جسٹس صاحب! ایک لاش

تحریر: علی رضا صالحی

کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانے میں ایک لاش کو بار بار دفنایا گیا مگر ہر بار زمین اس لاش کو اگلتی رہی۔ جب لوگوں نے اپنے زمانے کے ولی سے وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ "اس شخص کے سیاہ کارنامے کے سبب دامن زمین اس میت کے لیے تنگ ہو چکا ہے"۔ بالکل اسی طرح جسٹس افتخار محمد چوہدری کا دورِ اقتدار (عدالت) بھی ایک ایسا متعفن دور تھا جسے کوئی بھی زندہ ضمیر، فراموشی کے قبرستان میں کبھی دفن نہیں کر سکتا اور انکا شرمناک دورِ عدالت "جسدِ فرعون" کی طرح باعث عبرت و نفرت بنتا رہے گا۔ افتخار چوہدری کا پاکستان کے قومی منظرنامے پر طلوع اور عروج کا زمانہ وہ تھا جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ عدالت عالیہ کے سینئر ججوں کے ایک طبقے کے اختلافات شدت اختیار کر گئے اور نوبت ججوں کی برطرفی تک آ پہنچی۔ قومی اقتدار کے اعلٰی مناصب کے حصول کے لیے اکھاڑ پچھاڑ کے ان ہنگاموں میں چوہدری افتخار ہیرو بن کر ابھرتے رہے۔ مگر پسِ پردہ پاکستان کے مفاد پرست، کرپٹ اور اسلامی و انسانی اقدار سے عاری سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کو سیاسی عداوتوں کے پرانے حساب چکانے کے لیے اور ایک دوسرے کا سر کچلنے کے لیے چوہدری افتخار کی شکل میں ایک بھاری آہنی گرز میسر آیا، جسے وہ بڑی مہارت کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے رہے۔

چوہدری افتخار کو مشرف حکومت کے خلاف تصادم کا راستہ اپنانے کی وجہ سے بھی قابل تحسین ٹھہرایا جاتا ہے۔ مگر ناقابلِ انکار حقیقت یہ بھی ہے کہ اگر حصول اقتدار کے لیے ایک دوسرے کا دامن نوچنے والے کرسی اقتدار کی بھوکی، پیاسی سیاسی پارٹیاں نہ ہوتیں تو 2 مئی کی طرح چوہدری صاحب ہر بار آٹھ گھنٹے پسنجر لائونج میں ہتھیلیاں ملتے رہنے کے بعد، نامراد واپس آ جاتے۔ 12 مئی کو جس وقت پورا کراچی خون کی چادر اوڑھے سسک رہا تھا، تو "عدالت و انصاف" کا پیکر بےمثال کیوں نامراد واپس لوٹا؟ اور کیوں اب تک 12 مئی کی خون ریزی کے مجرموں کے خلاف کچھ نہ کر سکا؟۔ کیونکہ چوہدری صاحب سیاسی پارٹیوں کی بیساکھیوں کی مدد سے اپنا قد بڑھا رہے تھے اور کراچی کے "سیاسی فرعون" کا سایہ چوہدری کے سر پر نہ تھا۔

چوہدری افتخار کی پیشہ ورانہ زندگی کا اگر جائزہ لیں تو انہوں نے ایک منصف سے زیادہ سیاسی پنڈت کا کردار نبھایا اور ایک طبقے کے خلاف بڑی ڈھٹائی کے ساتھ شاطرانہ پتے پھینکتے رہے۔ ان کے عدالتی دور میں پاکستان میں بدعنوانیاں بڑی سرعت کے ساتھ پنپتی رہیں۔ غریب اور متوسط طبقے کے ساتھ معاشرتی ناانصافیوں کا گراف عالمی سطح پر زوال پذیر معاشروں کی سطح سے بھی تجاوز کرگیا۔ یونین کونسل کی سطح سے لے کر پارلیمنٹ تک اور تھانہ سے لے کر اعلٰی دفاعی اداروں تک بدعنوانی و بددیانتی کے تمام تر ریکارڈز ٹوٹتے رہے۔ پاکستان کے اکثر شہر صومالیہ بن گئے، وطن عزیز کی سرحدیں یوکرائن کا نقشہ پیش کرنے لگے مگر نظریہ پاکستان سے مکمل انحراف، اسلام و مسلمین سے سراسر خیانت اور آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزیوں کی سیلاب میں سے چوہدری صاحب کو صرف چند ہی ایشوز نے جھٹکے دیئے۔

