امام حسینؑ کی شہادت کی تاثیر
ثاقب اکبر
نبی کریمؐ سے مروی ایک حدیث شریف میں امام حسینؑ کی شہادت کی تاثیر یوں بیان کی گئی ہے:
انَّ لِقَتْلِ الحسین حرارۃٌ فی قلوب المومنین لاتبرد ابداً
یقیناً امام حسینؑ کے قتل سے مومنین کے دلوں میں ایک حرارت اور تپش پیدا ہو جائے گی جو کبھی ٹھنڈی نہ ہوگی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث شریف کی معجز آسا صداقت ہر روز نئی قوت سے جلوہ گر ہو رہی ہے۔ امام حسینؑ کی یاد منانے والے اور آپ کی شہادت سے تاثیر ایماں اور ولولہ ہائے ایقاں پانے والے دن بدن جوق در جوق کاروان حسینی میں شامل ہو رہے ہیں۔ شہادتِ حسینؑ دلوں کو گرما رہی ہے اور تازہ ولولوں سے اہل ایماں کے سینوں کو آشنا کر رہی ہے۔
دنیا کے گوشے گوشے میں امام حسینؑ کی یاد منائی جاتی ہے اور اس کا سلسلہ ہر روز بڑھتا اور پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ خود کربلا میں جہاں سیدالشہداؑ، ان کے اہل بیت اور وفادار و ایثار پیشہ انصار دفن ہیں، عاشقانِ وفا و رضا کا ایسا مرکز ہے جہاں روز عاشور اور اربعین حسینی پر لوگ پروانہ وار اکٹھے ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار اکٹھے کرنے والی عالمی ویب سائٹس کے مطابق امام حسینؑ کے چہلم کے موقع پر دنیا کا سب سے بڑا اجتماع منعقد ہوتا ہے۔ یہ اجتماع چھ سات برس پہلے تک ایک کروڑ کے لگ بھگ تھا جو 2012ء میں دو کروڑ سے تجاوز کر گیا اور سال رواں یعنی ان دنوں میں کربلا میں اربعین حسینی کے موقع پر اڑھائی کروڑ سے زیادہ خانوادۂ رسول کے مظلوم شہیدوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے والے کربلا میں اکٹھے تھے۔
کہاں وہ دن جب لشکر یزید کے سپہ سالار عمر ابن سعد کے حکم پر امام حسینؑ کے جسد مبارک کو گھوڑوں کی ٹاپوں تلے پامال کیا جا رہا تھا اور کہاں آج کا دن جب ایک طرف دنیا بھر کے ہزاروں لاکھوں شہروں، قصبوں اور دیہات میں امام حسینؑ کی یاد منائی جا رہی ہے اور دوسری طرف شمع حقیقت کے جس پروانے کے بس میں ہے وہ اُڑ کر کربلا پہنچنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں یہ اہم پہلو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ کربلا کا رخت سفر باندھنے والے سینہ چاک، ماتم گزار اور اشک فشاں رواں دواں ہیں۔ یہ کسی میلے ٹھیلے میں شرکت کے لیے بے چین نہیں۔ یہ آخری رسول کی لخت جگر خاتون جنت کے جگر پاروں کے غمگسار ہیں۔ جنھیں معلوم ہے کہ حسینی کاروانوں کے دشمن کسی جگہ بھی ان پر وحشیانہ حملہ کر سکتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہر سال اس سفر پر جانے والے بہت سے مسافر خاک و خون میں غلطاں ہوتے ہیں۔ اس سال بھی فقط 19صفر (23 دسمبر2013) سوموار کے دن کربلائے معلٰی کے 65 مسافروں کو خون میں نہلایا گیا اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا گیا۔ کربلا کو جانے والے مختلف راستوں پر نہتے قافلوں پر حملے کیے گئے اور مودتِ اہل بیت کے جرم میں مسافرانِ کربلا پر ستم ڈھائے گئے، لیکن یہ قافلے ہیں کہ بڑھتے چلے جاتے ہیں، کوئی خوفزدہ ہوکر نہیں پلٹتا، اس لیے کہ یہ رسول اکرمؐ کی پیش گوئی کے مطابق وہ حرارت ہے جو ٹھنڈی ہونے والی نہیں۔ اس راستے میں مرنے والے اس اطمینان سے جان دیتے ہیں کہ
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن بستیوں میں شہیدوں کے جنازے پلٹ کر جاتے ہیں، انہی بستیوں سے اگلے برس نئے قافلے، نئے ولولوں اور نئے جوش و خروش سے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ حسینؑ کے راستے میں مرنے کی سعادت حاصل کرنے کی آرزو لے کر نکلتے ہیں، انھیں کون خوفزدہ کرسکتا ہے۔
