امام حسنؑ کی زندگی کا خلاصہ

تحریر و ترتیب۔ ایس ایچ بنگش

‎ آپ کی ولادت

‎ آپ ۱۵/ رمضان ۳ ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں پیداہوئے ۔ ولادت سے‎قبل ام الفضل نے خواب میں دیکھا کہ رسول اکرم(ص) کے جسم مبارک کا ایک‎ٹکڑا میرے گھر میں آ پہنچا ہے ۔ خواب رسول کریم سے بیان کیا آپ نے فرمایا
‎اس کی تعبیر یہ ہے کہ میری لخت جگر فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ‎پیداہوگا جس کی پرورش تم کرو گی۔ مورخین کا کہنا ہے کہ رسول کے گھر میں‎آپ کی پیدائش اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی۔ آپ کی ولادت نے رسول کے دامن‎سے مقطوع النسل ہونے کا دھبہ صاف کردیا اور دنیا کے سامنے سورئہ کوثرکی‎ایک عملی اور بنیادی تفسیر پیش کردی۔

‎آپ کانام نامی

‎ ولادت کے بعداسم گرامی حمزہ تجویز ہو رہاتھا لیکن سرورکائنات نے بحکم‎خدا، موسی کے وزیرہارون کے فرزندوں کے شبر و شبیر نام پرآپ کانام حسن اور‎بعد میں آپ کے بھائی کانام حسین رکھا، بحارالانوار میں ہے کہ امام حسن کی
‎پیدائش کے بعدجبرئیل امین نے سرورکائنات کی خدمت میں ایک سفید ریشمی‎رومال پیش کیا جس پرحسن لکھا ہوا تھا ماہر علم النسب علامہ ابوالحسین کا‎کہنا ہے کہ خداوندعالم نے فاطمہ کے دونوں شاہزادوں کانام انظارعالم سے
‎پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن وحسین نام سے کوئی موسوم نہیں ہوا‎تھا۔ کتاب اعلام الوری کے مطابق یہ نام بھی لوح محفوظ میں پہلے سے لکھا‎ہوا تھا۔

‎زبان رسالت دہن امامت میں

‎ علل الشرائع میں ہے کہ جب امام حسن کی ولادت ہوئی اورآپ سرورکائنات کی‎خدمت میں لائے گئے تو رسول کریم بےانتہا خوش ہوئے اور ان کے دہن مبارک‎میں اپنی زبان اقدس دیدی بحارالانور میں ہے کہ آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو
‎آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں ا قامت‎فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسن اسے چوسنے لگے اس‎کے بعدآپ نے دعاکی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا
‎بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ امام حسن کو لعاب دہن رسول کم اورامام حسین کو‎زیادہ چوسنے کاموقع دستیاب ہوا تھا اسی لیے امامت نسل حسین میں مستقر ہو‎گئی۔

‎آپ کا عقیقہ

‎ آپ کی ولادت کے ساتویں دن سرکارکائنات نے خود اپنے دست مبارک سے‎عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی (‎اسدالغابة جلد ۳ ص ۱۳) ۔

‎ علامہ کمال الدین کابیان ہے کہ عقیقہ کے سلسلے میں دنبہ ذبح کیا‎گیاتھا (مطالب السؤل ص ۲۲۰) کافی کلینی میں ہے کہ سرورکائنات نے عقیقہ کے‎وقت جو دعا پڑھی تھی اس میں یہ عبارت بھی تھی ”اللہم عظمہابعظمہ، لحمہا
‎بلحمہ دمہابدمہ وشعرہابشعرہ اللہم اجعلہا وقاء لمحمد والہ“ خدایا اس کی‎ہڈی مولودکی ہڈی کے عوض، اس کاگوشت اس کے گوشت کے عوض، اس کاخون اس کے‎خون کے عوض، اس کابال اس کے بال کے عوض قرار دے اور اسے محمد و آل محمد‎کے لیے ہر بلا سے نجات کا ذریعہ بنا دے ۔

‎امام شافعی رح کا کہنا ہے کہ آنحضرت نے امام حسن کاعقیقہ کرکے اس کے سنت‎ہونے کی دائمی بنیاد ڈل دی (مطالب السؤل ص ۲۲۰) ۔

‎بعض معاصرین نے لکھا ہے کہ آنحضرت نے آپ کاختنہ بھی کرایا تھا لیکن میرے‎نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ امامت کی شان سے مختون پیداہونا بھی ہے۔

‎ کنیت و القاب

‎ آپ کی کنیت صرف ابو محمدتھی اور آپ کے القاب بہت کثیرہیں: جن میں‎طیب،تقی، سبط اور سید زیادہ مشہور ہیں، محمدبن طلحہ شافعی کابیان ہے کہ‎آپ کا”سید“ لقب خود سرور کائنات کاعطا کردہ ہے (مطالب السؤل ص ۲۲۱) ۔

‎ زیارت عاشورہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کالقب ناصح اور امین بھی تھا۔

‎ امام حسن پیغمبر اسلام کی نظر میں‎ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ امام حسن اسلام پیغمبراسلام کے نواسے تھے لیکن‎قرآن نے انہیں فرزندرسول کادرجہ دیا ہے اوراپنے دامن میں جابجا آپ کے‎تذکرہ کو جگہ دی ہے خود سرورکائنات نے بے شمار احادیث آپ کے متعلق‎ارشادفرمائی ہیں:

‎پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عام و خاص نے بھت زیادہ احادیث‎بیان کی ھیں کہ آپ نے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام‎کے بارے میں فرمایا (۷)

‎”یہ دونوں میرے بیٹے امام ھیں، خواہ وہ اٹھیں یا بیٹھیں۔“ (کنایہ ھے‎ظاھری خلافت کے عھدیدار ھونے یا نہ ھونے کا)۔ حضرت امیرالمومنین علی علیہ‎السلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی آپ کے والد‎بزرگوار کی خلافت کے بعد آپ کی جانشینی کے بارے میں بھی بھت زیادہ‎احادیث موجود ھیں‎۔( ارشاد مفید )

‎رسول خدا(ص) فرماتے تھے: "پروردگارا! میں اس سے محبت کرتا ھوں تو بھی اس‎کو دوست رکھ" ۔ اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا: "حسن اور حسین جنت
‎کے جوانوں کے سردار ھیں۔"‎ایک دن امام حسن علیہ السلام اپنے نانا کی پشت پر سوار تھے ایک شخص نے

‎کھا: واہ کیا خوب سواری ھے!

