مخالفین غدیر کے سامنے حضرت علی (ع) کا احتجاج

حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی وفات کےبعدجھاں بھی مناسب موقع دیکھا ھر ممکن طریقہ سے اپنی حقانیت ثابت کو کیا،جن میں سے حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی ولایت کو ثابت کرنا ھے،ھم یھاں پر چند مقامات کی طرف اشارہ کرتے ھیں:

الف: بروز شوریٰ
خطیب بغدادی حنفی اور حموی شافعی نے اپنی سند کے ساتھ ابی الطفیل عامر بن واثلہ سے نقل کیا ھے کہ انھوں نے کھا: میں شوریٰ (سقیفہ بنی ساعدہ) کے دن ایک کمرہ کے دروازہ کے پاس تھا جس میں حضرت علی علیہ السلام اور پانچ دوسرے افراد بھی تھے، میں نے خود سنا کہ حضرت علی علیہ السلام ان لوگوں سے فرمارھے تھے: ”ے شک تم لوگوں کے سامنے ایسی چیز سے دلیل پیش کروں گا جس میں عرب و عجم کوئی بھی تغیر و تبدیلی نھیں کرسکتا۔“
اور فرمایا: ”اے جماعت! تمھیں خدا کی قسم، کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا شخص ھے جس نے مجھ سے پھلے خدا کی وحدانیت کا اقرار کیا ھو؟ سب نے کھا: نھیں، اس کے بعد امام علی علیہ السلام نے فرمایا: تمھیں خدا کی قسم، کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا شخص ھے جس کے بارے میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا ھو:
”من کنت مولاہ فعلی مولاہ، اللّھم وال من والاہ وعاد من عاداہ و انصر من نصرہ واخذل من خذلہ،لیبلّغ الشاھد الغائب،غیری؟“
”جس کا میں مولا ھو ں اس کے یہ علی بھی مولا ھے، پالنے والے ! تو اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی سے دشمنی رکھے،اس کے ناصروں کی مدد فرما اور ان کو ذلیل کرنے والوں کو ذلیل و خوار فرما، حاضرین مجلس اس واقعہ کی خبر غائب لوگوں تک پھنچائیں۔“
سب نے کھا: خدا کی قسم ، ھرگز نھیں۔(۱)
اس روایت کے مضمون کو اھل سنت کے بہت سے علماء نے اپنی اپنی کتابوں میں بیان کیا ھے منجملہ:
ء ابن حاتم شامی۔(۲)
ء ابن ہجر ھیثمی۔(۳)
ء ابن عقدہ۔(۴)
ء حافظ عقیلی۔(۵)
ء ابن عبد البر۔(۶)
ء بخاری۔(۷)
ء ابن عساکر(۸)
ب۔ حضرت عثمان کے دور خلافت میں
حموی شافعی اپنی سند کے ساتھ تابعین کی عظیم شخصیت سلیم بن قیس ھلالی سے روایت کرتے ھیں کہ انھوں نے فرمایا: میں نے خلافت عثمان کے زمانہ میں حضرت علی (صلوات اللہ علیہ) کو مسجد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں دیکھا  اور دیکھا کہ کچھ لوگ آپس میں بیٹھے ھوئے ایک دوسرے سے علم و فقہ کے سلسلہ میں گفتگو کر رھے ھیں۔ جس کے درمیان قریش کی فضیلت اورماضی کا ذکر ھوا اور جو کچھ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان کے بارے میں فرمایا تھا، ان کو بیان کیا جانے لگا، اس مجمع میں دو سو سے بھی زیادہ افراد تھے جن میں حضرت علی علیہ السلام، سعد بن ابی وقاص، عبد الرحمن بن عوف، طلحہ، زبیر، مقداد، ھاشم بن عتبہ،ابن عمر،حسن علیہ السلام،حسین علیہ السلام، ابن عباس، محمد بن ابی بکر اور عبد اللہ بن جعفر تھے۔
اور انصار میں سے ابیّ بن کعب، زید بن ثابت، ابو ایوب انصاری، ابو الھیثم بن تھیان، محمد بن سلمہ، قیس بن سعد، جابر بن عبد اللہ، انس بن مالک وغیرہ تھے، حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور آپ کے اھل بیت خاموش بیٹھے ھوئے تھے، ایک جماعت نے امام علیہ السلام کی طرف رخ کرکے عرض کی: یا ابا الحسن! آپ کیوں کچھ نھیں کہتے؟
