ہم یاعلی (ع) مدد کہنے والے

تحریر: سید قمر رضوی

چند روز قبل ایک دوست کی طرف جانے کا اتفاق ہوا، انکے گھر پہنچ کر قبل اسکے کہ گھنٹی بجاتے، دروازے پر ایک نوٹ لکھا ہوا نظر آیا کہ "آپ اندر آنے کی زحمت نہ فرمائیں کیونکہ ہمارے گھر مولا علی(ع) کی دعوت ہے۔" یہ عجیب و غریب نوٹ پڑھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں گھنٹی بجا کر صاحبِ خانہ سے اس کی بابت دریافت کرنے کے لئے بیتاب ہوگیا۔ دروازہ کھلنے کے انتظار میں، میں یہ سوچنے لگا کہ اگر کبھی ایسا ہو کہ مولا علی (ع) میرے غریب خانے پر تشریف لائیں تو میں اپنے گھر کو دولتکدے کا نام دوں، جہاں زمانے بھر کو دعوتِ عام ہو کہ آؤ اور اپنے آقا کی زیارت کرلو۔ لیکن ان صاحب نے کس قدر بخل سے کام لیا کہ اندر مولا علی (ع) کی دعوت چل رہی ہے اور دروازے نہ صرف بند ہیں بلکہ کھٹکھانے کی بھی اجازت نہیں!

اسی ادھیڑبن کے دوران دروازہ کھلا اور قبل اسکے کہ میں اس سادہ لوح بلکہ بیوقوف انسان سے شکوہ کرتا، اس نے پرتپاک طریقے سے میرا استقبال کیا اور ہاتھ پکڑ کر اندر لے آیا۔ میں نے بلاتوقف دروازے پر لگے مضحکہ خیز نوٹ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے یکدم سنجیدہ ہوتے ہوئے انتہائی رازداری کے انداز میں بتایا کہ یہ نوٹ دراصل آپکے لئے نہیں، ڈینگی مچھر کے لئے ہے۔ "ڈینگی مچھر کے لئے؟" میں نے حیرت سے منہ بناتے ہوئے پوچھا تو جواباً انہوں نے فرمایا کہ "ہاں! ڈینگی مچھر کو گھر سے دور رکھنے کا یہ انتہائی آزمودہ ٹوٹکا ہے۔ جب سے یہ نوٹ گھر پر لگایا ہے، گھر مچھروں سے پاک ہوگیا ہے۔ کیونکہ بیماریاں اور بلائیں مولا علی (ع) سے ڈرتی ہیں، اس لئے جہاں مولا (ع) ہوں، وہاں یہ نہیں آتیں۔" ان صاحب کی اسی وضاحت کے دوران ایک مچھر اپنی دھن میں گنگناتا ہوا میرے کان کے قریب آیا اور ان صاحب کی سادگی یا حماقت۔۔۔۔۔ بلکہ جہالت پر ایک قہقہہ بلند کرتا ہوا آگے نکل گیا۔

اسی لمحے مجھے بابِ مدینۃ العلم کا وہ قول یاد آیا کہ "اگر غربت اور جہالت مجسم صورت میں میرے سامنے آجائیں تو انکا خاتمہ کر دوں۔" جب کہ اپنے آپ کو اسی باب العلم کا موالی کہنے والے کی جہالت پر میرا جی ماتم کرنے کو چاہا کہ کس آسانی کے ساتھ مولائے کائنات (ع) کی تضحیک کا عمل جاری ہے اور لوگوں کو اپنے ان گناہوں کا ادراک تک نہیں۔ یعنی اب وقت یہ آگیا ہے کہ معلمِ جہاں (ع) کے ماننے والے (پتہ نہیں "ماننے والے" کی اصطلاح ایسے جہلا کے لئے ٹھیک ہے بھی یا نہیں) تو اکیسویں صدی میں بیٹھے جہالت کے ریکارڈ توڑ رہے ہیں اور افریقہ سے آئی ڈینگی مچھر جیسی ادنٰی ترین مخلوق اتنا پڑھ لکھ گئی ہے کہ نہ صرف اردو پڑھ سکتی ہے بلکہ مولا علی (ع) کے رعب و دبدبے کا ادراک کرتے ہوئے میدانِ جنگ سے بھاگ بھی جاتی ہے۔ واہ رے مچھر! تو تو ان ہٹ دھرموں سے بھی زیادہ عقلمند نکلا کہ جنہیں سپہ سالارِ مصطفٰے (ع) بھاگ جانے کا کہتا تھا لیکن وہ تب بھی منہ اٹھائے سامنے آجاتے تھے اور پھر اپنی گردنیں یا ٹانگیں کٹوا کر دوسروں کے کندھوں پر واپس جایا کرتے تھے۔ اس وقت وہ صاحب مجھے وہی جاہل محسوس ہوئے جس نے مولا (ع) کے دعویٰء سلونی کے جواب میں اپنے سر کے بالوں کی تعداد پوچھی تھی۔