‎پیغمبر(ص) نے فرمایا: بلکہ کیا خوب سوار ھیں!

‎ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ میں حسنین کودوست‎رکھتا ہوں اور جو انہیں دوست رکھے اسے بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔‎ ایک صحابی کابیان ہے کہ میں نے رسول کریم کو اس حال میں دیکھاہے کہ وہ

‎ایک کندھے پرامام حسن کو اور ایک کندھے پر امام حسین کو بٹھائے ہوئے لیے‎جارہے ہیں اورباری باری دونوں کا منہ چومتے جاتے ہیں ایک صحابی کابیان ہے‎کہ ایک دن آنحضرت نماز پڑھ رہے تھے اور حسنین آپ کی پشت پرسوار ہو گئے‎کسی نے روکناچاہا تو حضرت نے اشارہ سے منع کردیا(اصابہ جلد ۲ ص ۱۲) ۔

‎ ایک صحابی کابیان ہے کہ میں اس دن سے امام حسن کوبہت زیادہ دوست رکھنے‎لگا ہوں جس دن میں نے رسول کی آغوش میں بیٹھ کر انہیں داڈھی سے کھیلتے‎دیکھا(نورالابصارص ۱۱۹) ۔

‎ ایک دن سرور کائنات امام حسن کو کاندھے پر سوار کئے ہوئے کہیں لیے‎جارہے تھے ایک صحابی نے کہا کہ اے صاحبزادے تمہاری سواری کس قدر اچھی ہے‎یہ سن کرآنحضرت نے فرمایا یہ کہو کہ کس قدر اچھا سوار ہے (اسدالغابة جلد‎۳ ص ۱۵ بحوالہ ترمذی)۔

‎ امام بخاری اور امام مسلم لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت رسول خدا امام حسن‎کوکندھے پربٹھائے ہوئے فرما رہے تھے خدایا میں اسے دوست رکھتا ہوں توبھی‎اس سے محبت کر ۔‎ حافظ ابونعیم ابوبکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت نمازجماعت‎پڑھارہے تھے کہ ناگاہ امام حسن آ گئے اوروہ دوڑ کر پشت رسول پرسوار ہو‎گئے یہ دیکھ کررسول کریم نے نہایت نرمی کے ساتھ سراٹھایا،اختتام نمازپرآپ‎سے اس کاتذکرہ کیا گیا تو فرمایا یہ میراگل امید ہے“۔” ابنی ہذا سید“ یہ‎میرابیٹا سید ہے اوردیکھو یہ عنقریب دوبڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔

‎ امام نسائی عبداللہ ابن شداد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نمازعشاء‎پڑھانے کے لیے آنحضرت تشریف لائے آپ کی آغوش میں امام حسن تھے آنحضرت‎نماز میں مشغول ہوگئے ، جب سجدہ میں گئے تو اتنا طول دیا کہ میں یہ
‎سمجھنے لگا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے اختتام نماز پر آپ سے اس‎کا ذکر کیا گیا توفرمایا کہ میرافرزندمیری پشت پر آ گیا تھا میں نے یہ نہ‎چاہاکہ اسے اس وقت تک پشت سے اتاروں ،جب تک کہ وہ خود نہ اترجائے ، اس‎لیے سجدہ کوطول دیناپڑا۔

‎ حکیم ترمذی ،نسائی اور ابوداؤد نے لکھا ہے کہ آنحضرت ایک دن محو خطبہ‎تھے کہ حسنین آ گئے اورحسن کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمین‎پرگرپڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کردیا اور منبر سے اتر کر انہیں
‎آغوش میں اٹھا لیا اور منبر پرتشریف لے جاکرخطبہ شروع فرمایا (مطالب‎السؤل ص ۲۲۳) ۔

‎ امام حسن کی سرداری جنت

‎آل محمدکی سرداری مسلمات سے ہے علماء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ‎سرورکائنات نے ارشاد فرمایا ہے ”الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة ‎وابوہماخیرمنہما“ حسن اورحسین جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے‎والدبزرگوار یعنی علی بن ابی طالب ان دونوں سے بہترہیں۔

‎جناب حذیفہ یمانی کابیان ہے کہ میں نے آنحضرت کو ایک دن بہت زیادہ مسرور‎پاکرعرض کی مولاآج افراط شادمانی کی کیا وجہ ہے ارشادفرمایا کہ مجھے آج‎جبرئیل نے یہ بشارت دی ہے کہ میرے دونوں فرزندحسن وحسین جوانان بہشت کے‎سردارہیں اور ان کے والدعلی ابن ابی طالب ان سے بھی بہتر ہیں (کنزالعمال‎ج ۷ ص ۱۰۷ ،صواعق محرقہ ص ۱۱۷) اس حدیث سے اس کی بھی وضاحت ہو گئی کہ‎حضرت علی صرف سیدہی نہ تھے بلکہ فرزندان سیادت کے باپ تھے۔

 

‎ جذبہ اسلام کی فراوانی

‎ مؤرخین کابیان ہے کہ ایک دن ابوسفیان حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہو‎کرکہنے لگا کہ آپ آنحضرت سے سفارش کرکے ایک ایسا معاہدہ لکھوا دیجئے جس‎کی رو سے میں اپنے مقصدمیں کامیاب ہو سکوں آپ نے فرمایا کہ آنحضرت جو کچھ‎کہہ چکے ہیں اب اس میں سرموفرق نہ ہوگا اس نے امام حسن سے سفارش کی خواہش‎کی ،آپ کی عمراگرچہ اس وقت صرف ۱۴ ماہ کی تھی لیکن آپ نے اس وقت ایسی‎جرائت کاثبوت دیاجس کاتذکرہ زبان تاریخ پر ہے ۔ لکھاہے کہ ابوسفیان کی‎طلب سفارش پر آپ نے دوڑکر اس کی داڑھی پکڑ لی اورناک مروڑ کر کہا کلمہ‎شہادت زبان پرجاری کرو،تمہارے لیے سب کچھ ہے یہ دیکھ کرامیرالمومنین‎مسرور ہو گئے (مناقب آل ابی طالب جلد ۴ ص ۴۶) ۔