شہادت حسینی کی بڑھتی، امنڈتی، ابھرتی اور پھیلتی تاثیر کی مثال شاید آب زمزم سے دی جاسکے۔ ننھے سے اسماعیلؑ کے پاؤں کے نیچے سے جاری ہونے والا چھوٹا سا چشمہ آج کس زور و شور سے ابھرتا اور ابلتا ہے اور ہر روز کتنے لاکھ انسانوں کو سیراب کرتا ہے حالانکہ اسی چشمے پر ایسا دور بھی گزرا جب یہ بند ہوگیا تھا اور پھر حضرت عبدالمطلب کی کوشش اور برکت سے نکل پڑا اور پھر یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ زور و شور سے ابلتا رہا اور آج ہر دور سے زیادہ قوت سے ابل رہا ہے۔ امام حسینؑ اسماعیلؑ اور عبدالمطلب کے سلسلہ پاک سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسماعیل ذبیح اللہ کہلائے اور امام حسینؑ کے بارے میں حکیم الامت علامہ اقبال کا کہنا ہے:
اللّٰہ اللّٰہ بائے بسم اللّٰہ پدر
معنی ذبحٌ عظیم آمد پسر
یہی بات وہ بانداز دگر بھی کہتے ہیں
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیلؑ
کربلا الٰہی حکمت کے تحت معرضِ وجود میں آئی ہے۔ کربلا پورے سلسلۂ انبیاء کی میراث کا مخزن ہے۔ انبیاء کی پاکیزہ تعلیمات کی محافظ اور ترجمان ہے۔ حفاظت دین کے لیے کربلا کا وجود ناگزیر تھا۔ کربلا کا پیغام اپنی سادگی کے باوجود گہرا ہے۔ کربلا کو سمجھے بغیر نبی کریمؐ کے اس فرمان کی حقیقت سمجھ نہیں آسکتی کہ ’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔‘‘
آیئے حسین ؑ کے قیام کی حکمت کو سمجھنے کے لیے اُس دور پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔ آخری نبیؐ کی رحلت کے بعد حکومتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس میں مملکت اسلامی کی حدود پھیلتی چلی گئیں، لیکن کیا اسلام قبول کرنے والوں کے دل و دماغ کو بھی اسلام نے تسخیر کرلیا تھا۔ یہ مسئلہ تو خود آنحضرتؐ کی زندگی میں بھی درپیش تھا۔ اسلامی مملکت کی حدود آپؐ کی زندگی ہی میں پورے جزیرہ نمائے عرب پر محیط ہوگئی تھیں اور اہل کتاب کی مختصر تعداد کے سوا سب نے اسلام کی سیاسی و عسکری قوت کے سامنے سر جھکا دیئے تھے، لیکن بہت سے دلوں میں ابھی اسلام نہ اترا تھا۔
اس حقیقت کو قرآن حکیم نے مختلف مقامات پر مختلف پیرائے میں بیان کیا ہے، جن میں سے ایک مقام یہ ہے:
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ۔۔۔۴۹۔حجرات ۱۴
عرب کے بادیہ نشین کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، ان سے کہیے کہ تم ایمان نہیں لائے ہو بلکہ تم کہو کہ ہم نے سر جھکا لیا ہے اور ایمان تمھارے دلوں میں ہرگز داخل نہیں ہوا۔۔۔
یہ تو آنحضورؐ کی زندگی میں اور مکہ و مدینہ کے قرب و جوار کا حال تھا۔ جب سلطنت وسیع ہوگئی، حکومت عراق، شام اور مصر کے اس پار جا پہنچی اور ہر سرزمین کے لوگ بڑی تعداد میں اسلام کی سیاسی و فوجی عظمت کے سامنے سر جھکانے لگے، تو کیا یہ سب اسلام قبول کرنے والے یاسرؓ، عمارؓ، بلالؓ اور ابوذرؓ کی طرح اسلام کی معنویت اور اقدار پر ایمان لائے تھے؟
آنحضرتؐ کی زندگی کے بادیہ نشین جو بعدازاں ہر طرف لشکروں میں گھوڑے دوڑائے پھرتے تھے، ان سے دین کی ترجمانی کی کیا توقع کی جاسکتی تھی؟ دوسری طرف ایسے لوگوں کی اکثریت تھی جو اسلام کے سیاسی اقتدار ہی کو دین کی تمام تر حقیقت کا سرچشمہ بھی سمجھتی تھی، یہاں تک کہ یہ اقتدار یزید جیسے اوباش کے ہاتھ میں آ پہنچا۔ اب زیادہ ضروری ہوگیا کہ دنیا پر آشکار کیا جائے کہ ضروری نہیں کہ سیاسی اقتدار ہی دین کی روحانی اقدار کا مرکز ہو۔ اگر عسکری و سیاسی اقتدار کو دین کی تمام تر ماہیت کا ترجمان مان لیا جاتا تو انبیاء کی تعلیمات کا کیا ہوتا؟ انسانی نفوس کے تزکیے کی مہم کہاں جاتی؟ کتاب و حکمت کی تعلیم کا کیا بنتا؟ ایسے میں انبیاء کی ترجمانی کرنے کے لیے حسینؑ میدان میں آئے۔ حسینؑ انبیاء کے وارث بن کر اٹھے۔ ’’میں حسین سے ہوں‘‘ کا یہی مطلب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئمہ اہل بیتؑ سے مروی زیارات میں امام حسینؑ کو حضرت آدمؑ ، حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وارث قرار دیا گیا ہے۔