حضرت علی علیہ السلام نےفرمایا:ھر قبیلہ نے اپنی اپنی فضیلت بیان کردی ھے اور اپنا حق ذکر کردیا ھے، لیکن میں تم جماعت قریش اور انصار سے سوال کرتا ھوں کہ خداوندعالم نے کس کے ذریعہ تمھیں یہ فضیلت عطا کی ھے؟ کیا یہ فضیلت خود تم نے حاصل کی ھے یا تمھاری قوم و قبیلہ نے عطا کی ھے یا تمھارے علاوہ کسی اور نے یہ فضیلت تمھیں دی ھے؟ سب نے عرض کیا: یقینا یہ فضیلتیں ھم کو حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور ان کے خاندان کے ذریعہ عطا ھوئی ھیں اور یہ فضیلت نہ ھم نے خود حاصل کی ھے اور نہ ھماری قوم و قبیلہ نے عطا کی ھے۔ اس موقع پر امام علی علیہ السلام نے اپنے فضائل و مناقب بیان کرنا شروع کئے اور ایک کے بعد ایک فضیلت کو شمار کرنے لگے، یھاں تک کہ فرمایا: تم لوگوں کو خدا کی قسم! کیا تم جانتے ھو کہ یہ آیہٴ شریفہ کھاں نازل ھوئی:
<یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ >(۹)
”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امرکی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ھیں۔“
اور یہ آیت کھاں نازل ھوئی:
<إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ >(۱۰)
”ایمان والو! بس تمھاراولی اللہ ھے اور اس کارسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ھیں اورحالت رکوع میں زکوٰة دیتے ھیں۔“
نیز یہ آیت کھاں نازل ھوئی:
<۔۔۔ وَلَمْ یَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللهِ وَلاَرَسُولِہِ وَلاَالْمُؤْمِنِینَ وَلِیجَةً ۔۔۔>(۱۱)
”جنھوں نےخداورسول اور صاحبان ایمان کو چھوڑ کر کسی کو دوست نھیں بنایا ھے۔“
اس موقع پر انھوں نے کھا: یا امیر المومنین! کیا یہ آیت بعض مومنین سے مخصوص ھے، یا تمام مومنین کو شامل ھے؟ آپ نے فرمایا: خداوندعالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ اپنے ”اولی الامر“ کی پہچان کرادو اور جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے تم لوگوں کے لئے نماز، زکوٰة اور حج کی تفسیر کی ھے اسی طرح ولایت کی بھی تفسیر و وضاحت کی ھے اور مجھے غدیر خم کے میدان میں خلافت کے لئے منصوب کیا۔ اس موقع پر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے خطبہ میں فرمایا: اے لوگو! خداوندعالم نے مجھے ایسے حکم کا فرمان دیا ھے کہ جس کی وجہ سے میں پریشان ھوں کہ اگر میں نے اس حکم کو پھنچایا تو لوگ مجھے جھٹلانے لگیں گے، لیکن (خداوندعالم نے) مجھے ڈرایا ھے کہ اس حکم کو ضرور پھنچائیں، ورنہ آپ کی رسالت کو خطرہ ھے، اس موقع پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اذان کھی جائے، (نماز کے بعد) آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خطبہ میں فرمایا: اے لوگو! کیا تم جانتے ھو کہ خداوندعالم میرا مولا و آقا ھے اور کیا میں مومنین کا مولا و آقا اور ان کے نفسوں سے اولیٰ ھوں؟ تو سب نے کھا: جی ھاں یا رسول اللہ! اس وقت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا: اے علی کھڑے ھوجاؤ، میں کھڑا ھوا تو آپ نے فرمایا: ”جس کا میں مولا ھوں پس اس کے یہ علی مولا ھیں۔“
پالنے والے! جس نے ان کی ولایت کو قبول کیا اور ان کو دوست رکھا تو بھی اس کو اپنی ولایت کے زیر سایہ قرار دے اور جو شخص ان سے دشمنی رکھے اور ان کی ولایت کا انکار کرے تو بھی اس کو دشمن رکھ۔۔۔(۱۲)
ج۔ کوفہ کے مجمع میں
جب حضرت علی علیہ السلام کو کوفہ میں یہ خبر دی گئی کہ کچھ لوگ خلافت کے سلسلہ میں آپ کی حقانیت پر تھمت لگاتے ھیں، تو آپ رحبہ کوفہ میں مجمع کے درمیان حاضر ھوئے اور ان لوگوں کے سامنے حدیث غدیر کو دلیل کے طور پر بیان کیا جو آپ کی ولایت کو قبول نھیں کرتے تھے۔
یہ احتجاج اتنا مشھور اور علی الاعلان تھا کہ بہت سے تابعین نے اس واقعہ کو نقل کیا ھے اور علماء نے بھی مختلف سندوں کے ساتھ اس واقعہ کو اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے، اب ھم یھاں پر اس واقعہ کے بعض روایوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں:
۱۔ ابو سلیمان موذّن:
