن بقول شاہنواز فاروقی ، '' ابھی یہ صورت حال صرف تشویشناک ہے لیکن جب ( الیکٹرانک میڈیا) کا عروج اس سطحیت کو قوم کا ذوق بنا دے گا تو ( الکٹرانک میڈیا ) کا عروج قومی شعور کے خلاف ایک کھلی سازش بن جائے گا ۔ اس لئے کہ قوم کیا فرد کے ذوق کو بدلنا بھی کوئی آسان نہ ہوگا ۔ ذوق برسوں میں بگڑ جاتا ہے اور کئی نسلوں کی قربانی کے بعد صحت کی طرف لوٹتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو ذوق کی بحالی میں صدیاں لگ جاتی ہیں ۔ آج پیس ٹی وی ، کیو ٹی وی ، اور مصالحہ ٹی وی سے لے کر کسی بھی تفریحی چینل تک عام پروگراموں کے سٹس Setsبھی پر تعیش زندگی کا اشتہار بنے نظر آتے ہیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ فحش کا تعلق عورت کے مخصوص لباس تراش خراش یا کم لباسی سے تھا لیکن نئی فلمیں نئے ٹی وی سیریل تو موضوعات میں بھی فحش کو گھسیٹ لائے ہیں ۔ اب طوائفوں ، کوٹھوں ، ہم جنسوں Gays & Lesbianکی زندگی پر فلم ، ڈرامے اور سیریل بن رہے ہیں اور کہا یہ جارہا ہے کہ آخر یہ بھی تو معاشرہ کا مسئلہ ہے جبکہ یہ سماج کی استثنائی مثالوں کو عمومی بنانے Generalizeکرنے کی کوشش ہے تاکہ فحش اور گناہ کے ساتھ جوStigmaبھی ہے وہ بھی ختم ہو جائے یہی فی الواقع ثقافتی دہشت گردی ہے آج میڈیا کا عروج قوم کا اخلاقی زول بن چکا ہے ۔ میڈیا کا یہ بحران تعلیمی نظام کی ابتری کا نتیجہ ہے کہ ادب ، آرٹ اور اقتصادیات کی طرح اسے بھی اخلاقی اقدار سے بے نیاز بنا دیا گیا ہے ۔
ممبئی یونیورسٹی میں چار سال سے صحافت کے پی جی ڈپلوما کورس کے اسٹوڈنٹس کو پڑھانے کے دوران ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ہمارے بی اے ، بی ایڈ حتی کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کئے ہوئے یا پی ایچ ڈی کے لئے رجسٹریشن کرائے ہوئے بعض طلباء تک اپنی مادری زبان میں بھی ١٥ سطور کا ایک ہم آہنگ ،مربوط اور با معنی پیراگراف نہیں لکھ سکتے املا کی غلطیاں ، جملوں میں باہم بے ربطی ، واحد، جمع اور تذکیر و تانیث کی غلطیاں یہ سب اس ایک پیراگراف میں بیک وقت موجود ہوتی ہیں شاہنواز فاروقی ہی کے لفظوں میں '' بولنے کی زبان بولنے ہی سے آتی ہے ۔ پڑھنے کی زبان پڑھنے سے اور لکھنے کی لکھنے سے آتی ہے لیکن مسئلہ کا حل اصلی جو شاہنواز فاروقی نے اپنے ٢٥ فروری والے کالم میں بیان کیا ہے ہم بھی اس سے پوری طرح متفق ہیں کہ '' ہم اپنے تعلیمی نظام میں مطالعہ کے رججان کو داخل کریں ۔ کتاب کو بکثرت اور مسلسل مطالعہ کتاب کو ہم اپنے تعلیمی نظام کا مرکزی حوالہ بنائیں ۔ ایسا نہیں ہوگا تو میڈیا کے عروج کے باوجود ہم بہت جلد مکمل طور پرا یک گونگی قوم بن جائیں گے ہمارے پاس سر ہوگا لیکن اس میں دماغ نہیں ہوگا ۔ ہمارے پاس دل ہوگا مگر اس میں دھڑکن نہیں ہوگی۔(بشکریہ 'نیا دور' لکھنؤ)
Add new comment