بت پرستی اگر جہالت اور شرک کی ظاہری شکل تھی تو سیاسی اقتدار کو حقیقت دین سمجھ لینا بھی جہالت اور انحراف ہی کی افسوسناک شکل تھی۔ دینی اور انسانی اقدار کے پیمانوں کو صرف نظر کر دینا اور ظاہری اقتدار و مادی جاہ و حشمت ہی کو سب کچھ سمجھ لینا بہت بڑا انحراف تھا۔ اسلام سیاسی و فوجی غلبے کے لیے نہیں آیا تھا، سیاسی و فوجی غلبے کی حامل بڑی بڑی سلطنتیں تو آنحضورؐ سے پہلے بھی موجود رہیں، اس وقت بھی تھیں اور بعد میں بھی رہیں۔ انبیاء عدل الٰہی اور انسانی اقدار کی بالادستی اور غلبے کے لیے آئے تھے۔ وہ بندوں کو حقیقی معنی میں خدا کا بندہ بنانے کے لیے آئے تھے۔ وہ قربت الٰہی کی تمنا کا چراغ دلوں میں روشن کرنے کے لیے آئے تھے۔
یزید جیسا حکمران تخت نشین ہوا اور امام حسینؑ سے بیعت کا طالب ہوا تو ضروری تھا کہ امام حسین کہہ دیتے کہ ’’مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔‘‘ سیاسی و فوجی غلبے کے سامنے حسینؑ کے انکار نے دین کی حقیقت کو آشکار اور سربلند کر دیا۔ حسینؑ کی شہادت دین کی روحانی اقدار کی سربلندی کے لیے تھی۔ کربلا اسی سربلندی کی علامت ہے۔ کربلا دینی معنویت کا استعارہ ہے۔ حسینؑ کا سرخ خون دلوں کو گرماتا اور حقیقت دین کی طرف دیوانہ وار لپکنے کی دعوت دیتا ہے اور یہ خون یہی کردار ادا کرتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ کا دین پوری زمین پر غالب آجائے۔ دین اللہ کے لیے خالص ہو جائے اور بندگان خدا انبیاء کی عظیم تحریک کے ساتھ شعوری اور قلبی طور پر وابستہ ہوجائیں۔
سطور بالا میں امام حسینؑ کے قیام اور آپ کی تحریک کے حوالے سے ہم نے جو کچھ کہا ہے وہ آنحضرتؐ کے فرمودات اور آئمہ اہل بیتؑ کے ارشادات ہی سے اخذ کیا گیا فہم ہے۔ امام حسینؑ کے اربعین کے حوالے سے امام جعفر صادقؑ سے منقول زیارت سے چند کلمات ہم بطور شہادت پیش کرتے ہیں۔ اس میں وہ پروردگار کے حضور امام حسینؑ کے حوالے سے عرض کرتے ہیں:
اے اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے دوست اور تیرے دوست کے فرزند، تیرے پسندیدہ اور تیرے پسندیدہ کے فرزند، جنھوں نے تجھ سے عزت پائی، تو نے انھیں شہادت کی عزت سے سرفراز کیا، ان کو خوش بختی نصیب کی اور انھیں پاک گھرانے میں پیدائش کی خوبی دی، تو نے انھیں سرداروں میں سے قرار دیا اور پیشواؤں میں سے ایک پیشوا بنایا اور مجاہدوں میں سے ایک مجاہد۔ انھیں نبیوں کے ورثے عنایت کئے۔ تو نے انھیں اوصیاء میں سے اپنی مخلوقات پر حجت قرار دیا۔ انھوں نے بھی تبلیغ کا حق ادا کر دیا۔ بہترین خیر خواہی کی اور تیری خاطر اپنی جان قربان کر دی، تاکہ تیرے بندوں کو نادانی و گمراہی کی پریشانیوں سے نجات دلائیں، جبکہ ان پر چڑھ آئے وہ جو دنیا پر ریجھ گئے تھے۔ انھوں نے اپنی جانیں معمولی چیز کے بدلے بیچ دیں اور اپنی آخرت کے لیے گھاٹے کا سودا کیا۔ انھوں نے سرکشی کی اور لالچ کے پیچھے چل پڑے۔ انھوں نے تجھے غضب ناک کیا اور تیرے نبیؐ کو ناراض کیا۔ انھوں نے تیرے بندوں میں سے ان کی فرمانبرداری کی جو ضدی، اہل نفاق اور بے ایمان تھے کہ اپنے گناہوں کا بوجھ لے کر جہنم کی طرف چلے گئے۔ پس حسین ؑ ان سے تیرے لیے لڑے، بڑے صبر کے ساتھ اور ہوشمندی کے ساتھ، یہاں تک کہ تیری فرمانبرداری کرنے پر ان کا خون بہایا گیا اور ان کے اہل حرم کو لوٹا گیا۔
Add new comment