‎امام حسن اور ترجمانی وحی

‎ علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ امام حسن کا یہ وطیرہ تھا کہ آپ انتہائی‎کم سنی کے عالم میں اپنے نانا پرنازل ہونے والی وحی من وعن اپنی والدہ‎ماجدہ کو سنا دیا کرتے تھے ایک دن حضرت علی نے فرمایا کہ اے بنت رسول
‎میراجی چاہتا ہے کہ میں حسن کو ترجمانی وحی کرتے ہوئے خود دیکھوں، اور‎سنوں، سیدہ نے امام حسن کے پہنچنے کاوقت بتادیا ۔ ایک دن امیرالمومنین‎حسن سے پہلے داخل خانہ ہوگئے اورگوشئہ خانہ میں چھپ کربیٹھ گئے۔ امام
‎حسن حسب معمول تشریف لائے اورماں کی آغوش میں بیٹھ کر وحی سنانا شروع‎کردی لیکن تھوڑی دیرکے بعد عرض کی ”یااماہ قدتلجلج لسانی وکل بیانی لعل‎سیدی یرانی“مادرگرامی آج زبان وحی ترجمان میں لکنت اوربیان مقصدمیں رکاوٹ‎ہورہی ہے مجھے ایسامعلوم ہوتاہے کہ جیسے میرے بزرگ محترم مجھے دیکھ رہے‎ہیں یہ سن کرحضرت امیرالمومنین نے دوڑ کر امام حسن کو آغوش میں اٹھا لیا‎اور بوسہ دینے لگے(بحارالانوارجلد ۱۰ ص ۱۹۳) ۔

‎ام حسن اور تفسیر قرآن

‎ علامہ ابن طلحہ شافعی بحوالہ تفیر و سیط واحدی لکھتے ہیں کہ‎ایک شخص نے ابن عباس اورابن عمرسے ایک آیت سے متعلق ”شاہد و مشہود“ کے‎معنی دریافت کئے ابن عباس نے شاہد سے یوم جمعہ اور مشہود سے یوم عرفہ
‎بتایا اور ابن عمرنے یوم جمعہ اور یوم النحر کہا اس کے بعدوہ شخص امام‎حسن کے پاس پہنچا، آپ نے شاہدسے رسول خدا اور مشہود سے یوم قیامت فرمایا‎اور دلیل میں آیت پڑھی :

‎ ۱ ۔ یاایہاالنبی اناارسلناک شاہدا ومبشرا ونذیرا ۔ائے نبی ہم
‎نے تم کوشاہد و مبشر اورنذیربناکربھیجاہے ۔

‎ ۲ ۔ ذالک یوم مجموع لہ الناس وذالک یوم مشہود۔ قیامت کاوہ دن‎ہوگا جس میں تمام لوگ ایک مقام پرجمع ہوں کردیے جائیں کے، اوریہی یوم‎مشہود ہے ۔ سائل نے سب کاجواب سننے کے بعدکہا ”فکان قول الحسن احسن“ امام
‎حسن کا جواب دونوں سے کہیں بہترہے (مطالب السؤل ص ۲۲۵) ۔

‎ امام حسن کی عبادت

‎ امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام زبردست عابد، بے‎مثل زاہد، افضل ترین عالم تھے آپ نے جب بھی حج فرمایاپیدل فرمایا، کبھی‎کبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے آپ اکثرموت، عذاب، قبر، صراط اور بعثت و
‎نشور کویاد کرکے رویاکرتے تھے جب آپ وضو کرتے تھے توآپ کے چہرہ کارنگ زرد‎ہوجا یاکرتاتھا اورجب نمازکے لیے کھڑ ے ہوتے تھے توبیدکی مثل کانپنے لگتے‎تھے آپ کامعمول تھاکہ جب دروازہ مسجدپرپہنچتے توخدا کو مخاطب کرکے کہتے‎میرے پالنے والے تیراگنہگاربندہ تیری بارگاہ میں آیاہے اسے رحمن ورحیم‎اپنے اچھائیوں کے صدقہ میں مجھ جیسے برائی کرنے والے بندہ کومعاف کردے آپ‎جب نماز صبح سے فارغ ہوتے تھے تواس وقت تک خاموش بیٹھے رہتے تھے جب تک‎سورج طالع نہ ہوجائے (روضة الواعظین بحارالانوار)۔

‎آپ کازہد

‎ امام شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے اکثراپناسارامال راہ‎خدامیں تقسیم کردیاہے اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایاہے وہ عظیم و‎پرہیزگارتھے۔

‎ آپ کی سخاوت

‎ مورخین لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام حسن علیہ السلام سے کچھ‎مانگادست سوال دراز ہوناتھاکہ آپ نے پچاس ہزار درہم اور پانچ سو اشرفیاں‎دے دیں اور فرمایاکہ مزدور لاکراسے اٹھوالے جا اس کے بعدآپ نے مزدورکی
‎مزدوری میں اپناچغابخش دیا(مراة الجنان ص ۱۲۳) ۔

‎ ایک مرتبہ آپ نے ایک سائل کوخداسے دعاکرتے دیکھا خدایا مجھ دس ہزار‎درہم عطا فرما آپ نے گھرپہنچ کر مطلوبہ رقم بھجوادی (نورالابصار ص ۱۲۲) ۔

‎ آپ سے کسی نے پوچھاکہ آپ توفاقہ کرتے ہیں لیکن سائل کومحروم واپس نہیں‎فرماتے ارشادفرمایاکہ میں خداسے مانگنے والاہوں اس نے مجھے دینے کی عادت‎ڈال رکھی ہے اورمیں نے لوگوں کودینے کی عادت ڈالی رکھی ہے میں ڈرتاہوں کہ‎اگراپنی عادت بدل دوں، توکہیں خدابھی نہ اپنی عادت بدل دے اورمجھے بھی‎محروم کردے (ص ۱۲۳) ۔