ابن ابی الحدید نے اپنی سند کے ساتھ ابو سلیمان موٴذن سے نقل کیا ھے کہ حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں کے سامنے یوں احتجاج کیا: ”جس نے بھی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سنا ھو کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“، وہ گواھی دے، ایک گروہ نے اس کی گواھی دی، لیکن زید بن ارقم نے اس چیز کو چھپاتے ھوئے گواھی نھیں دی جبکہ وہ جانتا تھا، امام علی علیہ السلام نے اس کے لئے بد عا اور لعنت کی کہ خداوندعالم اس کو اندھا کردے، لہٰذا و ہ نابینا ھوگیا، لیکن اندھے ھونے کے بعد وہ حدیث غدیر کی روایت کرتے تھے۔(۱۳)
۲۔ اصبغ بن نباتہ۔(۱۴)
۳۔ حَبَّةبن جُوَین عُرَنی،ابو قدامہ بجلی،صحابی(۷۶ ، ۷۹ھ)(۱۵)
زاذان بن عمر۔(۱۶)
۵۔ زرّین بن حبیش اسدی۔(۱۷)
۶۔ زیاد بن ابی زیاد۔(۱۸)
۷۔ حافظ ھیثمی نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ھے کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے حدیث غدیر کے ذریعہ احتجاج کیا تو اس موقع پر ۳۰لوگ موجود تھے۔(۱۹)
چونکہ یہ احتجاج سن ۳۵ ہجری میں ھوا اور حدیث غدیر کو بیان ھوئے ۲۵ سال کا عرصہ گزر گیا تھا، ظاھر سی بات ھے کہ بہت سے وہ اصحاب جنھوں نے حدیث غدیر کو سنا ھوگا لیکن وہ اس احتجاج کے وقت دنیا میں نھیں ھوں گے اور بہت سے اصحاب جنگوں میںشھید ھوچکے تھے یا بہت سے دیگر ملکوں میں متفرق ھوگئے ھوں گے اور یہ ۳۰/ افراد وہ تھے جو کوفہ کے علاقہ میں اور وہ بھی ”رحبہ“ نامی مقام پر حاضر تھے اور انھوں نے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت و ولایت کے لئے حدیث غدیر کی گواھی دی۔
د۔ جنگ جمل میں احتجاج
جن مقامات پر حضرت علی علیہ السلام نے حدیث غدیر کے ذریعہ احتجاج کیا ھے ان میں سے جنگ ”جمل“ میں ”طلحہ“ کے سامنے احتجاج بھی ھے۔
حافظ حاکم نیشاپوری اپنی سند کے ساتھ نُذیر ضبّی کوفی تابعی سے نقل کرتے ھیں کہ انھوں نے کھا: ھم حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ جمل میں تھے، امام علیہ السلام نے کسی کو طلحہ بن عبید اللہ کے پاس بھیج کر اس کو ملاقات کے لئے بلوایا، چنانچہ طلحہ آپ کی خدمت میں حاضر ھوا، آپ نے طلحہ سے فرمایا: تمھیں خدا کی قسم! کیا تم نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نھیں سنا : ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ، اللّھم وال من والاہ و عاد من عاداہ“؟ تو اس نے کھا: جی ھاں سنا ھے، امام علی علیہ السلام نے فرمایا: تو پھر کیوں ھم سے جنگ کر رھا  ھے؟ اس نے کھا: مجھے یاد نھیں آرھا ھے اور یہ کہتے ھی وھاں سے اٹھ کھڑا ھوا۔(۲۰)
ھ۔ کوفہ میں حدیث سواران
احمد بن حنبل نےاپنی سند کے ساتھ ریاح بن حارث سے نقل کیا ھے کہ انھوں نے فرمایا: کوفہ میں کچھ لوگ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں پھنچ کر عرض کرتے ھیں: ”السلام علیک یا مولانا“، امام علیہ السلام نے ان سے فرمایا: ”میں کس طرح تم لوگوں کا مولا ھوں جبکہ تم عرب کے ایک (خاص) قبیلہ سے تعلق رکھتے ھو؟ انھوں نے جواب میں کھا: کیونکہ ھم نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے روز غدیر سنا ھے کہ آپ نے فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔“(۲۱)
و۔ جنگ صفین میں احتجاج
سلیم بن قیس ھلالی، بزرگ تابعی اپنی کتاب میں نقل کرتے ھیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام جنگ صفین میں اپنے لشکر کے درمیان منبر پر گئے اور مختلف علاقوں سے آئے ھوئے لوگوں کو اپنے پاس جمع کیاجن میں مھاجرین و انصار بھی تھے، سب کے سامنے خداوندعالم کی حمد و ثنا کرنے کے بعد آپ نے فرمایا: ”اے جماعت ! بے شک میرے مناقب و فضائل اس سے کھیں زیادہ ھیں جن کا شمار کیا جاسکے۔۔۔۔“
اس حدیث میں حضرت علی علیہ السلام نےتفصیلی طور پراپنے فضائل بیان کئے جن میں حدیث غدیرکا بھی ذکر کیا۔(۲۲)

………………………………………………………………….

