اهل بیت علیهم السلام

غدیرقیامت تک کھلی کتاب غدیر کادروازہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَا ہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَا ہُ“کی کنجی سے کھلتا ھے اور اس کے اورا ق دو حصوں میں تقسیم هو تے ھیں :ایک اَللَّھُمَّ وَالِ مَنْ وٰالَاہُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَہ“ دوسرے ”اللَّھُمَّ عَادِمَنْ عَاداہُ وَاخذُلْ مَن
پس جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے علی علیہ السلام مولا ہیں اے اللہ اس سے ولایت رکھ جو علی علیہ السلام کی ولایت رکھے اور جو ان سے دشمنی رکھے اے اللہ توانکو دشمن رکھ اورجو انکی مدد کرے اے اللہ تو اس کی مدد کر اورجوان کو چھوڑ جائے (ان سے تعاون نہ کرے) اے الل
مذہب تشیع کی بنیاد دو حدیثوں پر قائم ہے: ایک حدیث ثقلین کہ جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نوے دن کے اندر چہار مقام پر بیان فرمائی۔ دوسری حدیث غدیر کہ جسے در واقع پہلی حدیث کو مکمل کرنے والی کہا جا سکتا ہے جو پیغمبر اسلام نے غدیر خم کے میدان م
خدائے تبارک و تعالیٰ نے رسول السلام کے ذریعہ الٰہی مقاصد کے اجراء اورراہ انبیاء کے استمرار کے لئے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر فرمایا لیکن افسوس کہ جب حکومت کی باگ ڈور آپ کے ہاتھوں میں آئی تو خائن ہاتھوں اور بے سبب جنگ کے شعلے بھڑکانے والوں نے
یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ (1) ”اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی
اس تاریخی واقعہ کی اھمیت کےلئے اتنا ھی کافی ھے کہ 110 صحابیوں نے اسے نقل کیا ھے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ اتنی بڑی جمعیت میں سے صرف ان ھی افراد نے غدیر کے واقعہ کو نقل کیا ھے، بلکہ سنی علماء کی کتابوں میں اس واقعہ کے صرف 110 راوی ذکر ھوئے ھیں ۔ یہ ب
غدیر ایک اسی حقیقت ہے جو روز روشن کی طرح واضح ہے، اسی لئے اہل سنت کے بزرگ علماء نے بھی حدیث غدیر کو اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے، اس مضمون میں اہل سنت کے ایک بزرگ عالم، احمد ابن حنبل سے کی نقل کی ہوئی روایت کو نقل کیا گیا ہے۔
اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ دین اسلام میں بعض ایسے دن ہیں جنھیں ایام اللہ کہا جاتا ہے اور ان دنوں کی عظمت ،شان و شوکت مسلمانوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ اور نمایاں رہتی ہے ان دنوں میں عید فطر ، عید قربان اور عید غدیر کا خاص مقام ہے لیکن تمام اعیاد میں جو
ولائے علی علیہ السّلام کا اعلان ہونے کے بعد جب مولائے کائنات خیمے میں تشریف لے گئے تو سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ علیہا لسّلام کو خیمے میں جا کر مبارک باد دی غدیرکے دن عید منانا اسی حجۃ الوداع والے سال اور اسی غدیر کے بیابان میں پیغمبر اکرم صلی
رسول اکرم (ص) نے فرمایا : جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی(ع) مولا ہیں اے اللہ اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اوراس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ۔ غدیر خم میں رسول اکرم (ص) نے فرمایا : " من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ، وعاد م
مگر کب تک خفیہ دشمنی کے انگارے دل میں، چھپے ہوئے خنجر آستین میں اور بارگاہ نبوت میں گستاخی کرنے والی تلوار منہ میں چھپ کر رہ سکتی تھی! جب مصلحت الہی نے مناسب سمجھا تو امر الہی سے حقیقی اولی الامر نے میدان میں قدم رکھ کر دشمن کی خفیہ آگ، منافقانہ خنجر او
عید غدیر، عیدوں میں سب سے بڑی عید ہے، یہ عید محروموں کی عید ہے، یہ عید مظلوموں کی عید ہے، یہ عید ایسی عید ہے کہ جس دن خدا تبارک و تعالیٰ نے رسول اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے ذریعہ الٰھی مقاصد کے اجراء اور راہ انبیاء کے استمرار کے لئے حضرت علی(علیہ ا
تاریخ رسالت میں سوائے حکم ولایت کے کوئی ایک بھی ایسا حکم یا الہی دستور نہیں ملتا جو اتنے تفصیلی مقدمات اور اہتمام کے ساتھ بیان کیا گیا ہو۔ تپتے صحراء میں دھوپ کی شدید طمازت کے باوجود حاجیوں کے سوا لاکھ کے مجمع کو یکجا جمع کرنا اور رسول اسلام (ص) کا ایک طو
عید غدیر ہے جو مذھبی اعیاد میں سے سے بڑی عید ہے ۔ یہ عید محروموں کی عید ہے ۔یہ عید مظلوموں کی عید ہے ۔ یہ عید ایسی عید ہے کہ جس دن خدائے تبارک و تعالیٰ نے رسول اسلام(ص) کے ذریعہ الٰھی مقاصد کے اجراءاور راہ انبیاءکے استمرار کے لئے حضرت علی علیہ السلام کو
ا فسوس کہ آج بھی اگر مشاھدہ کیا جائے تو جب بھی روزغدیر کا تذکرہ ھوتا ھے تو ھمارے لوگ اس دن کو صرف ’امام علی(ع) کی ولایت ‘ کی نسبت سے یاد کرتے ھیں اور غدیر کے دیگر اھم اور تاریخ ساز پھلوٴوں سے غافل نظر آتے ھیں ۔ غدیر کے اصلی اھداف، نہ ھونے کے برابر تصانیف
غدیر کا واقعہ بھت سے نقل و روایات اور وسعت اور شھرت نیز، تاریخ، تفسیر، حدیث و غیرہ کی کتابوں اور، اصحاب و تابعین، اور شعر و ادب کے ذریعہ اظھر من الشمّس ھے اور امت اسلامیہ کی ایک متواتر اور مسلّم حدیث و خبر کی حیثیت سے ثابت ھوچکا ھے۔ اس کے باوجود بعض کتابو
یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ [1] ”اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پھنچادیں جو آپ کے پروردگار
حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی وفات کےبعدجھاں بھی مناسب موقع دیکھا ھر ممکن طریقہ سے اپنی حقانیت ثابت کو کیا،جن میں سے حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی ولایت کو ثابت کرنا ھے،ھم یھاں پر چند مقامات کی طرف اشارہ کرتے ھیں:
غدیر کا دن "۱۸ ذی الحجہ" کا دن ہے جسے عید غدیر کے عنوان سے منایا جاتا ہے، اسے "آل محمد :کی عید" بھی کہا جاتا ہے، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا: کیا مسلمانوں کے لیے جمعہ، عید فطر اور عید اضحی کے علاوہ کوئی اور بھی عید ہے؟ آپؑ نے فرمایا: ہا
علماء اہل سنّت نے روزِ غدیر سے لے کر آج تک اس موضوع پر مختلف قسم کے نظریات کا اظہار کیا ہے، بعض نے خاموشی اختیار کی تاکہ اس خاموشی کے ذریعے اس عظیم واقعہ کو بھول اور فراموشی کی وادی میںڈھکیل دیا جائے، اور یہ حَسین یاد لوگوںکے ذ ہنوں سے محوہو جائے ،لیکن ای

صفحات