‎توکل کے متعلق آپ کاارشاد

‎ امام شافعی کابیان ہے کہ کسی نے امام حسن سے عرض کی کہ ابوذرغفاری‎فرمایاکرتے تھے کہ مجھے تونگری سے زیادہ ناداری اورصحت سے زیادہ بیماری‎پسندہے آپ نے فرمایاکہ خدا ابوذر پر رحم کرے ان کاکہنادرست ہے لیکن میں‎تویہ کہتاہوں کہ جوشخص خداکے قضا و قدر پر توکل کرے وہ ہمیشہ اسی‎چیزکوپسند کرے گا جسے خدااس کے لیے پسندکرے (مراة الجنان جلد ۱ ص ۱۲۵) ۔

‎امام حسن حلم اور اخلاق کے میدان میں

‎ علامہ ابن شہرآشوب تحریرفرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت امام حسن علیہ السلام‎گھوڑے پرسوارکہیں تشریف لیے جارہے تھے راستہ میں معاویہ کے طرف داروں‎کاایک شامی سامنے آپڑا اس نے حضرت کوگالیاں دینی شروع کردیں آپ نے اس کا‎مطلقا کوئی جواب نہ دیا جب وہ اپنی جیسی کرچکاتوآپ اس کے قریب گئے اوراس‎کوسلام کرکے فرمایاکہ بھائی شایدتومسافرہے، سن اگرتجھے سواری کی ضرورت‎ہوتومیں تجھے سوری دیدوں، اگرتوبھوکاہے توکھاناکھلادوں، اگرتجھے کپڑے‎درکارہوں توکپڑے دیدوں، اگرتجھے رہنے کوجگہ چاہئے تو مکان کاانتظام‎کردوں، اگر دولت کی ضرورت ہے توتجھے اتنا دیدوں کہ توخوش حال ہوجائے یہ‎سن کرشامی بے انتہا شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ‎زمین خداپراس کے خلیفہ ہیں مولامیں توآپ کواورآپ کے باپ دادا کوسخت نفرت‎اورحقارت کی نظرسے دیکھتاتھا لیکن آج آپ کے اخلاق نے مجھے آپ کاگردیدہ‎بنادیا اب میں آپ کے قدموں سے دورنہ جاؤں گا اورتاحیات آپ کی خدمت
‎میںرہوں گا (مناقب جلد ۴ ص ۵۳ ،وکامل مبروج جلد ۲ ص ۸۶) ۔

شرائط صلح

‎ اس صلح نامہ کے مکمل شرائط حسب ذیل ہیں:

‎ 1 ۔ معاویہ حکومت اسلام میں، کتاب خدا اور سنت رسول پرعمل کریں گے۔

‎2- معاویہ کواپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کرنے کاحق نہ ہوگا۔

‎3- شام و عراق و حجاز و یمن سب جگہ کے لوگوں کے لیے امان ہوگی۔

‎۴- حضرت علی کے اصحاب اور شیعہ جہاں بھی ہیں ان کے جان و مال اور ناموس
‎اور اولاد محفوظ رہیں گے۔

‎۵- معاویہ، حسن بن علی اوران کے بھائی حسین ابن علی اور خاندان رسول میں
‎سے کسی کوبھی کوئی نقصان پہنچانے یاہلاک کرنے کی کوشش نہ کریں گے نہ خفیہ
‎طورپراورنہ اعلانیہ، اوران میں سے کسی کو کسی جگہ دھمکایا اور ڈرایانہیں
‎جائے گا۔

‎۶- جناب امیرالمومنین کی شان میں کلمات نازیبا جواب تک مسجد جامع اور
‎قنوت نماز میں استعمال ہوتے رہے ہیں وہ ترک کردئیے جائیں، آخری شرط کی
‎منظوری میں معاویہ کو عذرہوا تویہ طے پایاکہ کم از کم جس موقع پر امام
‎حسن علیہ السلام موجودہوں اس جگہ ایسانہ کیاجائے، یہ معاہدہ ربیع الاول
‎یاجمادی الاول۴۱ ء ہجری کوعمل میں آیا۔

‎ صلح نامہ پردستخط

‎ ۲۵/ ربیع الاول کو کوفہ کے قریب مقام انبارمیں فریقین کااجتماع ہوا
‎اور صلح نامہ پردونوں کے دستخط ہوئے اورگواہیاں ثبت ہوئیں (نہایة الارب
‎فی معرفتہ انساب العرب ص ۸۰)

‎ اس کے بعد معاویہ نے اپنے لیے عام بیعت کااعلان کردیااوراس سال
‎کانام سنت الجماعت رکھا پھرامام حسن کوخطبہ دینے پرمجبورکیا آپ
‎منبرپرتشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا:

‎”ائے لوگوں خدائے تعالی نے ہم میں سے اول کے ذریعہ سے تمہاری ہدایت کی
‎اورآخرکے ذریعہ سے تمہیں خونریزی سے بچایا معاویہ نے اس امرمیں مجھ سے
‎جھگڑاکیاجس کامیں اس سے زیادہ مستحق ہوں لیکن میں نے لوگوں کی خونریزی کی
‎نسبت اس امرکو ترک کردینا بہتر سمجھا تم رنج و ملال نہ کروکہ میں نے
‎حکومت اس کے نااہل کودے دی اوراس کے حق کوجائے ناحق پررکھا، میری نیت اس
‎معاملہ میں صرف امت کی بھلائی ہے یہاں تک فرمانے پائے تھے کہ معاویہ نے
‎کہا”بس ائے حضرت زیادہ فرمانے کی ضرورت نہیں ہے“ (تاریخ خمیس جلد ۲ ص
‎۳۲۵) ۔