حواله جات:

 (۱) مناقب خوارزمی، ص۳۱۳، ح۳۱۴، فرائد السمطین، ج۱، ص۳۱۹، ح۲۵۱۔
(۲) الدر النظیم، ج۱، ص۱۱۶۔
(۳) الصواعق المحرقة، ص۱۲۶، بہ نقل از دار قطنی۔
(۴) الامالی، طوسی، ص۳۳۲، ح۶۶۷۔
(۵) میزان الاعتدال،ج۱،ص۴۴۱،رقم۱۶۴۳،لسان المیزان،ج۲،ص۱۹۸،رقم ۲۲۱۲۔
(۶) الاستیعاب، قسم سوم/ ۱۰۹۸،رقم ۱۸۵۵۔
(۷) التاریخ الکبیر،ج۲ ص۳۸۲۔
(۸) تاریخ دمشق، رقم ۱۱۴و ۱۱۴۱ و ۱۱۴۲۔
(۹) سورہ نساء،آیت ۵۹۔
(۱۰) سورہ مائدہ ،آیت ۵۵۔
(۱۱) سورہ توبہ، آیت ۱۶۔
(۱۲) فرائد السمطین، ج۱،ص۳۱۲، ح۳۵۰۔
(۱۳) شرح ابن ابی الحدید،ج۴، ص۷۴،خطبہٴ۵۶۔
(۱۴) اسد الغابة، ج۳، ص۴۶۹، رقم ۳۳۴۱۔
(۱۵) مناقب علی بن ابی طالب علیہ السلام، ابن المغازلی، ص۲۰، ح۲۷۔
(۱۶) مسند احمد، ج۱،ص۱۳۵،ح۶۴۲؛مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۰۷؛ صفة الصفوة، ج۱، ص۱۲۱؛مطالب السوٴول، ص۵۴؛ البدایة و النھایة، ج۵، ص۲۱۰و ج۷،ص۳۴۸؛ تذکرة الخواص،ص۱۷؛کنز العمّال، ج۱۳،ص۱۷۰،ح۳۶۵۱۴؛تاریخدمشق،رقم ۵۲۴؛ مسند علی علیہ السلام، سیوطی، ح۱۴۴  و۔۔۔
(۱۷) شرح المواھب، ج۷،ص۱۳؛ اسدالغابة،ج۱، ص۴۴۱؛ الاصابة، ج۱، ص۳۰۵؛ قطن الازھار المتناثرة،سیوطی،ص۲۷۸۔
(۱۸) مسند احمد، ج۱، ص۱۴۲، ح۶۷۲؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۰۶؛ البدایة و النھایة، ج۷، ص۳۸۴، حوادث سال ۴۰ہجری؛الریاضالنضرة، ج۳،ص۱۱۴؛ ذخائر العقبی، ص۶۷؛ تاریخ دمشق، رقم ۵۳۲؛ المختارة، حافظ ضیاء، ج۲، ص۸۰، ح۴۵۸؛ درّ السحابة، شوکانی، ص۲۱۱۔
(۱۹) مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۰۴۔
(۲۰)المستدرکعلی الصحیحین،ج۳،ص۴۱۹،ح۵۵۹۴؛المناقب،خوارزمی، ص۱۸۲، ح۲۲۱؛ تاریخ دمشق،
ج۸، ص۵۶۸؛ تذکرة الخواص، ص۷۲،مجمع الزوائد،ج۹،ص۱۰۷؛کنز العمال، ج۱۱، ص۳۳۲، ح۳۱۶۶۲ و ۔۔۔
(۲۱) مسند احمد، ج۶،ص۵۸۳، ح۲۳۰۵۱تا۲۳۰۵۲؛ اسد الغابة، ج۱، ص۴۴۱، رقم ۰۳۸ا؛ الریاض النضرة، ج۳، ص۱۱۳؛ البدایة و النھایة، ج۵، ص۲۳۱ و ج۷، ص۳۸۴تا۳۸۵؛ المجم الکبیر، ج۴، ص۱۷۳، ح۴۰۵۳؛ مختصر تاریخ دمشق، ج۱۷، ص۳۵۴ و ۔۔۔
(۲۲) کتاب سلیم بن قیس، ج۲، ص۷۵۷، ح۲۵۔

Add new comment