یہ درست ہے کہ قتل ناقابل قبول جرم ہے، مگر جس وقت ریاست اور چند بلوچ قبائل کے درمیان قدرتی وسائل کی تقسیم کے مسئلے پر قتل و غارتگری کے آغاز کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے اس مسئلے پر بروقت ایکشن کیوں نہیں لیا؟ کیوں معاملات کو اس حد تک آگے بڑھنے کی اجازت دی؟۔ کیونکہ پاکستان کے مسلمان عوام کے مسائل کا حل ان کو مقصود نہ تھا بلکہ جنرل مشرف کے خلاف انہیں ایک بہانے کی ضرورت تھی۔ دو بار وزیراعظم منتخب ہونے والی خاتون کی قتل کے محرکات و اسباب پر اس لیے لب کشائی و حقائق سے نقاب کشائی نہ کی گئی کیونکہ اس سے "ناپسند طبقے" کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی پارٹی کو احساساتی حد تک ہی سہی فائدہ پہنچنے کا امکان تھا۔ صاحب موصوف کے ان رویوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے دور عدالت میں عام آدمی کس کرب سے زندگی گزارتا رہا مگر تمام تر تاریکیوں میں سے جس معاملے نے چوہدری صاحب کو سیاہ انفرادیت بخشی وہ ان کے متعصب فرقہ وارانہ اقدامات، قاتل پروری و انصاف کُشی ہے۔ اگرچہ چوہدری افتخار طویل عرصے تک عدالت کی سب سے اعلٰی کرسی پر براجماں رہے، مگر ان کی آنکھوں میں ہمیشہ نفرت و تعصب کے شعلے بھڑکتے رہے۔ خاک وطن کو مظلوموں کے خون سے رنگین کرنے والے دہشتگردی کے خونچکاں موضوع پر بات کرتے وقت ان کا لب و لہجہ اور انکی زبان فرقہ پرستی کے زہر میں بجھی ہوئی ہوتی تھی، آنکھوں پر تعصب اور تنگ نظری کی پٹی اور جسم ملک و ملت سے خیانت کے جبے میں سمایا ہوا اور پورا وجود امریکی ساختہ نظریات پر مبنی طالبان پرستی کے بدبودار موزے میں دھنسا ہوا ہوتا تھا۔ مظلوم سنی اور شیعہ مسلمان، سانحہ عید میلاد نشتر پارک سے لے کر پاراچنار، کوئٹہ، چلاس، کوہستان، گلگت، کراچی، سیالکوٹ اور لاہور تک اپنے لہو سے مظلومیت کی سرخ داستان تحریر کرتے رہے مگر چیف جسٹس کو جب بھی موقع ملا انہوں نے المناک حادثات کے ماسٹر مائنڈ دہشتگردوں، فرقہ پرستوں اور تکفیریوں کو اعلٰی عدالتوں سے پھولوں کا ہار پہنا کر رہا کر دیا۔

حد تو یہ ہے کہ سوات، باجوڑ اور وزیرستان میں امریکن اور انڈین ساختہ ہتھیاروں سے پاک فوج پر حملہ کرنے والے ملک دشمن دہشت گردوں کو بھی موصوف آزادی کے پروانے تھماتے رہے اگرچہ جنرل مشرف کے دور حکومت میں ملک میں نافذ تمام پالیسیاں امپورٹڈ امریکن پالیسیاں تھیں مگر افتخار چوہدری کی انفرادی عدالتی پالیسیوں پر تو اسرائیلیت کی واضح چھاپ موجود ہے۔ عالم اسلام میں فرقہ واریت کو ہوا دینا صیہونیت کا قدیم حربہ ہے اور چوہدری صاحب آخری لمحے تک فرقہ واریت کا کلہاڑا ہاتھ میں لیے اتحاد ملت کی جڑیں کاٹتے رہے۔ اسرائیل وہ خطہ ہے جہاں چار مہینے کے بچے کو بھی گولیوں سے بھونا جاتا ہے، تو بھی عدالت عظمٰی کے لبوں کا تالا نہیں کھلتا۔ بالکل اسی طرح چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بھی سانحہ عباس ٹاون کراچی سمیت درجنوں دلسوز سانحات میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کی خون میں لت پت لاشوں کے سامنے اپنے لبوں کو موچیوں کے استعمال والے مضبوط ریشمی دھاگوں سے سیے رکھنے کا عزم کیے رکھا اور غزہ کے تین سالہ محاصرے کے مقابلے میں پاراچنار کے چار سالہ محاصرے پر چیف جسٹس کے معنی خیز سکوت نے رویوں اور کرداروں کی اس یکسانیت کے رنگ کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

ایک دفعہ کسی مظلوم کے قتل کے مقام پر بہت سے لوگ جمع تھے اور ہر کوئی یہی کہہ رہا تھا کہ قاتل کون ہو سکتا ہے؟ اتنے میں ایک باریش سنجیدہ شخص ہجوم کا سینہ چیرتے ہوئے آگے بڑھا۔ لاش کے اطراف میں پھیلے لہو کے چھینٹوں کو غور سے دیکھ کر بولا "یہ خون خود اپنے قاتل کا نام پکار پکار کر لے رہا ہے"۔ سب چونک پڑے، اس نے مزید کہا "خون کا قاتل وہ ہے جو کرسیئ قضاوت پر بیٹھا ہے، مگر اس کی موجودگی میں ناانصافی انصاف کو، ظلم عدل کو اور ظالم مظلوم کو دن دیہاڑے مار ڈالتا ہے"۔

جسٹس صاحب! آپ نے انسانوں کو تو ناانصافی کے زندان میں ظلم کی زنجیروں میں جھکڑ لیا مگر انسانوں کو چیر کھانے والے درندوں کو رہا کر دیا؟ آپ نے نظام ظلم سے بیاہ رچا کر جس ناجائز نتیجے کو جنم دیا ہے اس کو آپ چاہے تاریخ کے جس کونے میں دفنائیں زمینِ تاریخ ظلم و بربریت کی اس لاش کو ہمیشہ اگلتی رہے گی اور یزید صفت لوگ رسوا ہوتے رہیں گے۔
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
بہت ہے ظلم کہ دستِ بہانہ جو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی
کسیے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں

Add new comment