‎تکمیل صلح کے بعد امام حسن نے صبر و استقلال اور نفس کی بلندی کے ساتھ ان
‎تمام ناخوشگوار حالات کوبرداشت کیا اور معاہدہ پرسختی کے ساتھ قائم رہے
‎مگر ادھر یہ ہواکہ امیرشام نے جنگ کے ختم ہوتے ہی اور سیاسی اقتدارکے
‎مضبوط ہوتے ہی عراق میں داخل ہوکرنخیلہ میں جسے کوفہ کی سرحد سمجھنا
‎چاہئے، قیام کیا اور جمعہ کے خطبہ کے بعد اعلان کیاکہ میرا مقصد جنگ سے
‎یہ نہ تھا کہ تم لوگ نماز پڑھنے لگو روزے رکھنے لگو، حج کرو یا زکواة
‎اداکرو، یہ سب توتم کرتے ہی ہومیرا مقصد تویہ تھاکہ میری حکومت تم پرمسلم
‎ہوجائے اوریہ مقصدمیراحسن کے اس معاہدہ کے بعدپوراہوگیا اورباوجودتم
‎لوگوں کی ناگواری کے میں کامیاب ہوگیا رہ گئے وہ شرائط جومیں نے حسن کے
‎ساتھ کئے ہیں وہ سب میرے پیروں کے نیچےہیں ان کاپوراکرنا یانہ کرنا میرے
‎ہاتھ کی بات ہے یہ سن کرمجمع میں ایک سناٹاچھاگیا مگراب کس میں دم تھا کہ
‎اس کے خلاف زبان کھولتا۔

‎ شرائط صلح کاحشر

‎مورخین کااتفاق ہے کہ امیرمعاویہ جومیدان سیاست کے کھلاڑی اور مکر و زور
‎کی سلطنت کے تاجدار تھے امام حسن سے وعدہ اور معاہدہ کے بعد ہی سب سے مکر
‎گئے ”ولم یف لہ معاویة لشئی مماعاہد علیہ“ تاریخ کامل ابن اثیرجلد ۳ ص
‎۱۶۲ میں ہے کہ معاویہ نے کسی ایک چیزکی بھی پرواہ نہ کی اورکسی پرعمل نہ
‎کیا، امام ابوالحسن علی بن محمدلکھتے ہیں کہ جب معاویہ کے لیے امر سلطنت
‎استوراہوگیاتواس نے اپنے حاکموں کوجو مختلف شہروں اور علاقوں میں تھے یہ
‎فرمان بھیجاکہ اگرکوئی شخص ابوتراب اوراس کے اہل بیت کی فضیلت کی روایت
‎کرے گاتومیں اس سے بری الذمہ ہوں، جب یہ خبرتمام ملکوں میں پھیل گئی اور
‎لوگوں کو معاویہ کامنشاء معلوم ہوگیاتوتمام خطیبوں نے منبروں پر سب و شتم
‎اور منقصت امیرالمومنین پرخطبہ دینا شروع کردیا کوفہ میں زیادابن ابیہ
‎جوکئی برس تک حضرت علی علیہ السلام کے عہدمیں ان کے عمال میں رہ چکاتھا
‎وہ شیعیان علی کواچھی طرح سے جانتاتھا ۔ مردوں،عورتوں، جوانوں، اوربوڑھوں
‎سے اچھی طرح آگاہ تھا اسے ہرایک رہائش اورکونوں اورگوشوں میں بسنے والوں
‎کاپتہ تھا اسے کوفہ اوربصرہ دونوں کاگورنربنادیاگیاتھا۔

‎اس کے ظلم کی یہ حالت تھی کہ شیعیان علی کوقتل کرتااوربعضوں کی آنکھوں
‎کوپھوڑدیتا اور بعضوں کے ہاتھ پاؤں کٹوادیتاتھا اس ظلم عظیم سے سینکڑوں
‎تباہ ہوگئے، ہزاروں جنگلوں اورپہاڑوں میں جاچھپے، بصرہ میں آٹھ ہزار
‎آدمیوں کاقتل واقع ہواجن میں بیالیس حافظ اورقاری قرآن تھے ان پرمحبت علی
‎کاجرم عاید کیاگیا تھا حکم یہ تھا کہ علی کے بجائے عثمان کے فضائل بیان
‎کئے جائیں اورعلی کے فضائل کے متعلق یہ فرمات تھاکہ ایک ایک فضیلت کے عوض
‎دس دس منقصت ومذمت تصنیف کی جائیں یہ سب کچھ امیرالمومنین سے بدلالینے
‎اور یزیدکے لیے زمین خلافت ہموارکرنے کی خاطرتھا۔

‎ کوفہ سے امام حسن کی مدینہ کوروانگی

‎صلح کے مراحل طے ہونے کے بعد امام حسن علیہ السلام اپنے بھائی امام حسین
‎علیہ السلام اور عبداللہ ابن جعفر اور اپنے اطفال و عیال کولے کر مدینہ
‎کی طرف روانہ ہوگئے تاریخ اسلام مسٹر ذاکرحسین کی جلد ۱ ص ۳۴ میں ہے کہ
‎جب آپ کوفہ سے مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تومعاویہ نے راستہ میں ایک پیغام
‎بھیجااوروہ یہ تھا کہ آپ خوارج سے جنگ کرنے کے لیے تیارہوجائیں کیونکہ
‎انہوں نے میری بیعت ہوتے ہی پھرسرنکالاہے امام حسن نے جواب دیا کہ اگر
‎خونریزی مقصودہوتی تومیں تجھ سے صلح کیوں کرتا۔

‎جسٹس امیرعلی اپنی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں کہ خوارج ابوبکر اور عمر
‎کومانتے اور حضرت علی علیہ السلام اور عثمان غنی کونہیں تسلیم کرتے تھے
‎اوربنی امیہ کومرتد کہتے تھے۔

‎صلح حسن اور اس کے وجوہ و اسباب

‎ استاذی العلام حضرت علامہ سیدعدیل اختر اعلی اللہ مقامہ (سابق پرنسپل
‎مدرسة الواعظین لکھنؤ) اپنی کتاب تسکین الفتن فی صلح الحسن کے ص ۱۵۸ میں
‎تحریر فرماتے ہیں :