چند روز قبل پیش آیا یہ واقعہ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے ایک لطیفے یا شگوفے سے زیادہ نہ ہو لیکن میرے لئے یہ افسوسناک سانحے سے کم نہیں کہ جس واقعے کا واحد کردار، وصیء رسول (ع) کو "مولا" کے لقب سے تو پکارتا ہے لیکن اسکی نظر میں اس "مولا" کی حیثیت (نعوذباللہ) ایک چوکیدار سے زیادہ کی نہیں، اور وہ بھی ایک مچھر کے خلاف۔ ۔۔۔ (استغفراللہ ربی واتوب الیہ)
مولا علی (ع) ایک ایسی ہستی کا نام ہے جو صرف مولا نہیں، بلکہ مولائے کائنات ہے۔ یعنی خدا کے تخلیق کردہ جہانوں پر مکمل حقِ تصرف کا سزاوار۔ لیکن کس قدر عظیم المیہ ہے کہ اس مولائے کائنات کو ہم نے اس قدر پست منزلت کیا کہ "یاعلی (ع) مدد" جیسے آفاقی کلام کو محض اردو کا ایک محاورہ بنا کر رکھ دیا۔ جب بچے کو ٹھوکر لگی۔۔۔ یاعلی (ع) مدد۔ جب گاڑی کو ہلکا سا جھٹکا لگا۔۔۔ یاعلی (ع) مدد۔ گھر کا تالا جام ہوگیا۔۔۔ یا علی (ع) مدد۔ بجلی چلی گئی۔۔۔ یا علی (ع) مدد۔ بجلی آگئی۔۔۔۔۔ یاعلی (ع) مدد۔ اور اب نئی فخریہ پیشکش۔ ڈینگی آیا۔۔۔۔ یاعلی (ع) مدد۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

کاش ہم یاعلی (ع) مدد کہنے والے کبھی دینی مشکلات کے راستے پر چلنے کے لئے بھی اس مشکل کشاء علی (ع) سے مدد مانگیں۔ کبھی علمی و عملی میدان کے پہاڑ عبور کرنے کے لئے بھی خطیبِ سلونی (ع) سے مدد چاہیں۔ کاش کبھی ہم اپنے نفس کی اصلاح کا سوچیں اور قائدِ غرالمحجلین (ع) سے مدد طلب کریں۔ کاش ہم معاشرے کی برائیوں کے خاتمہ کی نیت سے قدم اٹھائیں اور مصلحِ اکبر (ع) سے مدد کی درخواست کریں۔ کاش ہم نوکری، کاروبار یا حصولِ رزق کے لئے عطا کرنے والے اپنے آقا علی (ع) سے استدعا کریں کہ حرام سے بچنے کے لئے ہماری راہنمائی اور مدد فرمائیں۔ کاش کبھی تقویٰ کی منزل درپیش ہو جہاں شیطان منہ پھاڑے کھڑا ہو، وہاں امام المتقین(ع) کو پکاریں۔ کاش خدا کبھی اس مقام پر پہنچا دے کہ میدانِ جہاد میں دشمنِ خدا مدِمقابل ہو اور ہم کڑی مشکل کا شکار ہوں۔ تب ہماری روح اپنی بلندیوں سے اس مجاہدِ اعظم (ع) کو آواز دے۔ کاش خدا ہماری آنکھ کو وہ نور بخشے کہ وقتِ نزع اس نورِ رحمان (ع) کی زیارت کرسکیں۔ کاش ہماری قبور میں نورِ ولایتِ علی (ع) کا اجالا ہو۔ کاش ہمارے کردار اتنے بلند ہوجائیں کہ پلِ صراط پر پہنچ کر کہیں "یاعلی(ع) مدد" اور نیا پار ہوجائے۔

Add new comment