عراقی ٹی وی ہیڈ کوارٹر پر خودکش حملہ، پانچ صحافی ہلاک

ٹی وی شیعہ(میڈیا ڈیسک)پیر کے روز عراقی ٹی وی ہیڈ کوارٹر پر خودکش حملہ آوروں کے حملے میں پانچ صحافی ہلاک ہوگئے ہیں۔ عراق میں اب میڈیا، پولیس افسران اور دیگر افراد پر حملے کی ایک نئ لہر شروع ہوگئی ہے۔

یہ حملہ بغداد کے شمال میں ہوا جہاں صلاح الدین ٹی وی کے چیف نیوز ایڈیٹر، ایک کاپی ایڈیٹر، ایک پروڈیوسر، ایک پریزینٹر اور آرکائیو مینیجر ہلاک ہوئے ہیں۔

اس حملے میں دو خودکش بمباروں نے خود کو دھماکے سے اڑایا تاہم سیکیورٹی فورسز نے دوسرے دو حملہ آور کو اس وقت فائرنگ کرکے ہلاک کردیا جب وہ حملے کیلئے عمارت کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اس حملے میں صلاح الدین ٹی وی کے پانچ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

اس سے ایک ہفتے قبل عسکریت پسندوں نے تکریت شہر کے کونسل ہیڈ کوارٹر میں ایک کونسل ممبر اور دو پولیس والوں کو ہلاک کردیا تھا۔

عراق پر آزادی صحافت کی اجازت نہ دینے اور صحافیوں کے قتل کی تحقیقات میں پیش رفت نہ ہونے پر اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اسی طرح عراق دنیا کے چند ممالک میں شامل ہیں جہاں صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔ اس سال پانچ اکتوبر سے اب تک بارہ صحافیوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔

اس کے علاوہ پیر کے روز پرتشدد واقعات میں مزید سترہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ آفیشلز کا اصرار ہے کہ شامی جنگ کے بعد عراق میں تشدد کی نئی لہر نے جنم لیا ہے۔

بغداد کے مغرب میں ابو غریب کے علاقے میں ابوغریب کے پاس ایک فوجی اڈے پر مارٹر گولے فائر کئے گئے۔ اس حملے میں ایک بریگیڈ کمانڈر ہلاک، دو سپاہی اور تین افسر بھی زخمی ہوئے ہیں۔

دو دن قبل نسبتاً سنی اکثریتی علاقے انبار میں عسکریت پسندوں کیخلاف آپریشن کیا گیا تھا جس میں پانچ سینیئر افسر، ایک ڈویژنل کمانڈر اور دس سپاہی ہلاک ہوئے تھے۔

پیر کے روز ہی بغداد میں فائرنگ سے نو افراد ہلاک ہوئے ہیں اور اکیس زخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ تکریت اور بعقوبہ میں تو افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے ہیں۔

اتوار کے روز امریکہ نے علاقائی رہنماؤں پر زور دیا تھا کہ وہ دو جہادی گروپس میں بھرتیاں اور فنڈنگ کو روکے۔ ان گروہوں میں اسلامک اسٹیٹ آف دی عراق اینڈ دی لیونٹ اور النصرہ فرنٹ شامل ہیں۔ امریکا کا اصرار ہے کہ غیر ملکی گروہ شام جارہے ہیں اور وہاں سے لوٹ کر عراق میں تخریبی کارروائیاں کررہے ہیں۔

واشنگٹن نے نہ صرف غیرملکی ( شام سے آنے والے) جنگجوؤں کی عراق میں آمد کو روکنے پر زور دیا ہے بلکہ پولیس کی فنڈنگ بڑھانے اور اسے جدید سہولیات فراہم کرنے پر بھی زور دیا ہے۔

اس بات کا اعتراف عراقی وزارتِ دفاع کے ترجمان محمد العسکری نے بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ شام کی جنگ کے نتائج عراق پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔

انہوں نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ فضائی تصاویر اور دیگر معلومات سے عیاں ہے کہ مغربی انبار کے ریگستان کے راستے شام سے ہتھیار اور جدید آلات عراق لائے جارہے ہیں۔ یہ علاقہ شام کی سرحد پر واقع ہے۔

عسکری کے مطابق اس طرح القاعدہ سے وابستہ یا اس کے حمایت یافتہ دہشتگردوں کو دوبارہ سر اُٹھانے کا موقع مل رہا ہے جو عراقی سیکیورٹی فورسز کی کوششوں سے سال دوہزار آٹھ اور نو میں بڑی حد تک غیر سرگرم ہوگئے تھے۔

Add new comment