‎ امام حسن کی پالیسی بلکہ جیساکہ باربارلکھاجاچکاہے کل اہلبیت کی
‎پالیسی ایک اورصرف ایک تھی (دراسات اللبیب ص ۲۴۹) ۔وہ یہ کہ حکم خدا اور
‎حکم رسول کی پابندی انہیں کے احکام کااجراء چاہئے، اس مطلب کے لیے
‎جوبرداشت کرناپڑے، مذکورہ بالاحالات میں امام حسن کے لیے سوائے صلح
‎کیاچارہ ہوسکتاتھا اس کوخود صاحبان عقل سمجھ سکتے ہیں کسی استدلال کی
‎چنداں ضرورت نہیں ہے یہاں پرعلامہ ابن اثیرکی یہ عبارت (جس کاترجمہ درج
‎کیاجاتاہے) قابل غورہے:

‎”کہاگیاہے کہ امام حسن نے حکومت معاویہ کواس لیے سپردکی کہ جب معاویہ نے
‎خلافت حوالے کرنے کے متعلق آپ کوخط لکھااس وقت آپنے خطبہ پڑھا اورخداکی
‎حمدوثناکے بعدفرمایاکہ دیکھوہم کوشام والوں سے اس لیے نہیں دبناپڑرہاہے
‎(کہ اپنی حقیقت میں) ہم کوکوئی شک یاندامت ہے بات توفقط یہ ہے کہ ہم اہل
‎شام سے سلامت اورصبرکے ساتھ لڑرہے تھے مگراب سلامت میں عداوت اورصبرمیں
‎فریاد مخلوط کردی گئی ہے جب تم لوگ صفین کوجارہے تھے اس وقت تمہارادین
‎تمہاری دنیاپرمقدم تھا لیکن اب تم ایسے ہوگئے ہوکہ آج تمہاری دنیاتمہارے
‎دین پرمقدم ہوگئی ہے اس وقت تمہارے دونوں طرف دوقسم کے مقتول ہیں ایک
‎صفین کے مقتول جن پررورہے ہودوسرے نہروان کے مقتول جن کے خون کابدلہ
‎لیناچاہ رہے ہوخلاصہ یہ کہ جوباقی ہے وہ ساتھ چھوڑنے والاہے اورجورورہاہے
‎وہ توبدلہ لیناہی چاہتاہے خوب سمجھ لوکہ معاویہ نے ہم کوجس امرکی دعوت دی
‎ہے نہ اس میں عزت ہے اورنہ انصاف ، لہذا اگرتم لوگ موت پرآمادہ ہوتوہم اس
‎کی دعوت کوردکردیں اورہمارااوراس کافیصلہ خداکے نزدیک بھی تلوارکی باڑھ
‎سے ہوجائے اوراگرتم زندگی چاہتے ہوتوجواس نے لکھاہے مان لیاجائے
‎اورجوتمہاری مرضی ہے ویساہوجائے، یہ سنناتھا کہ ہرطرف سے لوگوں نے
‎چلاناشروع کردیابقابقا، صلح صلح، (تاریخ کامل جلد ۳ ص ۱۶۲) ۔

‎ ناظرین انصاف فرمائیں کہ کیااب بھی امام حسن کے لیے یہ رائے ہے
‎کہ صلح نہ کریں ان فوجیوں کے بل بوتے پر(اگرایسوں کہ فوج اوران کی قوتوں
‎کوبل بوتا کہاجاسکے) لڑائی زیباہے ہرگزنہیں ایسے حالات میں صرف یہی چارہ
‎تھاکہ صلح کرکے اپنی اوران تمام لوگوں کی زندگی تومحفوظ رکھیں جودین رسول
‎کے نام لیوا اورحقیقی پیروپابندتھے ،اس کے علاوہ پیغمبراسلام کی پیشین
‎گوئی بھی صلح کی راہ میں مشعل کاکام کررہی تھی (بخاری) علامہ
‎محمدباقرلکھتے ہیں کہ حضرت کواگرچہ کی وفائے صلح پراعتماد نہیںتھالیکن آپ
‎نے حالات کے پیش نظرچاروناچاردعوت صلح منظورکرلی (دمعئہ ساکبہ)۔

 

‎حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت

‎مورخین کااتفاق ہے کہ امام حسن اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نیشین
‎ہوگئے تھے ،لیکن امیرمعاویہ آپ کے درپئے آزاررہے انہوں نے باربار کوشش کی
‎کسی طرح امام حسن اس دارفانی سے ملک جاودانی کوروانہ ہوجائیں اوراس سے ان
‎کامقصدیزیدکی خلافت کے لیے زمین ہموارکرناتھی، چنانچہ انہوں نے ۵/ بارآپ
‎کوزہردلوایا ،لیکن ایام حیات باقی تھے زندگی ختم نہ ہوسکی ،بالاخرہ شاہ
‎روم سے ایک زبردست قسم کازہرمنگواکرمحمدابن اشعث یامروان کے ذریعہ سے
‎جعدہ بنت اشعث کے پاس امیرمعاویہ نے بھیجا اورکہلادیاکہ جب امام حسن
‎شہدہوجائیں گے تب ہم تجھے ایک لاکھ درہم دیں گے اورتیراعقد اپنے بیٹے
‎یزید کے ساتھ کردیں گے چنانچہ اس نے امام حسن کوزہردے کرے ہلاک
‎کردیا،(تاریخ مروج الذہب مسعودی جلد ۲ ص ۳۰۳ ،مقاتل الطالبین ص ۵۱ ،
‎ابوالفداء ج ۱ ص ۱۸۳ ،روضةالصفاج ۳ ص ۷ ، حبیب السیر جلد ۲ ص ۱۸ ،طبری ص
‎۶۰۴ ،استیعاب جلد ۱ ص ۱۴۴) ۔

