غدیر خم "تاریخ اسلام کا ایک اہم واقعہ
غدیر کے مقام کا محل وقوع
غدیر کا نام تو ہم سبھی نے سنا ہے، یہ سرزمین مکہ اورمدینہ کے درمیان، مکہ شہر سے تقریبا دوسو کلومیٹر کے فاصلے پر جحفہ کے پاس واقع ہے یہ ایک چوراہا ہے مختلف سرزمینوں سے تعلق رکھنے والے حجاج کرام یہاں پہونچ کرایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں یہاں سے شمالی سمت کا راستہ مدینہ کی طرف ،جنوبی سمت کا راستہ یمن کی طرف ،مشرقی سمت کا راستہ عراق کی طرف اور مغربی سمت کا راستہ مصر کی طرف جاتا ہے آج کل یہ سرزمین بھلے ہی متروک ہو چکی ہو مگر ایک دن یہی سرزمین تاریخ اسلام کے ایک اہم واقعہ کی گواہ تھی اوریہ واقعہ اٹھارہ ذی الحجہ 10 ھ کا ہے جس دن حضرت علی علیہ السلام رسول اکرم کے جانشین کے منصب پر فائز ہوئے حدیث غدیر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل ولایت و خلافت کے لئے ایک روشن دلیل ہے اور محققین اس حدیث کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
غدیر خم کا پیش خیمہ :
سن 10 ھ کے آخری ماہ (ذی الحجہ) میں حجۃ الوداع کے مراسم تمام ہوئے اور مسلمانوں نے رسول اکرم (ص) سے حج کے اعمال سیکھے اسی اثناء رسول اکرم (ص) نے مدینہ جانے کی غرض سے مکہ کوچھوڑنے کا ارادہ کیا اور قافلہ کو چلنے کا حکم دیا ۔ جب یہ قافلہ جحفہ سے تین میل کے فاصلے پر رابغ نامی سرزمین پر پہونچا تو غدیر خم کے نقطہ پر جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آیت کے ذریعہ خطاب کیا " یا ایہا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس" اے رسول! اس پیغام کو پہونچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا، تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا ،اللہ آپ کو لوگوں کے شرسے محفوظ رکھے گا آیت کے اندازسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے ایک ایسا عظیم کام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےسپرد کیا ہے جو پوری رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے اور دشمنوں کی مایوسی کا سبب بھی ہے اس سے بڑھ کر عظیم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و وصایت و جانشینی کے منصب پر معین کیا جائے ؟
غدیر خم میں پیغمبر کا خطبہ:
حمد وثناء اللہ کی ذات سے مخصوص ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ہم برائی اور اپنے برے کاموں سے بچنے کے لئے اس کی پناہ چاہتے ہیں وہ اللہ جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و راہنما نہیں ہے اور جس نے بھی گمراہی کی طرف ہدایت کی وہ اس کے لئے نہیں تھی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ،اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے ہاں اے لوگو!وہ وقت قریب ہے کہ میں دعوت حق کو لبیک کہوں اور تمھارے درمیان سے چلا جاؤں تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں اس کے بعد فرمایا کہ : میرے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟کیا میں نے تم سے متعلق پنی ذمہ داری کو پورا کردیا ہے ؟
یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کی اور کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت کوششیں کیں اوراپنی ذمہ داری کو پورا کیا اللہ آپ کو اس کا اچھا اجر دے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کا معبود ایک ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے اور جنت و جہنم و آخرت کی جاویدانی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے ؟ سب نے کہا کہ صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں ،، اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” اے لوگو!میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ رہا ہوں ،میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے کیا مراد ہے؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ،اور دوسرے میری عترت اور اہلبیت (ع) ہیں،اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے جدا نہ ہوں گے ہاں اے لوگوں ! قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا ،اور دونوں کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی نہ کرنا ،ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔ اس وقت حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی سب کو نظر آنے لگی،علی(ع) سے سب لوگوں کو متعارف کرایا اس کے بعد فرمایا: ” مومنین پر خود ان سے زیادہ سزوار کون ہے ؟
سب نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول (ص) زیادہ جانتے ہیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں“ ہاں اے لوگو!” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ، وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ وخذل من خذلہ وادر الحق معہ حیث دار “ جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ، اے اللہ اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اوراس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ،اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ،اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر جدھرعلی مڑیں اوپر لکھے خطبہ کو اگر انصاف کے ساتھ دیکھا جائے تو اس میں جگہ جگہ پر حضرت علی علیہ السلام کی امامت کی دلیلیں موجود ہیں حدیث غدیر کی جاودانی: اللہ کا یہ حکیمانہ ارادہ ہے کہ غدیر کا تاریخی واقعہ ایک زندہ حقیقت کی صورت میں ہر زمانے میں باقی رہے اور لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف جذب کرتا رہے ،اسلامی قلمکار ہر زمانے میں تفسیر ،حدیث،کلام اور تاریخ کی کتابوں میں اسکے بارے میں لکھتے رہیں اور مذہبی خطیب اس کو واعظ و نصیحت کی مجالس میں حضرت علی علیہ السلام کے ناقابل انکار فضائل کی صورت میں بیان کر تے رہیں اور فقط خطیب ہی نہیں بلکہ شعراء حضرات بھی اپنے ادبی ذوق ،فکر اور اخلاص کے ذریعہ اس واقعہ کو چار چاند لگائیں اور مختلف زبانوں میں مختلف طریقوں سے بہترین اشعار کہہ کر اپنی یادگار قائم کریں (مرحوم علامہ امینی نے مختلف صدیوں میں غدیر کے بارے میں کہے گئے اہم اشعار کو شاعر کے زندگی کے حالات کے ساتھ معروفترین منابع اسلامی سے نقل کرکے اپنی کتاب الغدیر میں جو گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے بیان کیا ہے )
دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں ایسے تاریخی واقعات بہت کم ہیں جو غدیر کی طرح محدثوں ،مفسروں،متکلموں،فلسفیوں،خطیبوں، شاعروں،مؤرخوں اور سیرت نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوں۔ اس حدیث کے جاودانی ہونے کا ایک سبب یہ ہے کہ اس واقعہ سے متعلق دو آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں لہذا جب تک قرآن باقی رہے گا یہ تاریخی واقعہ بھی ہمیشہ زندہ رہے گا ۔
Add new comment