‎مفسرقرآن صاحب تفسیر حسینی علامہ حسین واعظ کاشفی رقمطرازہیں کہ امام حسن
‎مصالحہ معاویہ کے بعدمدینہ میں مستقل طورپرفروکش ہوگئے تھے آپ کواطلاع
‎ملی کہ بصرہ میں رہنے والے محبان علی کے اوپرچنداوباشوں نے شبخون مارکران
‎کے ۳۸ آدمی ہلاک کردئیے ہیں امام حسن اس خبرسے متاثرہوکربصرہ کے لیے
‎روانہ ہوگئے آپ کے ہمراہ عبداللہ ابن عباس بھی تھے ،راستے میں بمقام
‎موصلی سعدموصلی جوجناب مختارابن ابی عبیدہ ثقفی کے چچاتھے کے وہاں قیام
‎فرمایا اس کے بعدوہاں سے روانہ ہوکردمشق سے واپسی پرجب آپ موصل پہنچے
‎توباصرارشدیدایک دوسرے شخص کے ہاں مقیم ہوئے اوروہ شخص معاویہ کے فریب
‎میں آچکاتھا اورمال ودولت کی وجہ سے امام حسن کوزہردینے کاوعدہ کرچکاتھا
‎چنانچہ دوران قیام میں اس نے تین بارحضرت کوکھانے میں زہردیا، لیکن آپ بچ
‎گئے ۔

‎ امام کے محفوظ رہ جانے سے اس شخص نے معاویہ کوخط لکھا کہ تین بارزہردیے
‎چکاہوں مگر امام حسن ہلاک نہیں ہوئے یہ معلوم کرکے معاویہ نے زہر ہلاہل
‎ارسال کیا اورلکھاکہ اگراس کاایک قطرہ بھی تودے سکاتویقینا امام حسن ہلاک
‎ہوجائیں گے نامہ برزہراورخط لیے ہوئے آرہاتھا کہ راستے میں ایک درخت کے
‎نیچے کھاناکھاکرلیٹ گیا ،اس کے پیٹ میں درداٹھا کہ وہ برداشت نہ
‎کرسکاناگاہ ایک بھیڑیابرامد ہوا اوراسے لے کر رفوچکرہوگیا، اتفاقا امام
‎حسن کے ایک ماننے والے کااس طرف سے گزرہوا، اس نے ناقہ، اورزہر سے
‎بھرہوئی بوتل حاصل کرلی اور امام حسن کی خدمت میںپیش کیا،امام علیہ
‎السلام نے اسے ملاحظہ فرما کرجانماز کے نیچے رکھ لیاحاضرین نے واقعہ
‎دریافت کیاامام نے نہ بتایا۔

‎ سعدموصلی نے موقع پاکرجانمازکے نیچے سے وہ خط نکال لیاجومعاویہ کی طرف
‎سے امام کے میزبان کے نام سے بھیجاگیاتھا خط پڑھ کر سعدموصلی آگ بگولہ
‎ہوگئے اورمیزبان سے پوچھاکیامعاملہ ہے، اس نے لاعلمی ظاہرکی مگراس کے
‎عذرکوباورنہ کیاگیا اوراس کی زدوکوب کی گئی یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوگیا اس
‎کے بعدآپ روانہ مدینہ ہوگئے۔

‎ مدینہ میں اس وقت مروان بن حکم والی تھا اسے معاویہ کاحکم تھاکہ جس
‎صورت سے ہوسکے امام حسن کوہلاک کردو مروان نے ایک رومی دلالہ جس کانام
‎”الیسونیہ“ تھا کوطلب کیااوراس سے کہا کہ تو جعدہ بنت اشعث کے پاس
‎جاکراسے میرایہ پیغام پہنچادے کہ اگرتوامام حسن کوکسی صورت سے شہید کردے
‎گی توتجھے معاویہ ایک ہزاردینارسرخ اورپچاس خلعت مصری عطاکرے گا اوراپنے
‎بیٹے یزیدکے ساتھ تیرا عقد کردے گا اوراس کے ساتھ ساتھ سودینا نقد بھیج
‎دئیے دلالہ نے وعدہ کیا اور جعدہ کے پاس جاکراس سے وعدہ لے لیا، امام حسن
‎اس وقت گھرمیں نہ تھے اوربمقام عقیق گئے ہوئے تھے اس لیے دلالہ کوبات چیت
‎کااچھاخاصا موقع مل گیا اوروہ جعدہ کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔

‎ الغرض مروان نے زہربھیجااورجعدہ نے امام حسن کوشہدمیں ملاکر
‎دیدیا امام علیہ السلام نے اسے کھاتے ہی بیمارہوگیے اورفوراروضہ رسول
‎پرجاکر صحت یاب ہوئے زہرتوآپ نے کھالیا لیکن جعدہ سے بدگمان بھی ہوگئے،
‎آپ کوشبہ ہوگیا جس کی بناپرآپ نے اس کے ہاتھ کاکھاناپیناچھوڑدیااوریہ
‎معمول مقررکرلیاکہ حضرت قاسم کی ماں یاحضرت امام حسین کے گھرسے
‎کھانامنگاکرکھانے لگے ۔

‎ تھوڑے عرصہ کے بعد آپ جعدہ کے گھرتشر یف لے گئے اس نے کہاکہ
‎مولا حوالی مدینہ سے بہت عمدہ خرمے آئے ہیں حکم ہوتوحاضرکروں آپ چونکہ
‎خرمے کوبہت پسندکرتے تھے فرمایالے آ،وہ زہرآلودخرمے لے کرآئی اورپہچانے
‎ہوئے دانے چھوڑکرخودساتھ کھانے لگی امام نے ایک طرف سے کھانا شروع کیا
‎اوروہ دانے کھاگئے جن میں زہرتھا اس کے بعد امام حسین کے گھر تشریف لائے
‎اورساری رات تڑپ کربسرکی، صبح کوروضة رسول پرجاکردعامانگی اور صحتیاب
‎ہوئے_

‎ امام حسن نے بارباراس قسم کی تکلیف اٹھانے کے بعداپنے بھائیوں سے تبدیلی
‎آب وہواکے لیے موصل جانے کامشورہ کیااورموصل کے لیے روانہ ہوگئے، آپ کے
‎ہمراہ حضرت عباس اورچند ہواخواہان بھی گئے، ابھی وہاں چندیوم نہ گزرے تھے
‎کہ شام سے ایک نابینا بھیج دیاگیا اوراسے ایک ایسا عصادیاگیاجس کے نیچے
‎لوہالگایاہواتھا جوزہرمیں بجھاہواتھا اس نابینا نے موصل پہنچ کر امام حسن
‎کے دوستداران میں سے اپنے کوظاہرکیا اورموقع پاکر ان کے پیرمیں اپنے
‎عصاکی نوک چبھودی زہرجسم میں دوڑگیا اور آپ علیل ہوگئے، جراح علاج کے لیے
‎بلایاگیا، اس نے علاج شروع کیا، نابینا زخم لگاکر روپوش ہوگیاتھا، چودہ
‎دن کے بعدجب پندرہویں دن وہ نکل کرشام کی طرف روانہ ہواتو حضرت عباس
‎علمدارکی اس پرنظرجاپڑی آپ نے اس سے عصاچھین کراس کے سرپراس زورسے ماراکہ
‎سرشگافتہ ہوگیااوروہ اپنے کیفروکردارکوپہنچ گیا ۔

‎ اس کے بعد جناب مختار اوران کے چچا سعد موصلی نے اس کی لاش
‎جلادی چنددنوں کے بعدحضرت امام حسن مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے۔

‎ مدینہ منور میں آپ ایام حیات گزاررہے تھے کہ ”ایسونیہ“ دلالہ
‎نے پھرباشارئہ مروان جعدہ سے سلسلہ جنبائی شروع کردی اورزہرہلاہل اسے دے
‎کرامام حسن کاکام تمام کرنے کی خواہش کی، امام حسن چونکہ اس سے بدگمان
‎ہوچکے تھے اس لےے اس کی آمدورفت بندتھی اس نے ہرچندکوشش کی لیکن موقع نہ
‎پاسکی بالآخر، شب بست وہشتم صفر ۵۰ کووہ اس جگہ جاپہنچی جس مقام پرامام
‎حسن سورہے تھے آپ کے قریب حضرت زینب وام کلثوم سورہی تھیں اورآپ کی
‎پائیتی کنیزیں محوخواب تھیں، جعدہ اس پانی میں زہرہلاہل ملاکرخاموشی سے
‎واپس آئی جوامام حسن کے سرہانے رکھاہواتھا اس کی واپسی کے تھوڑی دیربعدہی
‎امام حسن کی آنکھ کھلی آپ نے جناب زینب کوآوازدی اورکہا ائے بہن، میں نے
‎ابھی ابھی اپنے نانااپنے پدر بزرگوار اور اپنی مادرگرامی کوخواب میں
‎دیکھاہے وہ فرماتے تھے کہ اے حسن تم کل رات ہمارے پاس ہوگے، اس کے بعدآپ
‎نے وضوکے لیے پانی مانگااورخوداپناہاتھ بڑھاکرسرہانے سے پانی لیا اورپی
‎کرفرمایاکہ اے بہن زینب ”این چہ آپ بودکہ ازسرحلقم تابناقم پارہ پارہ شد“
‎ہائے یہ کیساپانی ہے جس نے میرے حلق سے ناف تک ٹکڑے ٹکڑے کردیاہے اس کے
‎بعدامام حسین کواطلاع دی گئی وہ آئے دونوں بھائی بغل گیرہوکرمحوگریہ
‎ہوگئے، اس کے بعدامام حسین نے چاہاکہ ایک کوزہ پانی خودپی کرامام حسن کے
‎ساتھ ناناکے پاس پہنچیں، امام حسن نے پانی کے برتن کوزمین پرپٹک دیاوہ
‎چورچورہوگیاراوی کابیان ہے کہ جس زمین پرپانی گراتھا وہ ابلنے لگی تھی ۔

‎ الغرض تھوڑی دیرکے بعد امام حسن کوخون کی قے آنے لگی آپ کے جگرکے
‎سترٹکڑے طشت میں آگئے آپ زمین پرتڑپنے لگے، جب دن چڑھاتوآپ نے امام حسین
‎سے پوچھاکہ میرے چہرے کارنگ کیساہے ”سبز“ ہے آپ نے فرمایاکہ حدیث معراج
‎کایہی مقتضی ہے، لوگوں نے پوچھاکہ مولاحدیث معراج کیاہے فرمایاکہ شب
‎معراج میرے نانا نے آسمان پر دو قصر ایک زمردکا، ایک یاقوت سرخ
‎کادیکھاتوپوچھاکہ ائے جبرئیل یہ دونوں قصرکس کے لیے ہیں، انہوں نے عرض کی
‎ایک حسن کے لیے اوردوسرا حسین کے لیے پوچھادونوں کے رنگ میں فرق کیوں ہے؟
‎کہاحسن زہرسے شہیدہوں گے اورحسین تلوارسے شہادت پائیں گے یہ کہہ کرآپ سے
‎لپٹ گئے اوردونوں بھائی رونے لگے اورآپ کے ساتھ درودیواربھی رونے لگے۔

 

‎ اس کے بعدآپ نے جعدہ سے کہا افسوس تونے بڑی بے وفائی کی، لیکن یادرکھ
‎کہ تونے جس مقصد کے لیے ایساکیاہے اس میں کامیاب نہ ہوگی اس کے بعد آپ نے
‎امام حسین اوربہنوں سے کچھ وصیتیں کیں اور آنکھیں بندفرمالیں پھرتھوڑی
‎دیرکے بعدآنکھ کھول کرفرمایاائے حسین میرے بال بچے تمہارے سپرد ہیں
‎پھربند فرما کرناناکی خدمیں پہنچ گئے ”اناللہ واناالیہ راجعون“ ۔

‎ امام حسن کی شہادت کے فورا بعدمروان نے جعدہ کواپنے پاس بلاکردو عورتوں

‎اور ایک مرد کے ساتھ معاویہ کے پاس بھیج دیامعاویہ نے اسے ہاتھ پاؤں
‎بندھواکردریائے نیل میں یہ کہہ کرڈلوادیاکہ تونے جب امام حسن کے ساتھ وفا
‎نہ کی، تویزیدکے ساتھ کیاوفاکرے گی(روضة الشہداء ص ۲۲۰ تا ۲۳۵ طبع بمبئی
‎۱۲۸۵ ءء وذکرالعباس ص ۵۰ طبع لاہور ۱۹۵۶ ءء۔

 

Add new comment